میلاد مصطفےٰﷺ و عرس مبارک بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرہ (رپورٹ)

میلاد مصطفےٰﷺ و عرس مبارک بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرہ (رپورٹ)

میلاد مصطفےٰﷺ و عرس مبارک بانی اصلاحی جماعت قدس اللہ سرہ (رپورٹ)

مصنف: ادارہ نومبر 2016

ہر عہد میں اللہ تعالیٰ ایسی شخصیّات پیدا فرماتے ہیں جو گم گشتگانِ راہ کو صراطِ مستقیم پہ گامزن کرتے ہیں- اُنہی شخصیّات میں سے ایک شخصیّت حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ کی نویں  پُشت میں حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ کی ہے- اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ہی وسیع قلب، اعلیٰ ظرف اور روشن ذہانت عطا فرمائی تھی-آپ کی فضیلت کا اظہار آپ کی یومِ ولادت کی نسبت سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دین کی خاص ڈیوٹی کے لئے چن لیا تھا -آپ  قدس اللہ سرّہ کی ولادت اُس دِن ہوئی جس دن برِّ صغیر کے مسلمانوں کی تقدیر تبدیل ہوئی اور انہیں دو صدیوں کی غلامی سے نجات ملی یعنی جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا اور اُسی دن ستائیس رمضان ، لیلۃ القدر، بروز جمعہ کی سحر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ کی ولادت ہوئی - آپ کے والدِ گرامی شہبازِ عارفاں حضرت سُلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ ایک صاحبِ تصرف بزرگ ، صاحبِ تصورِ اسم اللہ ذات اور ولیٔ         کامل تھے-اُنہوں نے اپنے اِس فرزندِ عظیم  کو اپنی خاص تربیّت میں رکھّا اور علومِ ظاہری کے ساتھ ساتھ علومِ باطنی بھی سکھائے یعنی راہِ سلوک کا سفر اپنی معیّت ہی میں طے کروایا-  حضرت سُلطان محمد عبد العزیز کا انتقال   1981ء میں ہوا تو والد گرامی و مرشد کے انتقال کے بعد آپ نے مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالی اور زندگی بھر تعلُّق باللہ سے جو نظریہ اور تجربہ پایا تھا اُسے عملی سطح پہ دُنیا میں پیش کرنے کے لئے ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز فرمایا -

آپ قدس اللہ سرّہ عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کےلوگوں میں جب خُدا خوفی اور انسانیّت کا فقدان دیکھتے تو سوچتے کہ یہی لوگ جو جوق در جوق حضرت سُلطان باھُو  قدس اللہ سرّہ کی زیارت کو آتے ہیں کیوں نہ اِن کی ایسی تربیّت کر دی جائے کہ یہ رسمی روایتی مرید کی بجائے ایک انقلابی و تحریکی کارکن بن جائیں اور اصلاحِ معاشرہ و دعوتِ اِلی اللہ کا اہم فریضہ انفرادی و اجتماعی  سطح پہ ادا کریں -آپ  جانتے تھے کہ مروّجہ نظامِ خانقاہی میں رہتے ہوئے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی جب تک کہ اسے باقاعدہ تحریک کی شکل نہ دی جائے جیسے حضرت علامہ اقبال ؒنے فرمایا تھا کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری‘‘ تو آپ  نے بھی وہی رسمِ شبیری ادا کرنے کا تہیّہ فرمایا-

آپ  ہر وقت دینی و روحانی خدمات کے جذبہ سے سرشار رہتے تھے  - ہمہ وقت اولیائے کاملین اور عارفین کی تعلیمات کے مطالعہ میں رہنا اور اسی ذکروفکر میں وقت گزارنا آپ کا معمول اور شغل رہا - آپ کو قرآن مجید و احادیثِ مُبارکہ کی روشنی میں اصلاحِ قلب و باطن، تجلیّۂ روح و تزکیۂ نفس کے متعلق آیات و احادیث اور سلطان العارفین قدس اللہ سرّہ کی تعلیمات پر اِس قدر عُبُور تھا کہ گھنٹوں تک آپ اصلاحِ قلب اور اسرار و رموزِ باطنیہ پر گفتگو فرماتے اور لوگ راہِ ہدایت کا سامان آپ کی بارگاہ سے کر کے جاتے - آپ کے باطنی مقامات اور گوہر بار تعلیمات کے اثر سے ہر وقت عامۃ النّاس کی بڑی تعداد آپ کی خدمت میں جمع رہتی- آپ نے اپنی خدمت میں بیٹھنے والوں کی تربیت فرمائی اور اُنہیں تبلیغِ دین اور دعوتِ معرفتِ الٰہی کی خاطر تیّار کیا -

آپ نے اس مشن کو کامیاب بنانے کے لئے اصلاح و تبلیغ کے لئے  دورے بھی فرمائے اور باقاعدہ سالانہ میلادِ مصطفیٰ ﷺ  کے پروگراموں  کا اہتمام بھی فرمایا جو اکثر جنوری، فروری اور مارچ کے مہینوں میں ہر سال ، ہر ضلع تحصیل اور یونٹ کی سطح پر ہوتے ہیں اور سالانہ مرکزی پروگرام ہر سال ۱۲، ۱۳ اپریل کو آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز قدس اللہ سرّہ دربار حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ پر شروع فرمایا جو الحمد للہ آج تک باقاعدگی سے جاری و ساری ہے -

26، دسمبر، 2013ء میں آپ قدس اللہ سرّہ  کے اس دنیائے فانی سے پردہ فرماجانے کے بعد آپ کے جانشین صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس نے آپ کی مسند کو  نہ صرف سنبھالا بلکہ جس جانفشانی سے بانئ اصلاحی جماعت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ نے اپنی تمام حیاتِ طیبہ اعلائے کلمۃ الحق کے لئے گزار دی اور لاکھوں بے راہ لوگوں کی تقدیر بدلی اور صراطِ مستقیم پر گامزن فرمایا بعینہٖ اُس سنت کو اپناتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس نے اس مشن کے لئے اپنے آپ کو وقف فرما دیا ہے اور اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم کو وسعت عطا فرمائی جو دُنیا بھر کے  سامنے امن و اعتدال اور جُہد و کوشش کی ایک زندہ و تابندہ مثال  ہے-

جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کے زیرِ صدارت  آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہٗ پر 12، 13 اپریل کے میلاد مصطفی ﷺو عرس مبارک حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہ کے مرکزی پروگرام کے علاوہ ہر سال قمری سال کے مطابق ماہِ ذوالحجہ کی جمعرات اور جمعہ کو بانئ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے سالانہ عرس مبارک کی مناسبت سے عظیم الشان میلادِ مصطفی ﷺ و عرس مبارک بانئ اصلاحی جماعت حضرت  سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ کا انعقاد ہوتا ہے جس میں پورے ملک اور بیرون ممالک سے نہ صرف آپ کے مریدین و کارکنان اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین شرکت فرماتے ہیں بلکہ  ہر خیال و فکر کے لوگ دلجمعی سے آتے ہیں اور اس فیضِ عام سے مستفیض ہوکر نہ صرف خود بلکہ فیضِ نظر سے کامرانی کےساتھ واپس جاکر دوسروں کو بھی سعی ٔ اتحادِ امت کا پیغام پہنچاتے ہیں - آنے والا ہر بندہ خواہ وہ جس نیت کے ساتھ تشریف لاتا ہے وہ فیضِ رساں بن کر اور پُراطمینان ہوکر اسلام اور اتحادِ امت کے لئے جوش و ولولہ کے ساتھ روحانیت کا زادِ راہ لے  کر جاتا ہے-

اس سال  تیرہواں (13واں) میلاد مصطفی  ﷺ و عرس مبارک بانئ اصلاحی جماعت  سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ تیس (30) اکتوبر بروز جمعۃ المبارک نہایت ہی اہتمام سے منعقد ہوا- اس پروگرام  کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ ملک بھر سے قافلے مختلف ذرائع نقل و حمل استعمال کرتے ہوئے اس مبارک محفل میں شرکت کے لئے حاضر ہوتے ہیں-گڑھ مہاراجہ شہر سے دربار عالیہ حضرت سلطان باھُو صاحب قدس اللہ سرّہ کی طرف آنے والے مین روڈ سے آستانہ عالیہ حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ تک عالمی تنظیم العارفین کے کارکنان و محافظ فرائض کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف یونیفارم میں ہر ہر مرحلے پر راہنمائی کے لئے موجود ہوتے ہیں جو مختلف شہروں سے آنے والے قافلوں کی لمحہ بہ لمحہ راہنمائی فرماتے ہیں-ابتدائی مرحلے میں پارکنگ سٹاف ، انتظامیہ کے احکامات کے مطابق پروگرام میں شرکت کرنے والی گاڑیوں کی نوعیت حتی کہ گاڑی کے رنگ کے اعتبار سے پارکنگ کا اہتمام کرتے ہیں- مثلا کار پارکنگ ، بس ، ویگن، موٹر سائکل پارکنگ کے علیحدہ علیحدہ سٹینڈز ہوتے ہیں- اسی طرح  بڑے سائز کی بسوں کا الگ سٹینڈ، سبز کلر پک اپ کا الگ سٹینڈ، لوکل مزدا کا الگ سٹینڈہوتا ہے- اس ترتیب سے ایک تو نظم ضبط برقرار رہتا ہے اور دوسرا پروگرام میں شرکت کرنے والوں کو واپسی پر اپنی گاڑی تک رسائی میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا-

گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد سیکیورٹی چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں تین مختلف چیک پوسٹوں پر چیکنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے- سازوسامان والے اور عام زائرین جب مختلف لائنوں سے ہوتے ہوئے تین چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں تو ان کے دلوں میں اس آستانہ پاک کا نظم و ضبط جاگزین و راسخ ہو چکا ہوتا ہے جس کا مظاہرہ وہ خود بخود محل شریف کی حاضری کے وقت بھی کرتے ہیں اور پروگرام میں شرکت کے دوران بھی-

جمعرات کو بعد از نمازِ مغرب آستانہ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز قدس اللہ سرّہ پر نہایت ہی روح پرور رسمِ چادر پوشی ہوتی ہے-اگلے روز صبح میلادِ مصطفی و عرس مبارک کی محفل کا آغاز ہو جاتا ہے جو جمعہ کی نماز تک جاری رہتا ہے جس میں مختلف علمائے کرام اپنے فکری و علمی خطابات سے حاضرینِ محفل کے قلوب کو منور کرتے ہیں - پنڈال میں موجود لاکھوں کا مجمع نماز جمعہ  کی ادائیگی کے بعد تقریباً نصف گھنٹہ میں لنگر شریف تناول کرنے کے بعد واپسی کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے-

پروگرام کے آغاز سے لے کر اختتام تک تنظیم العارفین کے سیکیورٹی رضاکاروں کے علاوہ علاقے کی حکومتی انتظامیہ بھی بھر پور تعاون کرتی ہے- کسی حادثہ کی صورت میں ایمبولنسز ، فائر بریگیڈ کی فراہمی سے لے کر موبائل سروسز کا گشت اس پروگرام کے اختتام تک جاری رہتا ہے-

امسال کی اس نظم و ضبط سے معمور شاندار میلاد مصطفی ﷺ و عرس مبارک حضرت سلطان محمد اصغر علی قدس اللہ سرّہ کی تقریب میں  مرکزی خطاب کرتے ہوئے ، سیکرٹری جنرل اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین ، جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے فرمایا:-

’’ لفظ عرس کا استعمال بزرگانِ دین اور اولیائے کاملین کے یومِ وصال  پر استعمال کیا جاتا ہے ، یہ سچ ہے کہ اس دن وہ قابل قدر شخصیات دنیا کو چھوڑ کر جاتی ہیں اور اپنے عزیز و اقارب، اولاد سے بچھڑ جاتی ہیں لیکن اسی دن وہ اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں پہنچ جاتی ہیں ان کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی رات کوئی نہیں ہو سکتی جس رات وہ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہو جائیں- اولیائے کاملین کا وجود معاشرے کے لئے  باعث  ِخیر و برکت ہوتا ہے کیونکہ وہ عوام کو اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی یاد دلاتے ہیں اور خیر و نیکی اور معرفت الٰہی کی دعوت دیتے ہیں- عوام کو امن و محبت ، پیار ، عدم تشدد و عدم شدت، برداشت، یکجہتی اور اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی بتائی ہوئی اقدار کو اپنانے کا درس دیتے ہیں، جس سے معاشرہ درست سمت میں رہتا ہے- اولیائے کاملین ظاہر اور باطن دونوں کی درستگی کی بات کرتے ہیں- اگر باطن درست ہو تو فرد بھی درست ہو جاتا ہے اور معاشرہ بھی  - باطن کی خرابی کے باعث ہی معاشرہ خراب ہوتا ہے- اگر ہم معاشرہ کو درست کر ناچاہتے ہیں تو ہمیں اپنے باطن کو درست کرنا ہو گا- اس کے برعکس اگر باطن درست نہ ہو تو معاشرے میں جنگ و جدل، نفرت، تعصب ، لالچ، شدت، قتل و غارت، بدعت، ریا کاری، زنا ، بے حیائی ، شرک ، حرام خوری، رشوت ستانی اور  وعدہ خلافی کا دور دورہ ہو گا - اس کا مقابلہ صرف اور صرف اسلامی اقدار  پر عمل درآمد کرتے ہوئے اولیائے کاملین کے بتائے ہوئے طریق پرعمل سےممکن ہے- اگر معاشرے میں روحانیت غالب آجائے تو معاشرہ ، صاف، شفاف اور محبت کا گہوارہ بن جائے گا- شیطان فتنہ پروری کے ذریعے انسانیت کو ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے اور فتنہ پرور لوگ شیطان کا سب سے مؤثر ہتھیار ہوتے ہیں -شیطان انسانیت اور انسان کا دشمن ہے اور شیطان کے وار اور ہتھیار سے بچنے کے لئے  ذکرِ الٰہی  ہے  -ذکرِ الٰہی  کے ذریعے ہی شیطان کو شکست دی جا سکتی ہے  ‘‘-

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے مزید فرمایاکہ :-

’’ عالمی منظر نامے پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو دنیا میں مسلمان ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے  جا رہے ہیں اور ساتھ ہی عالمی میڈیا کے ذریعے انہیں دہشت گرد  کہا جا رہا ہے - عالمی میڈیا کو  72 دنوں تک کشمیر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی نظر نہ آئی کیونکہ ان کا معاشی مفاد بھارت سے وابستہ ہے لیکن کشمیریوں کے عزم اور حوصلے کی وجہ سے آخر کار عالمی میڈیا بھارتی ریاستی دہشت گردی اور پیلٹ بندوقوں کے ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو ہی گیا-

کشمیری وہ مسلمان ہیں کے1931ء میں انہوں نے سنٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ راج کے خلاف احتجاج میں نماز فجر  کی اذان کے لئے اپنے اکیس  مسلمانوں کے خون کا نذرانہ پیش کیا- کشمیریوں کا جذبہ حریت بلند ہے جسے بھارت اتنی دہاہیوں سے سات لاکھ سے زائد فورس کے ذریعے بھی دبا نہیں سکا - ہمارا فرض بنتا ہے کہ دنیا کے ہر محاذ پر ان کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی ، مدد کریں اور ان کے حق آزادی کے لئے آواز اٹھاتے رہیں کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے- آنے والے دنوں میں بھارت ٹوٹ جائے گا  - مودی کی ’’دال‘‘ پہ نقطہ لگ چکا ہے یہ مودی نہیں در اصل ’’موذی‘‘ ہے -کہا جاتا ہے کہ چیونٹی کی جب موت آتی ہے تو اسے پر لگ جاتے ہیں، بھارت کی چیونٹی مودی ہے اور بھارت کے پر ہندو انتہا پسندی ہے، بھارت کے ٹوٹنے میں پہلا دھچکا کشمیر ہو گا - لیکن یہ فقظ باتوں سے نہیں ہو گا اس کے لئے عمل کی ضرورت ہے اور عمل ہی دنیا میں ترقی اور وقار سے جینے کے لئے ضروری ہے -اولیائے کاملین نے ہمیشہ عمل کی دعوت دی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہو گا- تاکہ دنیا میں عزت و وقار سے سر اٹھا کر جی سکیں‘‘-

(نوٹ:-اس خطاب کی لفظ بہ لفظ مکمل ٹرانسکرپشن ان شاء اللہ اگلے شمارے سے باقاعدہ شروع کی جائے گی-) 

اس محفل میں عوام الناس کے ایک جم غفیر کی شرکت سے یہ اندازہ بلکہ یقین ہو جاتا ہے کہ  بلاشبہ بانئ اصلاحی جماعت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ نے عرفانِ ذات کا جو چراغ روشن کیا تھا آج اُس کی کرنیں لاکھوں قلوب کومنور کر رہی ہیں - قرآن مجید سے اطاعتِ الٰہی کی جو دعوت اس پلیٹ فارم سے دی جا رہی ہے اُس پہ لبیک کہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے- انقلاب آفرین جدوجہد جاری ہے اور یہ پاکستانی معاشرے کو اسلامی فلاحی معاشرہ بنانے پہ منتج ہو گی(ان شاء اللہ تعالیٰ)- حق کے پیغام کو ہر لمحہ نئی شان سے پذیرائی مل رہی ہے-بانئ اصلاحی جماعت ، سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرّہ   کا نامِ مبارک تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ آپ قدس اللہ سرّہ نے  تصوّف کے اس فلسفہ کو حقیقت کا رنگ دیا ہے جس میں علم کے ساتھ عمل پر زیادہ زور دیا جاتا ہے بلکہ عمل کے فلسفہ میں بھی ایک نئی رُوح پھونکی ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر