متحدہ ہندوستان کیلئےہندوانگریزگٹھ جوڑاورقائداعظم کا ویژن

متحدہ ہندوستان کیلئےہندوانگریزگٹھ جوڑاورقائداعظم کا ویژن

متحدہ ہندوستان کیلئےہندوانگریزگٹھ جوڑاورقائداعظم کا ویژن

مصنف: راناعبدالباقی اگست 2019

برّ صغیر جنوبی ایشیا کی دنیائے سیاست میں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح قومی فکر و نظر رکھنے والے ایک ایسے عظیم مدبر تھے جنہوں نے ریاستی اقتدار اعلیٰ کے حوالے سے قیامِ پاکستان سے قبل ہی قومی سلامتی سے متعلقہ سیکیورٹی کنسرن کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بے مثال فہم و فراست سے مستقبل کی پیش بندی کی اور جنوبی ایشیاء میں ایک زبردست ہندو اکثریت اور مؤثر انگریز انتظامی مخالفت کے باوجود ایک آزاد و خود مختار مسلم ریاست کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے بے مثال جدوجہد کی- قائد اعظم ہندو سائیکی اور اکھنڈ بھارت کے پُر فریب چانکیہ فلسفے کو اچھی طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے 23 مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (مینار پاکستان) میں قرار داد لاہور جو تاریخ میں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے موقع پر بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ ہمارے انگریز دوست اسلام اور ہندو دھرم کی اصلیت کو کیوں نہیں سمجھتے- در حقیقت یہ دونوں محض مذاہب ہی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف معاشرتی نظام بھی ہیں- یہ محض ایک خواب ہے کہ کبھی ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں- ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہبی فلسفہ، معاشرتی طور طریقے اور ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے- اُن کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے اور اِن تہذیبوں کی بنیاد ایک دوسرے سے متضاد نظریات اور تصورات پر قائم ہے- مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ کے ماخذ مختلف ہیں، اِن کی بہادری کی داستانیں، واقعات اور اِن کے نامور ہیرو مختلف ہیں، اِن میں سے ایک قوم کے نامور ہیرو، دوسرے کے دشمن اور ایک کی فتح دوسری قوم کی شکست سمجھی جاتی ہے-

قائد اعظم قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں قومی سلامتی کی فکر و نظر کی گہرائی اور گیرائی سے بخوبی ادراک رکھتے تھے- چنانچہ انگریزوں کے ملک چھوڑنے سے قبل ہندوستان کے مشترکہ دفاعی انتظامات کے نام پر ہندو اکثریت کے حمایت یافتہ کمانڈر انچیف کی موجودگی میں قائد اعظم سمجھتے تھے کہ مشترکہ دفاعی انتظامات کے سبب کانگریسی حکومت کیلئے ہندوستان میں اکھنڈ بھارت کے فلسفے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا آسان تر ہو جائے گا جس کا جناح کی جانب سے توڑ کئے جانے کے بعد برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندو بھارت کی حمایت میں آخری کوشش کے طور پر پنجاب اور بنگال کی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے پاکستان کو کمزور تر کرنے اور ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی ایکشن کے ذریعے نہرو کے ساتھ مل کر بھارتی قبضے کو ممکن بنانے کی سازش میں بھر پور حصہ لیا تاکہ بھارت اور کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے مسلمانوں کو پاکستان میں دھکیل کر پاکستان کی معاشی زندگی کو مفلوج کیا جائے- چنانچہ نئی مملکتِ پاکستان بننے کے بعد اپنی سالمیت کو قائم نہ رکھ سکے- قائد اعظم ہندو، انگریز سازشی ذہن کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وہ ہندوستان کے مشترکہ دفاع کے حوالے سے مستقبل کے اکھنڈ بھارت کو مشترکہ دفاعی قوت کے حوالے سے ڈیورنڈ لائن  (پاک افغان سرحد) پر برطانوی فوجی چوکیوں تک لے جانا چاہتے تھے-چنانچہ مشترکہ دفاع کی موجودگی میں اکھنڈ بھارت کی فکر کو آگے بڑھانے کیلئے مغربی پاکستان کی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاسکتا تھا- قائد اعظم سمجھتے تھے کہ ہندو انگریز لیڈر شپ قیام پاکستان سے قبل ہی صوبہ سرحد میں کانگریس و خدائی خدمت گار حکومت جسے بعد میں پختونستان تحریک کے نام سے منظم کیا گیا اور برٹش بلوچستان و ریاست قلات میں انگریز اثر و رسوخ کو استعمال کر کے پاکستان کو سیاسی طور پر کمزور بنانے کی کوششوں کو تقویت پہنچائی جا سکتی ہے- جس کا اندازہ آج بھی بھارت کی جانب سے بلوچستان اور سابق فاٹا میں حالات بگاڑنے کی سازشوں سے لگایا جا سکتا ہے- پاکستانی قومی سلامتی کے اداروں کو اِس اَمر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ آج کا بھارت دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کا دفاعی پارٹنر ہے اور خطے میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہے-جبکہ گذشتہ دس برس میں ہماری سیاسی قیادت فکرِ قائد اعظم اور قومی سلامتی امور کو پس پشت ڈالتے ہوئے خطے کی ایک موثر ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستان کو بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسانے میں ہی مصروف رہی جس کے سبب خطے میں پاکستان کی سیاسی پوزیشن کو کافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے-

اِس تاریخی حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جبکہ قیامِ پاکستان کے اصولی مؤقف کو تسلیم کر لیا گیا تھا، نئی مسلم ریاست پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف برطانوی اور ہندو سیاسی قیادت کے بیانات سے بھی قائد اعظم کے خدشات کی تائید ہوتی ہے جب برطانوی وزیر اعظم نے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ :

’’کچھ وجوہات کی بناہ پر برطانوی حکومت نے ہندوستان کو دو مملکتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن جلد ہی یہ دونوں مملکتیں ایک ہو کر برطانوی دولت مشترکہ میں شامل ہو جائیں گی‘‘-

کچھ اِسی نوعیت کے بیانات وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے 3 جون 1947ء کے تقسیم ہندوستان کے پلان جسے ہندو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ہی تسلیم کیا تھا کے باوجود کانگریس کے صدر اور عبوری حکومت ہند کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے آل انڈیا ریڈیو پر ہندو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت تقسیم ہند ناگزیر ہو چکی ہے لیکن اُنہیں اُمید ہے کہ تھوڑی ہی مدت میں اِس غلطی کا ازالہ ہو جائے گا اور ہندوستان کی تقسیم کالعدم ہو جائے گی-جواہر لال نہرو کے بیان کی تائید 15 جون 1947ء کو انڈین نیشنل کانگریس کی مجلس عاملہ نے پارٹیشن پلان کی منظوری دیتے ہوئے اِس اُمید کا اظہار کیا کہ ہندوستان ایک بار پھر متحد ہو جائے گا اور دو قومی نظریے کے پُر فریب تصور کو مسترد کر دیا جائے گا-اِس اَمر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ تقسیم ہند کا پلان سامنے آنے کے بعد عبوری حکومت ہند کے انتہاء  پسند وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ہندو مہا سبھا اور ہندو دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS کی لیڈرشپ کے ساتھ ایک خفیہ میٹنگ میں اِن ہندو انتہاء  پسند تنظیموں کو یقین دلایا تھا کہ ہندو بھارت کی برطانوی حکومت ہند سے آزادی کے حصول کے بعد بھارت کی صبحِ آزادی کی کرن کے سامنے پاکستان شب کی شبنم کی طرح تحلیل ہو  جائے گا-

قائد اعظم جانتے تھے کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت اور سیاسی اقتدار میں موجود انگریز شراکت داروں کی موجودگی میں مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں ایک علیحدہ مملکت کی تحریک چلانا ایک مشکل ترین کام تھا لیکن اُنہوں نے اپنی جدوجہد کے تسلسل سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا- وہ خود کہتے تھے کہ کردار،جرأت،  محنت اور مستقل مزاجی ہی چار ایسے ستون ہیں جن پر تمام تر حیات انسانی کی مکمل عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے اور ناکامی کا لفظ اُن کی ڈکشنری میں نہیں تھا- بہر حال تحریک پاکستان کے آخری مرحلے پر قائد اعظم اِس اَمر کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انگریز ہندو اتحاد برّصغیر ہندوستان کی تقسیم پر تو راضی ہو گیا ہے لیکن انگریز اہلکار ایک آزاد اور خودمختار مسلم ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کو دفاعی پیچیدگیوں کے دلدل میں دھکیلنے کیلئے ہندوستان کیلئے مشترکہ دفاع کے حوالے سے دفاعی کمیٹی میں دونوں ملکوں کی مساوی نمائندگی کے نام پر تمام تر اختیارات فوج کے انگریز یا ہندو کمانڈر انچیف کے حوالے کرنا چاہتے تھے- لہٰذا قائد اعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل برٹش انڈیا کے کمانڈر انچیف سر آرتھر سمتھ سے ملاقات کی- جنرل سمتھ نے اِس بات چیت کے دوران بڑی وضاحت سے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں دفاعی معاملات کو مکمل ہندوستان کے دفاع کے حوالے سے دیکھا جائے گا لیکن قائد اعظم نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور مضبوط مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا دونوں ریاستوں کے حقوق اور ا قتدارِ اعلیٰ کے منافی ہوگا-اندریں حالات جنرل سمتھ کو بادل ناخواستہ اپنی رپورٹ میں لکھنا پڑا کہ :

“That if the defence of India must be considered as one whole, the case for Pakistan falls to the ground as ' DEFENCE IS THE KEY PIN OF THE PROBLEM!”

’’اگر ہندوستان کے دفاع کو مجموعی طور پر اکٹھا سمجھا جائے تو پاکستان کا مقدمہ ناپید ہو جا تا ہے کیونکہ دفاع ہی تو مسئلہ کا اہم جزو ہے‘‘-

قائد اعظم نے جنرل سمتھ سے ملاقات کے بعد برطانوی کیبنٹ مشن کے ارکان سے ملاقات کے دوران زور دے کر کہا کہ وہ مشترکہ دفاعی نظام سے متعلقہ کسی بھی ایسے دفاعی نظام سے اتفاق نہیں کریں گے جس سے مستقبل کی مسلم ریاست پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ پر زد پڑتی ہو جبکہ برطانوی سیکریٹری آف سٹیٹ قائد اعظم کو دباؤ میں لانا چاہتے تھے:

“Lord Pethick Lawrence, Secretary of State for India, asked the Quaid, why he objected to work in with some all-India machinery for defence? Quaid-e-Azam asked, 'what sort of machinery is envisaged?' Sir Stafford Cripps said, some sort of machinery by which policy and administration could be concerted. There could be a Joint Secretariat, Joints Chiefs of Staff, with equal representation, which could concert measures for common defence. Quaid-e-Azam said he could not agree to anything which would derogate from the sovereignty of Pakistan”!

’’لارڈ پیتھک لارنس، سیکریٹریِ ریاست نے قائد اعظم سے پوچھا کہ انہوں نے  کسی قسم کے آل انڈیا دفاعی ادارے کے ساتھ کام کرنے پر کیوں  اعتراض کیا-قائد اعظمؒ نے پوچھا،’’کس قسم کے ادارے  کا سوچا گیا ہے؟‘‘ سر سٹیفرڈ  کرپس نے جواب دیا کہ ایسا ادارہ جس سے پالیسی اور انتظام میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے؛جس میں مشترکہ سیکرٹریٹ، مشترکہ  چیف آف سٹاف،  یکساں نمائندگی ہو گی جوکہ دفاع  کےطریقوں پر مشاورت کر سکیں-قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ وہ کسی ایسے معاہدہ پر متفق نہیں ہو سکتے جس سے پاکستان کی سالمیت کو خطر ہ ہو  ‘‘-

فی الحقیقت مستقبل کی مسلم ریاست کی خود مختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کو منوانے کیلئے قائد اعظم کی جُہدِ مسلسل جاری رہی اور بالآخر اُنہوں نے مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل لیاقت علی خان سے برطانوی حکومت ہند اور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے نام متعدد خطوط لکھوانے کے بعد 8/9 اپریل 1947ء  میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی اور پاکستان کو بھارت کی ’’Subservient State‘‘ بنانے کی بجائے نئی مسلم ریاست کی قومی سلامتی اور اقتدارِ اعلیٰ کو ممکن بنانے کیلئے برٹش انڈیا کی مقامی نفری کو ہندوستان کی مشترکہ فوج بنانے کی بجائے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا:

“Quaid-e-Azam stressed that the defence forces must be divided. Pakistan and Hindustan must be responsible separately for their own defence. He was not prepared to accept any form of central organization responsible for the defence of whole of India”.

’’قائد اعظم ؒ نے اس بات پر زور دیا کہ افواج کو تقسیم کیا جائے-پاکستان اور بھارت اپنے اپنے دفاع کے ذمہ دار ہوں-وہ کسی بھی ایسی مرکزی تنظیم کے حق میں نہ تھے جو  پورے ہندوستان کے دفاع کی ذمہ دار ہو‘‘-

بالآخر قائد اعظم کو اپنے مشن میں کامیابی ہوئی جب اُنہوں نے 23 جون 1947ء میں وائسرائے کے تقسیم ہند کے اعلان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی-

“On 23 June Quaid-e-Azam discussed with Lord Mountbatten the partition of Armed Forces. Quaid-e-Azam insisted that for operational purposes he must have a Commander-in-Chief in Pakistan before 15 August 1947. Vicroy agreed but added that for administrative purposes the two Dominion armies would continue to be controlled by the present C-in-C until the partition of the armies had become an established fact”.

’’23 جون  کو قائد اعظم ؒ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے افواج کی تقسیم پر مذاکرات کیے-انہوں نے کہا کہ آپریشنل مقاصد کیلیے 15 اگست سے پہلے پاکستان میں کمانڈر ان چیف  موجود ہوں-وائسرائے  متفق ہوئے مگر انہوں نے مزید کہا کہ جب تک  افواج کی تقسیم ایک حقیقت نہیں بن جاتی موجودہ کمانڈر ان چیف دونوں افواج کو کمانڈ کرے گا‘‘-

ہندوستان کے مشترکہ دفاع کیلئے نہیں بلکہ ایک خودمختار مملکت پاکستان کے ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلح افواج کے اصول کو منوانا قائد اعظم کی غیر معمولی سیاسی کامیابی تھی- حقیقت یہی ہے کہ قائد اعظم نے خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی تحریک پاکستان کے زور پر قومی سلامتی اور پاکستان کے ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کے حصول کیلئے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا جبکہ گزشتہ کئی عشروں میں پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے باوجود قائد اعظم کے ویژن کو پس پشت ڈالتے ہوئے سیاسی لیڈرشپ نے بیرونی ڈکٹیشن لیتے ہوئے ریاستی اقتدار اعلیٰ پر جو قیامتیں ڈھائی ہیں اور عوامی حقوق کو غصب کرکے ملک کے اداروں میں بدترین کرپشن کا بازار گرم کیا گیا ہے، وہ اپنی جگہ ایک قومی لمحۂ فکریہ ہے - یہ بھی درست ہے کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کی قومی سلامتی کے لاحق خطرات کو محسوس نہیں کیاگیا بلکہ ملک میں جمہوری تسلسل کو فروغ دینے کی بجائے قومی سیاست میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک وسیع تر خلیج حائل کر دی گئی جس کا بھارت نے سازشوں کے ذریعے فائدہ اُٹھایا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا- چنانچہ 1971ء  میں سقوط ڈھاکہ کے بعد جواہر لال نہرو کی صاحبزادی بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندہی نے ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ اُنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کو ممکن بنا کر ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیاہے- بہرحال یہ اَمر اپنی جگہ اہم ہے کہ بھارت اپنی سازشوں میں تو ضرور کامیاب ہوگیا، بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن بھارت تاحال بنگلہ دیش کو بھارت میں جذب کرنے میں نا کام ہے اور قائد کے 1940ء کے ویژن کے طور ایک مسلم جمہوری ملک کے طور پر قائم و دائم ہے-

قائد اعظم سیکیورٹی ڈاکٹرائن کے حوالے سے مملکت پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کیلئے میثاق مدینہ کے حوالے سے جمہوری فکر و نظر اپنانے کے حامی تھے - آج قائداعظم ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اُن کے افکار بہرحال موجود ہیں- تحریک پاکستان کے کارکنوں اور ہماری نوجوان نسل کو گزشتہ کئی عشروں میں عوام اور سیاسی ارباب اختیار کے قول و فعل میں تضاد بیانی کے عنصر کو دیکھتے ہوئے اِس اَمر پر حیرت ہوتی ہے کہ گزشتہ کئی عشروں میں ہماری سیاسی قیادت اپنے ذاتی اور مخصوص سیاسی مفادات کے پیش نظر قائد اعظم کا نام تو بے دریغ استعمال کرتی رہی لیکن اُن کے افکار پر قطعی توجہ نہیں دی گئی- چنانچہ گزشتہ انتخابات میں عوام نے ملک میں اسٹیٹس کو کے خلاف تبدیلی کو ووٹ دے کر ملک میں کرپشن اور ناانصافی کے خلاف نئی حکمت کو جنم دیا ہے- اگر ہم اپنی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے قائد اعظم کے افکار پر غور و فکر کریں تو بہت سے بگڑے کام بن سکتے ہیں- قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے مختلف ادّوار میں بڑی وضاحت سے کہا تھا :

  1. 1925ء میں وائسرائے کی قانون ساز کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اچھی حکومت کا مطلب مطلق العنان حکومت نہیں ہے اور نہ ہی آمرانہ حکومت ہے- اچھی حکومت وہ ہے جو عوام کے نمائندوں کو جوابدہ ہے ( یعنی جمہوریت میں ہی ہماری بقا پوشیدہ ہے )-
  2. 1937ء میں لکھنو میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا تھا: مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ اپنی تقدیر خود بنانا سیکھیں- ہمیں ایسے لوگ چاہئیں جو یقین محکم، حوصلہ اور عزم راسخ رکھتے ہوں اور زمانے بھر کی مخالفت کے باوجود تن تنہا اپنے ملک کیلئے لڑ سکیں ( یعنی اغیار کی ایک دھمکی پر ڈھیر نہ ہوجائیں)
  3. 1942ء میں دہلی میں خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ کہنا سراسر بہتان ہے کہ ہم برطانوی سامراج کے حامی ہیں- مَیں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اِس امکان کو تسلیم نہیں کیا کہ ہم اِس ملک میں کسی غیر ملکی تسلط کے تحت زندگی گزار سکتے ہیں- اگر ایسا کوئی منصوبہ یا حل ہم پر ٹھونسا گیا جو مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہو تو ہم پوری قوت سے اِس کی مخالفت کریں گے اور اِس ضمن میں تمام تر نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں اور اِس کوشش میں اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں پرواہ نہیں ( لیکن کیا گزشتہ کئی عشروں میں ہم اِس نصب العین پر قائم رہے ہیں؟ )-
  4. 1944ء میں لندن میں اُنہوں نے کہا کہ آزادی کے لئے مسلمانوں نے قیام پاکستان کا مطالبہ کیا ہے جہاں وہ اپنی پسند کی حقیقی جمہوریت قائم کر سکیں- اِس حکومت کو پاکستانیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگی اور وہ ذات پات، عقیدہ و مسلک یا رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر پاکستان کے تمام عوام کی خواہشات کے مطابق کام کرے گی-( یعنی جمہوری نظام کے تحت کام کرے گی) -

اندریں حالات آج کے پاکستان کو قائداعظم کے زرین اصولوں پر قائم کرنے کیلئے ہمیں اپنی روح کو پھر سے تلاش کرنا چاہیے- قائد اعظم نے پاکستان کی خودمختاری اور اقتداراعلیٰ کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے اور ہندوستان کے مکمل دفاع کے لئے مشترکہ فوج کے تصور کو رد کر دیا تھا اور کشمیر میں بھارت کی فوج کشی کے بعد وزیرستان سے فوج واپس بلا کر آزاد کشمیر کے آزاد علاقے کو مضبوط بنایا تھا اور وہ کشمیر کی آزادی کیلئے ہر قربانی کیلئے تیار تھے، یہی اُن کی سیکیورٹی ڈاکٹرائن تھی- وہ جمہوری اصولوں کو مستحکم بنانا چاہتے تھے اور آج بھی ہمارے مسائل کا حل سویلین اور فوجی کی تفریق پیدا کرنے میں نہیں ہے بلکہ جمہوری اصولوں کے فروغ میں ہے- آج کی دنیا جمہوریت کی دنیا ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کی پاس داری کرکے ہی ہم خطے کی حقیقتوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنے ملک کی قومی سلامتی کو ممکن بناتے ہوئے ریاستی اقتدار اعلیٰ کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر سکتے ہیں چنانچہ یہ اَمر خوش آئند ہے کہ آج کی سیاسی قیادت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں اور ملک کی سا لمیت کیلئے متحرک ہیں جس کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے قائداعظم کی ویژن پر عمل کرتے ہوئے مستقل مزاجی سے کرپشن کے خلاف جہادی جد و جہد شروع کی ہے جبکہ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے خلاف ملک کی سلامتی کیلئے افواج پاکستان اور سپہ سالار پاکستان جنرل باجوہ کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے - میں جناح آف پاکستان کتاب کے مصنف اسٹینلے والپرٹ کی جانب سے قائد اعظم کو پیش کئے جانے والے درج ذیل Tribute  کے  ساتھ ہی اپنے اِس مقالے کو والپرٹ کے نام منسوب کرتا ہوں:

’’اگر ہم صرف زمانہ جدید کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو ہمیں ایسے اولو العزم انسانوں کی ایک طویل فہرست ملتی ہے جن کے عظیم الشان کارناموں سے اقوام عالم کی یہ کہانی روشن و مزین ہے - تاہم ایسے انسانوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جنہوں نے واقعات عالم کا رخ موڑ دیا - پھر ایسی ہستیاں تو بہت تھوڑی ہیں جنہوں نے اپنے عزم بالجزم سے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا - اگر ایک قدم بڑھا کر ایسے افراد کی جستجو کریں جنہوں نے اپنے مضبوط قوت ارادی اور اٹل فیصلہ کے بل پر ایک قومی ریاست قائم کر کے دنیا سے اپنی قیادت کا لوہا منوایا لیا تو ہمیں ایک اور صرف ایک نام ملتا ہے-یہ اعزاز صرف بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے حصہ میں آیا جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے انجام دے کر تاریخ میں منفرد و یکتا مقام حاصل کیا ‘‘-

بقول حکیم الامت:

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر