شمس العارفین: قسط24

شمس العارفین: قسط24

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’قوم کا سردار فقراء کا خادم ہے‘‘- پھر اور کسی کی کیا مجال کہ اِن کے سامنے دم مارے؟جو بھی اِن کے سامنے دم مارتا ہے دونوں جہان میں خراب و پریشان ہوتاہے-خدا اور بندے کے درمیان پیاز کے پردے جیسا ایک باریک سا پردہ ہے، اگر تُو یہ پردہ ہٹا کر آئے تو دروازہ کھلاہے اور اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے- بندہ نہ تو اپنی مرضی سے پیدا ہوتاہے او ر نہ ہی کوئی کام اُس کی مرضی سے ہوتاہے-حدیث:’’حکیم کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘- لہٰذا بہتریہ ہے کہ تُو اپنا ہر معاملہ خدا کے سپرد کر دے اور خود کو در میان سے ہٹا دے - فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

’’مَیں اپنا معا ملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک وہ اپنے بندوں کی خبر گیری کرتا ہے‘‘-

جان لے کہ اللہ تبار ک و تعالیٰ بے مثل و بے مثال واحد حیُّ قیوم ذات ہے جس نے اپنی ہستی کو اپنی ہی صورت پر قائم کررکھاہے کہ صورتِ خدائے تعالیٰ غیر مخلوق ہے-جو کوئی اُس بے مثل و بے مثال ذات کو خواب میں یا خواب سے بڑھ کر گہرے مراقبہ میں دیکھ لیتاہے وہ مجذوب ہوجاتا ہے اور اگر بیدار رہے تو ہوشیار رہتاہے- روئیت ِنورِ توحید ِربوبیت سے وجود کے اندر اِس قدر گرمی ٔ آتش اُبھرتی ہے کہ وجو د اُس میں جل مرتا ہے یا پھر زبان پر مہرِ خاموشی لگ جاتی ہے اور زبان گونگی ہو جاتی ہے یا پھر رات دن سر بسجود رہتا ہے اور لباسِ شریعت پہن کر اشاعت ِشریعت میں کوشاں رہتاہے- مشاہدۂ حضوری کے وقت عارف باللہ واصل کو اُس بے مثل و بے مثال صورت کی دید سے کہ جس کی مثال نہیں دی جاسکتی اِس قدر نعمت ِالٰہی نصیب ہوتی ہے کہ جس کی تفصیل و ہم و خیال میں نہیں سما سکتی- یہ مراتب بھی حاضراتِ اسمِ اللہ ذات اور حاضراتِ کلمہ طیبات لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے منکشف ہوتے ہیں-  طریق ِکلمہ طیب طریق ِتحقیق ہے-پس معلوم ہوا کہ آوازِ نفس و مقامِ نفس و سوالِ نفس و احوالِ نفس الگ چیز ہے،آواز ِقلب و مقامِ قلب و سوالِ قلب و احوالِ قلب الگ چیز ہے اور آوازِ روح و مقامِ روح و سوالِ روح و احوالِ روح الگ چیز ہے-نفس کی آواز علمِ دنیا ہے اور اُس کا مقام ہوا و ہوس ہے، قلب کی آوا ز ذکرِ اَللّٰہُ ہے، اُس کا علم محبت و شوقِ الٰہی ہے اور اُس کا مقام باطنی صفائی ہے اور آوازِ روح کلامِ الٰہی نص و حدیث ہے اور مقامِ روح جمعیت ِعلم علوم ہے- اِن میں سے ہر ایک گروہ کو اُس کے مقام سے پہچان کر کہا جاسکتاہے کہ یہ اہل ِنفس ہیں، یہ اہل ِقلب ہیں اور یہ اہل ِروح ہیں- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-

بابِ چہارم:مرتبۂ فنا فی الشیخ،مرتبۂ فنا فی اسمِ مُحَمَّدٌ()اور مرتبۂ فنا فی اللہ کی شرح

مریدوں کے تین مراتب ہیں،پہلا مرتبہ فنا فی الشیخ ہے - اِس مرتبے پر طالب جب صورتِ شیخ کو اپنے تصور میں لاتاہے تو جس طرف بھی نظر اُٹھاتاہے اُسے تصرفِ شیخ کے مراتب نظر آتے ہیں-دوسرا مرتبہ فنا فی اسمِ   مُحَمَّدٌ  (ﷺ) کا مرتبہ ہے،اِس مرتبے پر طالب جب صورتِ اسمِ   مُحَمَّدٌ  (ﷺ) کو اپنے تصور میں لاتاہے تو جملہ ماسویٰ اللہ سے تارک فارغ ہوجاتاہے ، پھرو ہ جس طرف بھی دیکھتاہے اُسے مجلس ِمحمدی (ﷺ) ہی نظر آتی ہے- تیسرا مرتبہ فنا فی اَللّٰہُ  کا مرتبہ ہے، اِس مرتبے پر جب طالب اسم ’’اَللّٰہُ‘‘  کا تصور کرتا ہے تو اُس کا نفس مکمل طور پر ہلاک ہوجاتاہے اور وہ جس طرف بھی دیکھتاہے اُسے انوارِ اسمِ اللہ ذات کی بے شمار تجلیات نظر آتی ہیں-اِسے مرتبۂ لامکان کہاجاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کو مکان و مقام سے تشبیہ دینا موجب ِشرک و کفر ہے-

جان لے کہ مراتب ِقرب تین قسم کے ہیں جو تین قسم کے تصور یعنی تصور ِفنا فی الشیخ ،تصورِ فنا فی اسمِ   مُحَمَّدٌ(ﷺ) اور تصورِ فنا فی اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتے ہیں- جان لے کہ کل مخلوقات کا ظہور نور ِمحمد (ﷺ)سے ہوا اور نورِ محمد (ﷺ) کا ظہور اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوا - جومرشد پہلے ہی روز نورِ طالب کو نورِ محمد (ﷺ) سے ملا کر نورِ وحدانیت کے دریائے ربوبیت میں غرق نہیں کرتا اُسے مرشد نہیں کہاجاسکتا کہ مرشد تو پہلے ہی روز حاضراتِ تصورِ اسم اللہ ذات سے طالب کے نفس کا تزکیہ ، قلب کا تصفیہ اور روح و سرّ کا تجلیہ کرکے اُسے نور بنا دیتاہے ، اِس طرح جب نفس و قلب و روح و سرّکے چاروں نور جمع ہو کر ایک ہی نور کی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو وہ اپنی اصل کی طرف رجوع کر لیتے ہیں جیسا کہ فرمایا گیا ہے:’’ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجو ع کرتی ہے‘‘-

مرتبۂ فنا فی الشیخ راہِ حضوری کا ابتدائی مرتبہ ہے، فنا فی اسمِ مُحَمَّدٌ(ﷺ) درمیانی مرتبہ ہے اور فنا فی اسمِ اللہ ذات انتہائی مرتبہ ہے - جو کوئی شریعت ِنبوی (ﷺ)کے خلاف چلتاہے اور امر معروف اور نص و حدیث کی حدود سے باہر قدم رکھتاہے وہ پکا مردود و خبیث ہے-

خبردار!جان لے کہ جب کوئی ابتدائی طالب اسمِ اَللّٰہُ کو اپنے تصور وتصرف میں لاتاہے اور اسمِ اَللّٰہُ  کا نقش جما کر دل کی طرف متوجہ ہوتاہے تو دل کے گرد آگ کا ایک شعلہ بھڑک اُٹھتاہے جو نور کی طرح دکھائی دیتاہے اور طالب اُسے تجلی ٔحضور سمجھ بیٹھتاہے- دراصل یہ شیطانی آگ کا شعلہ ہوتاہے جس سے شیطان آواز دیتاہے کہ اے طالب!اب میں تیرا یار ہوں اور تُو میرا یار ہے لہٰذا اب تُو ظاہر باطن کی ہر بندگی سے توبہ کر لے اور اِس تجلی میں میرا دیدار کر - بعد میں یہ تجلی پہلے بچے کی صورت، پھر جوان کی صورت اور آخر میں بوڑھے کی اختیار کر لیتی ہے اور اُس صورت میں شیطان کہتاہے کہ یہ اسرارِ مراتب ِفقر ہیں- بعد میں یہ شیطانی صورت اُسے ہرسوال کا مفصل جواب دیتی ہے اور ماضی حال و مستقبل کے مفصل حالات  سے آگاہ کرتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں فقیر صاحب ِ کشف و کرامت ہے-

خبردار! جب یہ بزرگ نما شیطانی صورت تجھ سے بات کرے تو فوراً توجۂ باطنی سے کلمہ طیب’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ یا ’’ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمِ‘‘  پڑھ لے ، صورتِ شیطانی دفع ہوجائے گی-اِس کے بعد حروفِ اسمِ اللہ ذات سے تجلی ٔنور ظاہر ہوگی جو سراسر ہدایت ِالٰہی ہوگی اور قرآن و حدیث کے عین مطابق برحق ہوگی’’اٰمَنَّاوَصَدَ قْنَا‘‘- باطن میں جو چیز شریعت ِ ظاہر اور قرآن کے موافق دکھائی نہ دے اُس کا تعلق باطل سے ہے- حدیث :’’ جو باطن ظاہر کے خلاف ہو وہ باطل ہے‘‘ کہ مراتب ِفنا فی الشیخ کا تعلق حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعہ مشاہدۂ تجلیاتِ نورِ حضور و مجلس ِسرورِ کائنات (ﷺ) کی حضوری سے ہے- دنیا میں مراتب ِفنا فی الشیطان کے حامل طالبانِ شیخ ِناقص ونفس پرست و سست و مغرور و مست تعداد میں بہت زیادہ بلکہ بے شمار ہوتے ہیں لیکن معرفتِ’’اِلَّااللّٰہُ‘‘ اور مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری کے لائق اہل ِ شریعت فنا فی الشیخ و روشن ضمیر طالب بہت کم ہوتے ہیں اور تصور ِفنافی کامل عارف؟

جان لے کہ انتہائے تصورِ شیخ سے وجود میں غیب الغیب سے ایک صورتِ نور نمودار ہوتی ہے جو کبھی تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوتی ہے اور رات دن آیاتِ قرآن حفظ کرتی رہتی ہے  کبھی ذکر اللہ میں غرق ہوتی ہے اور اُس کے وجود سے ’’سِرِّھُوْ،سِرِّھُوْ، ھُوَالْحَقُّ، لَیْسَ فِی الدَّ ارَیْنِ اِلَّاھُوْ‘‘ [1] کی آواز آنے لگتی ہے -(جاری ہے)


[1]ذاتِ الٰہی کے سوا دونوں جہان میں اور کچھ بھی نہیں -

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر