کاغذی سکہ رائج الوقت کا ارتقاء

کاغذی سکہ رائج الوقت کا ارتقاء

کاغذی سکہ رائج الوقت کا ارتقاء

مصنف: ندیم اقبال جون 2025

دنیا میں پیسہ انسان کی معاشی تسکین کو پورا کرنے کیلئے اہمیت کا حامل ہے- اگر دیکھا جائے تو انسان اپنے معاشی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے روپیہ /پیسہ کماتا ہے جس سے وہ اپنی معاشی ضرورت کو پورا کرتا ہے- پیسے (money) کا تصور انسانی تاریخ میں ایک ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں آیا اور یہ کسی ایک شخص کی ایجاد نہیں ہے بلکہ مختلف تہذیبوں کے تجربات اور ضروریات کا نتیجہ ہے- پیسے کے تصور کو کئی مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جو کہ بارٹر سسٹم (Barter System) سے شروع ہو کر موجودہ برقی سکہ (Digital Currency) تک پہنچتا ہے-

ابتدائی دور: بارٹر سسٹم (Barter System)

سکہ (Currency) سے پہلے لوگ چیزوں کا تبادلہ بارٹرسسٹم سےکیا کرتے تھے- مثال کے طور پر گندم کے بدلے کپڑے کا لین دین، مویشیوں کے بدلے دیگر ضروریات زندگی کا تبادلہ،جیسے جیسے بارٹر سسٹم کا رجحان بڑھتا گیا تو اس کے نتیجے میں مسائل بھی سامنے آئے جس سے چیزوں کی قیمت کا تعین مشکل ہو گیا- مختلف اشیاء کی ڈیمانڈ اور رسد کی ہم آہنگی میں فقدان اوربڑی چیزوں کی منتقلی قدرے مشکل ہو گئی-

ابتدائی پیسے کا تصور: اشیاء کا معیاری سکہ

(Commodity Money)

بارٹر سسٹم کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے، تہذیبوں نے کچھ اشیاء کو ’’معیاری کرنسی‘‘ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، جیسے کہ سمندری خول (cowrie shells)نمک، مویشی اور دھاتیں (چاندی، سونا، تانبا)-

قدیم تہذیبوں میں دھاتی سکوں کا آغاز:   (Metal Coins)

میسوپوٹیمیا تقریباً 5000قبل مسیح میں سونے اور چاندی کو بطور کرنسی استعمال کیا گیا [1]اورچین 1100 قبل مسیح میں کانسی کے سکوں کا استعمال شروع ہوا- سب سے پہلے لیدیا (Lydia) موجودہ ترکی میں تقریباً 600 قبل مسیح میں دھات کے سکے متعارف کروائے گئے -[2] یہ سکے حکومت کی طرف سے جاری کیے جاتے تھے اور ان کی مخصوص قیمت مقرر ہوتی تھی جس سے یہ فائدہ ہوا کہ سکوں کی معیاری قیمت مختص ہونے سے انہیں ذخیرہ کرنا اور لے جانا آسان ہو گیا-

عہدِ نبوت :

عہدِ نبوت اور خلافتِ راشدہ کے دور میں کرنسی کا نظام آج کی طرح رسمی نہیں تھا، بلکہ تجارتی لین دین زیادہ تر اشیاء یا دھاتوں کی شکل میں ہوتا تھا- تاہم، کچھ سکے اور دھاتوں کو کرنسی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا-

دینار، جو سونے سے بنا ہوتا تھا، بنیادی طور پر رومی سلطنت کا سکہ تھی- عرب کے لوگ تجارتی مقاصد کے لیے دینار استعمال کرتے تھے، خاص طور پر بین الاقوامی تجارت میں-درہم، جو چاندی کابنا ہوتا تھا، فارسی سلطنت  کا سکہ  تھی- یہ سکے مقامی سطح پر تجارت اور لین دین میں زیادہ عام تھے- اشیاء جیسے کھجور، گندم اور دیگر روزمرہ کی ضروریات کا بھی تبادلہ ہوتا تھا اور احادیث  مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لین دین میں وزن اور معیار کا خاص خیال رکھا جاتا تھا-

خلفائے راشدین کا دور :

خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی دینار اور درہم کا استعمال جاری رہا- یہ سکے بدستور رومی اور فارسی طرز کے تھے کیونکہ ان کے ڈیزائن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی تھی- حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ) کے دور میں درہم کے ڈیزائن کو اسلام کے مطابق بنانے کی کوشش کی گئی-ان سکوں پر بعض اسلامی کلمات کندہ کیے گئے، جیسے ’’الحمد للہ‘‘ اور ’’لا الہ الا اللہ‘‘- حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) نے سکوں کے وزن اور معیار کو مقرر کرنے کے لیے اصول وضع کیے تاکہ لین دین میں دھوکہ نہ ہو- یہ نظام اسلام کی شفافیت اور عدل کی تعلیمات پر مبنی تھا-

خراج اور زکوٰۃ کی ادائیگی:

خراج اور زکوٰۃ دینار، درہم یا دیگر اشیاء کی صورت میں دی جاتی تھی- تجارت اور لین دین میں انصاف اور ایمانداری کو ترجیح دی جاتی تھی- دینار اور درہم اُس وقت کی بنیادی کرنسی تھے، جو رومی اور فارسی اثرات کی بدولت عرب میں رائج تھے- خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی اصولوں کے مطابق ان سکوں کی اصلاح کی گئی اور یہ نظام اسلامی ریاست کے معاشی استحکام کا اہم حصہ رہا-

کاغذی سِکہ :(Paper Money)

کاغذی پیسے کا آغاز چین سے ہوا- جہاں 960ء – 1279ء میں تانگ خاندان نے  کاغذی سکہ متعارف کروایا-[3] یورپ میں 13ویں صدی میں مارکو پولو(Marco Polo) نے چین کے کاغذی پیسے کا ذکر کیا، لیکن یورپ میں  کاغذی سکہ کا استعمال 17ویں صدی میں شروع ہوا-[4] ان  کاغذی سکہ کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی لیکن یہ حکومت کی ضمانت کے ساتھ عوام الناس تک پہنچتی ہے جس سے لوگوں کیلئے اشیاء کی خریداری آسان اور محفوظ ہوتی ہے- جس کی یہ وجہ تھی کہ سکوں کی بڑی مقدار کو لے جانے میں مشکلات تھیں اور کاغذی پیسہ ایک آسان اور قابل اعتماد متبادل تھا-

بینکوں کا نظام (Banking System) :

بینکاری کا نظام ایک قدیم تصور ہے جو مختلف تہذیبوں میں مختلف شکلوں میں پایا جاتا تھا، لیکن جدید بینکاری کی بنیاد 12ویں صدی میں اٹلی میں رکھی گئی- فلورنس، وینس، اور جینوا جیسے شہروں میں ’’میرچنٹ بینکس‘‘ نے ابتدائی بینکاری کی خدمات مہیا کیں، جن میں قرضے، کرنسی کی تبدیلی اور قیمتی اشیاء کی حفاظت شامل تھی-15ویں صدی میں، میڈیچی بینک جیسے بڑے ادارے منظر عام پر آئے، جنہوں نے جدید بینکاری کے اصولوں کی تشکیل کی، جیسے حساب کتاب کے نظامات اور بین الاقوامی مالیات کا تصور- 17ویں صدی میں بینک آف انگلینڈ (1694) کے قیام نے مرکزی بینکاری کا تصور متعارف کرایا، جو مالی استحکام اور حکومتی قرضوں کے انتظام کیلئے ایک اہم اقدام تھا-بینکاری کی جدید شکل 19ویں اور 20ویں صدی میں سامنے آئی، خاص طور پر صنعتی انقلاب کے بعد، جب تجارتی بینکاری، ریٹیل بینکاری، اور مرکزی بینکاری کو منظم کیا گیا- 1913ء میں امریکی فیڈرل ریزرو اور 1944ء میں برٹن ووڈز معاہدہ نے بین الاقوامی مالیاتی نظام کو مضبوط کیا- بعد میں، بینکاری میں ٹیکنالوجی کے شامل ہونے سے آن لائن بینکاری اور موبائل بینکاری جیسی سہولیات فراہم کی گئیں، جو آج کے ڈیجیٹل دور کی ایک اہم خصوصیت ہیں-

برقی پیسہ (Digital Money) :

برقی پیسہ ایک ایسی کرنسی ہے جو مکمل طور پر ڈیجیٹل فارمیٹ میں موجود ہوتی ہے اور اسے مالیاتی لین دین کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے- یہ کسی مادی شکل (جیسے کاغذی نوٹ یا سکوں) میں موجود نہیں ہوتی بلکہ برقی/الیکٹرانک طور پر (بینکاری ایپس یا مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل موبائل فون کمپنیاں) پیسے کی محفوظ اور جلد منتقلی کیلئے استعمال کرتی ہیں-جس کاکنٹرول عام طور پر مرکزی بینک یا مالیاتی ادارے کے زیر انتظام ہوتا ہے-جس کی خصوصیات یہ ہے کہ یہ محفوظ اور باقاعدہ صارفین کا اندراج کرتی ہےجس کے ذریعے فوری اور آسان بین الاقوامی لین دین ممکن ہوتا ہےاور یہ فزیکل کرنسی کے ڈیجیٹل متبادل کے طور پر کام کرتی ہے-

مخفی برقی سِکہ  (Cryptocurrency) :

مخفی برقی سکہ یا عُرفِ عام میں کرپٹو کرنسی ایک غیر مرکزی برقی سکہ ہے جو کرپٹو گرافی کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے اور بلاک چین ٹیکنالوجی پر کام کرتی ہے- اسے کسی بھی مرکزی حکومت یا مالیاتی ادارے کے کنٹرول کے بغیر لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اوریہ عوامی لیجر پر مبنی ہوتی ہے-جس کی عام مثال بٹ کوائن(Bitcoin)، ایتھرئیم (Ethereum) اور ریپل (Ripple) وغیرہ ہیں -جس کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس کی شفاف ٹرانزیکشنز، بلاک چین پر ریکارڈ ہوتی ہیں اور یہ نیشنل اور انٹرنیشنل سرمایہ کاری اور لین دین کیلئے استعمال کی جاتی ہے-

بلاک چین کیا ہے؟

بلاک چین کا آغاز 2008ء میں ہوا اور اس کا بنیادی تصور ایک گمنام شخص یا گروپ، ساتوشی ناکاموتو (Satoshi Nakamoto) نے پیش کیا-[5] بلاک چین کی پہلی عملی شکل 2009ء میں بٹ کوائن کے طور پر سامنے آئی، جو ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے اور بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے- بلاک چین ایک ڈیجیٹل اور تقسیم شدہ لیجر (ledger) ٹیکنالوجی ہے جو ڈیٹا کو محفوظ اور شفاف طریقے سے محفوظ کرنے اور تشریکنے یعنی شیئر کرنے کا ایک جدید نظام فراہم کرتی ہے- یہ نظام بلاکس (blocks) کی ایک زنجیر (chain) پر مبنی ہوتا ہے، جہاں ہر بلاک میں ڈیٹا، اس بلاک سے پہلے بلاک کا حوالہ اور ایک منفرد شناختی کوڈ (cryptographic hash) موجود ہوتا ہے-

بلاک چین کی خصوصیات:

بلاک چین کا ڈیٹا تمام شرکاء کے درمیان تشریکا جاتا ہے (یعنی شیئر کیا جاتا ہے)  جس کی وجہ سے کسی بھی فریق کے لیے اسے تبدیل کرنا مشکل ہوجاتا ہے-بلاک چین میں ہر منتقلیء رقم /ٹرانزیکشن کا ریکارڈ پبلک یا منتخب اراکین کے لیے دستیاب ہوتا ہے-ایک بار ڈیٹا بلاک چین میں شامل ہونے کے بعد اسے تبدیل یا حذف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے-بلاک چین کسی ایک مرکزی سرور یا ادارے کے تحت نہیں ہوتی، بلکہ یہ کئی کمپیوٹرز (nodes) پر پھیلی ہوتی ہے-بلاک چین کی ہر منتقلیء رقم کو کرپٹوگرافی کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے-

بلاک چین کےکام کرنے کا طریقہ :

بلاک چین پر ایک نیا ڈیٹا یا لین دین شامل کرنے کے لیے، نیٹ ورک پر موجود صارفین یا سسٹمز ایک درخواست کرتے ہیں- مثلاً، اگرکوئی شخص مخفی برقی سکہ/کرپٹو کرنسی بھیجنا چاہتے ہیں تو یہ ایک منتقلیء رقم ہوگی-یہ درخواست نیٹ ورک کے تمام نوڈز تک پہنچتی ہے- جہاں منتقلی/ٹرانزیکشن کی تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ حاصل ہونی والی درخواست جائز ہے؟کیا صارف کے پاس مطلوبہ وسائل (جیسے کرپٹو کرنسی) موجود ہیں؟کیا کوئی بے ضابطگی تو نہیں؟جب ٹرانزیکشن کی تصدیق ہوجاتی ہے، تو یہ ٹرانزیکشن ایک نئے بلاک میں شامل کی جاتی ہے-ٹرانزیکشن کا ڈیٹا، پچھلے بلاک کا ہیش(خفیہ کوڈ)،نئے بلاک کا ہیش(خفیہ کوڈ)، نیا بلاک بلاک چین میں شامل ہوجاتا ہے- یہ اضافہ پچھلے بلاک کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، جس سے ایک زنجیر تشکیل پاتی ہے-نیٹ ورک پر موجود تمام نوڈز اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ نیا بلاک درست اور قابل قبول ہے- یہ اتفاق مختلف طریقہ کار جیسے پروف آف ورک (Proof of Work) یا پروف آف اسٹیک (Proof of Stake) کے ذریعے ہوتا ہے-ایک بار بلاک چین میں شامل ہونے کے بعد، بلاک کا ڈیٹا مستقل ہو جاتا ہے- اسے نہ تو حذف کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور بھیجی ہوئی رقم وصول کنندہ کے برقی بٹوےمیں ظاہر ہو جاتی ہے-

دوسرے ممالک میں مخفی برقی سکے کی قانونی حیثیت :

یونائیٹذ سیٹیٹ آف امریکہ(USA) میں مخفی برقی سکہ /کرپٹو کرنسی قانونی ہے امریکی ریاست صرف اُن شہریوں کے بے ضابطگی کی ذمہ دار ہو گی جو ایکسچینج سے بٹ کوائن خریدیں گے نہ کہ خوردہ سرمایہ کاروں سے - یورپی یونین میں بھی مخفی برقی سکہ قانونی ہے- مخفی برقی سکہ استعمال کرنے والوں کو ’’مالی آلات‘‘ کے طور پر اہل ہونا چاہیے- جون 2023ء میں، کرپٹو-اثاثوں میں یورپی کمیشن کی مارکیٹس (MiCA) ریگولیشن نافذ ہو گیا- یہ قانون مخفی برقی سکہ کا استعمال کرتے ہوئے مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں یا دکانداروں کیلئے حفاظتی اقدامات اور قوانین قائم کرتا ہے- جاپان کا پیمنٹ سروسز ایکٹ (PSA)بٹ کوائن کو قانونی جائیداد کے طور پر بیان کرتا ہے- ملک میں کام کرنے والے مخفی برقی سکہ ایکسچینج کو صارف کے بارے میں معلومات اور منتقلی سے متعلق تفصیلات جمع کروانے کی ضرورت ہے- چائنہ نے اپنی سرحدوں کے اندر مخفی برقی سکہ کے تبادلے، لین دین اور کان کنی پر پابندی لگا دی ہے، لیکن اس کے پاس سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) ہے- بھارت میں مخفی برقی سکہ کے لیے ایک فریم ورک بنانے کی اطلاع دی گئی تھی، لیکن جب تک اسے نافذ نہیں کیا جاتا اُس وقت تک سرمایہ کاری غیر قانونی نہیں ہےتب تک ایکسچینج مخفی برقی سکہ پیش کرنے کے لیے آزاد ہیں- [6]

بینک دولت پنجاب کا پاکستان کے باسیوں کیلئے اہم پیغام :(Public Notice)

ماضی میں بینک دولت پاکستان نےعوام الناس کو مشورہ دیا کہ ورچوئل کرنسیاں/سکے/ٹوکنز (جیسے بٹ کوائن (Bitcoin)، لائٹ کوائن (Litecoin)، پاک کوائن (PakCoin)، ون کوائن (OneCoin)، ڈاس کوائن (DasCoin)، پے ڈائمنڈ (Pay Diamond) وغیرہ) کو نہ ہی قانونی ٹینڈر کے طور پر تسلیم کیا گیا اور نہ ہی اسٹیٹ بینک نے کسی فرد یا ادارے کو جاری کرنے، فروخت کرنے کی اجازت یا لائسنس دیا- ورچوئل کرنسیاں سکے، ٹوکنز  غیر قانونی ہیں- درج ذیل میں سے کسی ایک یا تمام خطرات کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی صورت میں کسی فرد کو کوئی قانونی تحفظ یا سہارا دستیاب نہیں ہے-

  • برقی کرنسیوں سے سرمایہ کاری میں زیادہ اتار چڑھاؤ انتہائی غیر مستحکم ہے اور بنیادی طور پر قیاس آرائیوں پر مبنی ہے-
  • غیر قانونی ہونے کی وجہ سے ورچوئل کرنسی ایکسچینجز/ کاروبار کی ناکامی/بندش
  • کرپٹو کرنسی ایکسچینجز اور والیٹ کے کاروبار کی ہیکنگ/سیکیورٹی سمجھوتہ کی وجہ سے بہت زیادہ رقم ضائع ہوئی ہے-
  • پاکستان سے باہر مالیت کی منتقلی کے مقصد سے ورچوئل کرنسیاں/ سکے/ ٹوکن استعمال کرنے والے افراد قابل اطلاق قوانین کے مطابق قانونی کارروائی کے تابع ہیں- [7]

حکومت کا پاکستان میں مخفی برقی سکہ متعارف کروانے کا فیصلہ:

حال ہی میں وفاقی حکومت نےیہ اعلان کیا ہے کہ وہ جلد کرپٹو کرنسیز اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے حوالے سے قوانین مرتب کرنے کے لیے برقی اثاثوں کا بل پیش کرے گی جسے ’’ورچوئل ایسٹس بل 2025‘‘ کا نام دیا گیا ہے-[8]یہ مجوزہ قانون نہ صرف ورچوئل ایسٹس اور کرپٹو کرنسیز کے استعمال،تجارت اور ان کے ضوابط کو مرتب کرے گا بلکہ یہ پاکستانی روپے کے متبادل ایک ڈیجیٹل کرنسی بھی متعارف کروائے گاجسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے قانونی حیثیت حاصل ہوگی-اس بل کا مقصد پاکستان میں برقی اثاثوں کے استعمال کوایک قانونی دائرہ کارمیں لانا ہےجس کے تحت ’’ورچوئل ایسٹ زونز‘‘قائم کیے جائیں گے اور سرمایہ کاروں کے تحفظ، مالی استحکام، ڈیجیٹل روپے کی قانونی حیثیت اورغیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے ضروری اقدامات مرتب کیے جائیں گے-ورچوئل ایسٹس بل 2025 میں ورچوئل ایسٹ پروائیڈرز،ورچوئل کرنسی ایکسچینجز اور ورچوئل کرنسی زونز کی لائسنسنگ اور رجسٹریشن کے لیے قانونی اورمعیاری اصول فراہم کیے جائیں گئے ہیں - یہ بل برقی سکوں کی منڈیوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کی باقاعدہ پڑتال/ آڈٹ اور رپورٹنگ کا نظام نافذ کرے گا، جس سے مالیاتی نظام پر عوام کا اعتماد قائم ہوگابل کے تحت ایک ’’نیشنل ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری کمیشن‘‘ قائم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے-یہ کمیشن ورچوئل ایسٹس کو لاحق سائبر خطرات ، ہیک اور (Scam) کا جائزہ لے گا جو ملک میں ان کے نفاذ اور روک تھام کے لیے جامع قانونی فریم ورک تیار کرے گااور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے عائد کرے گا- یہ بل پاکستان کےمعاشی، ٹیکنالوجی اور مالیاتی نظام میں جدت لانے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے-

اسلامی بینکاری (Islamic Banking) :

خوش آئند بات یہ ہے کہ اسلامی بینکاری نے ایک علمی برانچ کے طور پہ بہت ترقی کی ہے اور دنیا سے بہت توجہ اور سرمایہ سمیٹا ہے ۔ گوکہ بعض ناقدین کے مطابق یہ محض سرمایہ دارانہ فریب کاری اور اصطلاحی ڈھکوسلوں پہ کھڑی ہے ۔ تاہم پھر بھی یہ معاشیات کا ایک شعبہ بنتا جا رہا ہے ۔ اسلامی بینکاری میں مخفی برقی سکے کی قبولیت جدید مالیاتی مسائل اور اسلامی اصولوں کے درمیان توازن پر مبنی ہے- مخفی برقی سکہ /کرپٹو کرنسی جیسے مالیاتی نظام کو اسلامی بینکاری میں شامل کرنے کیلئے اس کی شرعی حیثیت، افادیت اور اخلاقی پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے-

مخفی برقی سکہ کی شرعی حیثیت :

اسلام میں ’’مال‘‘ وہ چیز ہے جو قابلِ تبادلہ ہو، حقیقی قدر رکھتی ہو اور معاشرتی ضرورت پوری کرتی ہو- مخفی برقی سکہ کو مال سمجھنے کے لیے اس کی قبولیت، افادیت اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے- مخفی برقی سکہ یعنی کرپٹو کرنسی کو سونے اور چاندی کی طرح ایک ’’قدر‘‘ کے ذخیرہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ برقی/ڈیجیٹل ہونے کی وجہ سے اختلافی ہے- اسلام میں غیر یقینی اور مبہم لین دین ممنوع ہے- مخفی برقی سکہ کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ  اس پہلو کو متنازع بناتا ہے- مخفی برقی سکہ غیر مرکزی ہے جو بینکاری اور ریاستی کنٹرول سے آزاد ہونے کی وجہ سے بھی متنازع ہے -

ممکنہ حل اور تجاویز :

  • اگر اسلامی بینکاری رائج ہو سکتی ہے تو اسی طرح اسلامی مخفی برقی سکہ کا اجراء: اسلامی مالیاتی ادارے اپنے ضوابط کے مطابق شریعت سے ہم آہنگی کے راستے جاری کر سکتے ہیں- یہ کرنسی حقیقی اثاثوں سے منسلک ہو اور اس کی قیمت مستحکم رکھی جائے-
  • شریعت بورڈ کی منظوری: ہر مخفی برقی سکہ کیلئے اسلامی شریعت بورڈ سے منظوری ضروری ہو- اسلامی بینکاری ماہرین اور فقہا کی ٹیم بلاک چین اور کرپٹو کرنسی کی جانچ کریں-
  • کرپٹو کے اسلامی مالیاتی آلات میں استعمال: کرپٹو کو مضاربہ، مشارکہ اور اجارہ جیسے اسلامی مالیاتی آلات میں شامل کیا جا سکتا ہے- مثال کے طور پر، کیاکرپٹو کو اسلامی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
  • ریگولیٹری فریم ورک:اسلامی ممالک اور ادارے مخفی برقی سکہ کے لیے ایک شرعی اور قانونی فریم ورک تشکیل دیں -
  • اسلامی بینکاری مخفی برقی سکہ کو قبول کر سکتی ہے، بشرطیکہ یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو اور اس کے استعمال میں عدل، شفافیت اور حقیقی اثاثوں کی پشت پناہی شامل ہو- مخفی برقی سکہ کا انضمام اسلامی معیشت کے لیے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے فقہاء اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مشترکہ کاوش ضروری ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر