قرآن مجید اور سیرت نبوی (ﷺ)میں معاہدات اور عہد و پیمان کی اہمیت کو خوب واضح کیا گیا ہے- کیونکہ ایک معاشرہ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کے اند ر نظم و ضبط، قانون کی حکمرانی اور اعتدال ہو- قوانین کا مقصد ایک بکھرے ہوئے معاشرہ کو منظم کر کے راہ راست پر لانا ہوتا ہے- قرآن مجید اور سیرت طیبہ میں ’’میثاق‘‘ اور ’’عقد‘‘ جیسے الفاظ معاہدات پر دلالت کرتے ہیں- اس ضمن میں تمام بین الاقوامی معاہدے، ریاستی آئین ،ملکی قوانین اور سماجی اقرار نامے شامل ہیں- سیرت نبوی میں عہد کی پاسداری پر بہت زور دیا گیا ہے وہ چاہے تجارتی، معاشی، کاروباری، معاشرتی، سماجی یا جس قسم کا بھی پیمان ہو- حضور نبی کریم (ﷺ) نہ صرف قانون ساز تھے بلکہ آپ نے قوانین پر مکمل عمل پیرا ہو کر ایک خوبصورت مثال قائم کی ہے- سیرت نبوی میں سینکڑوں واقعات موجود ہیں جن میں آپ نے تمام مفادات اور ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر معاہدات کو نافذ العمل فرمایا- مزید برآں، آقا کریم (ﷺ) نے معاہدات کو کمال دانش مندی سے اسلام کے غلبے کےلیے قائم فرمایا- اسلام نہ صرف طاقت سے محفوظ ہوا بلکہ سماجی اور عالمی معاہدات نے بھی کئی مخالفین اسلام کے اِرادوں کو خاک آلود کیا- آپ (ﷺ) نے جس ذہانت اور بصیرت سے میثاق قائم فرمائے وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں- اسلام میں ’’مجلس شورٰی‘‘ کا تصور اسی بات کا اعادہ کرتا ہے کہ مسلمان باہمی مشاورت سے اپنے لیے قوانین تیار کریں، جیسا کہ آج کے دور میں پارلیمان کا فریضہ ہے- تاہم، مسلمانوں کے اندر خلافت کے ملوکیّت میں بدلنے سے آج تک مجلس شورٰی کا تصور روبہ زوال ہے، جس کے نتیجے میں طرح طرح کی مشکلات ان صدیوں میں گھیرا ڈالے رہی ہیں-
بین الاقوامی میدان میں تمام امور پر مشاورت سے قانون سازی ہوتی ہے- اقوام متحدہ کی تمام کانفرنس شوری کی ہی اقسام ہیں، جن کے ذریعے دنیا کو درپیش مشترکہ مسائل کا حل نکالا جاتا ہے- آج مسلمانوں کو نہایت فطانت سے اس فن میں کمال حاصل کرنا چاہیے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر عہد سازی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں-
ہماری زندگی کا ہر پہلو قوانین اور معاہدات سے گھرا ہوا ہے چاہے وہ تجارت کا میدان ہو جس میں تاجر آپس میں معاہدے قائم کرتے ہیں، چاہے وہ گھر بیچنے کے متعلق ہو جس میں ’’ٹرانسفر آف پراپرٹی لاء‘‘ کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے یا چاہے وہ پروڈکٹ جیسے بوتل تیار کرنی ہو جس کےلیے ایک رجسٹر کمپنی کا لیبل چسپاں کرنا لازمی ہے- تعلیمات اسلام میں اسی وجہ سے عہد و پیمان پر زور دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں امن و خوشحالی قائم رہ سکے- قرآن میں انسان کو اللہ کا خلیفہ کا درجہ دیا گیا ہے- جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام امور کو بہترین طریقے سے پورا کرے- اس سے ضمناً یہ عہد لیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو قانون سازی اور حکومت میں اتنا قابل بنائے کہ معاشرے میں خیر و ترقی کا ذریعہ بن سکے- مثال کے طور پر قرآن مجید اور احادیث نبوی میں ناپ تول پورا رکھنے کا حکم ہے- یہ حکم صرف عدل کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ یہ بہت وسیع معنی کو سموئے ہے، جس سے مراد ایک انسان جس شعبے میں ہو وہاں کے معیارات، قوانین اور SOPs کا بھرپور خیال رکھے- کینیڈا میں جامعات سے فارغ التحصیل انجینئرز کو لوہے کی انگوٹھی (Iron Ring) دی جاتی ہے، یہ ان طلباء کو اپنے شعبے کے بلند معیارات کو قائم رکھنے کی علامتی نشانی ہوتی ہے- قرآن کی فولادی انگوٹھی ’’Iron Ring‘‘ وہ احکامات ہیں جن میں لوگوں کو سچائی، امانت داری اور ایفائے عہد پر کاربند ہونے کی تاکید کی گئی ہے-
انسان کےلیے لازم ہے کی وہ شرعی قانون کے ساتھ ساتھ اپنے ملکی و معاشرتی قوانین پر بھی عمل پیرا رہے- شریعت میں ’’معروف‘‘ یا ’’عرف‘‘ کا تصور اسی بات کو بیان کرتا ہے کہ اگر کسی ملک یا علاقے کا قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہے تو اس کی پابندی ضروری ہے- عموماً، جدید قوانین مذہبی روایات کی ہی مجسم شکل ہوتے ہیں- جیسا کہ کہا جاتا ہے :
“Sin of yesterday is the today's offence”.
’’ماضی کا گناہ آج کا جرم ہے‘‘-
جس طر ح ماضی میں قتل، چوری، ڈکیتی، فراڈ وغیرہ کو مذہبی تناظر میں گناہ مانا جاتا تھا، آج یہ پاکستان پینل کوڈ وغیرہ جیسے قانونی دستاویزات کے تحت جرم تصور کیے جاتے ہیں- لہٰذا، آج ضرورت اس بات کی ہے قرآنی اور زمینی قوانین میں مطابقت قائم کی جائے تاکہ دونوں کے اشتراک سے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار ہو سکے- جن ممالک میں نوآبادیاتی قوانین نافذ ہیں، وہاں ان کو سرے سے ختم کرنے کے بجائے ان کو شرعی قوانین سے ہم آہنگ کرنا چاہیے، تاکہ فلاح و بہبود کا مقصد حاصل کیا جا سکے- اکثر ایسے بین الاقوامی قوانین بھی ہیں جو در حقیقت تعلیمات اسلام سے مزین ہوتے ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کا کرپشن کے خلاف ’’UN Charter on Corruption‘‘ ہے، جو قرآن کے لفظ ’’طیب‘‘ سے مطابقت رکھتا ہے- جس میں ایک پاک صاف نظام کے قیام پر زور دیا گیا ہے- بعینہ، یہ قانون بھی کرپشن جیسی برائیوں کو ختم کر کے ایک شفاف نظام کی تاکید کرتا ہے- پس، اس قانون کی پیروی گویا قرآنی احکامات کی پیروی ہے- اس ضمن میں انسان کی نیت پر انعام و اکرام ہے- اللہ پاک نے قرآن مجید میں نیت کی اہمیت بیان کی ہے، کہ اگر انسان کی نیت خالص اور پاک ہوگی تو اس کو ضرور اجر دیا جائے گا- اسی طرح سیاسی نظام ہیں- قرآن مجید میں کوئی مخصوص سیاسی ڈھانچہ نہیں دیا گیا- شریعت نے معاشرتی اہداف مقرر کیے ہیں جن میں عدل، انصاف، امن، آزادی وغیرہ شامل ہیں، جن کا حصول ضروری ہے- پس ان مقاصد کی تکمیل کیلئے شریعت نے لچک رکھی ہے تاکہ انسان اپنے ماحول و تمدن کے اعتبار سے کوئی مناسب سیاسی نظام قائم کر سکے- پس، شریعت نے خلیفہ اللہ پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ عہد سازی کو سیکھے، باہمی سماجی و عالمی معاہدات کی اہمیت سے آگاہ ہو اور اجتماعی منفعت کےلیے عمدہ قوانین مرتب کر سکے-
شریعت نبوی میں اعمال صالح پر بہت زور دیا گیا- یہ اعمال صالح احکام قرآن ہیں، جو کہ ہمارے معاشروں میں اخلاقیات کی صورت میں جاری رہے ہیں- موجودہ دور میں بیشتر اخلاقیات ملکی و بین الاقوامی معاہدات اور قوانین میں مجسم ہو چکے ہیں- گویا ان پر عمل پیرا ہونا ایک مکمل پیکج ہے جس میں دینی فلاح کے ساتھ دنیاوی منفعت بھی ہے- قرآن میں ’’متقی‘‘ لفظ پر زور دیا گیا جس میں تقوٰی اور پرہیز گاری کی تلقین کی گئی ہے- اب اس کو جدید قانون سے سمجھا جائے تو انگریزی قانون میں ’’Reasonable Person‘‘ کا تصور ہے یعنی عقل مند انسان جو اچھائی کو اپناتا ہے اور برائی سے بچتا ہے- گویا متقی کی تفہیم انگریزی قانون سے میلان رکھتی ہے- پس عالمی معاہدات کی افادیت کی تفہیم مجموعی ترقی کےلیے معاون ثابت ہوتی ہے-
سماجی اور عالمی معاہدات کی اہمیت شریعت محمدی (ﷺ) میں مسلم ہے- قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ جو انسان فساد سے بچتا ہے اسے ضرور اجر دیا جائے گا- پس، اس ضمن میں جو قانون بھی فساد کا خاتمہ کرکے امن و سلامتی کو قائم کرے، یہ گویا قرآنی احکامات کی ہی ایک شکل ہے- جدید دنیا میں ثالثی، جرگہ یا Alternate Dispute Resolution جیسے عمل اسی ضمن میں متصور ہوں گے- بین الاقوامی قانون جیسے ویآنا کنونشن(Vienna Convention) تو صرف تحریری معاہدات کی پیروی کو یقینی بناتا ہے، تاہم، قرآن مجید تحریر کے ساتھ زبانی عہد و پیمان کی پاسداری کو بھی یکساں اہمیت دیتا ہے-
ویسے تو تمام معاہدات کی اہمیت بےشمار ہے- تاہم معاشی معاہدے معاشی ترقی کیلئے ناگزیر ہیں- ان معاہدوں کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت میں اللہ رب العزت نے باقاعدہ عملی انداز میں معاہدہ کرنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے- معاشی اہمیت کے ہی پیش نظر امریکہ کے آئین کی پہلی شق میں معاہدہ پر معاہدہ کرنے سے منع کیا گیا ہے- اسی طرح دیگر عالمی معاہدات بھی معاشرہ کی ترقی کےلیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ یہ معاشرے کو منظم کر کے ایک مقصد و منزل کی جانب یکسو کرتے ہیں-
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید زمانے کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور ان کے مطابق شرعی قوانین کی تدوین کی جائے تاکہ جدید ضروریات پوری کی جا سکیں- یہ ایک مشکل کام ہے جس کے لئے لائق اور قابل افراد کی ضرورت ہے- جو نہایت تدبر اور لیاقت سے شرعی قانون اور ملکی و عالمی قوانین کو ہم آہنگ کر سکیں- حالیہ دنوں میں برطانیہ کے کورٹ کو ایک مسئلہ کو حل کرنے کےلیے شریعت اسلامیہ کے قانون کو استعمال کرنا پڑا، مگر وہ مدون حالت میں دستیاب نہ ہو سکا- پاکستان میں انگریزوں کے قائم کردہ ہزاروں قانون ہیں، لیکن ان میں چند ہی پر کام کیا گیا- جیسے مسلم فیملی قانون کو شرعی پیمانوں پر استوار کیا گیا، تاہم پھر بھی اس میں اختلافی چیزیں حل نہ ہو سکیں-
مندرجہ بالا بحث کا مقصد عالمی و سماجی معاہدات کی اہمیت کو شریعت محمدی کے تناظر میں پیش کرنا ہے- جس کا مقصد مسلمانوں میں تحریک پیدا کرنی ہے کہ وہ قانونی اداراک کو بہتر بنا سکیں- وہ اپنی قانون سازی و قانون فہمی کی صلاحیتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں تاکہ اس گلوبلائزیشن کے دور میں وہ انسانی معاشرے کےلیے خیر و فلاح کا ذریعہ ثابت ہوں اور مجموعی حیثیت میں ہر جگہ امن، سلامتی، خوشحالی اور استحکام کا دور دورہ ہو-
٭٭٭