معاشرت اور اخلاق: احادیث جوامعِ الکلم کی روشنی میں

معاشرت اور اخلاق: احادیث جوامعِ الکلم کی روشنی میں

معاشرت اور اخلاق: احادیث جوامعِ الکلم کی روشنی میں

مصنف: سبینہ عمر ستمبر 2025

حضور نبی کریم (ﷺ) کو ربِّ کائنات نے جن خصائصِ نبویہ سے ممتاز فرمایا، اُن میں ’’جوامع الکلم‘‘ ایک ایسا منفرد عطیۂ نبوت ہے، جو صرف فصاحتِ لسانی نہیں بلکہ بصیرتِ اخلاقی اور حکمتِ نبوی کا جامع مظہر ہے- یہ وہ کمالِ بیانیہ ہے جس میں قلیل اللفظی کے پردے میں کثیر المعانی حکمتیں ملفوف ہیں اور جو زمان و مکان کی تحدیدات سے بالاتر ہو کر ہر دور کے لیے ایک آفاقی ضابطۂ فکر و عمل فراہم کرتا ہے- جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا ارشادہے:

’’اُوتِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِم‘‘[1]

یعنی مجھے ایسے کلمات عطا کیے گئے جو کم الفاظ میں گہری حکمت اور وسعتِ مفہوم رکھتے ہیں-یہ اعجازِ بیانی درحقیقت الہامی علمیات کا وہ نکتۂ آغاز ہے، جہاں زبان فقط اظہار کا آلہ نہیں بلکہ تزکیہ، تفکّر اور تعمیری تمدن کا وسیلہ بن جاتی ہے- یہ وصفِ نبوی (ﷺ) دراصل اسلامی علمیات میں ’’حکمتِ مُوجز‘‘  کا وہ مقام ہے جو الہامی شعور کے فیضان سے مرتب ہوا؛ ایسا شعور جو کلام کو صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ تزکیۂ نفس، تہذیبِ معاشرہ اور تعقّلِ ایمانی کا ذریعہ بناتا ہے- آج جب انسانی ابلاغ صوتی کثرت کے بوجھ تلے مفہومی بحران کا شکار ہو چکا ہے اور سوشل میڈیا کی دنیا میں گفتگو اظہارِ علم کے بجائے اظہارِ نفس بن چکی ہے، تو حضور نبی کریم (ﷺ) کا یہ فرمان:’’فلیقل خیراً أو لیصمت‘‘[2]ہر صاحبِ فہم کے لیے لائحۂ عمل بن جانا چاہیے، کہ خاموشی اگر شعور سے ہو، تو وہ بھی عبادت ہے- اسی طرح آپ (ﷺ) کا فرمان: ’’المُسلمُ من سَلمَ الْمُسلِمونَ مِنْ لِسانهٖ ويدهٖ‘‘[3] معاشرتی امن، باہمی حرمت اور اجتماعی فلاح کے اصولوں کی نہایت مرتّب صورت ہے- نیز، ’’أثقل شيء في الميزان حسن الخلق‘‘[4]گویا قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی- یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں اخلاق نہ صرف نجات کا ذریعہ ہے بلکہ انسانی وجود کی میزانِ قدر ہے- پس جوامع الکلم صرف مختصر اقوال نہیں بلکہ مکمل زندگی کا منشور ہیں جو انسانی شعور کو ایسی بنیادیں فراہم کرتے ہیں جن پر صالح معاشرہ، متوازن فکر اور مہذب گفتار کی عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے- ضروری ہے کہ ہم ان احادیثِ نبویہ کو نہ صرف مواعظِ دینی سمجھیں بلکہ انہیں اخلاقی، عمرانی اور فکری تشکیلِ نو کا مرکز بنائیں؛ کیونکہ جب زبان، عقل کی تربیت یافتہ اور روح کی آئینہ دار ہو جائے، تو ہر لفظ صدق، خیر اور عدل کا علمبردار بن جاتا ہے-اسلامی تہذیب کی فکری اساسات میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی ’’جوامع الکلم‘‘ کو وہ مقام حاصل ہے جو صرف لسانی اعجاز نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور روحانی حکمت کا مجسم مظہر ہے- یہ وہ مختصر مگر پرمعنی اقوال ہیں جو نہ صرف تہذیبِ گفتار بلکہ نظامِ اخلاق کے بنیادی اصول بھی فراہم کرتے ہیں،فلسفۂ زبان کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کلامی اختصار، اخلاقی کثافت (moral density) کی وہ شکل ہے جو زبان کو محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں، بلکہ حکمت کا آلہ اور تربیتِ کردار کا محرّک بنا دیتا ہے- علمیاتِ اخلاق کے زاویے سے ’’جوامع الکلم‘‘ ایک ایسے الہامی اخلاقی ڈھانچے کو پیش کرتے ہیں جو صرف فرد کی اصلاح پر نہیں بلکہ پورے اجتماعی شعور کی تطہیر پر مرکوز ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ان احادیث میں زبان، کردار اور رویے کو معاشرتی توازن کے پیمانے کے طور پر بیان کیا گیا -

مزید ارشادِ نبوی (ﷺ) ’’من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت‘‘[5]ہمیں بتاتا ہے کہ زبان کی اصلاح، فکر کی تہذیب اور ایمان کی گہرائی لازم و ملزوم ہیں- یہی مختصر اقوال آج کے تکنیکی اور ڈیجیٹل عہد میں بھی اپنی معنویت قائم رکھتے ہیں، جہاں الفاظ کی کثرت کے باوجود اخلاقی افلاس نمایاں ہے؛ یہاں ’’جوامع الکلم‘‘ نہ صرف گفتار کی تہذیب کرتے ہیں بلکہ سماج کو باہمی عزت، خاموشی کی حکمت اور قولِ حسن کے جمال سے آشنا کرتے ہیں- جدید اسلامی مفکرین،متفق ہیں کہ یہ نبوی اقوال عصرِ جدید کے لیے اخلاقی تعلیمات کا ایک ماڈل فراہم کرتے ہیں، جو نہ صرف دینی روایت کی بقا بلکہ سوشیولوجیکل اور ایتھیکل ری کنسٹرکشن کا ذریعہ بن سکتے ہیں- پس ’’جوامع الکلم‘‘  کو محض روایتی مروّجہات کی فہرست میں قید کرنا اُس اخلاقی انقلاب کی روح سے غفلت برتنا ہے جس کا مقصد انسان کی زبان، فکر اور عمل کو الوہی ہدایت کے تابع کرنا ہے، تاکہ معاشرہ محض معلومات کا گودام نہ ہو بلکہ ایک زندہ اور مہذب ضمیر کی عکاسی بن جائے-یہ بات کسی دانا پر مخفی نہیں کہ معاشرہ فقط نظم و قانون سے نہیں، بلکہ اخلاق و تہذیب سے قائم رہتا ہے- انسان کی تہذیبِ نفس ہی اس کی سب سے بڑی حکومت ہے اور جب اخلاق فرد سے اُٹھ جائے، تو تمدن کی تمام عمارت دھڑام سے گر پڑتی ہے- چونکہ حضور نبی اکرم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس خیرِ کامل اور عقلِ ناطق کی علامت ہے، لہٰذا آپ کے کلمات فقط قول نہیں، نورِ ربانی کا آئینہ ہیں- اب ہم چند احادیثِ نبوی (ﷺ)، خصوصاً جوامع الکلم کے تناظر میں، علمیاتِ اخلاق (Ethics of Social Epistemology) کا جائزہ پیش کریں گے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ایک حدیث سماجی شعور، علمی رویے اور اخلاقی ڈھانچے میں کس طرح مؤثر کردار ادا کرتی ہے-

جوامع الکلم کا علمیاتِ اخلاق پر عملی انطباق:

1)  ’’المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده‘‘[6]

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘-

علمیاتی تجزیہ:

یہ حدیث انفرادی طہارت کو اجتماعی امن سے جوڑتی ہے- علمیاتِ اخلاق میں یہ تصور اہم ہے کہ علم صرف نظری نہیں بلکہ عملی ذمہ داری ہے- زبان و عمل کا اخلاقی کنٹرول سوشیولوجیکل ٹرسٹ کا بنیادی جزو ہے، جو ہر مستحکم علمی معاشرے کی شرطِ اول ہے-

نتیجہ:

جب زبان اور ہاتھ امن کے نمائندے ہوں، تو علم امن کا پیغامبر اور اخلاق معاشرت کا معمار بن جاتا ہے-

2)  ’’خَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ‘‘[7]

’’لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہو‘‘-

علمیاتی تجزیہ:

یہ حدیث اخلاقِ نافعہ کا جلی بیان ہے- علمیاتِ اخلاق کے مطابق، علم اُس وقت اخلاقی معنی پاتا ہے جب وہ نفعِ عام کا ذریعہ بنے- یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ خدمتِ خلق ہی علمِ مفید کا عملی مظہر ہے-

 نتیجہ:

فرد کی افادیت جب ’’علم‘‘کے ذریعے ’’نفعِ غیر‘‘میں تبدیل ہو جائے، تو وہی وجود تہذیبی انقلاب کا مرکز بن جاتا ہے-

3)  ’’من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت‘‘[8]

’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھا کلام کرے یا خاموش رہے‘‘-

علمیاتی تجزیہ:

یہ حدیث لسانی امانت کی نمائندہ ہے- علمیاتِ اخلاق کا ایک مرکزی اصول یہ ہے کہ زبان نہ صرف اظہار کا ذریعہ ہو بلکہ اخلاقی ضبط کی آئینہ دار بھی ہو- سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ قول زبان کے ڈیجیٹل استعمال کے لیے بہترین ضابطہ ہے-

نتیجہ:

 ایمانی شعور زبان پر اثر انداز ہو، تو علم قولِ خیر میں بدل جاتا ہے، اور  رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

4)  ’’من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه ‘‘[9]

’’کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے‘‘-

علمیاتی تجزیہ:

یہ حدیث علمی تواضع، اپسٹیمک حدود اور فکری ضبط کا نمونہ ہے- علمیاتِ اخلاق کے تحت، ہر فرد کو صرف اس علم میں دخل دینا چاہیے جو اس سے مربوط ہو- غیر ضروری مداخلت علمی وقار کو مجروح کرتی ہے-حقیقی عالم وہی ہوتا ہے جو اپنی علمی حدود کو پہچانتے ہوئے غیر ضروری علم سے اجتناب کرتا ہے اور یہی علمی انکسار اخلاقی وقار کی بنیاد ہے-

نتیجہ:

سچا عالم وہی ہے جو ’’جاننے‘‘سے زیادہ ’’نہ جاننے‘‘ کی حدود کو پہچانے، اور یہ پہچان اخلاقی وقار کی علامت ہے-

5)  ’’الدين النصيحة‘‘[10]

’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘-

علمیاتی تجزیہ:

یہ حدیث ’’علم برائے خیر خواہی‘‘ کی جامع تعبیر ہے- علم جب اصلاح، اخلاص اور نرمی کے ساتھ پیش کیا جائے، تو وہ فقط معلومات نہیں بلکہ قلبی تاثیر کا ذریعہ بن جاتا ہے- علم کی حقیقی قدر اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو-

نتیجہ:

علم جس میں ہمدردی نہ ہو، وہ اندھا ہوتا ہے اور نصیحت جس میں علم نہ ہو، وہ بے معنی اور غیر مؤثر ہے- علم اور ہمدردی کا امتزاج ہی دین کی روح اور معاشرتی اصلاح کی کنجی ہے-

6)  ’’اَلْخَمْرُ اُمُّ الْخَبَائِثِ‘‘[11]

’’شراب برائیوں کی ماں ہے‘‘-

علمیاتی تجزیہ:

یہ حدیث ایک گہرے اخلاقی اور وجودی خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے- علمیاتِ اخلاق کے دائرہ کار میں یہ قول ان اعمال کی نشاندہی کرتا ہے جو انسانی عقل، ارادہ اور معاشرتی توازن کو برباد کر دیتے ہیں- ’’امّ الخبائث‘‘ کے الفاظ میں نہ صرف شراب کی حرمت کا حکم ہے بلکہ ایک علمی اصول بھی چھپا ہے: جب عقل زائل ہو، تو علم، اخلاق اور معاشرت سب ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں-علمیاتِ اخلاق میں یہ تصور کہ علم کی بنیاد شعور پر ہے، اور شعور کی بقا ’’عقلِ محفوظ‘‘ سے وابستہ ہے-یہ حدیث اسی تصور کو تقویت دیتی ہے- شراب چونکہ عقل و شعور پر حملہ آور ہوتی ہے، اس لیے وہ نہ صرف اخلاقی بگاڑ، بلکہ epistemic collapse یعنی علمیاتی انحطاط کی جڑ ہے-

نتیجہ:

جب کسی معاشرے میں شراب جیسے افعال روا ہو جائیں، تو محض جسمانی تباہی نہیں، علم و شعور کی جڑیں بھی کٹ جاتی ہیں- لہٰذا ’’اُمُّ الخبائث‘‘کا مفہوم صرف انفرادی گناہ نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی، اخلاقی اور علمی انحراف کا انتباہ ہےجو ہر باشعور علمی معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے-

 جوامع الکلم - تہذیبی احیاء کی کلید:

 جوامع الکلم صرف الفاظ کی لطافت یا مختصر اقوال کی فہرست نہیں، بلکہ یہ وہ الہامی منشور ہے یہ کلماتِ نبویہ دراصل عقل و قلب کی باہمی ہم آہنگی، روحانیت اور تمدن کی تطہیر  اور علم و عمل کی ہمہ گیر جمالیات کا ایسا نورانی مظہر ہیں جو صرف بلاغت نہیں، بلکہ ہدایت، تربیت اور تزکیہ کا آسمانی نظام ہیں- یہ دراصل نبوّت کے معجزاتی فکری اسلوب کی گواہی ہے، جس میں الفاظ مختصر اور معانی بحرِ بے کنار ہیں-حضور نبی کریم (ﷺ)  کے یہ اقوالِ مبارکہ، اسلامی تہذیب کے اخلاقی، فکری اور تمدنی ستون ہیں، جو نہ صرف اخلاقی بلاغت اور فکری جامعیت کو نمایاں کرتے ہیں، بلکہ جدید اسلامی علمیات میں بھی ’’اخلاقِ ابلاغ‘‘ (Ethics of Communication)، ’’علمی انکسار‘‘ (Epistemic Humility) اور ’’سماجی امانت‘‘ (Social Integrity) جیسے اجتہادی مباحث کو نئی فکری جہات فراہم کرتے ہیں-پس اس تناظر میں ضروری ہے کہ ان احادیثِ مبارکہ کو عصری نصابِ اخلاق کا مستقل جزو بنایا جائے، مدارس و جامعات میں ان کا تدریسی و تنقیدی مطالعہ رائج کیا جائے  اور ان کی بنیاد پر سوشیولوجیکل و ابلاغیاتی تحقیق کی راہیں ہموار کی جائیں- مزید برآں، اسلامی ذرائع ابلاغ میں ’’قولِ حسن‘‘، ’’قولِ سدید‘‘ اور ’’قولِ خیر‘‘ جیسے اصولوں کو فکری اور پالیسی سطح پر نافذ کیا جائے، تاکہ اسلامی معاشرہ صرف اطلاعاتی نہیں بلکہ اخلاقی و روحانی اقدار کا حامل ایک باوقار تمدن بن سکے-جو آج محض اطلاعاتی شور میں الجھا ہے، وہ اخلاقی عظمت اور روحانی بصیرت سے مزین ہو کر ایک مہذب و معزز تمدن کا آئینہ بن جائے-

٭٭٭


[1]’’مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے‘‘-(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 7013)

[2]’’پس وہ کلام کرے یا خاموش رہے‘‘- (صحیح بخاری،  رقم الحدیث 6136)

[3]’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘-(صحیح بخاری، رقم الحدیث:10)

[4]’’ترازو میں سب سے بھاری چیز حسنِ اخلاق ہے‘‘- (سنن ترمذی، رقم الحدیث: 3200)

[5]’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھا کلام کرے یا خاموش رہے‘‘-(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6136)

[6]’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘-(صحیح بخاری، رقم الحدیث:10)

[7](سلسلہ احاديث صحيحہ، کتاب الاداب والاستئذان)

[8](صحیح بخاری، رقم الحدیث:6136)

[9](سنن ترمذی، رقم الحدیث:2317)

[10](صحیح مسلم، رقم الحدیث: 55)

[11](معجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث:3667)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر