بھارتی جارحیت کا پس منظر

بھارتی جارحیت کا پس منظر

بھارتی جارحیت کا پس منظر

مصنف: طارق اسمٰعیل ساگر نومبر 2014

نرنیدر مودی جسے بھارتی مسلمان ہی نہیں دنیا کا ہر مہذب انسان گجرات کے قصائی کی حیثیت سے جانتا ہے اپنی مسلم دشمنی کے لیے حاصل ہونے والی شہرت پر ہمیشہ فخر کرتا ہے-اس نے بطور وزیراعظم اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا ہمارے احمق اور زمینی حقائق سے قطعاً ناآشنا امن کے تماش بینوں، پنڈتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ اپنے اقتدار کے بمشکل ڈیڑھ سو دنوں میں ہی وہ ان پر قریباً 70فیصد عمل کر چکا ہو گا- شاید ان عقل کے اندھوں کو علم نہ ہو کہ آج ہی کی تازہ اطلاع کے مطابق امریکہ نے بالآخر بھارتی ضد پر پاکستان سے دائود ابراہیم اور اس کی ڈی کمپنی کے متعلق باز پرس شروع کر دی ہے اور ہماری وزارت خارجہ کو یہ بیان دینا پڑا کہ اس کا دائود ابراہیم اور اس کی ڈی کمپنی سے کچھ لینا دینا نہیں- بھارتی میڈیا جو زہر مسلسل اُگل رہا ہے اس سے سننے والے کے کان زہریلے ہو جاتے ہیں- ہمارے دو تین ٹی وی چینلز نے ہمت کر کے کلدیپ نیئر ٹائپ بھارتی بھانڈوں کے منہ سے موجودہ صورتحال اور بھارتی فوج کی مسلسل جارحیت پہ کچھ اگلوانے کی بہت کوشش کی لیکن کسی کے منہ سے ایک لفظ نہیں اگلوا سکے وہ مسلسل ایک ہی رٹ لگا رہے ہیں کہ حملوں کا آغاز پاکستان نے کیا ہے جو سراسر بے ہودگی اور جھوٹ ہے-

سچ یہ ہے کہ ایک ہفتے سے جاری بھارتی جارحیت کی وجہ سے ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر مختلف سیکٹرز میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے- لوگ خوف زدہ ہو کر نقل مکانی کر رہے ہیں، بھارتی گولہ باری اور فائرنگ سے شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد بارہ ہو چکی ہے- زخمیوں کی تعداد 42سے زیادہ ہے- پاکستان نے بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت جنگ بندی کے معاہدے پر فوری عمل درآمد کرے- وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارت ہمارے صبر و تحمل کا امتحان نہ لے، ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے- انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس خطے اور دونوں ملکوں کے عوام کے وسیع تر مفاد میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فائر بندی یقینی بنائی جائے- وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان چودھری برجیس طاہر نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کا رویہ ہے، پاکستان بھارت کے غیر انسانی رویے پر خاموش نہیں بیٹھے گا- اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے بھی فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا ہے ملک بھر میں سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنمائوں نے بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کی اور کہا کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے-

کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کی خلاف ورزی کر کے بھارتی حکومت کچھ ذاتی مقاصد پورے کرنے میں تو ممکن ہے کامیاب ہو جائے لیکن اس کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات کو اعتدال پر لانے کی منزل مزید دور چلی جائے گی- علاوہ ازیں خطے میں امن قائم کرنے کی کوششیں ناکامی سے دو چار ہو جائیں گی- اس طرح دہشت گرد ایک بار پھر طاقت پکڑ سکتے ہیں- ایک ایسے وقت پر جب افغانستان سے اتحادی فوجیں واپسی کا قصد کر رہی ہیں، بھارت کے جارحانہ اقدامات پورے خطے کے امن کو دائو پر لگانے کا باعث بن سکتے ہیں- صورتحال کس قدر گھمبیر ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کئی بار ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطے اور سیکٹر کمانڈروں کے درمیان ملاقاتوں جیسے چینلز استعمال کرنے پر زور دیا ، لیکن بھارت کی جانب سے اس پر مثبت رد عمل ظاہر نہ کیا گیا- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت شاید آسانی سے سیز فائر پر رضا مند نہ ہو، اس لیے مناسب صلاح مشورے کے بعد اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے-

بلاشبہ اس وقت حالات کی سنگینی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے- گزشتہ چار، پانچ دنوں کے حالات ہی کا جائزہ لیا جائے تو مشرقی سرحدوں پر بھارتی فوج نے سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جبکہ پاکستان کے احتجاج پر امریکہ نے وقتی طور پر ڈرون حملوں کا سلسلہ منقطع کیا تھا تاہم گزشتہ چار ماہ سے یہ حملے پھر کیے جا رہے ہیں اسی سال جون سے اب تک امریکہ کی جانب سے تیرہ حملے کیے جا چکے ہیں جن میں سے پانچ گزشتہ چار روز میں ہوئے- تشویش ناک امر یہ ہے ان میں سے بارہ ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں کیے گئے جہاں افواج پاکستان تین ماہ سے ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں- وزیراعظم نواز شریف نے میران شاہ کا خصوصی دورہ بھی کیا جہاں انہیں بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے نوے فیصد ٹھکانوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے-اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کیوں کی جا رہی ہے- دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بھی امریکہ پاکستان سے ’’ڈومور‘‘کا مطالبہ کرتا رہا جس کا مفہوم شمالی وزیرستان میں آپریشن ہی تھا- ایسے حالات میں کہ جب سیاسی اور فوجی قیادت شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف سرگرم ہے- امریکہ کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کا کوئی جواز باقی نہیں بچتا- امریکی سفیر کا یہ کہنا کسی بھی بنیاد پر درست نہیں کہ ڈرون حملوں کا فیصلہ امریکہ کے تحفظ کے لیے کیا گیا بلکہ ایسے وقت میں جب ہمارا ازلی دشمن ہماری مشرقی سرحدوں پر جارحیت کر رہا ہے- شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کا تسلسل پاکستان کی سالمیت کے خلاف امریکہ اور بھارت کی سازش محسوس ہو رہی ہے- یوں لگتا ہے جیسے بھارت اور امریکہ افغانستان میں کمزور ہوتے اپنے اثر و رسوخ اور دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کی وجہ سے خطے میں پاکستان کی مضبوط ہوتی حیثیت کو برداشت نہیں کر پا رہے- افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ ایک طرف تو بھارت کی سرحدی اشتعال انگیزی پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے لیکن دوسری طرف خود ہماری سرحدوں کی حرمت کو پامال کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہے-

امریکہ ایک ذمہ دار عالمی قوت کی حیثیت سے سوچنا ہو گا کہ اپنے تحفظ کے لیے ایک آزاد ، خود مختار اوردہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کا عمل کہاں تک درست قراردیا جا سکتا ہے- ڈرون حملوں سے امریکہ کے تحفظ کا مفروضہ عملی شکل اختیار کرتا ہے یا نہیں اس سے قطع نظریہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے بے گناہ قبائلیوں کے لواحقین کے پر امن رہنے کا امکان کم سے کم ہوجاتا ہے- اس موقف کو حکومت پاکستان، عالمی برادری کے مہذب ملک اور اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو دھچکا پہنچانے کا باعث ہیں- یہ بات بھی طے شدہ ہے، دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں شرپسندوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی افزائش کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں-

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈرون حملے ہوں یا بھارتی فوج کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزی ہماری سیاسی قیادت ان پر فوری رد عمل نہیں دے رہی ہے- بھارتی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ مودی حکومت کے آنے کے ساتھ ہی شروع ہوچکا ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے رد عمل دو دن پہلے آیا- اسی طرح ان دنوں ہونے والے ڈرون حملوں پر حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے چاردنوں میں پانچ ڈرون حملے کیے جا چکے ہیں- حکومت کی طرف سے سلامتی کونسل کا جو اجلاس طلب کیا گیا ہے اس کے ایجنڈے میں بھی ڈرون حملوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے- ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں کے علاوہ شمالی سرحدوں پر جاری ڈرون حملوں کا بھی نوٹس لیا جائے- بھارت پر واضح کر دیا جائے کہ وہ سرحدوں پر چھیڑ خانی کے ذریعے خطے کی سلامتی کو خطرات میں نہ ڈالے جبکہ امریکہ کو بھی کھلا پیغام بھیجا جائے کہ سلامتی اور تحفظ کا تصور صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو اپنی سلامتی کو محفوظ کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے- پاکستان میں اتنی صلاحیت اور اہلیت ہے کہ وہ اپنی سرحدوں میں دہشت گردوں کا صفایا کر سکے، اس بات کو پاک فوج نے تین ماہ کے دوران ثابت بھی کیا ہے-

جب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دورہ امریکہ سے واپس آئے ہیں، جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپیں تیز ہو رہی ہیں- ان کے امریکہ جانے سے پہلے، لائن آف کنٹرول پر کبھی کبھار فائرنگ ہو جاتی تھی اور اگر یہ سلسلہ ٹوٹتا نظر آتا، تودونوں طرف کے کمانڈر، باہمی مذاکرات کر کے، معاملے کو نمٹا دیتے ہیں- وہ ناکام ہوجائیں، تو اپنے اعلیٰ حکام سے ہدایات لے کر، سیز فائرکر لیتے، لیکن اب یہ جھڑپیں بلاناغہ ہو رہی ہیں- ان میں دو طرفہ جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہو گیا ہے- کسی فریق نے فوجی کمانڈروں یا سفارتکاروں کے مابین مذاکرات کی تجویز بھی نہیں دی- شاید دونوں ایک دوسرے کی دلچسپی کی شدت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں- تادم ِتحریر، بھارتی کابینہ کے دو اراکین، وزیر دفاع اردن جیٹلی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کافی سخت زبان میں تبصرے کیے- راج ناتھ سنگھ نے اپنی حکومت کی آئندہ کشمیر پالیسی میں سخت گیری کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ’’پاکستانیوں کو معلوم ہو جانا چاہیے، اب بھارت کی طرف سے سفید جھنڈا نہیں لہرایا جائے گا-‘‘ یہ انتہائی سخت پیغام تھا، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب سرحدوں پر فائر کھلا تو بات چیت نہیں کی جائے گی- فیصلہ ہونے تک لڑائی چلے گی- وزیر دفاع نے لائن آف کنٹرول پر اپنے ، فوجیوں اور میڈیا والوں سے بات کرتے ہوئے کہا- ’’ پاکستان کی توپیں خاموش نہ ہوئیں، تو اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی-‘‘ ایک اخبار نویس کے پوچھنے پر انہوں نے وضاحت کی کہ ’’ اس سوال کا جواب دے کر میں اپنی تیاریوں کا انکشاف نہیں کر سکتا- ‘‘ پاکستان کی طرف سے، کسی اعلیٰ اتھارٹی نے ان واقعات پر رد عمل ظاہر نہیں کیا-

حالیہ سرحدی جھڑپوں میں خلاف معمول طوالت کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے، اس مرتبہ کنٹرول لائن پر ، فائرنگ کے تبادلے میں بھارت کے ارادے کچھ مختلف ہیں- باخبر حلقے تو پہلے ہی جان گئے تھے کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی تنظیم، آر ایس ایس کے ارادے اچھے نہیں- پہلے اس نے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان مذاکرات کی طے شدہ تاریخ منسوخ کرتے ہوئے، غیر سفارتی یا غیر اخلاقی زبان میں اعلان کر دیا کہ سیکرٹریوں کی ملاقات منسوخ کر دی گئی ہے-وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستان کے دلی میں مقیم ہائی کمشنر نے ، حریت کانفرنس کے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کیوں کی؟ اس اعلان سے سفارتی ماہرین  نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ اب نیو یارک میں ، پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی غیر رسمی ملاقات نہیں ہو گی- یہ اندازے درست نکلے- بھارت کے تیور دیکھتے ہوئے، پاکستان نے ، نیو یارک میں دونوں وزرائے اعظم کی غیر رسمی ملاقات کا تکلف بھی نہیں کیا-وزیراعظم پاکستان کے سفر کا ٹائم ایسے کر دیا گیا، جس میں دونوں وزرائے اعظم چاہتے بھی تو ملاقات کا وقت نہیں نکل سکتا تھا-

 بھارت کسی بھی عالمی فورم پر پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر کا تذکرہ پسند نہیں کرتا- کبھی ہمارے نمائندے نے بھارتی مندوبین کی موجودگی میں، کشمیر کا نام تک بھی لیا، تو بھارتی وفد، اسی وقت احتجاجاً واک آئوٹ کر جاتا ہے- اس مرتبہ وزیراعظم نواز شریف نے تنازعہ کشمیر کا ذکر اپنی تقریر میں کھل کر کیا کہ وزیراعظم کی تقریر کے وقت، بھارتی وفد یا اس کا کوئی مندوب، جنرل اسمبلی کے ہال میں موجود نہ رہا لیکن وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں کشمیر کے حوالے سے کہے گئے الفاظ کا نوٹس تک نہ لیا، صرف بھارت کی دیرینہ پالیسی کی روشنی میں ، سرکاری پالیسی بیان کر دی جس پر اندازہ ہو گا کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے؟

وزیراعظم مودی کا اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نظر انداز کرنا، ان کی حکومت کی نئی پالیسی کا بالواسطہ اعلان تھا-کہ اب ہم آپ کی بات پر کان دھرنے کا تکلف بھی نہیں کریں گے جب مودی کی تقریر سے دو دن پہلے، بھارت کے تمام باخبر اور با رسوخ اینکرز نے اپنے اندازوں، تخمینوں اور تجزیوں میں ، کورس کی صورت، گردان شروع کردی تھی کہ ’’مودی نواز شریف کی تقریر کا نوٹس نہیں لیں گے-وہ بڑے پن کا مظاہرہ کریں گے- وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بدمزگی پیدا کریں گے-‘‘ انہی تبصروں میں پالیسی لائن کا اندازہ ہو گیا بھارت کے سینئر صحافی اور اینکرز، دنیا کے تمام جمہوری ملکوں کی طرح جب اپنے صدر یا وزیراعظم کے اہم بیانات پر سر میں سر ملاتے ہوئے، ایک ہی راگ الاپنے لگیں، تو سمجھ لینا سننے والے کو قبل از وقت اصل خبر دی جا رہی ہے- یہ جاننے کے لیے دور اندیشی والی کوئی بات نہیں ہوتی، محض تجربہ کافی ہے- بھارتی میڈیا اور حکمرانوں کی باتوں اور باڈی لینگویج سے ہر کسی نے سمجھ لیا تھا کہ ’’کچھ‘‘ غیر متوقع ہونے جا رہا ہے- کیا ہونے جا رہا ہے؟ عام سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے اسی وقت سمجھ لیا تھا، جب سیکرٹریز کے باہمی مذاکرات کی تاریخ منسوخ کی گئی- مودی صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سو، سوا سو دنوں میں ہمہ جہتی مشاورت کے بعد کشمیر پالیسی میں تبدیلی کا منصوبہ تیار کر لیا تھا- لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کو طول دینا، اسی منصوبے کی کڑی ہے- وہ اصل پالیسی منظر عام پر لانے سے پہلے مطلوبہ نتائج کا راستہ ہموار کر رہے ہیں- انہیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ شاید پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا-

نریندر مودی نے آغاز ہی میں پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی پر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ وہ ’’کہنے کے بجائے کرنے‘‘کی پالیسی اپنائیں گے اور دائود ابراہیم کو پاکستان سے اس طرح نکال کر لے جائیں گے جیسے امریکہ پاکستان سے اسامہ کو نکال کر لے گیا تھا- اگر ایسے بیانات کے بعد بھی ہم ان کی والدہ محترمہ کے لیے ساڑھیاں اور تحائف بھیج کر یہ سمجھیں کہ اس چانکیائی مہاسبھائی کو اُلو بنا لیں گے تو یہ سراسر حماقت کے سوا اور کیا ہے-

نریندر مودی نے وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد جوکچھ کیا ہے وہ ان کے اور ان کی پارٹی کے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے- نریندر مودی نے بھوٹان اور نیپال کی پارلیمنٹ سے خطاب میں ہندو قوم پرستانہ جذبات کو اپیل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے- انہوں نے پشتو پتی ناتھ کے مندر میں حاضری دے کر وہاں ڈھائی ہزار کلو صندل کی لکڑی کا عطیہ دیا- مگرعید الفطر پر بھارت کے مسلمانوں کو مبارکباد دینے سے اجتناب برتا- اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت آگے چل کر کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے- کسی سیکولر ملک کا وزیراعظم سیکولر ازم کی بنیادی باتوں ہی کو کیونکر نظر انداز کر سکتا ہے؟ کیا سیکولر ازم اتنی بری چیز ہے کہ اب ہندو قوم پرست اس کے بدلے کچھ نیا لانا چاہتے ہیں؟ ہندو قوم پرستی کے فلسفے کو پروان چڑھانے والے دانشوروں نے سیکولر ازم کواب مسلم انتہا پسندی کے مقابل لاکھڑا کیا ہے- کیفیت یہ ہے کہ جو بھی سیکولر ازم کی بات کرتا ہے اسے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا وکیل یا طرف دار تصور کر لیا جاتا ہے- سیکولر ازم کو مسلمانوں کی ہم نوائی کے مساوی قرار دے کر بھارت میں مزید فرقہ واریت پھیلائی جا رہی ہے- ہندو قوم پرست ہندو ازم کو بچانے کے نام پر جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ملک اور قوم کے حق میں ہر گز نہیں- بنیادی حقوق کو بھی یکسر نظر اندازکیا جا رہا ہے- حالت یہ ہے کہ اگر کوئی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس پر انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی-

بھارت کوہندو معاشرے میں تبدیل کرنے کا عمل کسی اور نے نہیں، سیکولر ازم کی سب سے بڑی دعویدار کانگریس نے شروع کیا تھا- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عمل میں تیزی اور شدت آتی گئی ہے- کانگریس نے ملک میں اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی- اس نے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو کبھی نمایاں حیثیت نہیں دی جس کے نتیجے میں اقلیتوں میں حقیقی قیادت ابھر نہیں سکی- یوں کانگریس نے بھی ہندو قوم پرستی کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے- اقلیتوں کے حقوق نظر اندازکرنے کا عمل چونکہ طویل مدت سے جاری ہے- اس لیے اب سیکولرازم کی بنیادیں بھی کمزور ہو چکی ہیں- طویل عرصے سے یکسر نظر انداز کیے جانے کے باعث معاشرے کے بعض حصوں میں شدید احساس محرومی پایا جاتا ہے جو نفسیاتی پیچیدگیوں کو ہوا دے رہا ہے- مسلمان اور عیسائی خاص طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے- مسلم اور عیسائی نوجوانوں میں غیر معمولی حد تک احساس محرومی پایا جاتا ہے جس نے نفسیاتی الجھنوں کو مزید ہوا دی ہے اور اب ان میں خوف بھی گھرکر گیا ہے ہندو اکثریت کا خوف اتنا شدید ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد ہندوئوں کی نیت پربھروسہ کرنے کو تیار نہیں-

انتہا پسند ہندوئوں پر مشتمل سنگھ پریوار نے اقلیتوں میں بھی پھوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے- اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب سکھوں ، جینوں اور بدھسٹوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے الگ کر کے ایک وسیع تر ہندو فیملی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے- ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے والے دانشوروں نے بہت چالاکی سے اس تصور کوفروغ دیا ہے کہ سکھ مت، جین ازم اور بدھ ازم بھارت ہی کی سر زمین سے ابھرے ہیں- اس لیے وہ اپنے ہیں جبکہ اسلام اور عیسائیت باہر سے آنے والے ادیان ہیں اس لیے وہ بھارتی اصل کے قرار نہیں دیے جا سکتے-

قیام پاکستان کے 67سال بعد بھارتی حکومت پر ایسا وزیراعظم مسلط ہوا ہے جو سرتاپا مکمل مہاسبھائی مسلم دشمن مزاج رکھتا ہے- کانگریس نیتائوں کی طرح وہ منافقت کے لیے بھی پاکستان کو خوش نہیں کرتا اور تیزی سے اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جو اسے نسل در نسل منتقل ہوا ہے- اس مہاسبھائی ہندو نے اپنی آبادی کے بل بوتے پر امریکہ جیسی سپر پاور کو بھی اپنا محتاج کر لیا ہے اور آج ہم جو بھی زبانی کلامی جمع خرچ کرتے رہیں اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکہ موجودہ جارحیت میں بھارت کو حق بجانب سمجھتا ہے جس کی وجہ ہماری سفارتی نالائقی کے علاوہ اور کچھ نہیں-

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر