ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

جے توں چاہیں وحدت رب دی تاں مل مرشد دیاں تلیاں ھو

مرشد لطفوں کرے نظارہ گل تھیون سبھ کلیاں ھو

انہاں گلاں وچوں ہک لالہ ہوسی گل نازک گل پھلیاں ھو

دوہیں جہانیں مٹھے باھوؒ جنہاں سنگ کیتا دو ڈلیاں ھو

Jey tooN chaheeN wahdat Rabb di taaN mal Murshid diaaN taliaaN Hoo

Murshid lotfooN karey nazarah gul theewan sabh kaliaaN Hoo

InhaaN gulaaN wichooN hik lalah hosi gul nazik gul phaliaaN Hoo

DoheeN jahaneeN mothey "Bahoo" jinhaaN sang keeta do dalliaaN Hoo


If you desire oneness of your Rabb then massage your murshid's foot sole Hoo

Murshid will favour his grace and buds will form a flower as whole Hoo

Among those flowers, there will be delicate tulip and the rest will be bud Hoo

Those deprived in both worlds " Bahoo" who remained in duality's shroud Hoo

تشریح:

حضرت سلطان باھورحمۃاللہ علیہ درج بالابیت میں کہتے ہیں کہ مرشدکے بے پایاں ادب سے ہی وحدت الٰہی کے سربستہ رموزآشکارہوتے ہیں اوربارگاہِ مرشدکے آداب کو ملحوظِ خاطر کیئے بغیرراہِ معرفت کی ابتدا بھی ہاتھ نہیں آتی- پہلے مصرعہ میں تقاضۂ ادب سے مرادمرشدکے ہمہ قسم کے احکام،اُموراور مزاج کے لئے سالک کا ہمیشہ ’’سرتسلیم خم‘‘ہوناہے -

کشتگان خنجرتسلیم را  ہرزماں ازغیب جان دیگراست

 مزیدکہتے ہیں کہ’’عاشق سوئی حقیقی جہڑے قتل معشوق دے منے ھو‘‘اگرمریداپنی سوچ ،فکراورارادوں کومرشدکے حضورمطلقاًسپردکرکے ادب کے درجہ غایت سے ہم کنارہوتبھی مرشدسالک کے خزاں رسیدہ روحانی چمن کوابدی بہاروں سے معمورکرتاہے -جب سالک نفس کی مدعیت اورمخمصہ سے جان پاک کرے تبھی مرشد کی مخمورنگاہوں سے حیات سالک کی روحانی محرومیوں کے سبھی غنچے اورشگوفے فلاح وکامیابی کے پھولوں میں ڈھل جاتے ہیں -سالک کی خام ترجیحات اورصلاحیتیں ،خیرکی نمائندہ اورخدادادخوبیوں میں متشکل ہوجاتی ہیں -سالک کی بے فیض اورمنتشرعبادت وریاضت کوکامل جمعیت سے بہرہ یاب اور گُنجلکِ راہ طریقت کومعرفت الٰہی پر منتج کیاجاتاہے -سالک کاافلاس فقراورامارت استغناکاروپ دھارتی ہے -سالک کی منافقت خلوص میں ،عداوت محبت میں،حسدرشک میں،نفس پرستی خداپرستی میں تقدیرتدبیرمیں اور اذکارافکارمیں بدل جاتے ہیں-

 عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری بلارہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

بایں ہمہ حضرت سلطان باھورحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ان پھولوں میں سے ایک بہترین گلِ لالہ کی جستجوکاسفرابھی باقی ہے -یہ گل لالہ سارے گلزارکی تمام تررعنائیوں کا واحد مرکز اورمحورہے- تیغ جستجو کی دھارکومزیدتیزکرو،بھلے سالک تماشہ جہاں ناخن کی پشت پرملاحظہ کرے،لیکن ابھی بھی خالقِ جہاں کی رونمائی باقی ہے- گل لالہ سے مراد ایسامرشدکامل ہے جو صاحب تاثیراورصاحبِ کشاف اسم اللہ ذات ہوکیونکہ مرشداسم اللہ ذات کے توسط سے سالک کی منتشراوربکھری شخصیت کویکتائی اوریکسوئی سے مالامال کر دیتاہے-

حضرت سلطان باھو عین الفقر میں لکھتے ہیں کہ ’’بندے اورمولیٰ کے درمیان رابطے کاوسیلہ اسم اللہ ذات ہی تو ہے ‘‘- آخری مصرعہ میں حضرت سلطان باھوآیتِ قرآن ’’کہ کسی سینے میں دودل نہیں رکھے ‘‘کی تائیدکرتے ہیں راہِ حق میں دوہری رفاقت اورمنافقت سے بڑاراہ زن کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ امرقطعی ہے کہ جیسے ایک برتن میں بہ یک وقت آگ اورپانی جمع نہیں ہوسکتے بعینہٖ راہِ فقر میں سالک خداپرستی اور نفس پرستی کو بیک وقت اختیارنہیں کرسکتاوگرنہ سالک دونوں جہانوں میں برباداورنامرادرہے گا-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر