عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) و آدابِ معاشرت

عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) و آدابِ معاشرت

عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) و آدابِ معاشرت

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی جون 2025

خاتم الانبیاءحضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس ہمارے عقیدہ و عقیدت کا محور ہے-کیونکہ یہ ہمارے ایمان کے لئے لازم ہے جیسا کہ ’’صحیح بخاری‘‘ کی روایت ہے:

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتّٰى أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَوَلَدِهٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ‘‘[1]

’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘-

شیخ سعدی شیرازیؒ محبت کا ایک دلچسپ فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں کہ:

عشق اول در دل معشوق پیدا می شود
تا نہ سوزد شمع کے پروانہ شیدا می شود

’’سب سے پہلے عشق معشوق کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ جب تک شمع ہی روشن نہ ہو تو پروانہ کیسےاس پر فریفتہ و شیدا ہوگا‘‘-

یعنی جو خود کو محب کہتا ہے وہ درحقیقت محب ثانی ہوتا ہے اور جس کو وہ محبوب کہتا ہے وہ اس کا محب اول ہوتا ہے-کیونکہ جب تک عشق معشوق کے دل میں پیدا نہ ہو تو عاشق اس سے عشق نہیں کر سکتا- محبت خیر خواہی کا نام ہے اوروہ سب سے پہلے محبوب کے دل میں پیدا ہوتی ہے-جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کا تعارف کروایا-

’’لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌo‘‘[2]

’’تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں، جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں‘‘-

جب بھی اس آیت کریمہ کو پڑھا جاتا ہے تو عموماً اس کے شان نزول کو بیان کیا جاتا ہے، اس سے متصل صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس آیت کریمہ کے مصداق کون لوگ ہیں-عموماً اس سے مراد وہی لوگ لیے جاتے ہیں جو آقا کریم (ﷺ) کے ہم زمانہ تھے- مگر یاد رکھیں! یہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے کیونکہ ایمان والے قیامت تک موجود رہیں گے-گویا کوئی مومن وہ چاہے آقا کریم (ﷺ) کے زمانے میں تھا یا حضور (ﷺ)سے 14صدیاں بعد آتا ہے ہر ایک کے ساتھ حضور (ﷺ) اپنی شایانِ شان محبت فرماتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے-

’’مشکوۃ شریف‘‘ کی حدیث پاک ہے کہ حضرت عمر و بن شعیب اپنے والدسےاور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا

’’أَيُّ الْخَلْقِ أَعْجَبُ إِلَيْكُمْ إِيْمَانًا؟‘‘

’’تمہارے نزدیک مخلوق میں سے زیادہ قابلِ قدر (حیران کن، عجیب تر، انوکھا) ایمان کس کا ہے؟‘‘

(نوٹ:اس حدیثِ پاک میں ’’افضلیتِ ایمان‘‘ یا ’’مراتبِ ایمان‘‘ کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ انبیاء کرام (علیھم السلام) کا ایمان سب سے بلند ، پھر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا ، پھر اسی طرح ---! یہاں عجیب تر یا انوکھے ایمان کی بات ہو رہی ہے )

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے سوچ و بچار کے بعد عرض کیا :

’’اَلْمَلَائِكَةُ‘‘                  ’’فرشتے‘‘

آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’وَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟ ‘‘

’’اورکیا ہے انہیں ؟ کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟ حالانکہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں ‘‘-

یعنی اُن کی افضلیت میں شک نہیں ، مگر جہاں بات ہو رہی ہے کہ ’’اسبابِ ایمان ‘‘ بہت کم ہوں لیکن پھر بھی ایمان کامل ہو-

صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کافی سوچ و بچار کے بعد پھر عرض کیا :

’’فَالنَّبِيُّوْنَ‘‘   ’’پھر انبیاء کرام (علیھم السلام) ‘‘

یعنی انبیاء کرام (علیھم السلام) کا ایمان حیرت انگیز ہے -

آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’وَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ؟ ‘‘

’’اور اُن حضرات انبیاء کو کیا ہے ؟ کہ وہ ایمان نہ لائیں گے حالانکہ اُن پر تو رب تعالیٰ کی وحی اترتی ہے‘‘-

یعنی ان کے پاس تو ’’وحی الٰہی ‘‘آتی ہے ، فرشتوں کا آنا جانا ان کے پاس رہتا ہے ، رب کا پیغام فرشتے ان کے پاس لے کر آتے ہیں ، ان کے پاس اسبابِ ایمان بہت زیادہ ہیں - لہٰذا انبیاءکرام ( علیھم السلام)کا ایمان حیرت انگیز کیسے ہو سکتا ہے -

صحابہ کرام (علیھم السلام) نے کافی سوچ و بچار کے بعد پھر عرض کیا :

’’فَنَحْنُ‘‘                     ’’پھر ہم‘‘

آقاپاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:

’’وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟ ‘‘

’’اورتمہیں کیا ہے ؟ کہ تم ایمان نہیں لا ؤ گے ؟ حالانکہ میں تمہارے درمیان ہوں‘‘-

یعنی اے میرے صحابہ تم نے مجھے دیکھا، میرے معجزات دیکھے،گویا کہ تمہارے لئے تو ایمان لانے کے اسباب بہت ہیں - اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اور کون لائے گا ؟ اس لئے اے میرے صحابہ وہ لوگ بتاؤ جن کیلئے اسباب ایمان کم ہوں مگر وہ ایمان میں پختہ ہوں-

صحابہ کرام خاموش ہو گئے اور عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ)! آپ ہی ارشاد فرمادیں -آقا کریم (ﷺ )نے ارشاد فرمایا کہ:

’’إِنَّ أَعْجَبَ الْخَلْقِ إِلَيَّ إِيْمَانًا لِّقَوْمٍ يَّكُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ يَجِدُوْنَ صُحُفًا فِيْهَا كِتَابٌ يُّؤْمِنُوْنَ بِمَا فِيْهَا‘‘[3]

’’مجھے ساری مخلوق میں پیاری ایمان والی وہ قوم ہے جو میرے بعد ہوگی وہ لوگ صحیفے پائیں گے جن میں وہ کتاب ہوگی وہ کتاب کی ہر چیز پر ایمان لائیں گے‘‘-

مطلب یہ تھا کہ میرے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سے لے کر تاقیام قیامت جو لوگ ایمان لائیں گے وہ مجھے دیکھیں گے نہیں بلکہ صرف میرا نام سن کر ایمان لائیں گے ان کا ایمان قابل قدر اور حیرت انگیز ہوگا -

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملائکہ، انبیاء کرام (علیھم السلام) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا ایمان افضل ہے لیکن یہ وہ بشارت ہے جو آقا کریم (ﷺ) نے اپنی زبان مبارک سے ہم گنہگار امتیوں کے لیے فرمائی جو حضور نبی کریم (ﷺ) کے 1400 برس بعد آئے- یعنی رسول اللہ (ﷺ) نے ہمارے اور اپنے درمیان ایک نسبت اور خوشخبری کو قائم فرمایا-

حضرت ابو امامہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’طُوْبٰى لِمَنْ رَّآنِيْ وَآمَنَ بِيْ، وَطُوْبٰى سَبْعَ مَرَّاتٍ، لِمَنْ لَّمْ يَرَنِيْ وَآمَنَ بِيْ ‘‘[4]

’’خوشخبری ہو اُسےجس نےمجھےدیکھا اور مجھ پر ایمان لےآیااور سات بار خوش خبری ہواُسے جس نےمجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا‘‘-

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی رفعت اور عظمت کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے مثلاً حضور (ﷺ) کی مبارک آنکھ کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی‘‘[5]،حضور (ﷺ) کے مبارک ہاتھ جو اُس جماعت کے ہاتھوں پہ آ جائیں جو بیعت رضوان کرتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ‘‘[6]، حضور (ﷺ) کے مبارک سینہ کی عظمت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ’’اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ ‘‘[7]اور حضور (ﷺ) کی مبارک زبان کی عظمت کو اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی‘‘[8]-

اب اندازہ لگائیں! کہ کہاں وہ رفعت و عظمت والی ذات پاک اور کہاں ہم جیسے عاجز ، گناہ گار و خطاکار اور عیبوں سے بھرے لوگ-اس لئے جب ہمارے آقا کریم (ﷺ) اتنے بلند رتبوں اور عظمتوں کے باوجود بھی ہم گناہ گاروں سے محبت کریں تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم رسول اللہ کی اس عظمت پہ اور رسول اللہ (ﷺ)کی ہمارے ساتھ اس محبت کی بنیاد پہ ہم رشک کرتے ہوئے حضور (ﷺ)سے اپنی محبت کو دوبالا کر دیں-

حضرت ابوعبیدہ ابن جراح (رضی اللہ عنہ) نے بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) میں عرض کی:

’’یَا رَسُوْلَ اللہِ (ﷺ) اَحَدٌ خَیْرٌ مِّنَّا اَسْلَمْنَا وَ جَاھَدْنَا مَعَکَ قَالَ نَعَمْ قَوْمٌ یَّکُوْنُوْنَ مِنْ م بَعْدِکُمْ یُوْمِنُوْنَ بِیْ وَلَمْ یَرَوْنِیْ‘‘[9]

’’یا رسول اللہ (ﷺ) کوئی ہم میں سے بہتر ہے، ہم اسلام لائے، ہم نے آپ کے ساتھ جہاد کیا-رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایاہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد ہوں گے، مجھے دیکھا نہ ہوگا اور مجھ پر ایمان لائیں گے‘‘-

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِيْ لِيْ حُبًّا، نَاسٌ يَكُوْنُوْنَ بَعْدِيْ، يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِيْ بِأَهْلِهٖ وَمَالِهٖ‘‘[10]

’’میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ میرے بعد ہوں گے ان میں سےہر ایک شخص کی یہ تمنا ہوگی کہ کاش! اس کے تمام اہل عیال و اموال کے بدلے میں اس کو میری زیارت ہو جائے‘‘-

غور کریں! حضور نبی کریم (ﷺ) کے یہ مبارک فرامین بہت کچھ بتاتے ہیں کہ ہماری محبت و الفت سید الانبیاء (ﷺ)سے کیسی ہے؟ اس کی پاکیزگی کیا ہے؟ اور اس کی اہمیت نہ صرف ہماری اپنی ایمانیاتی زندگی میں کیا ہے بلکہ اس کی اہمیت سید الانبیاء (ﷺ)کی مبارک نظر میں کیا ہے؟ اور یہ کہ محبت میں پہل اُمت نے کی ہے یا غریبوں کے والی کمبلی والے آقا (ﷺ) نے محبت میں پہل فرمائی ہے ؟ سعدی کا قول اس لئے بجا ہے کہ’’عشق اوّل در دلِ معشوق پیدا می شود‘‘ کہ محبت میں محبوب پہل کرتا ہے اور عاشق محبوب کی محبت سے ہی عشق کی تحریک پکڑتا ہے -

لہٰذا!ہمیں اپنے عیب، گناہ اور نقائص پہ نظر رکھنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نےہمارے ایمان لانے کی ہم سے 1400 برس قبل تحسین اور توصیف فرمائی-یہ آقا کریم (ﷺ) کی لجپالی ہے کہ آپ (ﷺ)نے ہمیں اپنے دامن سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی-

اس کرم نوازی اور عطا کے عوض ہم حضور (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں کیا پیش کر سکتے ہیں؟اس کا عوض اور صلہ کچھ نہیں ہے کیونکہ محبت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی-لیکن دو چیزیں ہمیں ضرور ملتی ہیں ایک قران مجید اور دوسری احادیث رسول (ﷺ)-

(1)  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[11]

’’تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا،مگر قرابت کی محبّت‘‘-

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے حبیب (ﷺ)آپ انہیں فرما دیجیے کہ میں نے تمہیں جو کتابِ ہدایت دی، جنت کی راہ دکھائی، دوزخ سے بچنے کی تدبیر بتائی، اور اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھایا تو اس سب کے صلہ میں مَیں تم سے کوئی اجرت نہیں لیتاسوائے اس کے کہ تم میرے اقرباء سے محبت کرو-

’’حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ ’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى‘‘نازل ہوئی توصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)نے عرض کی:

’’يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ قَرَابَتُكَ هٰؤُلٓاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ:عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا‘‘[12]

’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کے قرابت داروں میں سے وہ کون ہیں جن کی مودت ہمارے اوپر واجب ہے‘‘-’’آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا حضرت علی(رضی اللہ عنہ)، حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا)اور ان کے دو بیٹے (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنھم)‘‘-

لہٰذا اگر ہم حضور (ﷺ) کی اس کرم نوازی کے عوض کچھ پیش کرسکتے ہیں تو وہ فقط حضور (ﷺ) کے اقرباء کی مودت ، پنج تن پاک کی مودت اور آلِ مصطفےٰ (ﷺ) کی مودت ہے جو ہم پر لازم کی گئی ہے-

(2)   حضور نبی پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى يَكُوْنَ هَوَاهُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِهٖ‘‘

’’تم میں سے کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنی خواہشات کومیری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے‘‘-

اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ہم پہ جو یہ شفقت اور عنایت ہے اس کا صلہ یہی ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید کو اپنی زندگی میں عملی طور پر داخل کیا جائے- حضور (ﷺ) کے احکام کی پیروی کی جائے، حضور (ﷺ)کے اخلاق اور عادات مبارک کو اختیار کیا جائے اور حضور (ﷺ) نے اپنے نمونہ عمل سے ہمارے لیے ایک انسان کا جو کردار چھوڑا ہے اس کردار کو اختیار کیا جائے-

رسول اللہ () کا اخلاق کیا ہے؟

حضرت ابو موسی ٰ(علیہ السلام)روایت بیان کرتے ہیں کہ:

’’كَانَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِهٖ فِيْ بَعْضِ أَمْرِهٖ‘‘

’’رسول اللہ (ﷺ) جب اپنےصحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) میں سے کسی ایک کو کسی کام کے لیے بھیجتے ‘‘-

تو آپ (ﷺ) ارشادفرماتے کہ:

 ’’بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْاوَيَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا‘‘[13]

’’(لوگوں کو) بشارتیں دو، متنفر نہ کرو اور (لوگوں کے لیے) آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پید انہ کرو‘‘-

آج اگر ہم اپنی سماجی اور معاشرتی زندگی میں غور کریں تو ہم نے رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق سے کیا سیکھا؟اسی طرح اپنے اعمال اور رویوں پہ غور کریں کہ ہمارے عملی رویے جو ہمارے اظہار کی صورت میں موجود ہیں کیا وہ ہماری محبت کی دلیل بنتے ہیں کہ جس طرح حضور (ﷺ) ہم سے محبت فرماتے ہیں؟کیونکہ ہم نے جو وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے وہ اپنی قومی زندگی میں اور قومی رویوں میں نفرت اور مشکلات پیدا کرنے کا ہے جبکہ رسول اللہ (ﷺ) نے تو فرمایا تھا کہ آسانیاں تقسیم کرو اور مشکلات پید ا نہ کرو-لیکن افسوس جن چیزوں سے رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں منع فرمایا ہے ہم نے ان کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے-

حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ :

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کے عہد میں ایک مرد کا نام عبد اللہ تھا اور اس کو حمار(گدھا) کا لقب دیا جاتا تھا، اور وہ رسول اللہ (ﷺ) کو ہنساتا تھا اور جب وہ شراب پیتا تواُس پر حَد جاری کی جاتی -پس ایک دن اُس کو لایا گیا تو آپ کے حکم سے اُس کو کوڑے مارے گئے تو صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ! اس پر لعنت فرما-اس کو کتنی زیادہ مرتبہ لایا جاتا ہے! پس آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا :

’’لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَ اللهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهٗ يُحِبُّ اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘[14]

’’اس پر لعنت نہ کرو،پس اللہ کی قسم! مجھے صرف یہی علم ہےکہ یہ مرد اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)  سے محبت کرتا ہے‘‘-

اندازہ لگائیں!کہ عبد اللہ نے تین مرتبہ اپنے گناہ کی پاداش میں اپنے اوپر حد جاری کروائی یعنی واضح گنہگار اور خطا کار ہے- مگر رسول اللہ (ﷺ) کو اس صحابی کا اس گنہگار کے اوپر لعنت کرنا ناگوار گزرا-کیونکہ اس کا گنہگار ہونا ضرور اپنی جگہ مسلّم ہے مگر اتنے گناہوں کے باوجود بھی یہ لعنت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہے-

حضرت ام الدرداء(رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت ابودرداء (رضی اللہ عنہ) سے سناوہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’بے شک بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے پس اس کے سامنے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں-پھروہ لعنت زمین کی طرف اترتی ہے تو وہاں بھی اس کے سامنے دروازے بند ہوتے ہیں،پھروہ دائیں طرف جاتی ہے اور بائیں طرف جاتی ہے-پس جب اسے کوئی جگہ نہیں ملتی تو اس جگہ لوٹ آتی ہے جہاں لعنت کی گئی تھی- اگر جس پر لعنت کی گئی وہ لعنت کا اہل ہو تو فبھا، ورنہ وہ لعنت کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے ‘‘-[15]

یاد رکھیں! یہ کلمات کہنا بظاہر بہت آسان ہوتے ہیں- جیسا کہ اس صحابی نے اس گناہ گار کے لئے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو-آج ہماری جو پاکستانی معاشرت ہے اس کے مطابق تو شاید یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)اس بات پہ اس صحابی کو ٹوکتے اور منع فرماتے-لیکن رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ تم اس کے گناہ کی طرف نہ دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہے-

رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهٗ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا عُذِّبَ بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَهُوَ كَقَتْلِهٖ وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهٖ‘‘[16]

’’اور جس نے اپنی جان کو دنیا میں کسی چیز سے قتل کیا اسے اسی چیز کے ساتھ قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور جس نے کسی مومن کو لعنت کی، تو وہ اس کو قتل کرنے کی مثل ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مثل ہے‘‘-

لیکن افسوس! سوشل میڈیا پہ ہر طرف ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں کفر کے فتوے ملتے نظر آتے ہیں-بزبانِ عبد اللہ علیم!

کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
 ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عمل سے ہمیں منع فرمایا -آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ جب تم کسی پہ کفر کی تہمت لگاتے ہو تو وہ ایسے ہی ہے جیسے تم نے اپنے مومن بھائی کا قتل کر ڈالا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَتَحْسَبُوْنَہٗ ہَیِّنًاق صلے وَّہُوَ عِنْدَ اللہِ عَظِیْمٌ‘‘[17]

تم اس تہمت کو معمولی بات سمجھ رہے تھے-حالانکہ یہ اللہ کے نزدیک بہت سنگین بات ہے-

’’وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَھَادَۃً اَبَدًاج وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo‘‘[18]

’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤاور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں‘‘-

’’مشکوٰۃ شریف‘‘ میں حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

اِجْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا هُنَّ؟قَالَ:

’’ سات مہلک گناہوں سے بچو- عرض کی گئی : یارسول اللہ ! وہ کون کون سے ہیں؟ فرمایا:

  1. اَلشِّرْكُ بِاللهِ        اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر نا
  2. وَالسِّحْرُ                             جادو کرنا
  3. وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ کسی بے گناہ کو قتل کرنا
  4. وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيْمِ   یتیم کامال کھانا
  5. وَأَكْلُ الرِّبَا                          سود کھانا
  6. وَالتَّوَلِّيُّ يَوْمَ الزَّحْفِ               میدان جہاد سے بھا گنا
  7. وَقَذْفُ الْمُحْصِنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ

پاک دامن انجان مومن عورتوں پر تہمت لگانا-

حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ قَذْفَ الْمُحْصَنَةِ يَهْدِمُ عَمَلَ مِائَةِ سَنَةٍ‘‘[19]

’’پا کباز عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا سوسال کے اعمال بربادکر دیتا ہے‘‘-

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’مَنْ قَذَفَ مَمْلُوْكَهٗ، وَهُوَ بَرِيءٌ مِمَّا قَالَ، جُلِدَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ»

’’جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی اور وہ غلام اس کی تہمت سے بری تھا تو اس کے مالک پر قیامت کے دن کوڑے لگائے جائیں گےسوا اس صورت کے کہ وہ غلام اسی طرح ہو جس طرح اس پر تہمت لگائی ہے‘‘-

حضور نبی کریم (ﷺ) نے ہمیں ہماری زبان کے استعمال کا ایک مکمل نظم و ضبط دیا کہ انسان کیا کہہ سکتا ہے اور کیا نہیں کہہ سکتا-کیونکہ انسان کے نزدیک جو باتیں معمولی ہوسکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ باتیں معمولی نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق سے محبت کرتا ہے-

یاد رکھیں! حضور نبی کریم (ﷺ) اپنے امتیوں سے محبت فرماتے ہیں اور جس نے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کی ہے اس کے لئے حضور نبی کریم (ﷺ) کی حدیث پاک کے مطابق اگر ا س نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا ہے تو اس کے لئے ایک مبارک ہے اور اگر اس نے رسول اللہ (ﷺ)کو نہیں دیکھا پھر بھی ایمان لے آیا اس کے لئے سات مبارکیں ہیں-

اس لئے جب کوئی کسی پر تہمت لگانے لگے، کسی کو گالے دینے لگے، کسی کی عزت اچھالنے لگے، کسی کی عیب جوئی کرنے لگے، کسی کا نقص بیان کرنے لگے ، کسی کی گلہ گوئی کرنے لگے ، کسی کی غیبت کا مرتکب ہونے لگے تو وہ ایک لمحہ کے لئے رک کر یہ سوچ لے کہ کیا یہ وہ شخص تونہیں ہے جسے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت ہے؟ اگر اسے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت ہے تو پھر خود اپنے اس فعل کا احتساب کرے کیا یہ شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو گالم گلوچ کی جائے یا اس پر تہمت لگائی جائے یا اس کی عزت اچھالی جائے یا اس کی عیب جوئی کی جائے-

’’صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف ‘‘ میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

’’سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُهٗ كُفْرٌ‘‘

’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے‘‘-

اسی طرح بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اکبر الکبائر میں سے (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی کہ یا رسول اللہ (ﷺ) آدمی اپنے والدین کو کیسے گالی دیتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ: آدمی کسی کے باپ کو برا کہتا ہے تو وہ اس کے باپ کو برا کہتا ہے پھر یہ اس کی ماں کو برا کہتا ہے تو وہ اس کی ماں کو برا کہتا ہے‘‘-

یعنی انسان جب کسی کے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ بنیادی طور پہ اپنے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے-

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’گالم گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ بھی بکتے ہیں اس کا گناہ اس پر ہوتا ہے جس نے ابتداء کی (کہ وہی دوسرے کی گالیاں بکنے کا سبب ہوا) جب تک یہ مظلوم زیادتی نہ کرے‘‘-[20]

حضرت ابن مسعود(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مسلمان کو گالی دینا بد دینی ہے اور قتل کرنا کفر ہے‘‘-[21]

حضرت عطاء بن ابی رَبَاح (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے سنا آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کویہ ارشادفرماتے ہوئے سنا:

’’اَلنَّمِيْمَةُ، وَالشَّتِيْمَةُ، وَالْحَمِيَّةُ فِيْ النَّارِ، وَلَا يَجْتَمِعَنَّ فِيْ صَدْرِ مُؤْمِنٍ‘‘[22]

’’چغلی ، گالی او رتعصب دوزخ میں سے ہیں اوریہ کسی مؤمن کے سینے میں کبھی جمع نہیں ہوتے ‘‘-

یہ روایات پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا نمونہ عمل ہمارے سامنے واضح ہو جائے کہ آقا کریم (ﷺ)نے کبھی کسی مسلمان پر تہمت نہ فرمائی، کسی کو گالی نہ دی، کبھی کسی کے عیب نہ اچھالے، کبھی کسی کی عزتوں کو منبروں پہ نہ اچھالا بلکہ آپ (ﷺ) نے لوگوں کی عیب پوشی کی-اس لئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی امت کے لئے یہ احکامات بیان فرمائے کہ اے لوگو! لعنت نہ کرنا، گالی نہ دینا، کسی کے عیب مت اچھالنا اور کسی پر تہمت نہ لگانا-

انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے-آج جس معاشرت میں ہم زندہ ہیں ہم جو بوئیں گے وہ ہم کاٹیں گے-اگر ہم اچھی معاشرت اپنائیں گے تو ہمارے بچے اس اچھی گفتگو، اچھے کلام اور اچھے رواج کی چھاؤں میں پروان چڑھیں گے-اگر آج ہم برائی، ظلم، گالم گلوچ، لعنت، تہمت اور کفر کے فتووں کا بیج بوئیں گے تو کل کو ہم اور ہمارےبچے اس بدبو دار کانٹے دار بے نفع درخت کے نیچے پروان چڑھیں گے -یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ اگر ہم واقعتاً رسول اللہ (ﷺ) کی محبت سے خودکو بہرہ ور کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں رسول اللہ (ﷺ) کے اخلاق سے متخلق اور آپ (ﷺ) کے اوصاف سے متصف ہونا ہوگا-حضور کی سنت و شریعت کی پیروی میں اپنے دلوں میں یہ عہد کریں کہ ہم کسی مسلمان مرد یا عورت کو تہمت سے داغ دار نہیں کریں گے- کسی کے عیب نہ ہم اپنی زبانوں سے بیان کریں گے اور نہ اپنے ہاتھوں سے پھیلائیں گے-

آج دنیا اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ داخلی انتشار ہے-اس کی وجہ اس طرح کے غیر مہذبانہ اور شدت پسندانہ رویے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا اسلام سُلگ رہی ہے-غزہ تقریباً مٹنے کے قریب ہے اور ہر روز سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں-لیکن بحیثیت ایک قوم ہم میں اتنی سکت نہیں ہے کہ ہم محض ان تک اچھے طریقے سے ان کی بنیادی ضرورتوں کا سامان ان تک پہنچا دیں، ان کے ساتھ مل کر ان کی مدد کرنا تو دور کی بات ہے-

غور کیجئے! بحیثیت قوم اس کمزوری کی سب سے بڑی وجہ داخلی انتشار ہے-کیونکہ اس داخلی انتشار سے دفاع کمزور ہوا، معیشت، خارجہ پالیسی اور معاشرت کمزور ہوئی جس کے نتیجے میں ریاستیں کمزور ہوئیں اور اُن میں اتنی سکت نہیں رہی کہ حق کو حق، جھوٹ کو جھوٹ، قاتل کو قاتل اور ظالم کو ظالم کہہ سکیں-جس کی مثال آپ عالمی دنیا کا رسپانس دیکھیں غزہ اور یوکرین کی جنگ میں-

آئرلینڈ کےپرائم منسٹرلیو ورادکر، اردن کے فارن منسٹر ایمن صفادی، ملائشیا کے ڈپٹی پرائم منسٹر احمد زاہد حمیدی اور دنیا نے اس پہ بات کی ہے کہ ذرا موازنہ کریں اور دیکھیں کہ غزہ میں اور یوکرین میں کس حد تک آپ کو اس نام نہاد مہذب عالمی دنیا کی منافقت نظر آتی ہے-

ہم بحیثیت امت اور بحیثیت معاشرت اس قدر کمزور ہیں کہ اپنے قبلہ اول کے لیے بھی نہیں بول سکتے-یاد رکھیں! جب تک قرآن کریم موجود ہے اور اس میں سورہ اسراء موجود ہےمسجد اقصٰی سے ہماری محبت غیر مشروط ہے-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ‘‘[23]

’’پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے‘‘-

یاد رکھیں! آج اگر ہم مسجد اقصٰی کے مطالبے سے دستبردار ہوں گے تو پھر کل مسجد حرام کے مطالبے سے بھی دستبردار ہو جائیں گے،تو اس سے اگلے دن پھر مسجد نبوی کی ملکیت سے بھی دستبردار ہو جائیں گے-اس لئے قرآن کریم اور ہمارے مذہب نے مسجد اقصیٰ کی محبت ہمیں ایک اثاثے کے طور پر دی ہے ہم کیسے اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں-

لیکن جب ہم یہ شکوہ اپنی ریاستوں سے کرنے لگیں تو سوشل میڈیا پہ ذرا گزشتہ چھ ماہ کی اپنی زبان دیکھ لیں کہ ہم کس نبی کے امتی ہیں اور ہم نے معاشرے میں کیا خدمات دی ہیں؟

چار دیواری کیوں بنائی جاتی ہے؟

چار دیواری چوروں کو روکنے کے لیے نہیں ہوتی کیونکہ کوئی چار دیواری ایسی نہیں جو چور نہ پھلانگ سکے اور کوئی تالا ایسا نہیں جو چور نہ کھول سکے- چار دیواری انسان کی پرائیویسی ہوتی ہے جہاں وہ اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ رہے اور اس کے اندر کوئی تانک جھانک نہ کر سکے-لیکن بد قسمتی سے سوشل میڈیا ٹک ٹاک ٹرینڈز کو دیکھیں لوگ اپنا پرسنل بیڈ روم اور اپنے مقدس رشتوں کو سوشل میڈیا پہ دکھا رہے ہیں-ایک عام سی بات ہے کہ چار دیواری انسان کے گھر کے راز کی حفاظت اور اس کی حرمت و عزت کے لیے ہے-لیکن آج کل جو سوشل میڈیا کا ٹرینڈ ہے اس نے چار دیواری کے مقصد کو ختم کر دیا ہے-

لہٰذا!ہمیں آقا کریم (ﷺ) کی سیرت پاک کا مطالعہ کرتے ہوئے سخت گوئی، تفرقہ وارانہ اور شدت پسندانہ رویوں سے اجتناب کرنا چاہیے-کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘[24]

’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو‘‘-

صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ تفرقہ دو طرح کا ہے اور ہمیں ان دونوں سے باز رہنا چاہیے-ایک تفرقہ انسان کے اندر ہےاور ایک باہر ہے-باہر کا تفرقہ قوم و ملت کی یکجہتی کو ختم کرنا ہے اور اندر کا تفرقہ انسان کے ظاہر و باطن کی یکجہتی کو تباہ کرنا ہے-

انسان کی شخصیت تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے- جسم ، عقل اور روح میں-جسم کے لیے اعمال ہیں، عقل کے لیے عقیدہ ہے اور روح کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر مقرر فرمایا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘[25]

’’خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘-

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے سلسلہ میں اسم اللہ ذات کا ذکر انسان کے جسم، عقل اور روح کی تربیت اور اصلاح کرتا ہے-اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُ اللہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ‘‘[26]

’’پس جب تم نماز ادا کرچکو تو کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی یعنی کروٹوں کے بل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو‘‘-

انسان کی تین ہی حالتیں ہوتی ہیں یا کھڑا ہوتا ہے یا بیٹھا ہوتا ہے یا کروٹوں کے بل ہوتا ہے-تو کیسے ممکن ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے- قرآن مجید نے اس کا مکمل طریقہ یوں بتایا ہے:

’’وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِاالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ‘‘[27]

’’اور اپنے رب کا ذکر اپنے سانسوں کے ساتھ گِڑ گِڑا کر خفیہ طریقے سے بغیر آواز نکالے صبح و شام ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو ‘‘-

انسان کے دو سانس ہیں ایک اندر جاتا ہے اور ایک باہر آتا ہے- سانس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی عادت ڈالنی ہےاور سانس کو جب ذکر میں ڈھالتے ہیں تو اس کو اپنی قوت ارادہ کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں-یعنی جب سانس اندر جائے تو زبان حرکت نہ کرے، آواز پیدا نہ ہواور جب سانس باہر آئے تب تبھی آپ کے ہونٹ نہ ہلیں-جب سانس اندر جائے تو اپنے تخیل کی قوت سے کہیں ’’اَللہُ‘‘ اور جب سانس باہر آئے تو کہیں ’’ھُو‘‘-جب اس ترتیب سے ذکر کیا جاتا ہے تو سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ یہ ذکر انسان کے جسم، عقل اور روح کو اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے- جب یہ تینوں چیزیں اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتی ہیں تو پورا انسان اللہ تعالیٰ کا ذاکر بن جاتا ہے- جو شخص ہر دم اور ہر سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں-

حضرت سلطان باھوؒ کے اَبیات میں موجود ’’ چنبے کی بوٹی‘‘سے مراد اسم اللہ ذات کا ذکر ہے جو مرشد سالک کے سینے میں اس کی سانسوں کے ذریعے کاشت کرتا ہے-جب وہ بوٹی پھلتی پھولتی ہے پھر وہ برگ و بار لے کر آتی ہےجس کی خوشبو دنیا کو روشن اور معطر کرتی ہے-

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مومنو اس بات کی خوشی مناؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں رسول اللہ (ﷺ)کی امت بنایاہے اور رسول اللہ کی اس محبت پہ ناز کرو کہ ہم فقیروں، حقیروں، پُر تقصیروں سے ہمارے آقا کریم (ﷺ) اس قدر محبت فرماتے ہیں-اس لئے ہم پہ یہ لازم ہوتا ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کے نمونہ عمل کو اختیار کریں اور زبان کے آداب سیکھیں جو رسول اللہ (ﷺ)نے ہمیں اپنی سیرت میں ارشاد فرمائے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا-لہٰذا اپنی اصلاح اور تفرقے سے دوری کے لیے خود کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں غرق کریں کیونکہ یہی ہماری ظاہری و باطنی کامیابی ہے-

٭٭٭


[1](صحيح البخارى ، كِتَابُ الإِيمَانِ)

[2](التوبة:128)

[3](مشكاة المصابيح ،كتاب المناقب)

[4](مسند احمد ابن حنبل)

[5]’’آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی‘‘-(النجم: 17)

[6]’’ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے‘‘- (الفتح:10)

[7]’’کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا‘‘-(الشرح:1)

[8]’’ اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے‘‘-(النجم:3)

[9](مشکاۃ المصابیح)

[10](صحیح مسلم، كتاب الْجَنَّةِ وَ صِفَةِ)

[11](الشورٰی:23)

[12](العجم الکبیر، مجمع الزوائد)

[13](صحيح البخاري / صحیح مسلم)

[14](صحیح بخاری)

[15](سنن ابی داؤد)

[16](صحیح بخاری)

[17](النور:15)

[18](النور:4)

[19](المعجم الکبیر للطبرانی)

[20](صحیح مسلم/ سنن ابوداؤد/ سنن ترمذی)

[21](صحیح بخاری/ صحیح مسلم/ سنن ترمذی/ سنن نسائی/ سنن ابن ماجہ)

[22](المعجم الكبير)

[23](الاسراء:1)

[24](آلِ عمران:103)

[25](الرعد:28)

[26](النساء : 103)

[27](الاعراف:205)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر