قائداعظم اور "راست اقدام" کی سیاست

قائداعظم اور

قائداعظم اور "راست اقدام" کی سیاست

مصنف: پروفیسر فتح محمد ملک اگست 2017

  کابینہ مشن پلان جھوٹ اور فریب کا ایک سنگین جال تھا جسے قائداعظم کی سی نظریاتی صلابت ہی توڑ سکتی تھی-پاکستان اور بھارت کی فیڈریشن قائم کر کے خطے میں ہندو بھارت کی بالادستی کے خام خیال میں مبتلا چند صحافی کابینہ مشن پلان کو ہماری قومی آزادی کی تاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنے پر مجبور ہیں-حقیقت یہ ہے کہ کابینہ مشن قیامِ پاکستان کوروکنے اور اکھنڈ بھارت کے قیام کی خاطر بھیجا گیا تھا-یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن چکی تھی- برصغیر کے گلی کوچوں میں اس طرح کے نعرے گونجنے لگے تھے:

لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان

 

اِس قوت کو انتشار میں مبتلا کر کے بھارت کی سامراجی وحدت کا حصول برطانوی استعمار اور امریکی حکومت کا ایک مشترکہ مقصد بن چکا تھا- بالکل اس طرح جس طرح آج مغرب کی استعماری قومیں اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کی خاطر پاکستان کو بھارت کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ کرنے میں کوشاں ہیں-

اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ایٹلی نے 15مارچ1946ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے وقت بڑی رعونیت کے ساتھ کہا تھا کہ :

“We are mindful of the rights of the minorities. On the other hand we cannot allow a minority to place a veto on the advance of a majority”.

’’ہم اقلیتوں کے حقوق سے واقف ہیں- دوسرے ہاتھ پر، ہم اقلیت کو کسی بھی اکثریت کو آگے لانے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘-

درج بالا اعلان اِس حقیقت کا کھلا ثبوث ہے کہ برطانوی استعمار مسلمانوں کو ایک الگ قوم اور اپنی جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیادپر پاکستان کے قیام کی اجازت دینے سے انکاری ہے-برصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے ایک جداگانہ، منفرد اور مہذب قوم علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)نے قرار دیا تھا-اِسی محکم استدلال کی ہر آن تازہ تر تشریح قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کے حصے میں آئی تھی-برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت کے اِس تصور کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا کر مسلمانوں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے پرچم تلے جمع کر لیا تھا- ایسے میں برطانوی وزیر اعظم کی یہ دھمکی کہ وہ مسلمان ’’اقلیت ‘‘کو ہندو اکثریت کے مفادات پر ویٹو کا حق ہرگز نہ دیں گے قابل غور ہے-اِس پُرفریب جملے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ برطانوی استعمار برصغیر کے مسلمانوں کو کسی صورت میں بھی پاکستان قائم کرنے کی اجازت نہ دے گا-برطانوی استعمار کی اپنے اِس مذموم مقصد کے حصول میں ناکامی صرف ایک شخص کے ایمان محکم اور ندرتِ کردار کا نتیجہ تھی-اِس عظیم شخصیت کو دُنیا قائد اعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ) کے نام سے پہچانتی ہے-

قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)برطانوی استعمار کے مکر و فریب سے بھی آگاہ تھے اور اُس کی اندرونی کمزوریوں سے بھی خوب واقف تھے-اپنے ایک انٹرویو میں قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے کیبنٹ مشن کے عیار ترین اور طاقتور ترین رُکن سرپیتھک لارنس کو ایک ایسا مداری(that ingenious juggler of words) قرار دیا تھا جولفظوں کے گورکھ دھندوں سے فریب کے جال بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا-ایک برطانوی سیاسی مؤرخ لیونارڈ موزلے اپنی کتاب بعنوان ’’The Last Days of the British Raj‘‘ میں لکھتا ہے کہ قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)سے ملاقات کے تصور ہی سے کابینہ مشن کے ارکان کی جان جاتی تھی:

“Jinnah depressed them by his cold, arrogant, insistant demand for Pakistan or nothing. An encounter with Jinnah cast them down”.

’’جناح نے انہیں پاکستان یا کچھ نہیں کے پختہ، بلاسمجھوتہ اور مستقل  مطالبے سے متاثر کیا- جناح کا سامنا اُنہیں کمزور کرتا تھا‘‘-

چنانچہ قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے مذاکرات کی میز پر بھی ہتھیار پھینک دینے کی بجائے دادِ شجاعت دینے کی حکمت عملی اپنائی-نتیجہ یہ کہ جب کابینہ مشن پلان منظر عام پر آیا تو کانگرسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی- غُل مچا کہ ہم ’’ایک پاکستان‘‘ پر بھی تیار نہیں مگر آل انڈیا کانگریس کے لیڈر ابوالکلام آزاد نے ’’دو پاکستان‘‘ دے دیئے ہیں-چنانچہ بلا تاخیر مولانا آزاد کو مسندِ صدارت سے ہٹا کر جواہر لال نہرو کو کانگرس کا صدر مقرر کر دیا گیا-پنڈت نہرو نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کیبنٹ مشن پلان کے لفظ تو وہی رہنے دیئے مگر معنی تبدیل کر کے رکھ دیئے-حر ف و معنی کے اِس تصادم پر قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کے ردِعمل کو لیونارڈ موزلے درج ذیل لفظوں میں بیان کرتے ہیں:

“Mr. Jinnah reacted to Nehru's statement like an army leader who has come in for armistic discussion under a flag of truce and finds himself looking down the barrel of a cocked revolver”.

’’مسٹر جناح نے نہرو کے بیان پر ایسا ردعمل دیا جیسا کہ ایک فوجی جو کہ مخالف سے کسی امن معاہدے کے جھنڈے تلے (دشمن)سے بات چیت کرنے آیا ہو اور خود کو(اپنے) لوڈ پستول کی طرف متوجہ پایا ہو‘‘-

جلد وہ وقت آ پہنچا جب قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول باہر نکالا اور برطانوی سامراج کے سینے پر تان دیا-انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم بند کمرے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وقت برباد کرنے کی بجائے زندگی کے کھلے میدان میں مسلمان قوم کی عوامی عدالت میں جائیں گے-چنانچہ 16اگست کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے (راست اقدام کے آغاز کا دن) قرار دے دیا گیا- جولائی کے آخری ہفتے میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ بمبئی میں اپنے خطاب کے دوران قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے  اعلان فرمایا کہ:

“All these prove clearly beyond a shadow of doubt that the only solution of India's problem is Pakistan. I feel we have exhausted all reasons. It is no other tribunal to which we can go. The only tribunal is the Muslim nation”.

’’یہ تمام شبہات کے سائے سے ہٹ کر بہت واضح طورثابت کرتے ہیں کہ مسئلہ بھارت کا واحد حل پاکستان (کی تخلیق )ہے-میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم نے تمام وجوہات کو بہت بڑھا دیا ہے-ایسا کوئی بھی ٹریبونل (قانونی ڈھانچہ) نہیں ہے جہاں ہم جا سکیں -واحد ٹریبونل مسلم قوم ہے جہاں ہم جا سکتے ہیں-(جو پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں) ‘‘-

چنانچہ مسلم لیگ کونسل نے ایک قرار داد میں مسلمان عمائدین سے مطالبہ کیا کہ برطانوی سامراج کی مسلمان دشمن حکمتِ عملی پر احتجاج کے طور پر وہ تمام برطانوی خطابات واپس کر دیں اور برطانوی ہند کی انگریز حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کریں:

“The time has come for the Muslim nation to resort to direct action to achieve Pakistan and to get rid of the present slavery under the British and contemplated future Caste Hindu domination”.

’’وقت آچکا ہے کہ مسلمان قوم پاکستان کے حصول کے لیے واضح  اور  براہِ راست عملاًکچھ کریں اور برطانوی راج اور مستقبل میں ہندو بالادستی سے چھٹکارہ حاصل کریں‘‘-

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ)نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلمان عوام کے اس راست اقدام کو قیامِ پاکستان سے برطانوی حکومت کے انکار پر احتجاج کا نام دیا-یہ راست اقدام کلکتہ سے لے کر پشاور تک پورے برصغیر میں قیامِ پاکستان کے حق میں ایک ریفرنڈم ثابت ہوا- کلکتہ کے جلوس سے بلند ہونے والا یہ نعرہ کہ ’’لڑ،کے لیں گے پاکستان‘‘مسلم ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگا اور بالآخر مسلمان قوم کے اِس عوامی جمہوری احتجاج کے سامنے برطانوی حکومت نے ہتھیار پھینک دیئے اور یوں پاکستان وجود میں آ گیا-

حیرت کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کی مفروضہ ’’غلطیوں ‘‘ کو اُچھالنے میں مصروف صحافی اِس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک عوامی جمہوری تحریک کا ثمر ہے-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کی عظیم قیادت میں اِس عوامی جمہوری تحریک کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جولائی کے آخر میں منعقدہ انتخابات میں مسلم لیگ نے کل 86مسلم نشستوں میں سے 79نشستیں حاصل کر کے پچانوے فیصد (95%)مسلمانوں کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر لیا تھا-افسوس کہ ہمارے ہاں اِس حقیقت الحقائق سے مسلسل چشم کوشی چند صحافتی عناصر کا شیوہ بن کر رہ گیا ہے-اب وقت آ گیا ہے کہ اِن عناصر کو خبردار کیا جائے کہ جب وہ قیامِ پاکستان کوقائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)یا قائدِملت کی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ اُس عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں جس نے پہلے ووٹ کی پرچی کے ذریعے عوام کی اجتماعی رائے کی نمائندگی کی اور پھر جب برطانوی استعمار نے قیامِ پاکستان کے حق میں مسلمان عوام کے فیصلے کو مسترد کر دیا تو ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے، احتجاج اور بغاوت کے راستے پر چلتے ہوئے پاکستان قائم کر دکھایا تھا-

 

٭٭٭

 کابینہ مشن پلان جھوٹ اور فریب کا ایک سنگین جال تھا جسے قائداعظم کی سی نظریاتی صلابت ہی توڑ سکتی تھی-پاکستان اور بھارت کی فیڈریشن قائم کر کے خطے میں ہندو بھارت کی بالادستی کے خام خیال میں مبتلا چند صحافی کابینہ مشن پلان کو ہماری قومی آزادی کی تاریخ کے مختلف ارتقائی مراحل کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنے پر مجبور ہیں-حقیقت یہ ہے کہ کابینہ مشن قیامِ پاکستان کوروکنے اور اکھنڈ بھارت کے قیام کی خاطر بھیجا گیا تھا-یہ وہ زمانہ تھا جب قائد اعظم (﷫)کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن چکی تھی- برصغیر کے گلی کوچوں میں اس طرح کے نعرے گونجنے لگے تھے:

لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان

اِس قوت کو انتشار میں مبتلا کر کے بھارت کی سامراجی وحدت کا حصول برطانوی استعمار اور امریکی حکومت کا ایک مشترکہ مقصد بن چکا تھا- بالکل اس طرح جس طرح آج مغرب کی استعماری قومیں اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کی خاطر پاکستان کو بھارت کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ کرنے میں کوشاں ہیں-

اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم مسٹر ایٹلی نے 15مارچ1946ء کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے وقت بڑی رعونیت کے ساتھ کہا تھا کہ :

“We are mindful of the rights of the minorities. On the other hand we cannot allow a minority to place a veto on the advance of a majority”.

’’ہم اقلیتوں کے حقوق سے واقف ہیں- دوسرے ہاتھ پر، ہم اقلیت کو کسی بھی اکثریت کو آگے لانے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘-

درج بالا اعلان اِس حقیقت کا کھلا ثبوث ہے کہ برطانوی استعمار مسلمانوں کو ایک الگ قوم اور اپنی جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیادپر پاکستان کے قیام کی اجازت دینے سے انکاری ہے-برصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے ایک جداگانہ، منفرد اور مہذب قوم علامہ اقبال (﷫)نے قرار دیا تھا-اِسی محکم استدلال کی ہر آن تازہ تر تشریح قائد اعظم (﷫)کے حصے میں آئی تھی-برصغیر میں مسلمانوں کی آزاد اور خود مختار مملکت کے اِس تصور کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سیاسی پروگرام بنا کر مسلمانوں کو ایک عوامی جمہوری تحریک کے پرچم تلے جمع کر لیا تھا- ایسے میں برطانوی وزیر اعظم کی یہ دھمکی کہ وہ مسلمان ’’اقلیت ‘‘کو ہندو اکثریت کے مفادات پر ویٹو کا حق ہرگز نہ دیں گے قابل غور ہے-اِس پُرفریب جملے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ برطانوی استعمار برصغیر کے مسلمانوں کو کسی صورت میں بھی پاکستان قائم کرنے کی اجازت نہ دے گا-برطانوی استعمار کی اپنے اِس مذموم مقصد کے حصول میں ناکامی صرف ایک شخص کے ایمان محکم اور ندرتِ کردار کا نتیجہ تھی-اِس عظیم شخصیت کو دُنیا قائد اعظم محمد علی جناح (﷫) کے نام سے پہچانتی ہے-

قائد اعظم (﷫)برطانوی استعمار کے مکر و فریب سے بھی آگاہ تھے اور اُس کی اندرونی کمزوریوں سے بھی خوب واقف تھے-اپنے ایک انٹرویو میں قائد اعظم (﷫)نے کیبنٹ مشن کے عیار ترین اور طاقتور ترین رُکن سرپیتھک لارنس کو ایک ایسا مداری(that ingenious juggler of words) قرار دیا تھا جولفظوں کے گورکھ دھندوں سے فریب کے جال بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا-ایک برطانوی سیاسی مؤرخ لیونارڈ موزلے اپنی کتاب بعنوان ’’The Last Days of the British Raj‘‘ میں لکھتا ہے کہ قائد اعظم (﷫)سے ملاقات کے تصور ہی سے کابینہ مشن کے ارکان کی جان جاتی تھی:

“Jinnah depressed them by his cold, arrogant, insistant demand for Pakistan or nothing. An encounter with Jinnah cast them down”.

’’جناح نے انہیں پاکستان یا کچھ نہیں کے پختہ، بلاسمجھوتہ اور مستقل  مطالبے سے متاثر کیا- جناح کا سامنا اُنہیں کمزور کرتا تھا‘‘-

چنانچہ قائد اعظم (﷫)نے مذاکرات کی میز پر بھی ہتھیار پھینک دینے کی بجائے دادِ شجاعت دینے کی حکمت عملی اپنائی-نتیجہ یہ کہ جب کابینہ مشن پلان منظر عام پر آیا تو کانگرسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی- غُل مچا کہ ہم ’’ایک پاکستان‘‘ پر بھی تیار نہیں مگر آل انڈیا کانگریس کے لیڈر ابوالکلام آزاد نے ’’دو پاکستان‘‘ دے دیئے ہیں-چنانچہ بلا تاخیر مولانا آزاد کو مسندِ صدارت سے ہٹا کر جواہر لال نہرو کو کانگرس کا صدر مقرر کر دیا گیا-پنڈت نہرو نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کیبنٹ مشن پلان کے لفظ تو وہی رہنے دیئے مگر معنی تبدیل کر کے رکھ دیئے-حر ف و معنی کے اِس تصادم پر قائد اعظم (﷫)کے ردِعمل کو لیونارڈ موزلے درج ذیل لفظوں میں بیان کرتے ہیں:

“Mr. Jinnah reacted to Nehru's statement like an army leader who has come in for armistic discussion under a flag of truce and finds himself looking down the barrel of a cocked revolver”.

’’مسٹر جناح نے نہرو کے بیان پر ایسا ردعمل دیا جیسا کہ ایک فوجی جو کہ مخالف سے کسی امن معاہدے کے جھنڈے تلے (دشمن)سے بات چیت کرنے آیا ہو اور خود کو(اپنے) لوڈ پستول کی طرف متوجہ پایا ہو‘‘-

جلد وہ وقت آ پہنچا جب قائداعظم (﷫)نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول باہر نکالا اور برطانوی سامراج کے سینے پر تان دیا-انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہم بند کمرے میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وقت برباد کرنے کی بجائے زندگی کے کھلے میدان میں مسلمان قوم کی عوامی عدالت میں جائیں گے-چنانچہ 16اگست کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے (راست اقدام کے آغاز کا دن) قرار دے دیا گیا- جولائی کے آخری ہفتے میں مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ بمبئی میں اپنے خطاب کے دوران قائد اعظم (﷫)نے  اعلان فرمایا کہ:

“All these prove clearly beyond a shadow of doubt that the only solution of India's problem is Pakistan. I feel we have exhausted all reasons. It is no other tribunal to which we can go. The only tribunal is the Muslim nation”.

’’یہ تمام شبہات کے سائے سے ہٹ کر بہت واضح طورثابت کرتے ہیں کہ مسئلہ بھارت کا واحد حل پاکستان (کی تخلیق )ہے-میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم نے تمام وجوہات کو بہت بڑھا دیا ہے-ایسا کوئی بھی ٹریبونل (قانونی ڈھانچہ) نہیں ہے جہاں ہم جا سکیں -واحد ٹریبونل مسلم قوم ہے جہاں ہم جا سکتے ہیں-(جو پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں) ‘‘-

چنانچہ مسلم لیگ کونسل نے ایک قرار داد میں مسلمان عمائدین سے مطالبہ کیا کہ برطانوی سامراج کی مسلمان دشمن حکمتِ عملی پر احتجاج کے طور پر وہ تمام برطانوی خطابات واپس کر دیں اور برطانوی ہند کی انگریز حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کریں:

“The time has come for the Muslim nation to resort to direct action to achieve Pakistan and to get rid of the present slavery under the British and contemplated future Caste Hindu domination”.

’’وقت آچکا ہے کہ مسلمان قوم پاکستان کے حصول کے لیے واضح  اور  براہِ راست عملاًکچھ کریں اور برطانوی راج اور مستقبل میں ہندو بالادستی سے چھٹکارہ حاصل کریں‘‘-

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح (﷫)نے برطانوی حکومت کے خلاف مسلمان عوام کے اس راست اقدام کو قیامِ پاکستان سے برطانوی حکومت کے انکار پر احتجاج کا نام دیا-یہ راست اقدام کلکتہ سے لے کر پشاور تک پورے برصغیر میں قیامِ پاکستان کے حق میں ایک ریفرنڈم ثابت ہوا- کلکتہ کے جلوس سے بلند ہونے والا یہ نعرہ کہ ’’لڑ،کے لیں گے پاکستان‘‘مسلم ہندوستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگا اور بالآخر مسلمان قوم کے اِس عوامی جمہوری احتجاج کے سامنے برطانوی حکومت نے ہتھیار پھینک دیئے اور یوں پاکستان وجود میں آ گیا-

حیرت کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم (﷫)کی مفروضہ ’’غلطیوں ‘‘ کو اُچھالنے میں مصروف صحافی اِس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک عوامی جمہوری تحریک کا ثمر ہے-قائد اعظم (﷫)کی عظیم قیادت میں اِس عوامی جمہوری تحریک کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جولائی کے آخر میں منعقدہ انتخابات میں مسلم لیگ نے کل 86مسلم نشستوں میں سے 79نشستیں حاصل کر کے پچانوے فیصد (95%)مسلمانوں کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر لیا تھا-افسوس کہ ہمارے ہاں اِس حقیقت الحقائق سے مسلسل چشم کوشی چند صحافتی عناصر کا شیوہ بن کر رہ گیا ہے-اب وقت آ گیا ہے کہ اِن عناصر کو خبردار کیا جائے کہ جب وہ قیامِ پاکستان کوقائد اعظم (﷫)یا قائدِملت کی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ اُس عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں جس نے پہلے ووٹ کی پرچی کے ذریعے عوام کی اجتماعی رائے کی نمائندگی کی اور پھر جب برطانوی استعمار نے قیامِ پاکستان کے حق میں مسلمان عوام کے فیصلے کو مسترد کر دیا تو ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے، احتجاج اور بغاوت کے راستے پر چلتے ہوئے پاکستان قائم کر دکھایا تھا-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر