دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط5)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط5)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب،قسط5)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی فروری 2016

یہ جو چند اقسام بیان کی ہیں کہ جو سروے رپورٹس میں شمار نہیں کئے جا سکتے اِن میں سے ہر ایک طبقہ کی زندگی کا مطالعہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دل فگار اور غم انگیز ہے کہ کس طرح والد یا والدہ یا دونوں والدین کا سایہ اُٹھ جانے کے بعد ان کی حالت ہوتی ہے - زیادہ گہرائی میں نہ بھی جھانکا جائے تو صرف اتنا تجربہ تو ہر ایک کو ہوگا کہ آپ جب اپنی گاڑی کا کام کروانے کسی ورکشاپ میں جاتے ہیں وہاں جو لڑکا آپ کو گریس اور موبل آئل کی سبز مائل سیاہی میں لتھڑا ہوا کام کرتا نظر آئے گا ، ذرا اُسے اپنے قریب بلائیے اور اُس سے اَحوال پوچھئے اُس کا انٹر ویو کیجئے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یتیمی کس روگ کا نام ہے ؟ وہ آپ کو بتائے گا کہ اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں ﴿جن میں ایک دو معذور یا بیمار بھی ہونگے ﴾ کے ساتھ کس طرح کم بستروں میں ٹھنڈے فرش پہ سردی کی شدّت سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر رات گزاری ہے - وہ آپ کو بتائے گا کہ کس طرح اس نے اپنے سے چھوٹے بھائی کے ساتھ مزدوری کی انتہائی قلیل رقم سے بمشکل ناشتہ کی روٹی خریدی اور کچھ نے گلی کی نکڑ سے کوڑے کے ڈھیر سے چُن کر پورا کیا - وہ آپ کو بتائے گا کہ کس طرح وہ اپنے یتیم بہن بھائیوں کی پرورش کیلئے سارا دن اُستاد اور گاہکوں کا زبانی ، کلامی و بدنی تشدُّد سہتا ہے - وہ آپ کو بتائے گا کہ کس طرح محلہ داروں کے بچوں کے کھلونے دیکھ کر رونے والے اپنے چھوٹوں کو وہ چپ کرواتا ہے اور کس طرح گلی میں پھینکے گئے فروٹ کے چھلکوں پہ جی للچانے پہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو منیج کرتا ہے     -

مجھے نہیں معلوم کہ یہ کہنا درست ہو گا یا نہیں ؟ لیکن اپنے معاشرے کی حالت دیکھ کر یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مرتے والدین ہیں مگر اُن کی موت کا ذائقہ اُن کے کمسن یتیم چکھتے ہیں     -

ہمیں اپنے اندر یہ احساسِ ذِمّہ داری اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ لازمی نہیں ہم دیہاتوں میں اور شہروں میں یتیم ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں اور کاغذوں تک محدود کسی جعلی ’’این جی او مارکہ صابن‘‘ کی چمکدار صفائی اور اُجلی دھلائی سے اپنی جیب دھلوا بیٹھیں ، صاف کروا بیٹھیں - اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو ہمارے اپنے محلہ ، اپنی گلی میں ، ہمارے ارد گرد میں ایسے لوگ موجود ہونگے جن کی کفالت ، جن کی سرپرستی ، جن کی معاونت ، جن کی مدد اللہ تعالیٰ نے کئی حوالوں سے ہم پہ لازم فرمائی ہے اور اپنے محبوبین کو اُن سے پیار اور شفقت کرتے ہوئے دکھایا ہے - یہ چھوٹا سا اِحساس ہمیں سمجھانے کیلئے بہت ہو رہے گا کہ کیوں اِس نوعیّت کے لوگوں اور اس طرح کے حالات رکھنے والوں پہ اللہ د مہربان ہے اور کیوں اُس کے رسول ﷺ اس دُکھی اور حساس طبقۂ انسانی کی دلجوئی فرماتے - آقا کریم ﷺ نے یتیم کی کفالت کرنے والے ، یتیم کے احساسات کا خیال رکھنے والے اور اُس پہ شفقت کرنے والے کو یہ خوشخبری سُنائی کہ وہ جنّت میں میرے ساتھ ہوگا     :

 

    ﴿اَنَا وَ کَافِلُ الْیَتِیْمِ فِیْ الْجَنَّۃِ ہٰکَذَا ، وَاَشَارَ بِا السَّبَابَۃِ وَالْوُسْطیٰ ، وَ فَرَّجَ بَیْنَھُمَا شَیْئًا﴾ ﴿سنن ابو داؤد ، کتاب النوم﴾

’’آقا ﷺ نے اپنی شھادت کی انگلی مبارک اور درمیانی انگلی مبارک کو جوڑتے ہوئے درمیان میں تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے اشارہ کیا اور فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح ہوں گے     ‘‘ -

 

اگر آدمی سوچے تو زیادہ مہنگا سودا نہیں ہے کیونکہ آقا ﷺ کا قرب جس بھی قیمت پہ ملے وہ حاصل کرنا چاہئے ، اور جنت میں آقا کریم ﷺ کا قُرب ہو تو اور کیا چاہئے کہ آپ ﷺ کی ہمسائیگی میں تو انبیا کرام علیہم السلام ہونگے - جہاں حضور ﷺ نے یتیموں سے شفقت کا فرمایا ہے وہیں قرآن پاک نے ایسے لوگوں پہ سخت احکامات فرمائے جو ان سے ناروا اور سخت رویّہ رکھتے ہیں - قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

 

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ‘‘-

سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۴۳ جو کہ ۳۱/ احکامات میں سے نواں ﴿9th﴾ حُکم سُناتی ہے جہاں سے یہ ساری گفتگو چلی ہے اگر اُس میں دیکھیں تو جہاں یتیم کا خیال رکھنے اور اسے ’’لک آفٹر‘‘ کرنے کا حُکم دِیا وہیں یہ بھی فرمایا کہ ’’تم مالِ یتیم کے قریب بھی نہ جانا‘‘ یعنی اُس میں سے کچھ اپنے لئے نہ رکھنا ، یا ناجائز و ناروا طریقہ سے استعمال نہ کرنا ، اُس میں غصب نہ لگانا ، اُس کی جائیداد اور اثاثہ جات پہ قابض نہ ہونا -

﴿وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہ﴾﴿الاسرائ:۴۳

’’اور تم یتیم کے مال کے ﴿بھی﴾ قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقہ سے جو ﴿یتیم کے لیے﴾ بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے ‘‘-

حقائق چھپانے سے اِصلاح ممکن نہیں رہتی ، ہمارے دیہاتی زمیندارہ کلچر میں کسی زمانے یہ خرابی بہت عروج پہ تھی ، لیکن رئیل اسٹیٹ بزنس کے فروغ پانے کے بعد اب یہ کام زیادہ تر مؤخر الذکر لوگوں نے سنبھالا ہوا ہے - قبضہ گروپوں کی داستانیں روزانہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی ہیں جو کہ در حقیقت اُن بے نواؤں کی زمین و جائیداد پہ قابض ہوتے ہیں جن کی مدد و معاونت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ، اُن میں بکثرت یتیموں کی جائیداد ہوتی ہے - معاشرے کو ضرورت ہے کہ یتیموں کے مال پہ غصب لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور انہیں سیاسی و اخلاقی سپورٹ مہیّا نہ کی جائے - اگر ایک انسان صرف اتنا سوچ لے کہ میں نے بھی مرنا ہے اور دُنیا سے جانا ہے ، میرے بچے بھی یتیم ہو سکتے ہیں میرے بچوں کے بچے یتیم ہو سکتے ہیں - تو آج اگر مالِ یتیم پہ غصب لگانے والوں کی گرفت کی معاشرتی رسم پڑی ہوگی تو کل کو ہمیں مرتے ہوئے یہ یقین ہوگا ، یہ تسلی ہو گی اور یہ اطمینان ہو گا کہ میرے بچوں یا میرے بچوں کے بچوں سے کوئی زیادتی و ظلم نہیں کر سکے گا ، کوئی ان کی اِملاک و جائیداد پہ غصب و قبضہ نہیں کر سکے گا ، کوئی اِن کے حقوق کو پامال نہیں کر سکے گا کیونکہ یہ اُس سماج کا اُس معاشر کا حصہ ہیں جہاں لوگ یتیموں اور بے نواؤں پہ غصب لگانے والوں کو عوامی محاسبہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے - لیکن اگر آج اپنے کسی دوسرے عزیز ، رشتہ دار ، محلہ دار ، پڑوسی ، دوست یا کسی جاننے والے کے یتیم بچوں سے ہونے والی زیادتی پہ ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قُدرت کا انتقام خاموش ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں کہ ’’خُدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ‘‘ وہ جب چلتی ہے تو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے چلی ہے لیکن قدرت اپنا اِنصاف ضرور اِسی دُنیا میں ظاہر کرتی ہے - ہمیں اِس جُرم پہ خاموشی اِختیار کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کل کو یہی رسم ہمارے بال بچوں سے بھی دُہرائی جائے گی -

یہ تو ذکر تھا اُن قبضہ گروپوں کا جو پرائیویٹ ہیں یعنی بااثر جاگیر دار ، وڈیرے اور علاقوں کے رسہ گیر لوگ اور ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ کے قبضہ گروپ ، گو کہ میرا مینڈیٹ نہیں ہے یہ بات کرنے کا ، مگر جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ حقائق چھپانے سے اِصلاحی عمل ممکن نہیں رہتا - ہمارے ہاں اموالِ یتیم پہ غصب لگانے والے سرکاری گروہ بھی موجود ہیں : وزارتوں اور اِداروں میں بھی یتیموں کے نام پہ فنڈز قائم کئے گئے ہیں جو کہ مرکز سے لیکر یونین کونسل کی سطح تک آتے ہیں ، وہاں کا عملہ ، انچارج صاحبان ، افسرانِ زیریں و افسرانِ بالا یا وزیر یا دیگر ذِمّہ داران اُس فنڈ میں سے جو کرپشن کرتے ہیں وہ بھی حقوقِ یتیم پہ ڈاکہ ہے - گو کہ وہ فنڈ کسی مختص شُدہ ، نامزد مخصوص فیملی کا تو نہیں البتّہ بطور مجموعی وہ پوری قوم کا ہے کہ کہیں بھی کوئی بھی اگر یتیم ہے تو اُس کی فلاح و بہبود ، تعلیم و تربیّت ، رہائش اور کھانا پینا اور دیگر ضروریات پہ خرچ کیا جائے گا - پرائیویٹ قبضہ گروپ تو اِنفرادی لوٹ مار کرتے ہیں جبکہ کثرتِ وسائل و وسعتِ اختیارات کی وجہ سے سرکاری بد عنوان ملازمین و وزرأ اِجتماعی لوٹ مار کرتے ہیں - اِس لئے ایسے لوگ جو سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کرکے ایسے بڑے فنڈز ہڑپ کرتے ہیں وہ اُن لوگوں سے زیادہ بد تر بلکہ بد ترین ہیں جو انفرادی سطح پہ حقوقِ یتیم کھاتے ہیں - جو بد طینت لوگ سرکاری اختیارات سے یا ذاتی لوٹ کھسوٹ سے حقوق و مالِ یتیم پہ ڈاکہ ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اُن کا اَنجام بیان فرمایا :

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًاط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًاo﴾ ﴿النسا : ۰۱

’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے‘‘-

اِس آیت مبارکہ کا اِطلاق دونوں کیفیات میں ہے اِس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی - جہاں تک اِس فرمان کا تعلّق ہے کہ ﴿فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا﴾ یعنی پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں ، اِس سزا کا اِشارہ اِسی دُنیا میں دی جانے والی سزا کی طرف ہے کہ چاہے غصب لگانے والے پہ کوئی دُنیاوی معاشی یا سماجی خسارہ آئے ، کسی تکلیف مرض یا بیماری کی صورت میں اُسے کوئی روگ لگایا جائے یا اُس کے بچوں اور اہلِ خانہ میں سے کسی کو اِس کی سزا میں لپیٹا جائے اِس کی سزا ضرور بہ ضرور ملے گی - کیونکہ پیٹ تنور نہیں ہے جو آگ کو ہضم کر سکے اِس لئے وہ آگ اپنے اَثرات وجودِ انسانی پہ ضرور چھوڑتی ہے - اِس کو باطنی کیفیّت کی طرف بھی لوٹایا جا سکتا ہے کہ اُن کے باطن آگ کی طرح شدید ہو جاتے ہیں اور مسلسل باطنی اِضطراب میں رہتے ہیں اطمینانِ قلبی اُن کے حصے سے نکال دیا جاتا ہے - آیت مبارکہ کے دوسرے حصے کا اِشارہ کہ ’’ وہ آگ میں جا گریں گے‘‘ عذابِ اُخروی کی جانب ہے کہ دُنیا میں بھی اُنہیں عذاب سے دو چار کیا جائے گا اور آخرت میں بھی انہیں آگ میں ڈالا جائے -

دُنیا و آخرت کی اِس آگ سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مالِ یتیم اور حقوقِ یتیم کی حفاظت کے اَحکامات فرمائے اور اہلِ ایمان کو ان کا پابند بنایا - جیسا کہ بات جہاں سے چلی تھی اور جو کہ اِس ساری گفتگو کا مرکز ی نکتہ ہے کہ قرآن پاک دینِ اِسلام کو صرف ایک نجی و ذاتی معاملہ کے طور پہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایک ابدی ، ہمہ گیر ، عالمگیر اور آفاقی نصب العین کے طور پہ پیش کرتا ہے ، اِس لئے سورہ النسا میں جب ہم جھانکتے ہیں تو یتیم کے حقوق سے اور مال سے معاملہ مبنی بر انصاف رکھنے کیلئے قرآن پاک نے ایک ایسا میکنزم عطا فرمایا کہ جس سے ایک فرد بھی پوری طرح مستفید ہو سکتا ہے اور جس میں اتنی وُسعت ہے کہ اُسے یتیم کی کفالت اور اُس کے اَموال و حقوق کے تحفظ کی ’’ریاستی پالیسی‘‘ کے طور پہ بھی اِختیار کیاجا سکتا ہے -

وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْآ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْج وَلَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْاط وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْج وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِط فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْط وَکَفٰی بِاﷲِ حَسِیْبًاo ﴿النسأ : ۶

’’اور یتیموں کی ﴿تربیتہً﴾ جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح ﴿کی عمر﴾ کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری ﴿اور حُسنِ تدبیر﴾ دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں ﴿اس اندیشے سے﴾ نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو ﴿کر واپس لے﴾ جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ ﴿مالِ یتیم سے﴾ بالکل بچا رہے اور جو ﴿خود﴾ نادار ہو اسے ﴿صرف﴾ مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے ‘‘-

اگر بالترتیب مرحلہ وار دیکھا جائے تو اِس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جو اَحکامات فرمائے ہیں اُن میں سے نو ﴿۹﴾ اَحکامات ضروری طور پہ سمجھنے چاہئیں بالخصوص اُ ن لوگوں اور اُن اِداروں کو ، جو کفالتِ یتیم کرتے ہیں اور بالعموم ہر اُس شخص کو جو قرآن پاک سے راہنمائی کو اپنی فلاحِ دنیوی و اُخروی کیلئے ضروری سمجھتا ہے :-

﴿۱’’اور یتیموں کی ﴿تربیتاً﴾ جانچ اور آزمائش کرتے رہو ‘‘- اِس میں اُن کی تعلیم کی طرف بھی اِشارہ ہے ، تربیّت کی طرف بھی اور خاص کر اُن کی مثبت و پختہ ذہنی نشو ونما کا حکم بھی ہے - آزمائش کا حرف بطورِ خاص یہ باور کرواتا ہے کہ اُنہیں جانچتے رہنا چاہئے کہ ذہنی طور پہ پختہ ہوئے ہیں یا نہیں ؟ چونکہ جو کفیل اُن کی کفالت کر رہا ہے اور پورے اخلاص سے ان کے مال کی حفاظت و نگہداشت کررہا ہے اُس کی ذمہ داری ہے کہ اس قابل بنائے کہ جب اُس کے دائرۂ کفالت سے باہر جائیں تو ذہنی طور پہ خود اتنے پختہ و مضبوط ہو چکے ہوں کہ کوئی ’’ٹھگ‘‘ یا قابض اُن سے مال ہتھیا نہ سکے اِس کیلئے حضراتِ آئمہ یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں کہ ﴿جرِّ بو عَقُولھم﴾ یعنی اُن کی عقول / عقلوں کو اُن کی عقل مندی کو آزمایا جاتا رہے اُس کا تجربہ کیا جاتا رہے - اور آیت کے اگلے حصّہ میں عمر کا تعیُّن بھی اِسی لئے کیا تا کہ کہیں وہ نا سمجھی کی عمر میں اپنا مال ضائع نہ کر بیٹھیں -

﴿۲’’یہاں تک کہ نکاح ﴿کی عمر﴾ کو پہنچ جائیں‘‘- یہاں ایک تو مسئلہ بلوغت کا بیان کیا گیا ہے اور اِس پہ متعدد احادیثِ مبارکہ بھی ہیں جن میں بلوغت کی عمر اور اُس کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں اور مفسرین نے عموماً اِس سے یہی مراد لیا ہے کہ نکاح کی عمر کو پہنچ جانے کا مطلب ہے کہ جب بالغ ہو جائیں - بعض فقہا و شارحین کی رائے میں ﴿جس کی دلیل وہ ﴿فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا﴾ سے پیش کرتے ہیں جو اس گفتگو میں تیسرے نکتہ میں بیان ہو گا﴾ نکاح کی عمر کا اِشارہ آدمی کے اِس قابل ہونے کی جانب اِشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنا گھربار اور بال بچے سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، امورِ خانہ داری ، رشتہ داروں اور سوسائٹی کی دیگر ذِمّہ داریوں کو نبھا سکتا ہو - نکاح کی عمرکے پہنچنے تلک اپنی کسی ملازمت ، کاروبار یا کسی اور مشغلۂ حیات میں ’’ایڈ جسٹ‘‘ ہو جائیں گے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا رِہ سکیں گے - اِس لئے کفیل کو حکم ہے کہ اُن کی ذہنی نشو نما پہ پوری نظر رکھے -

﴿۳’’پھر اگر تم ان میں ہوشیاری ﴿اور حُسنِ تدبیر﴾ دیکھ لو ‘‘- اِس حُکم کا تعلُّق کفیل کے اطمینان سے ہے کہ یعنی جب وہ ایسے امور کا شاہد ہو ، اُسے اِس بات کے واضح اور بیّن حوالے مل جائیں ، جن سے اُسے یہ حتمیّت کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ اب وہ ’’ہوش _ یار‘‘ ہو گئے ہیں ، جن سے کفیل کی تسلی ہو جائے کہ اب وہ اپنے اموال و حقوق کے خود نگہبان ہو سکتے ہیں - اس پہ امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما کی روایت سے یہ فرمانِ بلیغ نقل کیا ہے کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ﴿اذا ادرک الیتیم بحُلمٍ و عقلٍ و وقارٍ﴾ کہ جب کفیل کو یتیم میں تین آثار نظر آئیں ، اوّل : کہ اُس میں حلم ظاہر ہو جائے ، دوم: کہ اُس میں عقل توانا ہو جائے ، سوم : اُس میں وقار جاگزیں ہو جائے -

ظژظ

﴿۴’’تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‘‘-

﴿۵’’اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں ﴿اس اندیشے سے﴾ نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو ﴿کر واپس لے﴾ جائیں گے ‘‘-

﴿۶’’اور جو کوئی خوشحال ہو وہ ﴿مالِ یتیم سے﴾ بالکل بچا رہے ‘‘ -

﴿۷’’اور جو ﴿خود﴾ نادار ہو اسے ﴿صرف﴾ مناسب حد تک کھانا چاہئے ‘‘-

﴿ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِط﴾ ﴿النسا : ۷۲۱

’’یتیموں کے معاملے میں انصاف پر قائم رہا کرو ‘‘-

﴿۸’’اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو‘‘-

﴿۹’’اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے‘‘-

﴿۱۰﴾ اِیفائے عِہد کا حُکم:-

دسواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

﴿وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo

’’ اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی-‘‘

 بے شک وعدوں کے متعلق اللہ کی بارگاہ میں پوچھا جائے گا، وعدوں کے متعلق تم سے حساب لیا جائے گا اور وہ وعدہ کون سا وعدہ ہے؟ وعدوں سے وفا کرنا جو وعدہ ہم دورانِ بیعت کرتے ہیں،ہم کسی عہدے یا کسی منصب کا حلف اٹھاتے ہوئے جو وعدہ کرتے ہیں ،ہم اپنے دین سے جو وعدہ کرتے ہیں، اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا وعدہ جو ہم اپنے دستور میں قرادادمقاصد میں کیا ہے اور رسول پاک ﷺ کی اتباع کا وعدہ جو ہم نے بطورایک مسلمان کے کیا ہے اور اللہ کی توحید کا وعدہ جس کی گواہی ہم نے دی اورنبی ﷺ کی رسالت کا وعدہ اور آپ کی ختمِ نبوت کا وعدہ جس پہ ہم ایمان لائے اور ہم مسلمان کہلائے- ان وعدوں سے وفا ہمارے اوپر لازم ہے- جو قوم وعدے توڑتی ہے، جس قوم کی مقننہ کے اراکین اپنے عہد کی پاسداری نہ کریں، اپنے عہد سے وفا نہ کریں، جس کے بڑے بڑے مناسب ،جس کے بڑے بڑے عہدوں پہ بیٹھے ہوئے لوگ اپنے عہد کو ،اپنے پیمان کو ،اپنے حلف کو توڑ کے کرپشن اور بد عنوانی میں ملوث ہوجائیں ،اس معاشرے پہ ،اس قوم پہ زوال نہیں آئے گا تو اور کیا ہوگا -

﴿۱۱﴾ ناپ تول میں کمی و بیشی کی مُمانعت:-

اور گیارھواں حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo

’’اور ناپ پورا رکھا کرو جب ﴿بھی﴾ تم ﴿کوئی چیز﴾ ناپو اور ﴿جب تولنے لگو تو﴾ سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ ﴿دیانتداری﴾ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے ﴿بھی﴾ خوب تر ہے-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ جب پیمانہ بھرو،جب ناپ تول کرنے لگو توپوراپورا ناپ تول کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور اس کی تشریح میںمتعدد مفسرین نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کرنا یا چیزوں میں ملاوٹ کرنا یہ سخت ترین گنا ہ ہے یہ ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں -اہلِ ٹوبہ ٹیک سنگھ مَیں ڈیمانڈ کرتا ہوں کہ مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کو ئی دکان بتا دیجئے جہاں پہ ملاوٹ کے بغیر دودھ ملتا ہو،جہاں ناپ تول میں کمی نہ کی جاتی ہو، اس سے بڑھ کے ہماری بد قسمتی اورکیا ہو سکتی ہے؟ پٹرول پمپوں کے پیمانے دیکھ لیں، اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی کون کونسی غلطی ،اپنے کون کون سے جرم کا اعتراف کروں کہ بطور اجتماعی ،بطورِ معاشرہ مجھ میں، میرے اندر کیا کیاخرابیاںہیں؟مَیں معاشرہ ہوں اور کوئی مانتا ہے یا نہیں ہم سب معاشرہ ہیں ،ہم اپنے اندر جھانکیں، اندر دیکھیں کہ خدا نے جو یہ آفاقی احکامات مقرر کئے ہم ان پہ کس حد تک عمل پیرا ہیں-

﴿۱۲----- مُمانعت:-

بارھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٰ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًاo

’’اور ﴿اے انسان!﴾ تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے ﴿صحیح﴾ علم نہیں، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی-‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بات تمہارے ذمے نہیں، جس کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ پڑ جاؤ،بے شک تمہارے کانوں سے، تمہاری آنکھوں سے اور تمہارے دل یعنی تمہارا سوچنے کا جو آلہ ہے’’ فواد‘‘ دماغ بھی کہا جاتا ہے اور اسے دل بھی کہا جاتاہے اس سے حساب لیا جائے گا ،بد نظری نہ کرو،براخیال ،چھپی شہوت، آقاپاک ﷺ کی حدیث مبارک ہے آپ نے فرمایا مجھے اپنی امت سے یہ خدشہ نہیں ہے کہ یہ چانداور ستاروں کی اور آگ کی اوربتوں کی پوجا کرنے لگیں مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ شرک خفی میں مبتلا ہو جائیں گے، یا رسول اللہﷺ! شرکِ خفی آپ نے فرمایاکہ یہ اپنی خفیہ شہوت کی پیروی کریں گے ،جو شخص بد نظری میں مبتلا ہو ،بد خیالی میں ،بد گمانی میں مبتلاہو تاہے اللہ تبارک تعالیٰ اسے نا پسند فرماتا ہے- آدابِ معاشرت اللہ نے مقررفرمائے -

﴿۱۳﴾ تکبّر ترک کرنے اور اِنکساری اِختیار کرنے کی تلقین :-

اور تیرھواں حکم اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ

﴿وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًاo

’’اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بے شک تو زمین کو ﴿اپنی رعونت کے زور سے﴾ ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ﴿تو جو کچھ ہے وہی رہے گا﴾-‘‘

بے شک تم تکبر سے چل کے، اکڑ کے چل کے، نہ زمیں کو پھاڑ سکتے اور نہ پہاڑ سے بلند ہو سکتے ہو-

میرے بھائیو اور بزرگو! یہ تیرہ ﴿۳۱﴾ احکامات قرآن کریم کی صرف ایک سورۃ سے اس کی متصل آیا ت سے میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں جن میں معاشرت بھی ہے، معیشت بھی ہے ،سیاست بھی ہے، عدل بھی ہے، تجارت بھی ہے اور قرآن نے ہر چیز کے احکامات مقرر کئے اور مَیں نے شروع سے جوبات کہی تھی کہ ہمارا دین ،دینِ فطرت ہے اور یہ شروع سے آخر تک ہر بات کا احاطہ کرتا ہے، یہ شروع سے آخر تک ہربات کو ساتھ لے کرچلتا ہے، اس کا تصورِ خدا آفاقی ہے، اس کا تصورِ انسان آفاقی ہے، اس کا تصورِ کائنات آفاقی ہے، اس میں جزوی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے جو مانے گا وہ پورے دین کو مانے گا، جو منحرف ہو گا وہ پورے دین سے منحرف ہوگا ،درمیان کا کوئی راستہ نہیںہے کہ ہم کچھ احکامات کو مان لیں اور بعض احکامات کو چھوڑ دیں ایسا نہیں ہو سکتا - مغرب کے تصورِ دین میں اور ہمارے تصورِ دین میں فرق ہے، ان کا تصورِ دین، ان کا تصورِ خدامختلف ہے ہمارا تصور خدا مختلف ہے -ہمارا خدا اپنے اسمائ حسنہ میں ہمیںیہ بتاتا ہے کہ مَیں مالک ہوں-

﴿مٰ لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo

’’روزِ جزا کا مالک ہے-‘‘

﴿ بِیَدِہِ الْمُلْکُ﴾

’’ جس کے دستِ ﴿قدرت﴾ میں ﴿تمام جہانوں کی﴾ سلطنت ہے-‘‘

اس کے ہاتھ میںیہ ملک ہے، اس کے ہاتھ میںیہ کائنات ہے ،وہ چلانا چاہے گا اس کائنات کو ،وہ حق رکھتا ہے اس کائنات کو چلانے کا -

﴿المقتدر﴾

’’اقتدار اس کا حق ہے -‘‘

﴿العدل﴾

’’عدالت اس کا حق ہے-‘‘

 ترازو اس کاہے، حکم اس کا ہے، پیغام اس کا ہے، نظام اس کا ہے، ہمارے پاس کوئی اختیا نہیںہے کہ ہم اس کی حاکمیت میں مداخلت کریں ،انسان اس زمین پہ حاکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نائب ہوتا ہے، اللہ کا خلیفہ ہوتاہے ،اس لئے دین جزوی اور فرد کا نجی معاملہ نہیںہے، دین فرد کا مکمل معاملہ ہے اگر اگر کوئی فرد دین کے کسی ایک بھی حکم سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو قرآن وسنت سے بغاوت کرتاہے ،وہ قرآن وسنت سے غداری کرتا ہے-

آج بد قسمتی یہ ہے کہ منبر و محراب نے بھی دین کو محدود کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی ، کیونکہ ہمارے خطبا و واعظین کے عمومی طور پہ پسندیدہ موضوعات اِختلافی عقائد ہوتے ہیں اور جو اس سے آگے بڑھے وہ فضائل سے آگے نہیں بڑھتا - بہت کم ایسے خطبا و واعظین جامع مساجد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے خطابات و مواعظ میں لوگوں کو عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی تلقین کرتے ہوں اور اخلاقیات کا درس دیتے ہوں - کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان چاروں چیزوں کو اکٹھا رکھا ہے ہے - مثلاً اگر سورہ البقرہ شریف کی آیت نمبر ۷۷۱ میں جھانکیں تو قرآن پاک کی ترتیب و تعلیم سمجھنے میں دشواری نہیں رہتی -

 سورہ البقرہ آیت ۷۷۱ میں فرمایا

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٰنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٰ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰ ہَدُوْاج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِط اُولٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاط وَاُولٰٓ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo

نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر اور آخرت پر اور فرشتوں پر اور ﴿اﷲ کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اﷲ کی محبت میں ﴿اپنا﴾ مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور ﴿غلاموں کی﴾ گردنوں ﴿کو آزاد کرانے﴾ میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی ﴿تنگدستی﴾ میں اور مصیبت ﴿بیماری﴾ میں اور جنگ کی شدّت ﴿جہاد﴾ کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیںo

آئمۂ تفسیر نے کئی بلکہ کثیر روایتوں کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی ایک جانب چہرہ کر لیا جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے بلکہ اللہ د کے نزدیک اصل نیکی آیت میں بیان کردہ تمام امور و احکامات کو بجا لانے کا نام ہے - اِس آیت میں جو مشرق و مغرب کی جانب منہ پھیرنے کا کہا گیا ہے تو اس سے متعلق عہدِ نزول بھی مدِّ نظر رہے کہ یہ اُس زمانے میں آیت نازل ہوئی ﴿حضرت عبد اللہ ابن عباس ص کے قول کے مطابق ﴾ جب ابتدائے اسلام تھی اور کوئی شخص جب اللہ د کی وحدانیت اور نبی پاک شہہِ لولاک ﷺ کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دیتا تو کسی بھی سمت رُخ کر کے نماز ادا کر لیتا ، اگر اسی معمول پہ اُسے موت آ جاتی تو اس کیلئے جنت لازم ہوتی - ہجرت کے بعد جب مسجد الحرام شریف کو قبلہ بنا دیا گیا اور اللہ د نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ یہ احکامات بجا لانا ، اِن پہ عمل پیرا ہونا اصل نیکی ہے - اِس آیت کے اَحکامات دو حِصّوں پہ مشتمل ہیں : ایک کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوقِ معاشرت سے ہے - امام جلال الدین سیوطی دُرِّ منثور میں نقل فرماتے ہیں کہ اِس آیت کے متعلق امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو میسرہ رحمۃاللہ علیہم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ﴿من عمِل بھٰذہ الآیۃ فقد استکمل الایمان﴾ یعنی ’’جس نے اِس آیت پر عمل کیا پس تحقیق اُس نے اپنے ایمان کو پایۂ تکمیل پہ پہنچا دیا‘‘ - اِسی طرح اِس آیت سے متعلّق علامہ ابن کثیر نے حضرت سُفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ ﴿ھذہ انواع البر کلھا﴾ ’’اِس آیت میں نیکی کی ہر قسم کو بیان کر دیا گیا ہے ‘‘ - اگر دیکھا جائے تو یہ آیۂ شریفہ دینِ مبین اور فلسفۂ نیکی پہ نہایت جامع بیان ہے جس میں ایک عام آدمی کی زندگی کے ہر پہلُو ، ہر جانب ، ہر طرف اور ہر جہت کو واضح کردیا گیا ہے - بطورِ خاص پانچ پہلو قابلِ غور ہیں 

﴿۱﴾ فلسفۂ نیکی/ فلسفۂ دین ؟ دین صرف عبادات کا مرقع نہیں ﴿۲﴾ ایمان ؟﴿اللہ پر و دیگر ﴾  ﴿۳﴾ مُعاملات ؟ رشتہ داروں ، یتیموں و دیگر کے حقوق کا بیان ﴿۴﴾ عبادات ؟ نماز و زکوٰۃ کا حکم ﴿۵﴾ اَخلاق ؟ سختی ، تکلیف ، میدان میں استقامت اختیار کرنا

پہلے حصہ ﴿لیس البر﴾ سے لیکر ﴿ولکن البر﴾ تک اِس بات کا بیان ہے کہ دین فقط و فقط عبادات کے مرقع کا نام نہیں ہے اور نہ ہی انفرادی و ذاتی معاملہ - دوسرے حصہ میں ﴿من اٰمن﴾ سے لیکر ﴿النبیّین﴾ تک ایمان کا اصول بیان ہوا - تیسرے حصہ میں ﴿آتی المال﴾ سے لیکر ﴿و فی الرقاب﴾ تک معاملات و معاشرت کو بیان فرمایا ﴿﴿الرقاب﴾ سے مراد زیادہ تر مفسرین نے غلاموں کو آزاد کرنا لیا ہے جبکہ بعض مفسرین اور کئی فقہا نے اِ س سے مراد قیدی بھی لئے ہیں کہ قیدیوں کو قید سے آزاد کروانے کیلئے مال خرچ کیا جائے ﴾ - چو تھے حصہ میں صلوٰۃ و زکوۃ کا ذکر فرمایا - جبکہ پانچویں حصہ میں ﴿و الموفون﴾ سے لیکر ﴿المتقون﴾ تک اخلاقیات کے تقاضے بتائے

اَخلاق کے حصہ میں تین چیزوں پہ بالترتیب فرمایا گیا ہے کہ صبر کرنے والے ہوں ﴿البأسا﴾ یعنی غربت ، تنگدستی ، افلاس ، بے مائیگی، فاقہ کشی ﴿الضرّأ﴾ یعنی مرض ، مصیبت ، دُکھ ، رنج ، تکلیف اور تیسرا ﴿حین البأْس﴾ یعنی راہِ جہاد میں قتال کے وقت - اِن تینوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے ، شدتِ فاقہ و غریبی میں صبر بے حد مشکل ہے لیکن اس مرض اور دُکھ میں صبر کرنا اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے جبکہ وقتِ قتال میدانِ کار زار میں صبر کرنا مرض پہ صبر کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ قتال میں شدّت نہ اختیار کی جائے تا کہ بوڑھے ، بچے ، خواتین ، بے گناہ اور معصوم لوگ محفوظ رہیں - جہاں یہ بات قوانینِ جنگ و جدال کا حصہ ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اِس کو اخلاقیات کا حصہ بھی بنا دیا ہے کہ قوانینِ جنگ سے تجاوز کرنا اسلام کے اخلاقی تصور کے منافی ہے - نیز قتال میں شدت نہ کرنے والے کو دُہرا ثواب ملے گا ، جس طرح کہ ﴿ذوی القربیٰ﴾ کے متعلق آقا ﷺ کے فرامین بکثرت موجود ہیں کہ اس بات پہ صدقہ کرنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے - ایک تو صدقہ کا اجر ملتا ہے اور دوسرا اقربا کو دینے کا اجر ملتا ہے ، اِسی طرح اِس حدیث پاک کو اگر قتال والے حصہ پہ لاگو کیا جائے تو جہاں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر مجاہد کو ملے گا وہیں معصوم ، بے گناہ ، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تلوار کی کاٹ سے محفوظ رکھنے کا اجربھی ملے گا -

آج آقا پاک ﷺ کے میلاد مبارک پہ اگر ہم بیٹھے ہیں ،اس میں ہمارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ترین عمل یہ ہے ، ہمارے اوپر لازم اور واجب یہ ہے کہ ہم نے اپنا احتساب کرنا ہے کہ جس ہستی کی آمد کی خوشی ہم منارہے ہیں اس سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کہاں تک پختہ ہیں؟

چوں می گویم مسلمان بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لاالٰہ را

’’جب مَیں یہ کہتا ہوںکہ مَیں مسلمان ہوں تو مَیںلرز اٹھتا ہوں کیونکہ مَیں لاالٰہ کی مشکلات کوجانتا ہوں -‘‘

یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

میرے نوجوان ساتھیو! مَیں آخری گزارش کررہا ہوں، آقا پاک ﷺ سے اگر ہمیں محبت ہے تو اس محبت کی ہمارے پاس دلیل کیاہے؟ کیا آقا ﷺ سے محبت کی یہ دلیل ہے کہ حضور کے دین کواہلِ دُنیا مذاق بنا دے اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ؟کیا یہ حضور کے دعویٰٔ محبت کی دلیل ہے ؟آقا پاک ﷺ نے جس دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑا،ہجرت کی، جس دین کے لئے پتھر کھائے ،لہو لہان ہوئے ،حضور کے بدن اطہر سے لہو ٹپکتا رہا،نیزے کھائے ،تلواریں کھائیں ،رخصار زخمی ہوئے ،پیشانی زخمی ہوئی ،سر مبارک پہ چوٹ آئی ،دندان مبارک شہید ہوئے ،کائنات کی عظیم ترین وہ نفیس ترین اور لطیف ترین ہستی جس سے بڑھ کوئی لطیف نہیں ہوگا، جس سے بڑھ کے کوئی حسین نہیں ہوگا، جس سے بڑھ کو ئی نفیس نہیں ہوگا، آج اُسی دین پہ جس کے لئے یہ سارا کچھ کیا ہے، آج اس پہ مشکل وقت ہے اورہم اس دین کے رکھوالے نہیں بن رہے کیا یہ حضورکیساتھ محبت کے دعوےٰ کی دلیل ہے ؟جس دین پہ آقا پاک ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور دوسرے پہ چاند رکھ دو، مال دولت کے انبارلگا دو،مَیں اِس دین کی دعوت سے نہیں رکوں گا- آج ہم اس دین کو اپنی چند دُنیاوی خواہشات کی خاطر ترک کر کے بیٹھے ہیں ،دعویٰ ٔ محبت کی دلیل کیا ہے ہمارے پاس؟ حضور کے چچا ،حضور کے قریبی رفقائ ،حضور کے قریبی ساتھی بے دردی سے شہید کئے جاتے رہے، ان کے مثلے کئے گئے ،ان کے کلیجے ان کے سینے سے نکال کے چبائے گئے، آقا پاک ﷺ نے یہ سارے غم کس کے لئے برداشت کئے؟ اس دین کے لئے، آج اس دین پہ مشکل وقت طاری ہے تو ہم دین پہ اپنی ذات کو، دین کے معاملات میں اپنے ذاتی معاملات کو ترجعیح دیتے ہیں کیا یہ حضور سے محبت کے دعویٰ کی دلیل ہے؟ ہمارے پاس کیا دلیل ہے حضور سے محبت کی، حضور سے عشق کی،؟

میرے بھائیومیرے ساتھیو !اگر حضور سے محبت ہے، اگر حضور سے عشق ہے، اگر حضور سے پیار ہے ،تو اس عشق کی ،اس محبت کی ،اس پیار کی دلیل دیں، یہ زندگی کتنی ہے، یہ کتنی اور رہ جائے گی، کسے معلوم ؟کیا اس دنیا میں صرف اَسی ﴿۰۸﴾سال کی عمر کے لوگ مرتے ہیں،اٹھاراں﴿۸۱﴾ سال کے نہیں مرتے ؟ہم جتنے بھی یہاں بیٹھے ہیں کسی کو یقین ہے کہ اس کے بعد مَیں کب تک زندہ ہو ں اور میں اپنے گھر بھی خیریت سے پہنچوں گا یانہیں ،کسی کو یقین ہے اپنی موت کا اور اپنی موت کے نہ آنے کا؟ وقت اس کے ہاتھ میں ہے وہ جب آواز دے گا یہ بدن جاتا رہے گا- حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ﷺلوگ قبر داکرسن چارا لحدبناون ڈیرا ھُو

جب تو مر جائے گا ناں تولوگوں کو پھر تیری فکر نہیں ہوگی ،جب رُوح نکل جائے گی لوگوںکو تیری فکر نہیں ہوگی،لوگ قبر کی طرف بھاگیںگے، دفناؤ اِسے میت بدبو چھوڑ جائے گی،’’ میت ترک ویسی پورو اینو ں جلدی‘‘ تعفن پھیلائے گی، بیماریاں پھیلائے گی ،خراب ہو جائے گی، لے جاؤ ،اسے دفناؤ، مٹی میں لے جاؤ ،قبر میںلے جاؤ،چاہے والد ہے، چاہے بھائی ہے، چاہے والدہ ہے، چاہے بچے ہیں، چاہے بہنیں ہیں جو بھی ہو، سب کو جلدی ہوگی-پھر تیرا گھر تیری قبر ہوگی ﷺ

چٹکی بھر مٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھُو

ایک چٹکی مٹی کی اس پہ ڈال دیں گے، وہ چٹکی کس کا صلہ ہے؟ تیرے ساتھ ساری زندگی کی محبت کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے یارانے کا، تیرے ساتھ ساری زند گی کی دوستی کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے تعلق کا صلہ تمہیں لوگ آخرمیں کیا دیتے ہیں ؟مٹی ایک مٹھی بھر کے تیری قبر پہ ڈل دیتے ہیں-

مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے بعد ازاں

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دیتے ہیں

اس دُنیا سے محبت کرتے ہوجو تجھے جاتے ہوئے مٹی پھینکتے ہیں جاؤ اب

ò پڑھ درود گھراں نوں جاسن کوکن شیراشیراھُو

 

جس نے فاتحہ درود پڑھنا ہوگا وہ پڑھے گا اور ایک بار روتا ہوا جائے گااور کہے گا تُو بڑا شیر تھا، بڑا شیر تھا -

بے پرواہ درگا رب باھو  نہیں فضلاں باہجھ نبیڑا ھُو

وہ بڑا بے نیاز ہے، وہ بڑا بے پرواہ ہے، کسی کی نہ اونچی ذات دیکھتا ہے ،نہ اونچا منصب دیکھتاہے ،نہ اونچی شان دیکھتا ہے، اس کی عدالت میں جب جاتے ہیں تو میاں محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

عدل کریں تے تھر تھر کنبن اُچیاں شاناں والے

فضل کریں تے بخشے جاون مَیں ورگے منہ کالے

حضرت عمر (رض) کا فرمان ہے کہ لوگو! اپنے اعمال کو تول لو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال اللہ کے ترازو میں رکھے جائیں، اپنے اعمال کا احتساب کرلو اس سے پہلے کہ اللہ تمہارا حساب لے ،اور ہمارے بزرگوں نے ،ہمارے اسلاف نے کہا ہے:

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری

وقت پیر ی گُرگ ظالم می شود پرہیز گار

جوانی میں توبہ کرنا ،جوانی میں اپنی لَواللہ سے لگانا، جوانی میں اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت کے سپرد کرنا، اپنی جوان دھڑکنوںکو اللہ کی رضا پہ قربان کرنا، اپنی جوان سانسوں ،اپنے جوان جذبات ،اپنے جوان احساسات کو اللہ کی راہ میں لگانا، اللہ کی رضا میں لگانا ،یہ شیوہ ٔپیغمبری ،یہ انبیائ کی سنت ہے، یہ پیغمبروں کا شیوہ ہے- تُو چاہتا ہے مَیں بڑھاپے میں جاکے سُدھر جاؤں گا- اوہ خدا کے بندے بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی ظلم کرنا چھوڑ دیتا ہے، بندہ سُدھر جائے توکون سی بڑی بات ہے-

 آج میرے نوجوان ساتھیو !تمہیں اللہ نے جوان دھڑکنے دی ہیں، جوان جذبے دیے ہیں، ہم اللہ کے دین کی حفاظت، اپنے جوان بازوئوں سے کر سکتے ہیں ،اپنی جوان زبان سے کرسکتے ہیں، اپنے جوان لفظوں سے کر سکتے ہیں، اپنی جوان دھڑکنوں سے کر سکتے ہیں، اپنے جوان جذبوں سے کر سکتے ہیں، جب یہ سارا کچھ نحیف ہو جاتا ہے،جب یہ سارا کچھ ضیف ہو جاتاہے، سوائے حسرت اور سوائے ہاتھ مَلنے کے کچھ نہیں آتا، خدا کی بارگاہ میں حسرت کرتے ہوئے نہ لوٹو بلکہ اس کی طرف یوں لوٹو کہ

نشان مردِ مومن با تو گویم

چو مرگ آید تبسم بر لبِ اُو ست

آجا کہ مَیں تجھے بتاؤں کہ مردِ مومن کی نشانی کیا ہے؟ جب اُس پہ موت آتی ہے تواس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کھیل جاتی ہے، وہ حسرت لے کر نہیں جاتا ہے کہ مَیں کچھ کر نہیں سکا بلکہ وہ خوش جاتا ہے یا اللہ تیرے توکل پہ، تیرے بھروسے پہ اس دنیا کے سامنے تیرا نام بلند کرتا رہا ،تیرے دین کی اِقامت کی جدوجہد کرتارہا، تیرے دین کے اِحیائ کی جدوجہد کرتا رہا، تیرے دین کے نفاذکی جدوجہد کرتا رہا ،تیرے نبی کے ادب، تیرے نبی کی عظمت کو سَربلند کرتا رہا-حضرت علامہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت ٹیپو سلطان کی مزار پہ گئے تو بڑے روئے، وہاںپہ مراقبہ کیا ،قرآن کی دعوت پڑھی ،جب باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ ٹیپوسلطان سے کیا مکالمہ ہوا؟ ٹیپوسلطان بھی ایک فقیر آدمی تھا، ایک فقیر بادشاہ تھا اور بہت اللہ کا نیک آدمی تھا، علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے کچھ باتیں کی ہیں یہ کلام حضرت علامہ کے کسی شعر ی مجموعے میں نہیں لیکن حیاتِ اقبال کی کتب میں موجود ہے ،’’ زندہ رُود‘‘ جو جاوید اقبال نے لکھی ہے اس میں بھی موجود ہے، علامہ اقبا ل نے ان لوگوں کو کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے یہ بات کہی ہے کہ

درجہاں نتواں اگرمردانہ زیست

ہمچوں مرداں جاں سپرد ن زندگیست

اقبال! مسلمانو ں کو یہ پیغام دو کہ اگر زندگی میں وہ مَردوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے، اگر مومن کی طرح زندگی گزارنا ممکن نہیںپھر مَردوںکی طرح جان پہ کھیل جانا یہ زندگی ہے، جان سے گزر جانا یہ زندگی ہے-

 اس لئے ہمارے پاس یہ وقت ہے جو چند سانسیں ہمیں اللہ نے مہلت دی ہیں اس کے نام پہ صَرف کریں ،اس کے ساتھ یہ عہد کریں ،اس عہد کے متعلق ہم سے پوچھا جائے گا-

 اصلاحی جماعت یہی دعوت لے کے سلطان العارفین کی درگاہ سے آئی ہے، جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب یہی پیغام لے کے آئیں ہیں کہ خدارا آپ آئیں اور اللہ کے دین کو نافذ کرنے کیلئے، اللہ کی کتاب کو نافذ کرنے کیلئے، سنتِ رسول ﷺ کو مروج کرنے کیلئے ہمیں اپنی کوششیں ،اپنی کاوشیں بروئے کار لانی چاہئیں- حضرت ہاجرہ کاکام سعی کرنا تھا،ہمارا کام سعی کرنا ہے، یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ ننھے اسماعیل کے قدموں سے پانی کا چشمہ جاری کردے ،ہم سعی کریں گے، خلوص سے کریں گے ،اللہ پانی کا چشمہ جاری فرمائے گا، وہی قادرِ مطلق ہے ،وہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے -

اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطائ فرمائے -

یہ جو چند اقسام بیان کی ہیں کہ جو سروے رپورٹس میں شمار نہیں کئے جا سکتے اِن میں سے ہر ایک طبقہ کی زندگی کا مطالعہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دل فگار اور غم انگیز ہے کہ کس طرح والد یا والدہ یا دونوں والدین کا سایہ اُٹھ جانے کے بعد ان کی حالت ہوتی ہے - زیادہ گہرائی میں نہ بھی جھانکا جائے تو صرف اتنا تجربہ تو ہر ایک کو ہوگا کہ آپ جب اپنی گاڑی کا کام کروانے کسی ورکشاپ میں جاتے ہیں وہاں ج?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر