نام و نسب:
آپؒ کا نام علی کنیت ابو الحسن لقب نور الدین اور القاری ہے-نسب نامہ کچھ اس طرح ہے، علی بن سلطان محمد القاری، الھروی المکی-[1]
ولادت و وطن:
اصحابِ سِیَر اس بات پر تو متفق ہیں کہ ان کی ولادت ہرات میں ہوئی لیکن کب ہوئی اس بارے تاریخ خاموش ہے اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کا احوال لکھنے سے اجتناب کیا ہو جس کی وجہ سے ان کی تاریخ ولادت معلوم نہ ہو سکی-
القابات اور نسبتیں:
جیسا کہ ماقبل مذکور ہے کہ آپ کے دو لقب نور الدین اور القاری ہیں -القاری لقب کے ساتھ آپ بہت زیادہ مشہور ہوئے ہیں علمی دنیا آپ کو ملا علی قاری کے نام سے یاد کرتی ہے-القاری لقب کے ساتھ مشہور ہونے کی وجہ علماء کرام نے یہ لکھی ہے کہ :
’’کان حاذقا فی علم القراءات عالما راسخا متضلعافیہ‘‘[2]
’’آپ علم القراءات میں بڑے ماہر تھے اور اس فن میں بڑے راسخ اور مضبوط عالم تھے‘‘-
رہی بات نسبتوں کی تو ان کی دو نسبتیں الھروی اور المکی ہیں-الھروی ہرات کی طرف نسبت کرنے کی وجہ سے آپ کو الھروی کہا جاتا ہے- ہرات خراسان کے شہروں میں سے ایک شہر تھا- موجودہ افغانستان کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہرات بھی ہے کیونکہ آ پ کی ولادت ہرات میں ہوئی اور یہیں بود و باش اختیار کئے رکھی تو اس مناسبت کی وجہ سے ان کو الھروی کہا جاتا ہے-
آپ نے ہرات سے مکہ معظمہ کی طرف ہجرت کی اور اسی مبارک شہر کو اپنا وطن بنالیا حتی کہ آپ کا وصال مبارک بھی وہیں ہوا تو اس وجہ سے ان کو المکی بھی کہا جاتا ہے-ہجرت کا سبب یہ بنا کہ جب اسماعیل بن حیدر الصفوی نے ہرات پر تسلط حاصل کیا تو اس نے بے شمار علماء کو شہید کیا تو اس ظلم اور بربریت کی وجہ سے علماء کی ایک کثیر جماعت نے ہرات کو چھوڑ دیا-لہذا ملا علی قاری نے بھی ہجرت کی اور مکہ مکرمہ تشریف لے گئے-[3]
تحصیل علم:
آپ نے تحصیل علم کا آغاز بچپن ہی سے کر دیا تھا ابتداءً قرآن پاک زبانی یاد کیا اور پھر علم تجوید حاصل کیا اس کے بعد قرأت کا علم شیخ معین الدین الحافظ زین الدین الھروی سے حاصل کیا اور اس میں اتنےماہر ہوئے کہ القاری کے لقب سے مشہور ہو گئے-[4]
پھر دیگر علوم ہرات کے نامور شیوخ سے حاصل کیے اس کے بعد جب مکہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں بھی حجاز مقدس کے نامور علماء و محدثین کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی علمی پیاس کو بجھایا اور علم کی اس معراج کو پایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ مرجع العلماء بن گئے-
اساتذہ:
امام صاحب کو ہرات اور خاص طور پر حجاز مقدس کے اجل آئمہ کرام سے اکتساب علم کا موقع ملا جن شخصیات سے ان کو شرف تلمذ حاصل ہوا-وہ بے شمار ہیں لیکن ان میں سے چند مشہور اساتذہ جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتب میں کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
- شیخ الاسلام ابن حجر الہیتمی
- الشیخ علاء الدین بن حسام الدین المعروف شیخ علی المتقی الہندی
- الشیخ المحدث محمد سعید ابن مولانا خواجہ الخراسانی
- العلامۃ المفسر الشیخ زید الدین عطیہ بن علی السلمی
- شیخ ملا عبد اللہ بن سعد الدین سندھی
- علامہ ابو عیسی قطب الدین محمد بن علاء الدین المکی
- العلامۃ الفقیہ شہاب الدین احمد بن بدر الدین الشافعی
- محدث محمد بن ابی الحسن محمد بن جلال الدین
- شیخ سنان الدین یوسف بن عبد اللہ الحنفیؒ[5]
تلامذہ:
جن حضرات کو آپ سے اکتساب علم کرنے کا موقع ملا ہے ان میں سے چند نامور علماء کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے:
- الامام الخطیب محی الدین عبد القادر بن محمد الطبری
- قاضی عبد الرحمٰن بن عیسی المکی الحنفی
- الشیخ محمد ابو عبد اللہ الموردی
- السید معظم الحسینی البلخی
- علامہ سلیمان بن صفی الدین الجانیؒ[6]
علم و فن پر علماء کرام کے تاثرات:
ملا علی قاری علمی دنیا کے شاہکار اور سلطان تھے -ان کا شمار اپنے عہد کے نامور اور اجل علماء میں ہوتا تھا وہ مختلف علوم دینیہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے-آپ اپنے زمانے کے وحید العصر، فرید الدہر محقق و مدقق، منصف مزاج، مفسر و محدث، اصولی و فقیہہ اور جامع علوم نقلیہ و عقلیہ تھے-الغرض! جتنے بھی علوم دینیہ تھے ان میں سے ہر ایک میں انہیں ایک وافر حصہ نصیب ہوا تھا-اسی کمال کی وجہ سے علماءکرام نے مختلف انداز میں ان کے علم و فن پر اپنے تاثرات کا اظہار کر کے ان کی علمی شان کو اجاگر کیا ہے-علامہ محمد امین المحبی ان کی علمی وجاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’احد صدور العلم فرد عصرہ الباھر السمت فی التحقیق و تنقیح العبارات و شہرتہ کافیۃ عن الاطراء بو صفہ‘‘[7]
’’وہ علم کے منبع اپنے زمانے کے یکتا عالم تھے وہ تحقیق اور عبارات کو نکھارنے میں ممتاز اور لاجواب تھے ان کی شہرت ہی مدح سرائی کے لئے کافی ہے‘‘-
علامہ عبد الملک العصامی نے جس انداز میں ان کے علمی مقام و مرتبہ کو اجاگر کیا ہے اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ ہمہ جہت شخصیت تھے اور تمام علوم نقلیہ اور عقلیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے وہ فرماتے ہیں:
’’الجامع للعلوم العقلیہ و النقلیہ والمتضلع من السنۃ النبویہ احد ھما جماھیر الاعلام و مشاہیر اولی الحفظ وا لافہام‘‘[8]
’’آپ علوم عقلیہ اور نقلیہ کے جامع اور سنت نبویہ کی فہم و فراست میں فائق تھے وہ جمہور شخصیات اور حفظ و افہام والے مشہور آئمہ کرام میں سے ایک تھے‘‘-
علامہ ابن عابدین ان کی فقاہت، محدثانہ صلاحیت اور قرأت میں ان کی مہارت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’خاتمۃ القراء و الفقہاء و المحدثین و نخبۃ المحققین و المدققین‘‘[9]
’’وہ قراء، فقہاء اور محدثین کے خاتم اور محققین و مدققین کے پسندیدہ تھے‘‘-
زہد و تقوٰی:
ملا علی قاری جس طرح علوم میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اسی طرح وہ زہد و تقوٰی میں بھی معروف تھے -ان پر زہد و ورع اور خشیت الٰہی کا غلبہ تھا وہ ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے -وہ کثرت عبادت اور توجہ الی اللہ کی وجہ سے لوگوں سے کم ملتے تھے-ان کی پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ وہ حکام اور امراء کی قربت سے ہمیشہ اپنے آپ کو بچاتے تھے-کیونکہ ان کی رائے تھی کہ امراء کی قربت اور ان سے ہدیے اور تحفے وصول کرنا یہ اخلاص اور تقوٰی کے لئے نقصان دہ ہے-آخر ایسا جذبہ کیوں نہ ہوتا کیونکہ آپ کے والد نے آپ کی تربیت بھی اسی نہج پر کی تھی آپ خود اپنے والد کے بارے میں فرماتے ہیں:
اللہ رحم کرے میرے والد پر وہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میں نہیں چاہتا کہ تو ایسا عالم بنے جو فقرو فاقہ کے ڈر کی وجہ سے امراء کے دروازے پر کھڑا ہو-
اسی تربیت کا اثر تھا کہ آپ نے کبھی بھی حکام اور امراء کے سامنے دنیا کے لئے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ اپنے ہاتھ کی محنت اور کمائی کو ترجیح دی-علماء نے لکھا ہے کہ آپ ہر سال خوبصورت خط کے ساتھ قرآن مجید کا نسخہ تیار کرتے اور نیچے قرأت اور تفسیر کا حاشیہ لگاتے اور اس کو بیچ کر ایک سال کے نان و نفقہ کا اہتمام کر لیتے-[10]
مسلک:
اگر آپ کی کتب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نے نہ صرف مسلک احناف کا دفاع کیا ہے بلکہ ان کے حق میں بھر پور دلائل بھی دیے ہیں اور باقاعدہ امام اعظم ابو حنیفہ اور آپ کے اصحاب کے مناقب بھی تحریر فرمائے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آپ ایک نامور حنفی المسلک امام تھے-
تصنیفات:
امام صاحب علوم دینیہ میں ہمہ جہت شخصیت ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ درجے کے مصنف کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں-جب ہم ان کی کتب کا جائزہ لیتے ہیں تو تقریباً ہر فن میں ان کی کتب ملتی ہیں جو ان کی وسعت نظری اور علمی شان جلالت کا منہ بولتا ثبوت ہے-علماء کرام نے لکھا ہے کہ آپ کی کتب کی تعداد سینکڑوں میں ہے تو ان تمام کتب کایہاں ذکر کرنا طوالت سے خالی نہیں ہوگا-لہٰذا ہم یہاں کی ان کی چند مشہور کتب کا ذکر کرتے ہیں:
v تفسیر القرآن
v مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح
v شرح الشفاء فی حقوق المصطفٰے
v شرح مشکلات المؤطا
v شرح الحصن الحصین
v جمع الوسائل شرح الشمائل
v الازھار المنثورہ فی الاحادیث المشہورۃ
v شرح نخبۃ الفکر
v الجمالین حاشیہ علی الجلالین
v شرح الشاطبیۃ
v شرح صحیح مسلم
v شرح الفقہ الاکبر
v شرح مسند الامام ابی حنیفۃ
v شرح الھدایہ للمرغینائی
v الناسخ والمنسوخ من الحدیث
v تذکرۃ الموضوعات
v نزھۃ الخاطر فی ترجمۃ غوث الاعظم عبد القادر
v مناقب الامام اعظم و اصحابہ
v الاثمار الجنیۃ فی اسماء الحنفیۃ
v تعلیقات القاری علی ثلا ثیات البخاری[11]
وفات:
آپ کا وصال ماہ شوال1014ھ کومکۃ المکرمہ میں ہوا-آپ کو مقبرۃ المعلاۃ میں دفن کیا گیا-[12]
٭٭٭
[1](الاعلام للزرکلی، جز:5، ص:12)
[2](مرقاۃ المفاتیح ترجمہ الامام ملا علی قاری، ص:16)
[3](ایضاً)
[4](ایضاً)
[5](مرقاۃ المفاتیح، ص:18)
[6](ایضاً:ص:19)
[7](خلاصۃ الاثر، جزـ3، ص:185)
[8](سمط النجوم ، جز:4، ص: 402)
[9](مرقاۃ المفاتیح، ص:20)
[10](الاعلام للزرکلی، جز:5، ص:12)
[11](ھدیۃ العارفین، جز:1، ص:751)
[12](خلاصۃ الاثر، جزـ3، ص:186)