تیغ برّاں سے تیز تر: عہد مصطفویﷺ میں

تیغ برّاں سے تیز تر: عہد مصطفویﷺ میں

تیغ برّاں سے تیز تر: عہد مصطفویﷺ میں

مصنف: محمد محبوب ستمبر 2025

ابتدائیہ:

جدید عالمی دنیا میں بین الاقوامی تعلقات اور ریاستی امور میں پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے طاقت (Power)، اس کے حصول اور استعمال کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے- [1] طاقت کی دو قسمیں ہیں، ایک طاقتِ لطیف/ سافٹ پاور (Soft Power) اور دوسری طاقتِ قہر/ ہارڈ پاور(Hard Power)-ہمیشہ سے ریاستیں اپنی قومی سلامتی، مفادات اور تسلط کیلئے مختلف اقسام کی طاقت استعمال کرتی ہیں، اس میں سب سے نمایاں طاقتِ قہر/ہارڈ پاورہے- آج جدید دنیا میں غور کرتے ہیں تو عالمی سیاست کے مرکز پر مسائل کے حل کے لیے طاقتِ قہر کا استعمال شدت سے ہو رہا ہے جس میں نمایاں فوجی مداخلت، اقتصادی پابندیاں اور سیاسی دباؤ شامل ہیں- دنیا بھر کی بڑی بڑی طاقتوں کے علاوہ چھوٹے ممالک بھی کھربوں ڈالرز خرچ کر رہی ہیں- سٹاک ہوم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق دنیا کے فوجی اخراجات 2024ء میں 2718 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، یعنی پچھلے 10 برسوں سے ہر برس یہ اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں- یعنی 2015ء سے 2024ء کے درمیان یہ اخراجات 37 فیصد بڑھے ہیں- صرف 2024ء میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ 1988ء کے بعد سب سے زیادہ سالانہ اضافہ ہے-[2] ان میں عسکری قوت کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے- بین الاقوامی تعلقات میں ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے اس لئے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں-

طاقتِ لطیف/سافٹ پاور کا استعمال آج کی جدید دنیا میں ہمیں انتہائی کم نظر آتا ہے- جس طرح طاقتِ لطیف کا استعمال ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں ہو رہا ہے- تاریخی واقعات سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو پہلے خیال تھا کہ ریاستیں مسائل کو بات چیت اور سفارت کاری سے حل کرنے کی کوشش کریں گی اور قوت لطیف کا استعمال برو کار لائیں گی-  عالمی قوتوں کی منافقت بھی اسی پالیسی سے عیاں ہوتی ہے کہ  دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو ’’گلوبلائزڈ‘‘ سیاسی نظام کھڑا کیا گیا ہے جس کا ایک جزو اقوامِ متحدہ بھی ہے یہ نظام نظری طور پہ 'طاقتِ لطیف' کا نمائندہ ہے یعنی سفارتکاری اور مختلف الانواع تعاون، مگرعملاً اس نظام کے پسِ پردہ قوتیں اپنے ریاستی مفادات کیلئے ہمیشہ طاقتِ قہر کا استعمال کرتے ہیں - طاقتور ممالک دوسروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے فوراً سخت طاقت یعنی طاقتِ قہر  کا سہارا لیتے ہیں- غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ فضائی حملے اور معاشی ناکہ بندی، ایران، اردن، شام اور یمن پر حملے، روس کا یوکرین پر حملہ، امریکا کی ایران پر بمباری اور بھارت کی پاکستان کے خلاف کارروائیاں موجودہ دور میں اسی رجحان کی مثالیں ہیں-

اگر ہم اس بات کا بغور مطالعہ کریں اور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں جدید دنیا بالعموم طاقتِ قہر پر انحصار کرتی ہے، وہیں اسلامی تاریخ میں ہمیں ایک منفرد اور قابلِ تقلید مثال رسول اللہ (ﷺ) کی قیادت میں ریاستِ مدینہ میں نظر آتی ہے- بطور حکمران حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک ایسے وقت میں طاقتِ لطیف/سافٹ پاور کا استعمال کیا جب پوری دنیا میں جنگ و جدال کا ماحول برپا تھا- دنیا خصوصاً خطہ عرب قبائلی دشمنیوں اور طاقت کےبے دریغ استعمال کے اصولوں پر چل رہی تھی- [3] سیرتِ نبوی (ﷺ) ہمیں بتاتی ہے کہ طاقتِ لطیف نہ صرف ممکن ہے بلکہ زیادہ مؤثر اور دیرپا نتائج دیتی ہے بشرطیکہ بین الاقوامی تعلقات کو انسانوں کے مابین فلاح و بہبود اور امن و سلامتی کو فروغِ دینے کے لئے استعمال کیا جائے- جس کا مقصد معاشرے میں امن و آشتی اور پیار و محبت کو پروان چڑھانا ہے- زیر نظر مضمون میں ہم اس اہم پہلو کا مطالعہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح رسول اللہ (ﷺ) نےطاقتِ لطیف/ سافٹ پاور کو ریاستی امور میں بنیادی اصول کے طور پر اپنایا اور آج کی دنیا اس سے کیا رہنمائی حاصل کر سکتی ہے- آج تو دنیا بھر میں جنگ و جدل کا بازار گرم ہے اس سے کیسے چھٹکارہ پایا جا سکتا ہے-

ہارڈ پاور اور سافٹ پاور کا جائزہ:

طاقتِ قہر/ ہارڈ پاورکیمبرج ڈکشنری کے مطابق:

“The use of a country's military power to persuade other countries to do something, rather than the use of cultural or economic influence”.[4]

’’کسی ملک کا اپنی فوجی طاقت استعمال کرکے دوسرے ملکوں کو کوئی کام کرنے پر مجبور کرنا، بجائے اس کے کہ وہ اپنی ثقافت یا معیشت کے ذریعے اثر ڈالے‘‘-

اگر عام الفاظ میں اس کو دیکھا جائے تو طاقتِ قہرایک ایسی طاقت ہے جو زور، دباؤ اور جبر پر مبنی ہوتی ہے جو ایک ملک یا گروہ دوسرے ملک یا گروہ کے خلاف استعمال کرتا ہے-[5]

یہ طاقت جنگ، فوجی یلغار، اقتصادی دباؤ یا سیاسی اجارہ داری کے ذریعے بروئے کار آتی ہے- طاقتِ قہر کے ذریعے ریاستیں اپنے دشمنوں کو زیر کرتی ہیں یا اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں- سوشل سائنسز خصوصاً بین الاقوامی تعلقات کی تھیوریز کے Realistic Perspective پر یقین رکھنے والے مصنفین طاقتِ قہر کا نقطہ نظر رکھتے ہیں- طاقتِ قہر کے برعکس طاقتِ لطیف ایک ایسی قوت ہے جو اخلاق، کردار، مکالمہ، سفارت کاری، ثقافت، مذہبی رواداری اور سماجی تاثر کے ذریعے اپنا اثر کرتی ہے- 1980ء کی دہائی میں اس تصور کو سب سے پہلے ماہر بین الاقوامی تعلقات Joseph Nye نے واضح کیا، جن کے مطابق:

“Soft power is the ability to obtain preferred outcomes by attraction rather than coercion or payment”.[6]

’’ طاقتِ لطیف وہ طاقت ہے جو کسی ملک کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ دوسروں پر زبردستی یا دباؤ ڈالے بغیر اُن پر اثر ڈال کر اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے‘‘-

عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ممالک اپنی اقدار، نظریات اور ثقافت کو سرحدوں کے پار پیش کرتے ہیں تاکہ خیر سگالی پیدا ہو اور باہمی شراکت داری مضبوط ہو- گلوبل سافٹ پاور انڈیکس کے مطابق اس کے بنیادی 8اہم ستون ہوتے ہیں، جن میں کاروبار و تجارت، بین الاقوامی تعلقات، تعلیم و سائنس، ثقافت و ورثہ، حکمرانی، میڈیا و مواصلات، پائیدار مستقبل اور عوامی اقدار شامل ہیں- ان ستونوں کے تحت 35 خصوصیات بیان کی گئی ہیں جو کسی بھی قوم کو عالمی سطح پر مؤثر بناتی ہیں- جن میں ایک مضبوط معیشت، پسندیدہ مصنوعات، سفارتی اثر و رسوخ، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی، اعلیٰ تعلیمی نظام، ثقافتی اثرو رسوخ، اچھی حکمرانی، بااثر اور قابلِ اعتماد میڈیا، ماحول دوست منصُوبے، انسانی حقوق کا احترام اور عوام کا دوستانہ و برداشت والا رویہ- یہ وہ اوصاف ہیں جو کسی ملک کی طاقتِ لطیف کو مضبوط بناتے ہیں-[7] جب کوئی ملک ان تمام شعبوں میں بہتر کارکردگی دکھاتا ہے تو وہ عالمی سطح پر عزت، بھروسہ اور اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتاہے، جو کہ آج کے دور میں کسی بھی قوم کے لیے نہایت اہم ہے- آج جب دنیا کے کئی خطے جنگوں، تنازعات یا طاقت کے مظاہروں میں الجھے ہوئے ہیں، ممالک کے مابین طاقتِ لطیف کے فروغ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے- کیونکہ آج تمام ممالک جنگ نہیں لڑ رہے، بلکہ کئی ممالک جیسے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک، ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر طاقتِ لطیف کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون بنا چکے ہیں- وہ باہمی مفاہمت، ثقافتی تبادلے، تعلیمی تعاون، میڈیا اور انسانی حقوق کی بنیاد پر اتحاد قائم رکھے ہوئے ہیں- چین کا ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ، ترکی کا اسلامی دنیا میں ثقافتی اثر، یا سعودی عرب کا طاقتِ لطیف کی طرف سفر یہ سب 'سافٹ پاور' کی عملی مثالیں ہیں جو جنگ کے بغیر عالمی اثرورسوخ قائم کر رہے ہیں- متعدد رپورٹیں جیسے کہ ’’Global Soft Power Index 2024‘‘اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ طاقتِ لطیف اب صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ اقوام کی پائیدار ترقی، پرامن تعلقات اور عالمی حیثیت کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے-[8] دنیا جن پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے جن میں نمایاں موسمیاتی تبدیلیاں، پناہ گزینوں کے مسائل، یا عالمی تجارت ان کے حل کے لیے صرف طاقت کے استعمال سے زیادہ فہم، مکالمہ اور ثقافتی ہم آہنگی کی ضرورت ہےاور یہی طاقتِ لطیف کا اصل میدان ہے-

رسول اللہ () کی عملی زندگی مبارک میں طاقتِ لطیف کے مظاہر :

رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں آپ (ﷺ) کی عملی زندگی سے مسائل اور تنازعات کے حل کے لئے طاقتِ لطیف/ سافٹ پاور کے استعمال کی لاتعداد مثالیں ملتی ہیں- قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے کہ :

’’وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘[9]

’’اور (اے محمد ﷺ) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘-

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو پوری انسانیت بلکہ تمام جہانوں (جن، انسان، حیوان، کائنات) کیلئے رحمت بنا کر بھیجا- آپ (ﷺ) کی سیرت مبارکہ، تعلیمات اور عملی کردار پوری دنیا کے لیے امن، اخلاق، عدل اور ہمدردی کا پیغام ہے- یہ آیت کریمہ آقا کریم (ﷺ) کے ہر دو جہاں کے لئے عالمی رحمت ہونے پر دلالت کرتی ہے-

جب ہم مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی دعوتی زندگی مبارک کو دیکھتے ہیں تو آپ (ﷺ) کی حکمت عملی اخلاق، درگزر اور نرم خوئی پر مبنی تھی-[10] جب طائف میں آپ (ﷺ) پر پتھر برسائے گئے، تب بھی آپ نے ان کے لیے بددعا نہ کی بلکہ ان کی ہدایت کی دعا کی- آپ (ﷺ) کا یہ معافی اور درگزر کرنے والا انداز دشمنوں کو بھی دوست بنانے والا تھا- رسول اللہ (ﷺ) نے غیر مسلموں کے ساتھ نہ صرف صلح و معاہدات کیے بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کو فروغ دیا- نجران کے عیسائیوں کو مسجدِ نبوی میں قیام کی اجازت دینا، یہودیوں کے جنازے پر احترام کے ساتھ کھڑا ہونا، یہ سب طاقتِ لطیف کے عملی مظاہر ہیں جو حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات مبارکہ سے جھلکتے ہیں- ان سب کے علاوہ سب سے بڑی مثال صلح حدیبیہ ہے جو کئی مسلمانوں کی جانب سے بظاہر کمزور معاہدہ شمار کیا جا رہا تھا ، لیکن یہ آپ (ﷺ) کی حکمت و دور اندیشی کا مظہر تھا- یہ معاہدہ بظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان دہ محسوس ہوتا تھا- اس معاہدہ کے الفاظ اور بظاہر پسپائی نے کئی صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کو پریشان کیا، مگر رسول اللہ (ﷺ) نے اسے حکمت اور دور اندیشی سے قبول کیا- جب ہم بعد کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان حالات نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ اسلامی دعوت کیلئے وسیع راستے کھولنے والا ثابت ہوا-[11] جنگی ماحول میں توقف کے دوران اس معاہدے نے لوگوں کو دین اسلام کا ابدی پیغام سننے اور سمجھنے کا موقع دیا- یہ معاہدہ اور آپ (ﷺ)کا مکہ مکرمہ میں عملی کردار طاقتِ لطیف کی سب سے مؤثر شکلیں تھیں- یہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کا عملی کردار تھا جس کی بنیاد پہ مستقبل میں یثرب کو مدینہ منورہ بنا دیاگیا اور آپ (ﷺ) نے دنیا کی عظیم ترین ریاست کی بنیاد رکھی- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طاقتِ لطیف کا عملی مظہر ہونا ہی ریاست کے امور چلانے کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے-

'سافٹ پاور' کی بنیاد پر ریاستِ مدینہ کا قیام :

مکہ مکرمہ میں اپنی زندگی کے ابتدائی 40 برس گزارنے اور ہجرت کے بعد جب رسول اللہ (ﷺ) مدینہ منورہ تشریف لائے تو اعلان نبوت کے ساتھ آپ نے ایک مثالی اسلامی ریاست قائم کی- اس اسلامی ریاست کی بنیاد کے پیچھے آپ (ﷺ) کا مکہ مکرمہ میں وہ عملی کردار تھا جو آپ (ﷺ) نے پیش فرمایا اور صادق اور امین کا لقب پایا- آپ (ﷺ) نے ریاست مدینہ کی بنیاد معاشرتی انصاف، مذہبی رواداری، اور پرامن بقائے باہمی پر رکھی- یہ وہ عناصر تھے جو مکمل طور پر طاقتِ لطیف کی نمائندگی کرتے ہیں- اس طاقتِ لطیف کا استعمال نہ صرف آپ (ﷺ) نے ریاست میں بسنے والے مختلف گروہوں کو جوڑنے کے لئے استعمال فرمایا بلکہ ریاست کی وسعت اور حدود کو پھیلانے کے لئےبھی استعمال فرمایا- رسول اللہ (ﷺ) نےشروع ہی سے جملہ اقوام سے بین الاقوامی اصول اور قواعد و ضوابط پر ایک معاہدہ تشکیل دیا -[12] تاکہ مختلف گروہوں کے درمیان نسل اور مذہب کے اختلاف میں بھی قومیت کی وحدت قائم رہے اور سب گروہوں کو اجتماعی زندگی کے تہذیب وتمدن میں ایک دوسرے سے باہمی مدد و اعانت ملتی رہے-

ریاست مدینہ میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو اتنی ہی اہمیت دی گئی تھی جتنی مسلمانوں کے جان و مال کو حاصل تھی- کسی غیر مسلم شہری کو زبان، ہاتھ یا کسی اور ذریعے سے تکلیف دینا، اسے گالی دینا، مارنا، پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام تھا جیسے یہ افعال کسی مسلمان کے خلاف ہوں- اسی معاہدے کے تحت رسول اللہ (ﷺ) نے مدینہ منورہ میں بسنے والے مختلف قبائل کے درمیان اتحاد کو فروغ دیا- اس لئے میثاقِ مدینہ کو دنیا کا پہلا تحریری آئین تصور کیا جاتا ہے جو مختلف قبائل اور مذاہب کے درمیان باہمی احترام، تعاون اور ہم آہنگی کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا-اس معاہدے کی ایک اہم ترین شق یہ تھی کہ مدینہ کے سب لوگ مسلمان اور غیر مسلم بشمول تمام یہودی قبائل ایک قوم تصور ہوں گے- سب ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو کا احترام کریں گے- بیرونی جارحیت کے مقابلے میں تمام اہلِ مدینہ مل کر اس ریاست کا دفاع کریں گے-[13] اس معاہدے نے مدینہ کے مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کو ایک شہری ریاست کے تحت جوڑا- یہ معاہدہ نہ صرف ایک سیاسی اور سماجی عہد تھا بلکہ 'سافٹ پاور' کا مظہر بھی تھا- مکالمہ، مشاورت اور تحریری ضمانتیں اس کی بنیاد تھیں- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اقلیتوں کے ساتھ صلح، امن اور اعتماد کا ماحول پیدا کیا-

 فتح مکہ وہ موقع تھا جہاں آپ (ﷺ) کو دشمن پر مکمل غلبہ حاصل تھا- مکہ میں وہی لوگ موجود تھے جنہوں نے آپ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کو تکالیف دی تھیں- مگر اس کے باوجود آپ (ﷺ)نے عام معافی کا اعلان فرمایا:

’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، تم سب آزاد ہو‘‘-

بدر سمیت مختلف غزوات کے قیدیوں سے حسن سلوک سب سے نمایاں ہے- یہ وہ اخلاقی سلوک تھا جس نے طاقتِ لطیف کو ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر پیش کیا- آپ (ﷺ) کی عام معافی نے دلوں کو جیت لیا اور دشمن کو دوست بنا دیا- رسول اللہ (ﷺ) نے ریاستِ مدینہ کے استحکام کیلئے مختلف قبائل سے معاہدے کیے- ان معاہدات کا مقصد جنگ سے گریز، امن کا فروغ اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنا تھا- ان معاہدات میں اخلاص، وعدہ وفائی اور اعتماد سازی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی، جو طاقتِ لطیف کے ستون ہیں-

آج کی دنیا اور ریاست مدینہ کا ماڈل:

جب ہم ماضی قریب میں جھانکتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں کی حصولِ اقتدار و طاقت، وسائل پر قبضہ اور حرص و لالچ کے باعث جنگی حکمتِ عملیوں کی وجہ سے عراق، افغانستان، یوکرین، شام، لیبیا، فلسطین، سوڈان سمیت متعدد ممالک آگ کا نوالہ بن گئے- یہ ممالک کھنڈارات میں تبدیل ہوچکے ہیں جب لاکھوں عوام محض چند مالی و معاشی مفادات کی خاطر لقمہ اجل بن گئے ہیں- امریکہ کی عراق و افغانستان پر فوجی یلغار، روس کی یوکرین میں مداخلت، اسرائیل کی فلسطین میں وحشیانہ کارروائیاں، یہ سب طاقتِ قہر کی مثالیں ہیں- ان پالیسیوں نے ان طاقتوں کے مفادات کو وقتی فتح تو دی، مگر عالمی دنیا کو طویل المدتی امن فراہم نہ کر سکیں- جدید ریاستوں میں سفارتکاری اکثر طاقت کے حصول کا ذریعہ بن چکی ہے، نہ کہ پرامن بقائے باہمی کا- اقوام متحدہ جیسے ادارے بھی اکثر بڑی طاقتوں کے سیاسی مفادات کے تابع ہو جاتے ہیں-اس لئے 'سافٹ پاور' کے فقدان نے دنیا کو شدید عدم استحکام، نفرت اور مہاجرین کے بحران سے دوچار کر دیا ہے- مذہبی انتہا پسندی، لسانی تعصب اور عوامی بے چینی ان ہی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہیں- آج دنیا کو ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جو امن، انصاف اور مکالمہ پر مبنی ہو- ریاستِ مدینہ کا ماڈل جدید ریاستوں پہ واضح کرتا ہے کہ طاقت صرف تلوار میں نہیں، بلکہ اخلاق، انصاف اور حکمت میں بھی ہے- رسول اللہ (ﷺ)کی قیادت میں ریاستِ مدینہ میں سب کو مذہبی آزادی حاصل تھی- ریاستِ مدینہ ہمیں ایک ایسی ریاست کا تصور دیتی ہے جو طاقت کے بجائے اخلاق، عدل اور اخلاص پر قائم ہے- ایسی ریاست نہ صرف اپنے شہریوں کے لیے بلکہ دنیا کیلئے بھی باعثِ امن بن سکتی ہے- عدل و انصاف سب کے لیے یکساں تھا- ایسے اصول آج کے عالمی نظام میں شدید کمیاب ہیں- اگر ان اصولوں کو اپنایا جائے تو دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے-

مسائل کے پر امن حل کے لئے طاقتِ لطیف کے مؤثر ترین استعمال کا مقصد تشدد سے اجتناب مقصود ہوتا ہے جس کو ہرگز کمزوری یا بے بسی کی علامت نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس سے  مذاکرات، ثقافتی اثر و رسوخ اور مثبت تاثر کے ذریعے دیرپا نتائج پیدا کیے جاتے ہیں- تاہم، عالمی سیاست اور تنازعات کی نوعیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی اور بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جہاں صرف طاقتِ لطیف سے مسئلے کا حل ممکن نہیں ہوتا- ایسے مواقع پر 'ہارڈ پاور'، یعنی عسکری یا معاشی دباؤ، ناگزیر ہو جاتا ہے- مگر یہ ضروری ہے کہ ریاستیں طاقتِ قہر کے استعمال کے سہارا کو آخری حل کے طور پر لیں، جب تمام پرامن اور نرم و لطیف ذرائع آزما لیے جائیں، تاکہ طاقت کے استعمال سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کو کم سے کم رکھا جا سکے اور امن کے امکانات کو برقرار رکھا جا سکے- عالمی تنازعات کی تاریخ میں متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ تشدد ، قتل و غارت اور بے پناہ نقصانات کے باوجود مذکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالا گیا ہے-

اختتامیہ:

آج کی دنیا جس کشمکش، سیاسی عدم توازن اور جنگی جنون کا شکار ہے، وہاں 'ہارڈ پاور' کے استعمال کی بجائے 'سافٹ پاور' کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے- جب طاقتور ریاستیں ایک دوسرے پر برتری کے لیے فوجی طاقت اور اقتصادی دباؤ کا سہارا لیتی ہیں، تو دنیا امن سے محروم ہو جاتی ہے- ایسے میں رسول اللہ (ﷺ) کا اسلوبِ حکمرانی دنیا کے سامنے ایک ایسا نمونہ رکھتا ہے جو طاقت کے بجائے اعلیٰ اخلاق، حکمت عملی، پیار ، محبت ، مکالمے اور رواداری پر مبنی ہے-

ریاستِ مدینہ نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ دنیا کی تمام اقوام کے لیے ایک عالمی ماڈل کے طور پر سامنے ابھرتی ہے، جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اختلافات کو طاقت سے نہیں بلکہ فہم و فراست اور حسنِ سلوک سے حل کیا جا سکتا ہے- اگر اقوامِ عالم سیرتِ نبوی (ﷺ) سے سبق حاصل کریں تو نہ صرف عالمی سیاست کا مزاج بدل سکتا ہے، بلکہ ایک ایسا پرامن بین الاقوامی نظام قائم ہو سکتا ہے جس میں ہر قوم باوقار، محفوظ اور مساوی حیثیت میں اپنا کردار ادا کر سکے- بقول اقبال :

اس دَور میں اقوام کی صُحبت بھی ہُوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ مِلل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیّتِ اقوام کہ جمعیّت آدم!

٭٭٭


[1]The realist school of thought in international relations places a strong emphasis on the acquisition and maintenance of power by states. Morgenthau, Hans J. Politics Among Nations: The Struggle for Power and Peace. 7th ed. Revised by Kenneth W. Thompson. New York: McGraw-Hill, 2006.

[2]Stockholm International Peace Research Institute (SIPRI). Trends in World Military Expenditure, 2024. Fact Sheet, April 2025. https://www.sipri.org/sites/default/files/2025-04/2504_fs_milex_2024.pdf.

[3]Al-Samarraieb, S. A., N. A. F. M. Al-Samarraiec, and I. S. A. Al-Samarraiea. "Peaceful Coexistence Policy Applied by the Prophet Mohammed (PBUH) in Al-Medina." Utopía y Praxis Latinoamericana 26, no. Esp.1 (2021): 81–89. Universidad del Zulia

[4]Hard‑Power,” Cambridge English Dictionary, Cambridge University Press, accessed August 6, 2025, https://dictionary.cambridge.org/dictionary/english/hard-power

[5]Gray, Colin S. Hard Power and Soft Power: The Utility of Military Force as an Instrument of Policy in the 21st Century. Monograph no. 581. Carlisle, PA: US Army War College Press, April 1, 2011.

https://press.armywarcollege.edu/monographs/581.

[6]Nye, Joseph S., Jr. "Soft Power." Foreign Policy, no. 80 (Autumn 1990): 153–171.

Washingtonpost.Newsweek Interactive, LLC. http://www.jstor.org/stable/1148580.

[7]Woods, Kevin. Understanding the Global Soft Power Index 2025. Brand Finance, February 20, 2025. Brand Finance. https://brandfinance.com/insights/understanding-the-global-soft-power-index-2025.

[8]Brand Finance. Global Soft Power Index 2024: A World in Flux. London: Brand Finance, February 29, 2024. PDF file. https://static.brandirectory.com/reports/brand-finance-soft-power-index-2024-digital.pdf.

[9](الانبیاء:107)

[10]Al‑Sharif, Ahmad Ibrahim, et al. 2024. The Era of Prophet Muhammad (Prophet’s Period in Mecca). Jurnal Pendidikan Islam 1 (2): 81–87. https://doi.org/10.70938/judikis.v1i2.38.

[11]Hudaibiyah: A Turning Point in the History of Islam.” Arab News. Nov 9, 2012.

https://www.arabnews.com/hudaibiyah-turning-point-history-islam

[12]Abdul Muhaimini. "Treaties of the Prophet Muhammad (Peace Be Upon Him): A Study of the Modern Approaches in Sīrah Writing." Tahdhīb al Afkār (Jul–Dec 2014).

[13]Qadri, Hassan Mohi‑ud‑Din. The Constitution of Medina & the Concept of the Welfare State: Introduction and Salient Features. Two volumes. Farid‑e‑Millat Research Institute/Minhaj‑ul‑Quran International, January ٓٓ20ٓ24.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر