علم نحو کی اہمیت وارتقاء

علم نحو کی اہمیت وارتقاء

علم نحو کی اہمیت وارتقاء

مصنف: مفتی محمد عمران جون 2025

’’النحو فی الکلام کالضوء فی الظلام‘‘

’’نحو کلام میں ایسے ہے جیسے اندھیرے میں روشنی‘‘-

بلاشبہ علم نحو علوم ِ عربیہ میں ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر علوم عربیہ اورعربی زبان کو سیکھنا نہ صر ف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے ،مزید یہ کہ اگر نحو کمزور ہے تو باقی علوم کو پڑھتے ہوئے آدمی لطف اندوز نہیں ہوسکتا- جیسا کہ مشہور مقولہ ہے:

’’النحوفی الکلام کاالملح فی الطعام‘‘

’’ نحو کلام میں ایسے ہے جیسے کھانے میں نمک‘‘-

نحو کے لغوی و اصطلاحی معنی:

لفظ نحو ’’نَحوٌ‘‘ عربی زبان کا مصدر ہے جو فعل ’’نَحَایَنحُو‘‘ سے ماخوذ ہے- اس کے لغوی طور پر متعدد معانی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں-القَصْد (ارادہ کرنا، قصد کرنا)، الجِہَۃ (سمت یا طرف)، المِثْل (مثال یا مشابہت)، التقدیر (مقدار)اورپیروی کرنا-[1]

اصطلاح میں:’’علم نحو ایسے اصولوں کو جاننے کا نام ہےجن کے ذریعے تینوں کلمات یعنی اسم، فعل،حرف کے آخر کے احوال معرب اور مبنی کی حیثیت سے معلوم ہوں اور بعض کلمات کی آپس میں باہمی ترکیب کا طریقہ اور کیفیت معلوم ہو‘‘- [2]

موضوع و غرض وغایت:ہر علم کا موضوع وہ چیز ہوتی ہے جس کے عوارض ذاتیہ(ایسے پیش آنے والے امور جو کسی چیز کی اپنی ذات کے اعتبار سے ہوں) کے بارے میں بحث ہوتی ہے- چونکہ علم نحو میں کلمہ اور کلام کے عوارض اور اس کے احوال سے بحث ہوتی ہے اس لئے کلمہ اور کلام علم نحو کا موضوع ہیں -[3]اگر ہم علم نحو نہ سیکھیں تو ہم سے کلام عرب میں بہت ساری غلطیاں واقع ہو جاتی ہیں اس لئے علم نحو کی غرض و غایت ’’کلام عرب میں اپنے ذہن کو لفظی غلطی سے بچانا ہے‘‘- [4]

علم نحو کی عظمت و فضیلت:

علم نحو کی فضیلت واہمیت کا اندازہ درج ذیل فرامین مبارکہ سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے :

1:سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’تین چیزوں کی وجہ سے عربی سے محبت کرو-کیونکہ میں عربی ہوں اور یہ کہ قرآن عربی میں ہے اور یہ کہ جنتیوں کا کلام بھی عربی میں ہے‘‘- [5]

2:حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ)کا ارشاد گرامی ہے:

’’علم نحو اسی طرح سیکھو جس طرح سنن اور فرائض کو سیکھتے ہو‘‘-[6]

اسی طرح آپ (رضی اللہ عنہ) کا ایک اور فرمان ہے کہ:

’’اعراب قرآن بھی سیکھو جس طرح کہ حفظ قرآن سیکھتے ہو‘‘- [7]

3:حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’علم نحو سیکھو-پس بنی اسرائیل انجیل مقدس میں لکھے ہوئے ایک حرف کی غلطی کی وجہ سے گمراہ ہو گئےاور وہ حرف یہ تھا ’’أنا ولّدتُ عيسى‘‘(میں نے عیسٰیؑ کو پیدا فرمایا)انہوں نے لام کے شد کو جزم کے ساتھ بدل دیا پس وہ کافر ہوگئے ‘‘- [8]

4: حضرت امام حسن مجتبیٰ(علیہ السلام)ایک قوم کے پاس سے گزرے جو عربی سیکھ رہے تھے تو آپ(رضی اللہ عنہ)نے ارشاد فرمایا:

’’کتنا اچھا ہے جو یہ سیکھ رہے ہیں‘‘-[9]

5:حضرت ایوب سختیانی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

’’علم نحو کو سیکھو کیونکہ یہ علم نحو گھٹیا انسان کے لئے باعث جمال ہےاور شریف آدمی کا اسے ترک کرنا باعث عیب ہے‘‘- [10]

علم نحو کی ابتداء:

1: مشہور قول یہ ہے کہ حضرت ابو الاسود الدؤلی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا کہ آپ(رضی اللہ عنہ) متفکر بیٹھے ہیں-میں نے فکر مندی کی وجہ پوچھی تو فرمایا میں نے غور کیا کہ عرب و عجم کے اختلاط کی وجہ سے لغت عرب میں فساد آ رہا ہے- میں نے کچھ اصول وضع کرنے کا ارادہ کیا تا کہ ان پر عمل کر کے فساد سےبچایا جا سکے- تین دن بعد پھر میں حاضر ہوا تو مجھے ایک قطعہ دیا اس قطعہ میں یہ مضمون تھا:

’’الكلام كله اسم وفعل وحرف، فالاسم ما أنبأ عن المسمى، والفعل ما أنبئ به، والحرف ما أفاد معنى ‘‘

’’کلام سارے کا سارا اسم ،فعل اور حر ف پہ مشتمل ہے، پس اسم وہ ہے جو مسمّی کی خبر دیتا ہے،فعل جو کام کے بارے میں بتاتاہےاور حرف جو معنی کا فائدہ دیتاہے ‘‘-

پھرارشاد فرمایا آپ اس میں کچھ اضافہ کریں پھر ابو الاسود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں میں نے مزید کچھ قاعدے جمع کئے-عطف،صفت،تعجب،استفہام،باب انّ وغیرہ کو جمع کر کے مسودہ پیش کیا-حروف مشبہ بالفعل میں مَیں نے لٰکنّ کو ذکر نہیں کیا تو ارشادفرمایا اس کو بھی شامل کر لو-اچھا خاصہ ایک مجموعہ قواعد نحویہ کا مرتب ہو گیا-آپ(رضی اللہ عنہ) نے اس مجموعہ کو دیکھ کر فرمایا:

’’ما احسن ھٰذا النحو الذی قدنحوت‘‘

’’ یہ ارادہ جو آپ نے کیا ہے کتنا اچھا ہے ‘‘-

اس قول کے مطابق اسلامی روایت میں علم نحو کے موجد و بانی حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) ہیں‘‘- [11]

نوٹ: بعض نحویوں نے علم نحو کے نام کا مآخذ اس قول مبارک کو قرار دیا ہے -

2: ایک عجمی قاری صاحب قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھےجب سورۃ براۃ کی اس آیت پر پہنچے ’’اِنَّ اللہَ بَرِیْءٌ مِنَ الْمُشْرِکِیْن وَ رَسُوْلِہ ‘‘ تو عجمی قاری صاحب نے ’’وَ رَسُوْلُہ‘‘کے لام کو جر کے ساتھ پڑھا جس سے آیت کا معنی فاسد ہو گیا (بے شک اللہ تعالیٰ مشرکین سے بھی بری اور اپنے رسول(ﷺ)سے بھی بری ہے-نعوذ باللہ ) تو اعرابی نے کہا: ’’ابری اللہ من رسولہ‘‘( کیا اللہ تعالیٰ اپنے رسول(ﷺ) سے بری ہیں)- جب حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو بے حد غمگین ہوئے، فکر ہوئی کہ چند قوانین وضع کرنے چاہئیں جن سے عجمی لوگ غلطیوں سے محفوظ ہو جائیں تو انہوں نے حضرت ابوالا سود الدؤلی (رضی اللہ عنہ) کو قوانین وضع کرنے کا حکم دیا، آپ(رضی اللہ عنہ) کے حکم سے انہوں نے قواعد وضع کئے ‘‘-[12]

اسی طرح کی باختلاف الفاظ حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں بھی منقول ہے-

علم نحو کی تدوین:

علم نحو کی تاریخ کے بارے میں اگر ہم گفتگو کریں تو وضاحت کے ساتھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابو الاسود الدؤلی(رضی اللہ عنہ)علم نحو کے بانی شمار ہوں گے- ابو الاسودالدؤلی (رضی اللہ عنہ)سے اس کے بیٹے ابو حرب بن ابی الاسود نے اوريحيى بن يعمر ،عبد الله بن بريدة (رضی اللہ عنہ) وغیرہ نے علم نحو حاصل کیا -ابو الاسودالدؤلی (رضی اللہ عنہ) کے تلامذہ نے بتدریج اسی علم کو ترقی دی اس کے بعد ابو عمرو، ابو عمر بصری اور ان کے شاگرد خلیل ابن احمد نے باضابطہ علم نحو کو مرتب کیا -خلیل ابن احمد کے مشہور شاگرد ابو بشرعمر و ابن عثمان بصری المعروف سیبویہ نے اس علم میں بڑا نام کمایا اور ’’الکتاب‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی-الکتاب ایک سند کا درجہ رکھتی ہے - یہ علم نحو کی تاریخ رہی، پھر متاخرین علماءنے اس کی طویل مباحث کو مختصر کیا اور اس کی طوالت کو اختصار کے پیرائے میں لے آئے اور اس کے اصول کو خوب واضح کیا جیسا کہ ابن مالک کی تسہیل اور علامہ جار اللہ زمخشری کی مفصّل اس پر شاہد ہے- مشہور علماء نحو جنہوں نے علم نحو میں اثاثی اور بنیادی محنت کی ان میں سے چند مشہور شخصیات ’’ ابوبشر عمرو ابن عثمان سیبویہ ، ابو الحسن علی ابن حمزہ کسائی، ابو زکریا یحیی ابن زیاد فراء، مبرد، اخفش، زجاج، محمود ابن عمر بن محمد زمخشری، علامہ عبد القاہر جرجانی، ابن عقیل، علامہ سیّد شریف جرجانی، علامہ ابو حیان نحوی ، ابن الحاجب اور ملا عبدالرحمن جامی اور قاضی محب اللہ بہاری ہیں (رضی اللہ عنہ) ہیں- ان حضرات نے نحوکی کتابیں لکھیں، اس کے قواعد کی تفصیل سے وضاحت کی-

علم نحو میں نحویانِ بصرہ اور کوفہ کی خدمات:

عراق ایک زرخیز علاقہ ہے جو دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہےاور یہ زمین کے سب سے قدیم آباد علاقوں میں سے ہے- بصرہ شہر عراق کے جنوب مغرب میں تعمیر کیا گیا-یہ نجد کے صحراء کے قریب 14ھ میں قائم کیا گیا-اسی طرح کوفہ شہر نجد کے شمالی میں 17ھ میں تعمیر کیا گیا- دونوں شہر حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) کے دورِ خلافت میں بنائے گئے- بصرہ اور کوفہ کے لوگوں میں قبیلائی تعصب پایا جاتا تھا، جو بعد میں سیاسی اور علمی تعصب میں بدل گیا- بعد میں بصرہ شعر و ادب اور علمی مناظروں کا مرکز بن گیا- بصرہ کی طرف قریبی مملکتوں کے بہت سے علماء ہجرت کر کے آئے تاکہ وہاں کے ماہرین سے نحو سیکھیں اور اپنے وطن واپس جا کر اس کو عام کریں- اس طرح بصری مکتب فکر (بصرہ کا نحوی مکتبہ) پھیل گیا، جسے بنو امیہ کے امراء نے بھی فروغ دیا- بصرہ وہ پہلی جگہ تھی جہاں نحو اور زبان کی تدوین، قواعد و ضوابط کا تعین کیا گیا- بصرہ نے دیگر شہروں کی نسبت تقریباً ایک صدی پہلے یہ کام شروع کیا- ’’سیبویہ‘‘ اور اس کی کتاب کو بصری مکتب فکر میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے-مشہور بصری نحویوں میں درج ذیل افراد شامل ہیں: الاخفش، یونس بن حبیب، الیزیدی، الجرمی، المازنی، المبرد، الزجاج، ابن السراج، ابن درستویہ، الفارسی، السیرافی وغیرہ- علماء بصرہ نحویوں کو دس طبقات میں تقسیم کرتے ہیں-

کوفیوں نے بھی بصریوں کی طرح اپنا ایک الگ نحوی مکتبِ فکر قائم کیا، کوفی مکتب کے سربراہ ابو جعفر الرؤاسی تھے، اور ان کے دو مشہور شاگرد: الکسائی اور الفراء- ان کے دیگر مشہور علماء میں شامل ہیں: ہشام بن معاویہ الضریر، ابن السکیت، ابن الاعرابی، الطوال، ابن سعدان، ثعلب، ابن کیسان، الانباری، نفطویہ وغیرہ- کوفہ کے نحوی علماء کو چھ طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے-بلاشبہ بصری علماء قیاس اور قواعد کے استنباط میں کوفیوں سے زیادہ مضبوط، زیادہ منظم اور زیادہ روایت کے پابند تھے- اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بصرہ، کوفہ کے مقابلے میں عرب بدوؤں اور فصحاء کے زیادہ قریب تھا، اس لیے وہاں زبان کا صحیح اور اصلی استعمال زیادہ سننے کو ملتا تھا- نحو (گرامر) کی تدوین بصرہ میں کوفہ سے تقریباً 100 برس پہلے شروع ہوئی-تاہم یہ بھی درست ہے کہ کئی مسائل میں کوفیوں کی رائے بھی درست ثابت ہوئی-

آخر میں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ عباسی خلفاء کی سرپرستی اور ان کی جانب سے علم، خصوصاً زبان و نحو کی تحریک کو دی جانے والی اہمیت نے اس علم کی تدوین، اصول سازی اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا-

اس علمی سرگرمی میں مناظرے اور علمی بحثیں بھی ہوئیں- یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیل بن احمد کی علمی کاوشات اپنی مثال آپ تھیں، اور سیبویہ کی کتاب، جسے بعد کے علماء اور محققین نے مکمل کیا، ہمارے تک پہنچنے والے تمام نحوی علم کی بنیاد شمار ہوتی ہے-

حرف آخر:

ابنِ مجاہد المقری نے کہا: مجھے ثعلب(نحوی) نے کہا:

’’قرآن والوں نے قرآن کے ساتھ مشغولیت اختیار کی تو کامیاب ہو گئے، فقہ کے لوگوں نے فقہ کے ساتھ مشغولیت اختیار کی تو وہ بھی کامیاب ہو گئے، اور میں زید و عمرو(یعنی نحو و لغت میں مشغول رہا )اب حیرت ہے کہ قیامت کے دن میرا کیا حال ہوگا؟تو میں وہاں سے اٹھ آیا، اور اسی رات میں حضور نبی کریم(ﷺ) کی زیارت سے مشرف ہوا-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ابو العباس  (ثعلب) کو میری طرف سے سلام کہنا، اور اس سے کہنا: بے شک وہ 'علمِ مستطیل' (یعنی وسیع علم)کا حامل ہے‘‘-[13]

ان تمام روایات مبارکہ او ر واقعات سے معلوم ہوا علم نحو کا ذوق و شوق اور مہارت نہ صرف عربی زبان کی فہم کا ذریعہ ہے بلکہ یہ اللہ عزوجل اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ) کی رضا اور خوشنودی کا بہت بڑا ذریعہ ہے- اس کی ضرورت اور اہمیت کو صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) اور تابعین(رحمتہ اللہ علیھم) نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کے فروغ میں عملی کردار بھی ادا کیا-آج مدارس دینیہ میں اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ اسباق میں رٹا سسٹم کی بجائے نحوی قواعد کے اجراء اورعربی عبارات کی ترکیب وغیرہ پہ زور دیا جائے -اس سے طلبا کو عربی کتب سمجھنے میں آسانی ہوگی اور نتیجتاً عربی علوم اجنبی نہیں لگیں گے بلکہ ان میں دل چسپی پید اہوگی -

اللہ عزوجل ہم سب کے لیے عربی علوم کی فہم کو آسان سے آسان تر بنائے -

٭٭٭


[1]المنجد،(دارالاشاعت،کراچی،گیارھواں ایڈیشن،1994ء)،ص،1001

[2]ابو حیان،محمد بن یوسف بن علی بن حیان،ھدایۃ النحو، الناشر:فیضان اکیڈمی،ص:7

[3]مفتی محمد زاھد،اصابۃ النحو شرح ھدایۃ النحو،الناشرزاھدیہ محلہ جنگی پشاور پاکستان،ص:11

[4]ھدایۃ النحو،ص:7

[5]أبو جعفر النَّحَّاس، أحمد بن محمد بن إسماعيل النحوي (المتوفى: 338هـ)،عمدة الكتاب، الناشر: دار ابن حزم - الجفان والجابي للطباعة والنشر(الطبعة: الأولى 1425 هـ -)،ج:1،ص:36

[6]الدكتور جواد علي (المتوفى: 1408هـ)، المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، الناشر: دار الساقي(ایڈیشن چہارم2001)،ج:17،ص:11

[7]ایضًا

[8]أبو علي،المظفر بن الفضل بن يحيى ،نضرة الإغريض في نصرة القريض(المتوفى: 656هـ)،ج:1،ص:3

[9] عمدة الكتاب، ج:1،ص:36

[10]الجاحظ، عمرو بن بحر بن محبوب الكناني (المتوفى: 255هـ)، البيان والتبيين، (الناشر: دار ومكتبة الهلال، بيروت،1423ھ)،ج:2،ص:151

[11] المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام، ج:17،ص:38-39

[12]ایضاً،ص:42

[13]شمس الدين أبو عبد اللہ محمد بن أحمد، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (المتوفى: 748هـ)، الناشر: دار الكتاب العربي، بيروت (ایڈیشن ثانی، 1413 هـ)،ج:22،ص:83

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر