قومی زندگی اور ترقی کیلئےسیرت النبیﷺ سے بصیرت

قومی زندگی اور ترقی کیلئےسیرت النبیﷺ  سے بصیرت

قومی زندگی اور ترقی کیلئےسیرت النبیﷺ سے بصیرت

مصنف: پروفیسر ہمایوں احسان ستمبر 2025

 

ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست

’’ہزار بار بھی اگر اپنا منہ مشک و گلاب سے دھوؤں، تو پھر بھی آپ (ﷺ) کا (پاکیزہ) نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے!‘‘-

سب سے پہلے حضور نبی پاک (ﷺ)نے مکہ کے لوگوں کو جو خطاب کیا اس میں کوئی مذہبی رہنمائی (Religious Guidance) کی بات نہیں کی- نہ کوئی اپنی ذاتی اعلیٰ مرتبت کا ذکر کیا- اپنا تعارف (Resume)پیش فرمایا اور پوچھا کہ آپ کی میرے بارے میں کیا رائے (Perception) ہے- میرا یہ خیال ہے کہ یہی انداز گفتگو ہونا چاہیے- ہمارے سامنے جتنے بھی بڑے بڑے لوگ گفتگو کے لئے آتے ہیں سب سے پہلے وہ اپنا Resume تعارف پیش کیا کریں اور پوچھا کریں کہ آپ کی ہمارے بارے میں کیا رائے ہے-اگر آپ کی ان کے بارے میں رائے ٹھیک ہو تو پھر ان کو حق ہے اپنی بات آپ کے سامنے رکھنے کا –

اندازہ لگائیں!حضور نبی کریم (ﷺ) کی یہ کتنی بڑی تعلیم ہے کہ آپ (ﷺ) نے اپنے مخالف، کفار مکہ کے سامنے اپنا تعارف پیش کرنے کا خطرہ (Risk) مول لیا- یہاں میں جواب دینے والوں کو بھی سراہتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ آپ عظیم انسان ہیں، آپ صادق اور امین ہیں، ہم نے آپ کو اپنے درمیان بہترین پایا ہے، دنیاوی معاملات میں بھی آپ بہترین انسان ہیں- انہوں نے کہا کہ آپ محنتی ہیں، آپ کے کام کرنے کا انداز (Work Ethics) بہت اچھا ہے-آپ ایماندار (Honest) ہیں اور آپ سچ (Truth) کو مانتے ہیں غور کیجئے! یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی تک نبوت کا آغاز نہیں ہوا، ابھی آپ (ﷺ) پر وحی کا نزول نہیں ہوا-

نبی کریم (ﷺ) نے کائنات کے نظام کے بنیادی اصول (Principles) یہیں بیان کر دیے- دنیا میں صرف وہی تہذیبیں ترقی کرتی ہیں جو سچ کو مانتی ہیں (Subscription to Truth)، جو محنت کا رواج (Culture of Hard Work) قائم کرتی ہیں، اور جن کے کام کرنے کے اصول (Work Ethics) درست ہوتے ہیں- اگر کسی قوم کے کام کرنے کے اصول (Work Ethics) درست نہ ہوں تو چاہے وہ جتنی بھی مذہبی جوش (Religiosity) میں مبتلا ہو، وہ حقیقی قوم نہیں بن سکتی- جو سچ کو نہیں مانتی (Subscribe to Truth)، وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی- دنیا کے تمام مذاہب، ہر رنگ و نسل کے لوگ، اور ہر علاقے کے وہی لوگ آگے بڑھے ہیں جو سچ کو مانتے ہیں (Subscribe to Truth)، محنت کا رواج رکھتے ہیں (Culture of Hard Work)، اور سمجھتے ہیں کہ انسانیت کا ایک مشترکہ مقصد (One Common Agenda) اور ایک مشترکہ دین (One Common Religion) یہی ہے کہ کام کرنے کے اصول (Work Ethics) درست ہوں-

نبوت کا سب سے بڑا مقصد وحدانیت کو قائم کرنا ہے، جو سب سے محترم اور اپنی جگہ پر قائم ہے- میں یہاں اپنے درجے کی بات کرنا چاہ رہا ہوں کہ اگر ہم اپنی زندگی کا حاصل یہی ایک سادہ اصول بنا لیں کہ جیسے آپ (ﷺ)معزز ہیں اور آپ میں وہ اوصاف پائے جاتے ہیں، اور ماشاء اللہ آپ (ﷺ) کی تربیت بھی آپ کے تمام لوگوں میں جھلکتی ہے تو یہ اصول نہ صرف ہماری ذاتی زندگی کو سنوار دے گا بلکہ ہم ایک قوم اور امت کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں گے- یہی اصول اس قوم کو اوجِ ثریا تک پہنچانے کے لیے کافی ہیں-

ہم ایک ایسے معاشرے اور ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف قسم کے کٹھن حالات سے گزری ہے- ہم نے بڑے سخت وقت دیکھے اور آج کی نوجوان نسل بھی انہی مشکلات سے دوچار ہے-اگر ہم اپنے پیارے نبی (ﷺ) کا بچپن دیکھیں، آپ کی جدوجہد کا مطالعہ کریں اور آپ کے کام کا جائزہ لیں تو ایک عظیم سبق سامنے آتا ہے کہ ’’سخت حالات انسان کو توڑنے کے لیے نہیں ، بلکہ انہیں عظیم بنانے کے لیے آتے ہیں‘‘-

رسول اللہ (ﷺ) نے سب سے زیادہ کٹھن حالات دیکھے، لیکن کبھی کسی احساسِ کمتری یا مایوسی کا شکار نہ ہوئے- آپ (ﷺ)کا عزم، مقصد اور حوصلہ اتنا بلند تھا کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی-یہ بھی آپ (ﷺ)کی سنت اور تعلیم ہے کہ انسان اپنے حالات کا غلام نہ بنے، بلکہ ان پر غالب آئے- ہم حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے، ان سے اوپر اٹھ کر اپنی منزل کو بلند رکھیں- یہی وہ پیغام ہے جو آپ (ﷺ) نے اپنی امت کو دیا کہ نامساعد حالات ہمیں جھکا نہ دیں، بلکہ مزید مضبوط کر دیں-یہ آج ہمارے لیے تقاضا ہے کہ ہم ہر آزمائش کو اپنی ترقی کا زینہ بنائیں اور اپنے اعلیٰ مقاصد کی خاطر ہر مشکل میں بھی بلند رہیں-

حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) یہ صرف دو نام نہیں، یہ وہ دو عظیم شخصیات ہیں بلکہ یہ دو عظیم کردار ہیں،جنہیں دنیا ہمیشہ عقیدت سے یاد کرے گی- کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ کس مقام پر آرام فرما ہیں؟ یہ وہ ہستیاں ہیں جو رسولِ اکرم (ﷺ) کے دائمی حجرے میں آپ (ﷺ)کے پہلو میں محوِ آرام ہیں-

کیا شان ہے اس قربت کی! یہ وہ صحبت ہے جس کی کوئی قیمت دنیا میں نہیں لگائی جا سکتی- ہم انہیں رفیق (Companions) کہتے ہیں، مگر اس صحبت کا مقام صرف لفظوں سے بیان نہیں ہو سکتا-یہ وہ دو جلیل القدر ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنے نبی (ﷺ) کو اس طرح پہچانا اور گواہی دی کہ آپ (ﷺ) نے اپنی نبوت کا حق کمال درجے میں ادا کر دیا-اس ادراک کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا ہمیشہ کے لیے بدل گئی-

دنیا کے تمام مذاہب کو اپنی تعلیمات نئے سرے سے بیان کرنی پڑیں-سینکڑوں خداؤں کے ماننے والے بھی یہ وضاحت دینے لگے کہ وہ کسی نہ کسی طرح وحدت اور یکجہتی تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں-یہ سب اس پیغام کی اثر انگیزی کا نتیجہ ہے جو پیارے نبی (ﷺ) نے پہنچایا کہ ساری کائنات کے لیے صرف ایک اللہ کی وحدانیت قائم کی جائے-تمام انبیاء کرام (علیھم السلام) اسی مقصد کے لیے آتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کریں- پیارے نبی (ﷺ) نے اس مقصد کو اس درجہ کمال سے پورا کر دیا کہ شرک ہمیشہ کیلئے ہار گیا اور توحید جیت گئی-اب یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ اس ختمِ نبوت کی حفاظت کرے اور یہ ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اپنے علمی، فکری اور عملی انداز سے اس پیغام کی حفاظت کریں-

 یاد رکھیں! بہت سی قوموں نے اپنے نبیوں کے ساتھ شرک کیا کسی نے نبی کو خدا کہا ،کسی نے خدا کا بیٹا مانا، مگر رسولِ اکرم (ﷺ) نے اپنی امت کو اس شرک سے بچانے کا اہتمام کیا-یہ آپ (ﷺ)کا ہم پر احسانِ عظیم ہے اور اس احسان کا بدلہ یہی ہے کہ ہم آپ (ﷺ) کے مشن کی حفاظت کریں-

ایک اور پہلو بھی سوچنے والا ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) کی زندگی کا آغاز نہایت سادہ اور مشکل حالات میں ہوا-آپ (ﷺ) پر جن لوگوں نے شفقت کی، وہ ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہوتے گئے- لیکن آپ (ﷺ) پختہ عمر کو پہنچے اور عظیم ترین مقاصد میں کامیاب ہوئے، اعلیٰ ترین نبوت کے مرتبے پر فائز ہوئے-آپ (ﷺ)ان چند انبیاء کرام (علیھم السلام) میں سے ہیں جن کو زندگی میں ہی فتوحات نصیب ہوئیں- آپ (ﷺ)نے ایک مضبوط سلطنت قائم کر لی-

مگر آپ (ﷺ) نے نہ اپنے لیے، نہ اپنی اولاد، نہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے کوئی دولت جمع کی-بلکہ آپ (ﷺ) نے اپنی زندگی سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ مکمل کی- دنیا میں ایسی کوئی اور مثال نہیں ملتی کہ کوئی شخص اتنے عظیم منصب پر فائز ہو اور اپنی ذاتی زندگی میں اتنا سادہ اور بے لوث ہو- یہ تاریخ میں ایک بے مثال (Unmatched) اور لاجواب (Unparallel) مثال ہے-

اس لئے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ترقی (Progress) کا جو تصور ہمیں پڑھایا گیا ہے، وہ اصل میں غلط اور کھوکھلا (Fake) ہے-ہماری قوم کو ترقی کا صحیح تصور سیکھنا ہوگا-ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ وہ نائب تحصیلدار، ایس ایچ او یا ایسی کسی نوکری پر پہنچیں جہاں لوگوں کی گردن اور جیب دونوں ان کے اختیار میں ہوں، اور وہ ایک ایسی ناقابلِ رسائی (Untouchable) طاقتور پوزیشن پر ہوں- یہ ترقی نہیں ہے-

اصل ترقی رسول اکرم (ﷺ) کی زندگی سے دیکھیے-آپ (ﷺ) نے ایسی ترقی کی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور پھر اپنی ذات کو اس ترقی میں بھی پاکیزہ اور سادہ رکھا- ہماری قوم کو ترقی کے معیار (Standards of Progress) کو پاکیزہ بنانا ہوگا-ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ اصل ترقی کیا ہوتی ہے؟ کیونکہ ہم نے ترقی کے پیمانے فقط مادیت پرستی سے آلودہ (Filthy) کر دیے ہیں-

میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اخلاص والے اور پڑھے لکھے لوگ اس معاشرے میں لوگوں کو جھنجھوڑیں، ان کے دماغ ہلائیں اور انہیں کہیں کہ ترقی کا تصور (Notion of Progress) بدلیں-قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں جب تک وہ اپنے ترقی کے معیار (Standards of Progress) کو بہتر نہ کریں- ترقی صرف عہدوں، دولت یا اختیار سے نہیں آتی ترقی کردار سازی (Character Building) سے آتی ہے-

ذرا دیکھیے! دنیا کے بڑے لوگ کہاں سے آئے؟یونان، روم، ایلیا سے-بڑے لوگ خاندانوں سے پیدا ہوتے ہیں، اسکولوں سے نکلتے ہیں، استادوں اور شیوخ کی تربیت سے سنورتے ہیں تب جا کر ان کا کردار تعمیر ہوتا ہے-

لیکن رسول اکرم (ﷺ) کی مثال ان سب سے الگ اور منفرد (Unique Example) ہے- آپ (ﷺ) کو یہ سب سہولتیں میسر نہ تھیں-یعنی آپ (ﷺ) کو خاندان کی طاقت، بڑے ادارے یا اساتذہ کا سہارا نہیں ملا- حتیٰ کہ انبیاء کے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بچپن میں ایک ایسی جگہ چھوڑ دیے گئے جہاں سے کوئی توقع نہیں رکھتا تھا- لیکن آپ وہیں سے اُٹھے، اپنے ذہن اور کردار کی حفاظت کی، اور تاریخ کی سب سے روشن مثال بن کر سامنے آئے-

یہاں میں ایک ایسا مجرد خیال (Abstract Idea) آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا کہ انسان جو مٹی سے بنی مخلوق ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نوری اور ناری مخلوقات پر برتری کیوں دی؟

جب فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ’’یا اللہ! تو انہیں کیوں برتری دے رہا ہے؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے جب ان کی آزمائش کی تو انسان نے وہ جواب دیے جو باقی مخلوقات نہ دے سکیں-میرا ماننا ہے کہ یہ کوئی پہلے سے دی ہوئی رعایت (Undue Favor) نہیں تھی، نہ کوئی پرچہ آؤٹ تھا- بلکہ یہ ایک لمحہ تھا، ارواح کی زندگی کا ایک لمحہ جب سب کو انتخاب (Choice) کا حق دیا گیا- اُس لمحے انسان نے علم (Knowledge) کو ترجیح دی اور اسی ترجیح کی بنیاد پر انسان کو علم عطا ہوا- شاید باقی مخلوقات نے اور قیمتی چیزیں چنیں ہوں، جو اپنی جگہ بہت بڑی اور اچھی ہوں، مگر انسان کی ترجیح علم تھی اور یہی اس کی اصل فضیلت بنی- اس لیے علم کا دامن ہم کہیں بھی نہیں چھوڑ سکتے-

ہمارے نبی (ﷺ) جنہیں ہم اپنا رہنما مانتے ہیں، نہ ایلیا، نہ یونان، نہ فلسطین، نہ روم، نہ آکسفورڈ اور نہ سُربون سے وابستہ تھے- لیکن علم کی تلاش اور جستجو (Curiosity) آپ (ﷺ) کے اندر ایک انوکھے اور بے مثال انداز میں موجود رہی-آپ (ﷺ) ہمیشہ علم کی کھوج میں مصروف رہے-یہی وجہ ہے کہ انسان کو فوقیت اور فضیلت علم کی بنیاد پر ملی ہے-

انسان کے بارے میں ایک مشہور بات ہے:

“Man is a social animal”. 

’’انسان ایک سماجی حیوان ہے‘‘-

اس میں اُس زمانے کے ’’Man‘‘ کا مطلب صرف مرد نہیں بلکہ عورتیں بھی شامل ہیں-لیکن میرا ماننا ہے کہ :

“Man is a knowledge-seeking creature”.

’’مرد اور عورت دونوں ہی علم کی متلاشی مخلوق ہیں‘‘-

میرا نہیں خیال کہ یونانی فلاسفہ نے غلط کہا تھا-جب انہوں نے انسان کو ’’سوشل‘‘ کہا تو غالباً ان کا بھی مطلب کچھ تعلیمی یا فکری نوعیت کا تھا- میں انہیں یہ شک کا فائدہ (Benefit of the doubt) دینا چاہتا ہوں کہ عموماً وہ قریب قریب درست بات کرتے تھے-مگر انہوں نے کہا یا نہیں کہا ، میرا خیال یہ ہے کہ انسان دراصل ’’علم کی متلاشی مخلوق‘‘ ہے اور اسی علم کی بنیاد پر اسےبرتری حاصل ہے-

ذرا دیکھیے! یہ کائنات جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، اس کا نظام کس طرح چلتا ہے- مٹی میں کیمیکلز (Chemicals) موجود ہیں- اس میں ایک طرح کا نقص (Imbalance) ہے-یعنی یہ بالکل ہموار نہیں، بلکہ باہم ری ایکٹ (React) کرتے ہیں-یہی کیفیت انسان کے اندر بھی ہے-یہ پورا نظام دراصل علم کی نوعیت پر چل رہا ہے- اگر آپ علم کو اپنائیں (Subscribe to knowledge) تو آپ ستاروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، نباتات (Plants) کو اپنے قابو میں لے سکتے ہیں اور فطرت (Nature) کو مسخر کر سکتے ہیں- کیونکہ اس کائنات کی بنیاد ہی علم پہ رکھی گئی ہے ، اس لئے اس کو علم سے ہی مسخر کیا جا سکتا ہے -

یہاں جنات جیسی مخلوق یا فرشتوں جیسی مخلوق کا وہ کردار نہیں ہے جو انسان کا ہے- یہاں تو وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو اپنی صوابدید (Discretion) کو استعمال کرے اور یہ صوابدید علم کی بنیاد پر چلتی ہے-

دیکھ لیجیے! دنیا میں جو قومیں علم کو اپناتی ہیں، وہ زمینی و آسمانی کائنات میں دسترس رکھتی ہیں-ترقی ان کے قدم چومتی ہے، ان کی عزت بڑھتی ہے، ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ایک مثال بن جاتی ہیں-

یہ دنیا علم پر مبنی ہے- اسے بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ’’علم کے متلاشی انسان‘‘کو یہ دنیا سونپی جائے-دیکھیے! رسولِ اکرم(ﷺ) غاروں میں جاتے، مشکلات برداشت کرتے، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے اور بہت غور و فکر کرتے رہے- اتنی کوشش کے باوجود آپ (ﷺ) نے 40برس تک کوئی ذاتی نظریہ پیش نہ کیا-

دنیا کے عام علماء (Scholar) کیا کرتے ہیں؟ وہ اپنا خیال پیش کرتے ہیں، پھر کچھ عرصے بعد اسے (Improve) کرتے ہیں بہتر بناتے ہیں ، شاگردوں سے بحث کرتے ہیں، نئے سوال اٹھاتے ہیں اور کتابیں بدلتے رہتے ہیں-ایک نظریے پر دوسرا نظریہ آتا ہے؛ بعد میں آنے والا کہتا ہے پچھلے میں خامیاں تھیں، پھر اگلا آکر اس کی بھی غلطیاں نکالتا ہے-

مگر رسولِ اکرم (ﷺ)کی مثال (Example) واحد اور بے نظیر ہے-آپ(ﷺ) دنیا کو کائنات کا سب سے بڑا سچ بتانے کیلئے مبعوث کئے گئے اور ساری زندگی کوئی ایسی بات زبان پر نہ لائے جو 100 فیصد حق نہ ہوئی ہو- یہ تاریخ میں کسی اور عالم (Scholar) کے ساتھ نہیں ہوا-

ہم اکثر سوال اٹھاتے ہیں کہ آپ (ﷺ) تو آکسفورڈ میں نہیں پڑھے، فلاں مدرسے میں نہیں پڑھے- جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو خود پڑھایا -آپ (ﷺ) کو وہ کتاب عطا کی جو سب کتابوں کی سردار ہے قرآنِ کریم-یہاں بات صرف قابلیت اور اہلیت (Merit) کی تھی اور رسولِ اکرم (ﷺ) کو سب کچھ اہلیت (Merit) کی بنیاد پر ملا-

میں آپ سے گزارش (Request) کرتا ہوں کہ اپنی اہلیت (Merit) سنواریں، علم کو اولین ترجیح دیں-سچ کے لیے صبر، ضبط اور کردار اپنائیں، یہی رسولِ اکرم (ﷺ) کی سنت مبارکہ ہے-

افلاطون (Plato) ایک مشہور مثال دیتا ہے کہ ایک آدمی غار میں بیٹھا ہے، پیچھے سے کوئی شخص گزرتا ہے اور سورج کی روشنی میں اس کا سایہ دیوار پر پڑتا ہے- غار میں بیٹھا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہی سایہ اصل حقیقت ہے-- مگر فلسفی کہتا ہے کہ یہ حقیقت نہیں، بلکہ کسی اصل چیز کا عکس ہے-اگر وہ شخص غار سے باہر نکلے تو اسے معلوم ہوگا کہ حقیقت تو وہ شے تھی جو باہر موجود تھی، اور غار کے اندر تو صرف اس کا عکس تھا-

اسی مثال سے یہ بحث شروع ہوئی کہ ظاہری (Apparent) اور حقیقی (Real) میں کیا فرق ہے؟ یعنی جو نظر آتا ہے اور جو اصل میں ہے، ان دونوں میں کیا امتیاز ہے ؟ دنیا کے بڑے بڑے مفکرین آج تک اس سوال پر بحث کر رہے ہیں کہ:

“What is apparent and what is real?” 

رسول اکرم (ﷺ) کی تعلیمات کی خاص بات یہ ہے کہ آپ (ﷺ) نے کبھی صرف ظاہری چیز کو اختیار نہیں کیا- ہمیشہ حقیقت کو اپنایا-یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ آپ (ﷺ) کا ایک منفرد اور غیر معمولی مقام ہے-آج بھی فلسفے میں یہ بحث زندہ ہے، مگر حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے ہر قول اور فعل میں حقیقت کو ترجیح دے کر اس سوال کا عملی جواب دے دیا-

اب دیکھیے!میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب کے بنائے ہوئے اصولوں پر حضرت محمد () کو پرکھنے کی ضرورت نہیں-نہ مغربی معیارات ہمارے معیار ہیں، نہ ہمیں ان کی کوئی حاجت ہے- بس اپنے نبی(ﷺ) پر اعتماد رکھیں، آپ کو کبھی دھوکہ نہیں ملے گا-قرآن پر اعتماد رکھیں، وہ کبھی آپ کو غلط راستہ نہیں دکھائے گا-

اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغرب کے بنائے گئے بڑے بڑے علمی اصول، فلسفے کے نظریات اور سوچنے کے طریقوں کو نظرانداز کر دیں -بلکہ انہیں دیکھیں، جانچیں اور جو سچ اور مفید ہو، اسے اپنا لیں- آپ کو اس سے مدد ہی ملے گی-اس جھجھک اور خوف سے باہر نکلیں کہ دنیا کے علوم کو چھوڑ دینا ہی اصل راستہ ہے-ایسا نہ کریں، اپنی بنیاد پر مضبوط رہیں، مگر دنیا کے علم کو ساتھ لے کر چلیں،یہ امت کو طاقت دے گا-

کانٹ (Kant) جدید فلسفے کا ایک عظیم مفکر، جس کا ایک اصول دنیاوی علوم میں سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے- اس اصول کو ’’Categorical Imperative‘‘ کہا جاتا ہے- یہ وہ بنیادی اخلاقی اصول ہے جسے کانٹ نے اس انداز میں بیان کیا کہ آج تک کوئی اس میں خامی نکالنے میں کامیاب نہیں ہوا-

کانٹ کا پہلا بڑا اصول یہ ہے:

ایسا عمل اختیار کرو جو اس قابل ہو کہ اسے ہر شخص پر لاگو (Universalize)کیا جا سکے اور پھر بھی وہ درست ثابت ہو-مثلاً:فرض کریں آپ دعا مانگتے ہیں تو ایسی دعا مانگیں جو اگر سب لوگ مانگنے لگیں، تب بھی آپ کی دعا قبول ہو اور کسی کو نقصان نہ پہنچائے- مثال کے طور پر یہ دعا نہ مانگیں کہ ’’میرا پڑوسی ناکام ہو جائے‘‘ یا ’’کسی کا نقصان ہو‘‘- کیونکہ اگر یہی دعا دوسرا شخص آپ کے خلاف مانگے تو آپ کو برا لگے گا-

اگر آپ (ﷺ) کی دعاؤں کو اس اصول پر پرکھیں تو آپ (ﷺ) نے ہمیشہ وہی مانگا جو پوری انسانیت کے لیے یکساں فائدہ مند ہو- آپ (ﷺ) نے اپنے لیے بھی بھلائی مانگی اور دوسروں کے لیے بھی، بلکہ اکثر دوسروں کے لیے اپنے سے زیادہ خیر مانگی-

کانٹ کا دوسرا بڑا اصول یہ ہے:

’’انسان کو کبھی کسی مقصد تک پہنچنے کا محض ذریعہ نہ سمجھو، بلکہ اسے بذاتِ خود ایک مقصد سمجھو‘‘-

یعنی کسی انسان کو استعمال کر کے اپنا مفاد حاصل نہ کرو- ہر انسان اپنی جگہ محترم اور قیمتی ہے-یہ اصول بھی دیکھ لیں، رسول اکرم (ﷺ) نے کبھی کسی انسان کو کمتر یا صرف ایک ذریعہ نہیں سمجھا-ہر شخص کو عزت، احترام اور حق دیا، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، دوست ہو یا دشمن-

یوں دیکھیں تو جدید مغربی فلسفے کے یہ عظیم اصول، جو آج دنیا بھر میں اخلاقیات کے معیار سمجھے جاتے ہیں، ہمارے نبی (ﷺ) نے نہ صرف 1400 برس پہلے بیان کیے بلکہ اپنی زندگی میں ان پر مکمل عمل بھی کر کے دکھایا-

اب ذرا واپس چلتے ہیں’’Moment of Discretion‘‘ کے اصول کی طرف-قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو جمع کر کے سوالیہ انداز میں پوچھا:

أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ؟

’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘

اور سب ارواح نے جواب دیا:

’’قَالُوا بَلٰی شَهِدْنَا‘‘

’’جی ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں (کہ تو ہی ہمارا رب ہے ) ‘‘-

یہ وہ پہلی اور ازلی گواہی ہے جو ہر روح نے دی - یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر روح اپنی تخلیق کے آغاز میں کر چکی ہے-لیکن حضور (ﷺ) کی گواہی اس سب میں منفرد اور کامل تھی-ان کے ایمان کی مقدار، اخلاص، یقین اور سچائی اتنی کامل تھی کہ وہ جواب "نمبر ون" ٹھہرا-یعنی آپ (ﷺ) سب سے زیادہ سچائی کو پہچاننے والے،سب سے زیادہ حقیقت کے قریب جانے والے اور حقیقت سےسب سے کم فاصلہ رکھنے والے تھے-گویا حضور (ﷺ) کی ذات حقیقت کے قریب ترین وجود ہے-آپ (ﷺ) اور حقیقت کے درمیان کسی اور گواہی کا پردہ نہیں، کسی اور کا فاصلہ نہیں-یہی وجہ ہے کہ آپ (ﷺ) کو سچائی کا سب سے کامل ترجمان اور حقیقت کا سب سے صاف مظہر کہا جا سکتا ہے-

قرآن کریم میں آیا ہے کہ:

’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا‘‘-

پہاڑ کی مثال کیوں دی گئی؟ اس لیے کہ پہاڑ تم سے کہیں زیادہ سخت اور مضبوط ہیں، اور تم نسبتاً کمزور ہو-

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے:

اگر پہاڑ قرآن کریم کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے، تو ایک انسان پر یہ کیسے اتارا گیا؟ وہ ریزہ ریزہ کیوں نہ ہوا؟

اس کا جواب صرف ایک ہے: وہ ذہن، وہ دل اور وہ شخصیت جس پر قرآن اترا ، وہ سچائی کو اس بلند ترین درجے پر دل میں محفوظ (harbor) اور پھر اظہار کرنے (express) کی صلاحیت رکھتے تھے-

یہ صرف الفاظ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ سچ کو برداشت کرنے کی صلاحیت(Truth-bearing capacity) تھی-

پہاڑ ٹوٹ جاتے، کیونکہ ان کے پاس شعور نہیں-عام انسان بکھر جاتے، کیونکہ ان کے پاس وہ ظرف نہیں-مگر حضور (ﷺ) کا دل اور ذہن، حقیقت کو اس کے خالص ترین درجے میں جذب اور منتقل کرنے کی بالکل درست ترتیب (perfect alignment )رکھتے تھے-

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام براہِ راست انہی پر اترا، کیونکہ جو مفہوم اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا، وہی مفہوم آپ (ﷺ) کے ذہن میں بالکل ویسا ہی اتر سکتا تھا- یعنی کوئی غلط فہمی (semantic distortion) پیدا نہ ہو سکتی تھی - یہی وجہ تھی کہ بارگاہِ الٰہی سے نبی کے ذہن (Prophetic Mind) تک کامل رابطہ ہوا-

آپ اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے کوئی شخص کہے: ’’مجھے میز لا دو‘‘ مگر اس کے ذہن میں تصور’’جو کا دانہ‘‘ ہو تو سننے والے کو وہی چیز ملے گی جو وہ سمجھے گا، نہ کہ جو بولنے والے نے سوچا-

مگر قرآن کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا- اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کا انتخاب فرمایا جو رسول اللہ (ﷺ) کے ذہن میں وہی خیال پیدا کریں جو اللہ کے علم میں تھا-لہٰذا یہ (چیزیں) اور کہیں نہیں جا سکتی تھیں-اگر جاتیں تو یہ ضائع ہو جاتیں اور خدا اپنی چیز ضائع نہیں ہونے دیتا-اس لئے یہ پیغام اسی خاص ذہن میں آنا تھا-

میں ایک سوال پر غور کرتا ہوں اور یہ کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں- میں ’’نور‘‘ یا ’’بشر‘‘ کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ میرے نزدیک سِرے سے یہ سوال ہی درست نہیں ہے - یہ باتیں بڑی ہیں اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات ان سے بہت ہی بلند ہے-

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو ذہن لافانی الفاظ (Eternal Words) کو محفوظ کرتا ہے، اور جس ذہن میں خدا اپنی لافانی چیز حفاظت (Protection) کے ساتھ رکھتا ہے، وہ ذہن کیسے فنا ہو سکتا ہے؟اس کے معنی (Meaning) تو ہمیشہ قائم رہتے ہیں-وہ کلام ہمیشہ باقی رہتا ہے، وہ جگہ جہاں یہ تصور رکھا جا رہا ہے، وہ دل جس میں یہ بات محفوظ ہے، وہ کردار جو ان الفاظ کو معنی دیتا ہے، اس کو کوئی نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے؟

یاد رکھیں! آپ (ﷺ) کی بشری وجود کی مٹی کی خصوصیت (Quality) بھی نور کی خصوصیت سے زیادہ بلند درجے کے نور کی خصوصیت ہے-میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ ’’نوری‘‘ ہیں یا ’’خاکی‘‘- میں صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ جو بھی ہیں، ان کا بامعنی ہونا، ان کی یہ صلاحیت اور ان کے اندر یہ امانت رکھی جانا، کہ ان پر بھروسہ کیا گیا، یہ خود امر (Immortality) سے بھی بڑی چیز ہے-

سوچو! اگر آپ کے ذمے کسی تحریر کو پڑھ کر سمجھانا ہو اور آپ اس تحریر سے کم فہم رکھتے ہوں، تو آپ اس کا حق ادا نہیں کر پائیں گے-آپ اس تحریر سے نیچے رہ جائیں گے-لہٰذا! اگر خدا نے قرآن آپ تک پہنچانا ہے، تو قرآن کا حامل (Bearer) اور صاحب قرآن آپ سے بلند تر ہوگا- تب ہی وہ اپنی ذمہ داری پوری کر سکے گا-اگر وہ پیغام سے کم درجے کا ہو تو اپنے سے بلند درجے کی چیز کیسے پہنچا سکتا ہے؟ وہ نہیں پہنچا سکتا-

گفتار اور کردار میں فرق ہوتا ہے- عموماً گفتار بہتر ہوتی ہے، کردار اس کی عملی کوشش ہوتا ہے- ہم اپنی بات نہیں کر رہے کیونکہ ہم میں تو تضاد ہوتا ہے-ہم اکثر بات ایک طرف کی کرتے ہیں، خواہش دوسری طرف کی رکھتے ہیں اور عمل کسی اور طرف کا کرتے ہیں-میں یہاں عام لوگوں کی نہیں بلکہ ان کی بات کر رہا ہوں جو بالکل سچے اور درست ہوتے ہیں-ان میں بھی معمولی سا فرق ہو سکتا ہے، اور اس کی صرف دو مثالیں (Exceptions) ہیں:

پہلی مثال خدا (God) ہے- خدا اپنی مخلوق، اپنی تخلیق اور اپنے کلام قرآن کریم سے بھی بلند ہے- خدا سب سے اوپر ہے-

دوسری مثال حضور نبی کریم (ﷺ) کی ہے- ان کی گفتار حدیث ہے اور ان کا کردار قرآن ہے-اگر گفتار اور کردار میں فرق تلاش بھی کیا جائے تو فرق کو بھول جائیے، کیونکہ ایک دوسرے سے بلند تر ہے- ان کا عملی کردار ان کی گفتار سے بھی عظیم ہے اور ایسی کوئی اور مثال (Example) دنیا میں نہیں ملتی-

مقاصدی اصول (Teleological Principles)، ذمّہ داری پر مبنی اصول (Deontology) اور علم کیلئے معرفتِ علم (Epistemology)،یہ سب میں اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ آج کی نسل کل کو ان اصطلاحات کو دوبارہ دیکھے گی اور سوچے گی کہ یہ باتیں کیا تھیں-پھر وہ ان میں دلچسپی لے گی اور اس زبان میں آئے گی جو اکیسویں صدی اور اس کے بعد کی صدیوں کی زبان ہے-

پرانے زمانے کے لوگ جب حضور نبی کریم (ﷺ) کے جستجو والے ذہن (Curious Mind) کو دیکھتے اور پڑھتے، تو خود بھی جستجو کرنے والے ہو جاتے-دینِ اسلام وہ واحد تہذیب ہے جس کے ابتدائی دور کے لوگ سائنسدان اور فلسفی (Philosophers) بھی تھے-لیکن وقت کے ساتھ اوپر جانے کے بجائے ہم بہت نیچے گر گئے ہیں، یہاں تک کہ اب سمجھ نہیں آتا اس سے بھی نیچے کیسے جا سکتے ہیں اور شاید ہم یہ بھی کر دکھائیں-

پہلے دور میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ سائنسدان اور فلسفی پیدا کیے-لہٰذااپنے آپ کی طرف واپس آئیں کیونکہ یہ علم آپ کی کھوئی ہوئی میراث ہے-

جس طرح ہم کوشش کرتے رہے کہ منطقی اصولوں (Logical Principles) کی بنیاد پر عقلی وضاحت کریں، شاید یہاں وہ بات نہ ہو-لیکن میرے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ حضور (ﷺ) نماز پڑھتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں، ان میں سے ایک دعا یہ ہے: ’’یا اللہ! مجھے ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا‘‘-

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی (ﷺ) یہ دعا کرتے ہیں کہ ’’مجھے ان کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا‘‘، تو یہ مانگنے والی چیز اس ہستی کے مقام سے چھوٹی ہے- وہ خود اس سے بلند تر ہیں، تو پھر وہ کیوں ان کے راستے پر چلنا چاہیں گے جو بہرحال ان سے کم درجے کے ہیں؟

پہلی بات یہ ہے کہ جب ہم یہ دعا مانگیں گے اور اس میں اخلاص ہوگا، تو ہم تو بس اپنے سے پہلے کے اچھے مسلمانوں کے راستے پر چلیں گے- لیکن پیارے نبی (ﷺ) کن کا راستہ مانگ رہے ہیں؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے حضور نبی کریم (ﷺ) گزشتہ انبیاء و مرسلین کے راستے پر چلنے کی دعامانگ رہے ہیں اور اس کا یہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ گویا یہ اپنی ذات کی نفی (Self-effacement) اور عجز و انکساری ہے یعنی اپنے سے کم درجے والوں کا راستہ مانگ کر اپنی ذات کو مٹا دینا- یہ ایسی عارفانہ بات ہے جو صرف آپ (ﷺ) کے ذہن میں آ سکتی تھی-

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد و نواح میں ہم نے برکتیں رکھیں‘‘-گویا اللہ تعالیٰ نے کہا: آپ راستہ دیکھنا چاہتے ہیں؟ آئیے، ہم آپ کو دکھا دیتے ہیں-پہلے والے سب انبیاء کو بلا لیا، ان کا راستہ بھی دکھا دیا، اور کہا:’’آپ ان کی امامت کریں‘‘-پھر کہا: ’’آگے آئیے، یعنی اپنا مقام و مرتبہ بھی دیکھ لیجئے کہ آپ کو کیسی رفعت اور عظمت عطا فرمائی ہے ‘‘-

یہاں گاؤں کی پگڈنڈیوں کی بات نہیں ہو رہی کہ کون کہاں چلتا تھا یا کس کا مکان کہاں تھا- بلکہ یہ فکری اور روحانی راستے ہیں- میں کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی گفتگو، اپنے رویے اور اپنے تصورات کو علمی اور فکری بنائیں -

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو پہلے تمام انبیاء کے راستے دکھا دیے، یعنی ان کا مقام و مرتبہ بھی دکھا دیا پھر آپ (ﷺ) کو بھی اپنا مقام و مرتبہ دکھا دیا کہ آپ یہاں ہیں- تو سب انبیاء نے کہا: اب ہم اس سے آگے نہیں جا سکتے، یہ آپ (ﷺ) کا خاصہ ہے‘‘-

حضرت موسیٰ(﷤)، جو اللہ کے بہت پیارے نبی ہیں، ایک دن کہتے ہیں: ’’یا اللہ ! مجھے اپنی تجلی دکھا دے‘‘- اللہ نے کہا: ’’لن ترانی ‘‘، میرے کلیم تو مجھے نہیں دیکھ سکتا‘‘- پھر کہا: ’’بالواسطہ دیکھنا‘‘ طور سینا اور وادی بھسم ہوگئے، یعنی لرز اُٹھے-

لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، یہ ایک پُرسکون سفر تھا-اللہ تعالیٰ نے اوپر بلوا کر فاصلہ مٹا دیا اور جو حقیقت (Truth) کی پہچان اور حقیقت کے قریب ہونے (Closeness to Reality) کا فاصلہ تھا، اسے گویا جسمانی صورت (Physicality) میں بٹھا کر دکھا دیا-

یہ کون سا مقام ہے جو یہ سفر طے کر سکتا ہے؟ کون سا ذہن ہے جو یہ منازل طے کر سکتا ہے؟ کون سا دل ہے جو یہ سب کچھ تجربہ کر سکتا ہے؟

یاد رکھیں! جو لمحہ پیارے نبی (ﷺ) نے اس قربت کی صحبت میں گزارا، وہ ہمارا عام وقت نہیں تھا- وہ ایسا وقت تھا جس کا کوئی ماضی یا مستقبل نہیں-بس وقت ہی وقت، اور وہ بھی ایک بالکل الگ نوعیت (Time Zone) کا وقت-الغرض! حضور نبی کریم (ﷺ) اس مقام پر فائز ہیں-

اب دیکھیں!وہ نبی جو ایک عام ماحول میں پیدا ہوئے، کہ دائی حلیمہؓ شروع میں سوچتی ہیں کہ شاید میں نہ ہی لوں تو اچھا ہے، لیکن پھر کہتی ہیں: ’’جو بھی ملے گا یہی لے لیتی ہوں‘‘ وہی بچہ بڑا ہو کر پوری دنیا فتح کرتا ہے اور اس مقام پر پہنچ جاتا ہے-

آپ دیکھیں!مہمان اور میزبان، کس کے ہاں ایسا مہمان آیا ہوگا؟ اور یقین مانیں کس نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہوگا کہ مجھے ایسا میزبان ملا-

کیا وہ چاہیں تو اپنا نام وہاں درج نہیں کر سکتے تھے؟ کیا جو چاہیں لے نہیں سکتے تھے؟ سب کچھ دیکھ لیا،اپنے نواسوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہ بھی دیکھ لیا، لیکن کچھ نہیں کہا، باوقار بیٹھے رہے، کچھ نہیں مانگا، خالی ہاتھ گئے اور بظاہر خالی ہاتھ واپس آگئے-

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان، جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے، وہ کچھ نہ مانگے؟ ہم تو روز اتنا مانگ مانگ کر تھک جاتے ہیں، اور جب کچھ ملتا ہے تو لگتا ہے کم ملا ہے-لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) نے کچھ نہیں مانگااور میزبان (Host) بھی ایسا تھا کہ اس نے کہا: ’’آپ نے نہیں مانگا، لیکن جو میں نے آپ کو دے دیا ہے، وہ کسی کو نہیں ملے گا‘‘-

اللہ نے کہا: میں نے آپ کوکون و مکاں دے دیا ہے- یعنی تخلیق ، وجود اور شعور کے سب مراتب- میں نے آپ کو ایک عظیم شخصیت دے دی ہے اور اپنی قربت ہمیشہ کے لیے دے دی ہے-

 بندگی دیکھیں کہ قرب ہی قرب ہے اور نبی (ﷺ) گویا کہ کہتے ہیں:میں تیری رضا پر راضی ہوں، میں کچھ نہیں مانگ رہا، حالانکہ تو سب کچھ دینے پر قادر ہے-

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اب آپ واپس جائیے‘‘ اور نبی (ﷺ) خاموشی سے واپس آ گئے-یہ بھی نہیں فرمایا کہ ’’میں یہ قربت نہیں چھوڑتا‘‘-لیکن آپ (ﷺ)کو اپنی اُمّت یاد تھی- آپ چاہتے تھے کہ یہ تجربہ میری اُمّت کو بھی ملے، سب کو نصیب ہو-

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں دے دیتا ہوں، لیکن ان کو کہنا کہ نماز پڑھیں، جو بھی حالت نماز میں ہو گا، وہ جس معیار کی نماز میں ہو گا، اُسی معیار کی معراج (Ascension) اُس کو نصیب ہو گی-آگے معاملہ اُس کا اپنا ہوگا-تو آپ (ﷺ) اُمّت کے لیے یہ تحفہ (Gift) لے کر آئے-

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے چند پہلوؤں پر غور کیا، کوئی مقابلہ تو ممکن ہی نہیں- لیکن اس واقعہ کا ایک سبق یہ ہے کہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی طرف دھیان دیں، یہی سنت ہے- کوئی اور ایسی منزل نہیں آنی چاہیے کہ ہم سمجھ لیں کہ بس ہو گیا ، آگے کچھ نہیں، بلکہ ہر بار اس سے بہتر ہوتا جانا چاہیے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر