امامت اوراس کے فقہی مسائل

امامت اوراس کے فقہی مسائل

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ‘‘ [1]

’’اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے،تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے‘‘-‏

سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’روزِ قیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس ‏نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام )سے خوش تھے‘‘- [2]

ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے امام کیلئے دعا فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی ‏مغفرت فرما‘‘- [3]

ضامن کا ایک مطلب یہ ہے  کہ امام نہ صرف اپنے مقتدیوں کی نمازوں کاضامن ہے اور اس کی نمازکی صحت پر مقتدیوں کی نمازوں کا دار و مدار ہے بلکہ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ اپنی عملی زندگی میں بھی امام اپنے مقتدیوں کا ضامن ہے یعنی اگر کوئی اس کے اچھے اخلاق و اعمال سے متاثر ہو کر اچھے راستے کو اپناتا ہے تو اس بندے کے ساتھ امام کو بھی اللہ ربّ العزت کی بارگاہ ِاقدس سے اجر ملے گا،اسی طرح اگرکوئی شخص اس کے غلط رویے کی وجہ سے دین سے دور ہوتا ہے تو امام کی بارگاہِ صمدیت سے باز پُرس ہوسکتی ہے -

بلاشبہ اسلامی معاشرے کی آبادکاری میں اہم کردار مسجد کا اور مسجد میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے- امامت ایک ایسا عظیم منصب ہے کہ‏ رسول اللہ (ﷺ) نے ہجرت مدینہ کے بعد اپنی ساری حیات مبارکہ بنفس نفیس مسجد نبوی (ﷺ) کے امام و خطیب کے منصب کو سنبھالا اور آپ (ﷺ) کے نقش ِ قدم اور اتباع میں سادات و صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)، اولیائے کرام اور علمائے کرام(رحمتہ اللہ علیھم) نے امامت فرمائی-اختصار کے ساتھ یہاں امامت کے متعلق چند مسائل لکھنے کی سعی کرتے ہیں -

امامت کی شرائط:

امامت کے صحیح ہونے کی چھ شرطیں ہیں:

(1)  مسلمان ہونا  (2) بالغ ہونا (3) عاقل ہونا (4) مرد ہونا (5) قِراءَت صحیح ہونا(6)معذور نہ ہونا - [4] 

اقتداءکے صحیح ہونے کی شرائط:

اقتداء کے صحیح ہونے کیلئے 14 شرائط ہیں -ان شرائط کو مختلف آئمہ کرام نے اپنے اپنے انداز میں لکھا ہے یہاں باختلاف ِ الفاظ علامہ حسن بن عمار بن علی(رضی اللہ عنہ)کے حوالے سے لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

  • نیتِ اقتدا یعنی مقتدی کو امام کی متابعت یعنی اس  کے  پیچھے نماز پڑھنے کی نیت کرنا -
  • مرد امام کے پیچھے عورتوں کی نما ز تب صحیح ہوگی جب امام ان کی نیت کرے گاجس طرح باقی مقتدیوں کی نیت کرتا ہے -
  • مقتدی کا امام سے آگے نہ ہونا یعنی مقتدی کا قدم امام کے قدم سے آگے نہ ہو اور اس میں ایڑیوں کا اعتبار ہے پس مقتدی کی ایڑی امام کی ایڑی سے پیچھے ہو نی چاہیے-
  • امام اور مقتدی دونوں کی نماز ایک ہی ہو جیسے ظہر کی نماز، اسی ظہر کی نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے-
  • فرض پڑھنے والے کے پیچھے نفل پڑھنے والے کی نماز درست ہے لیکن نفل پڑھنے والے کے پیچھے  فرض پڑھنے والے کی نماز درست نہیں -   
  • •  امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا یعنی سوار  نے پیدل کی اقتدا کی  یا پیدل نے سوا ر کی اقتدا کی یا امام اور مقتدی دونوں الگ الگ سواریوں پر ہوں تو  مکان کے مختلف ہونے کی وجہ  سے ان تینوں  صورتوں میں اقتدا درست نہیں ہوئی-
  • ارکان کی ادائیگی میں مقتدی کا امام کے مثل یا اس سے کم ہونا پس امام اور مقتدی دونوں رکوع و سجود سے نماز پڑھتے ہوں یا دونوں اشارے سے نماز پڑھتے ہوں یا امام رکوع و سجود سے پڑھتا ہو اور مقتدی اشارہ سے پڑھتا ہو تو اقتدا درست ہے اور اگر امام اشارے سے نماز پڑھتا ہو اور مقتدی رکوع و سجود سے تو چونکہ مقتدی کا حال امام سے بہتر ہے اس لئے اقتدا درست نہیں، البتہ وضو والے شخص کے لئے تیمم والے کی اقتدا ءدرست ہے ،کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کی اقتداء بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے پیچھےاور کُبڑے کے پیچھے درست ہے اور اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء اشارہ سے نماز پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے –
  • مقتدی کا ارکانِ نماز میں امام کے ساتھ شریک ہونا پس اگر  مقتدی کسی رکن کو  امام سے پہلے یا  بعد میں ادا کرے تو اقتدا صحیح نہیں ہوگی -   
  • امام اور مقتدی کے درمیان عام راستہ (سڑک) نہ ہونا، وہ راستہ جس میں بیل گاڑی یا لدے ہوئے اونٹ و خچر گزر سکیں-
  • مقتدی پر امام کی حالت مشتبہ نہ ہونا، اگر امام کے ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کا حال مقتدی کو معلوم ہو جائے خواہ امام یا مقتدیوں کو دیکھ کر ہو یا امام یا مکبّر کی تکبیر کی آواز سن کر ہو تو اقتدا درست ہے خواہ دیوار یا منبر وغیرہ درمیان میں حائل ہوں - [5]

نماز باجماعت چھوڑنے کے عذر:

درج ذیل چیزوں میں سے کسی ایک کے موجود ہونے سے جماعت کی حاضری معاف ہو جاتی ہے :مریض، چلنے پھرنے سے معذور ہونا ، وہ شخص جس کا ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کٹے ہوئے ہوں ، مفلوج (فالج زدہ)  ،بوڑھے عاجز ،نابینا اگرچہ نابینا رہنمائی کرنے والا پائے، (سخت )بارش، کیچڑ، سخت سردی، سخت اندھیرا ، رات کے وقت آندھی چل رہی ہو،جس شخص کو اپنے مال پر خوف ہو، قرض خواہ کا خوف ہو یا ظالم کا خوف ہو، پیشاب اور پاخانہ میں سے کسی ایک کو روکے ہوئے ہو،سفر کا ارادہ ہو،مریض کی دیکھ بھال کر رہا ہو، ایسا کھانا حاضر ہو جس کو کھانے کیلئے دل چاہتاہو، ایسی جماعت کے ساتھ فقہ کا تکرار  ہو جس کے اُٹھ جانے کا خطرہ ہو-[6]     

صفوں کی ترتیب:

ایک مقتدی ہو تو امام کے دائیں جانب کھڑا ہو اور ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے کھڑے ہوں- [7]

سب سے پہلے مردوں کی صف ہو، پھر بچوں کی، پھر مخنث کی اور پھر عورتوں کی -[8]

متفرق مسائل:

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے- لوگوں میں امامت کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو- پھر اگر سارے لوگ علم میں برابر ہوں تو لوگوں میں جو سب سے اچھا قاری ہو (وہ امامت کا مستحق ہے) پھر اگر (علم و قراءت میں) سب برابر ہوں تو لوگوں میں سب سے زیادہ متقی شخص (امامت کا مستحق ہے -پھر اگر ان تین میں) تمام لوگ برابر ہوں تو ان میں سب سے زیادہ عمر والا شخص ان کی امامت کرے - [9]

اگر مسجد میں ایسا شخص داخل ہوا جو امام محلہ سے امامت کا زیادہ مستحق تھا تو پھر بھی امام محلہ امامت کا زیادہ حقدار ہے [10]

اگر رکوع یا سجدہ میں مقتدی کے (تین مرتبہ) تسبیح سے بیشتر ہی امام سر اٹھا لے تو مقتدی امام کی متابعت کرے گا-مگر مقتدی کے التحیات کے فارغ ہونے سے پہلے اگر امام سلام پھیر دے تو مقتدی  (جلدی جلدی)اپنی التحیات کو پورا کرلے(اور امام کے ساتھ شامل ہو جائے )- [11]

اگر امام آخری قعدہ سے پہلے بھولے سے کھڑا ہو گیا تو مقتدی اس کا انتظار کرے گا پس اگر مقتدی سلام پھیر دے اس سے پہلے کہ امام اس زائد رکعت کا سجدہ کرے تو مقتدی کا فرض فاسد ہو جائے گا- [12]

جو شخص فجر کی نماز میں امام کے پاس اس حالت میں پہنچا کہ اس نے فجر کی دورکعت سنت نہیں پڑھی، تو اگر اسے یہ ڈر ہو کہ ایک رکعت چھوٹ جائے گی اور دوسری رکعت وہ پالے گا تو مسجد کے دروازے وغیرہ  کے پاس فجر کی دورکعت سنت پڑھے پھر جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر جماعت کے چھوٹنے کا خوف ہو تو امام کے ساتھ شامل ہو جائے-[13]  

کسی شخص کی فجر کی دورکعت سنت رہ جائیں تو وہ سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کی قضاء نہ کرے(سورج طلوع ہونے  کے   تقریباً بیس منٹ بعد قضا کرے)- [14]

قراءت میں غلطی کا بیان :

اعراب میں غلطی سے معنیٰ نہ بدلے تو سب کے نزدیک نماز فاسد نہ ہو گی- [15]

اگر کسی کلمہ میں کوئی حرف زیادہ کیا تو اس کی دو صورتیں ہیں اگر معنیٰ نہ بدلا اور اس کی مثل قرآن مجید میں ہو تو سب کے نزدیک نماز فاسد نہ ہو گی اور اگر زائد حرف کی وجہ سے معنیٰ بدل جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی- [16]

اگر غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لے تو دیکھیں اگر دونوں کے معنیٰ میں اختلاف ہے اور دوسرے کلمہ کی مثل قرآن مجید میں نہیں پایا جاتا تو سب کے نزدیک نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر ان دونوں کے معنیٰ میں موافقت ہو لیکن دوسرا کلمہ قرآن مجید میں نہ ہو امام ابو حنیفہؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک نماز فاسد نہ ہو گی- [17]

حرف آخر:

مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز منصب رہا ہے اور اس پر فائزرہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتارہاہے-جب دنیاکے بیشتر خطوں میں سیاسی و سماجی اور تہذیبی و علمی اعتبار سے مسلمانوں کاغلبہ تھااور مسلم تہذیب دنیاکی مقبول ترین تہذیب تھی، اس وقت امام نہ صرف پنج وقتہ،جمعہ و عیدین اور جنازے کی نمازوں میں مسلمانوں کے پیشوا ہوتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل و مشکلات کے حل کیلئے بھی انہی سے رجوع کیاکرتے تھے-ماضی میں دین و دنیاکے کئی اہم کارنامے انجام دینے والے بے شمار اشخاص مساجدکے منبروں سے ہی وابستہ تھے- اسلامی کتب خانے کا اچھا خاصا ذخیرہ آئمہ کی علمی و فکری قابلیتوں کی منہ بولتی تصویر  ہے- ان کی اہمیت و برتری اور فضیلت کودراصل حضور نبی رحمت(ﷺ) نے اپنے قول و عمل کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں بٹھایاتھا-آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں ‏اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر، وارث انبیا ءسمجھے اور ادب و ‏احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے -اسی طرح آئمہ کرام کوچاہیے کہ وہ بھی اپنے منصب کا لحاظ رکھیں، ترک وتوکل اختیار کریں اور ہر ایسے قول وفعل سے گریز کریں جواُن کے یاان کے منصب کے شایانِ شان نہ ہو-

٭٭٭


[1](التوبہ:18)

[2]الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی (المتوفى:279هـ)، ایڈیشن دوم، (الناشر: شركة مكتبة و مطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ھ)، باب ماجاء فی فضل المملوک الصالح، ج:4،ص:355،رقم الحدیث:1986

[3]ابوداؤد، سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود، (بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) باب ما یجب علی المؤذن من تعاھد الوقت، ج:1، ص:143، رقم الحدیث:517

[4]ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز، رد المحتار على الدر المختار، ایڈیشن دوم،(الناشر: دار الفكر-بيروت،1412هـ)، ج:1،ص:550

[5]الشرنبلالي، حسن بن عمار بن عليؒ (المتوفى: 1069هـ) ، نور الإيضاح و نجاة الأرواح في الفقه الحنفي، (المكتبة العصرية، الطبعة الأولى، 1246ھ)،ص:63-64

[6]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار،ایڈیشن دوم،(الناشر: دار الفكر-بيروت،1412هـ)، ج:1،ص:555

[7]الكاسانی، أبو بكر بن مسعود بن أحمد ؒ (المتوفى: 587هـ)، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، الطبعة: الثانية ( دار الكتب العلمية،1406هـ)،ج:1،ص:158

[8]ایضاً،ص:159

[9]أبو الحسن، علي بن أبي بكر، الھدایہ، ناشر: دار احياء التراث العربي - بيروت – لبنان،ج:1،ص:57

[10]نظام الدين البلخي، الفتاوى الهندية(الطبعة: الثانية، 1310 هـ)،ج:1،ص:83

[11]ابن نجيم، زين الدين بن إبراهيم بن محمد (المتوفى: 970هـ)، البحر الرائق شرح کنز الدقائق (الناشر: دار الكتاب الإسلامي)، ج:1 ،ص:334

[12]الھدایہ، ج:1،ص:67

[13]ایضًا

[14]ایضًا

[15]قاضی خان،فخر الدین ابی المحاسن الحسن بن منصور،فتاویٰ قاضی خان (مکتبہ اعلی حضرت دربار مارکیٹ لاہور)، ج:1، ص:314

[16]ایضًا،ص:334

[17]ایضًا،ص:336

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر