موجودہ شہروں پربڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ
پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں شہری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے- ہر سال ہماری آبادی میں تقریباً 2.1 سے 2.3 فیصد اضافہ ہو رہا ہے، لیکن شہروں میں یہ اضافہ اس سے بھی زیادہ تیز ہے-اسلام آباد وہ شہر ہے جہاں شہری آبادی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، تقریباً 4 فیصد سالانہ- لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی یہ شرح 2.5 فیصد کے آس پاس ہے-
2017 ء کی مردم شماری کے مطابق، صرف پنجاب کی آبادی 2050ء تک 22 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جو کہ آج کل پاکستان کی کل آبادی کے برابر ہے- اس وقت پنجاب کی آبادی تقریباً 12 کروڑ ہے، اور ان میں سے 40 سے 50 فیصد لوگ شہروں میں رہتے ہیں- یعنی تقریباً 6 کروڑ افراد شہری علاقوں میں آباد ہیں-لاہور کے بعد فیصل آباد جیسے شہروں میں بھی شہری آبادی کی ترقی کی رفتارتقریباً 2.45فیصد تک جا پہنچی ہے- اگر ہم 2050ء کا ایک محتاط اندازہ لگائیں، تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا 60 فیصد حصہ شہری علاقوں میں رہ رہا ہوگا-ایسی صورت میں نئے اور منصوبہ بند شہروں کی اشد ضرورت ہے- اگر ہم نے وقت پر نئے شہر نہیں بسائے تو لاکھوں لوگ مجبور ہو کر شہروں کے کناروں پر غیر معیاری اور غریب بستیوں میں رہنے لگیں گے، جو کسی بھی طرح پائیدار ترقی کی علامت نہیں ہوگی- [1]
شہری خوشحالی اور معیشت کو فروغ
شہری خوشحالی اور معیشت کو فروغ کیلئے جدید شہروں کا قیام ناگزیر ہے، جو روزگار، صنعت اور ٹیکنالوجی کو مرکز بنا کر معاشی سرگرمیوں کو تیز کرتے ہیں- پاکستان میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہر ملک کی GDP کا 55 فیصد پیدا کرتے ہیں، لیکن ان میں آبادی کا دباؤ، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور غیر رسمی معیشت کے مسائل بھی موجود ہیں - [2]
نئے شہروں کی تعمیر، جیسے راوی ریور فرنٹ یا CPEC کے تحت صنعتی زونز، سے نہ صرف اعلیٰ معیار کی رہائش اور اسمارٹ انفراسٹرکچر میسر آئے گا بلکہ ایک کروڑ سے زائد نئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے - [3]
شہری خوشحالی کے لیے پائیدار ترقی کو ترجیح دینا ہو گی، جیسے لاہور میں کلین گرین پروجیکٹ کے تحت فضائی آلودگی میں20فیصد کمی لانا - [4]
عالمی تجربات، جیسے دبئی کا سمارٹ سٹی ماڈل یا چین کے سپیشل اکنامک زونز ، سے ثابت ہوتا ہے کہ نجی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے شہری معیشت کو جِلا ملتی ہے- پاکستان میں اسمارٹ گورننس کے نفاذ، جیسے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈز اور ای-گورننس پلیٹ فارمز، سے کرپشن کم ہوگی اور کاروباری ماحول بہتر ہوگا - [5]
ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی
ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی کسی بھی ملک کے مستقبل کے لیے دو اہم پہیے ہیں- پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں آبادی کا دباؤ، غیر منصوبہ بند صنعت کاری اور قدرتی وسائل کا غیر دانشمندانہ استعمال ماحول کو تیزی سے تباہ کر رہا ہے، وہاں پائیدار ترقی کا تصور نہ صرف ماحولیات بلکہ معیشت اور سماجی انصاف کو یکجا کرتا ہے- ورلڈ بینک کی رپورٹ (2023ء) کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ،جیسے 2022 کے سیلابوں نے 33 ملین افراد کو بے گھر کیا اور 30 بلین ڈالر کا نقصان ہوا- اس تناظر میں، ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دینا اور سبز معیشت کی طرف جانا وقت کی اہم ضرورت ہے- [6]
پاکستان نے قومی کلائمیٹ پالیسی 2021ء اور 10 بلین ٹری سونامی جیسے منصوبوں کے ذریعے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی کوششیں کی ہیں- مثلاً ، 10 بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت 3.29 ارب پودےلگائے گئے، جس سے کاربن اخراج میں کمی اور جنگلات کے تحفظ میں مدد ملی - [7]
عالمی سطح پر، چین نے سبز شہروں کے ذریعے اپنے کاربن فٹ پرنٹ میں 40فیصد کمی کی ہے، جبکہ یورپی یونین نے گرین ڈیل کے تحت 2050ء تک کاربن نیوٹرل ہونے کا ہدف رکھا ہے- پاکستان کو بھی CPEC کے تحت سبز انفراسٹرکچر (جیسے گرین پبلک ٹرانسپورٹ) اور ماحول دوست صنعتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- ماہرین کے مطابق، اگر پانی کے ذخائر کو جدید طریقوں سے بحال کیا جائے اور عوامی آگاہی مہموں کو فعال بنایا جائے، تو پائیدار ترقی کے ہدف حاصل کیے جا سکتے ہیں- [8]
علاقائی توازن اور انضمام
علاقائی توازن اور انضمام کسی بھی ملک کی پائیدار ترقی کے لیے اہم ستون ہیں- پاکستان جیسے متنوع خطے میں، جہاں صوبائی، لسانی اور معاشی تفاوت واضح ہے، علاقائی توازن کا مطلب وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پسماندہ علاقوں (جیسے بلوچستان، سندھ کے دیہی علاقے) کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنا ہے- مثلاً، CPEC (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کے تحت بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر اور KKH (قرا قرم ہا ئیوے )کی توسیع سے نہ صرف معیشت کو فروغ ملا بلکہ علاقائی انضمام کو بھی تقویت ملی، جس سے مرکزی اور دور دراز علاقوں کے درمیان فاصلے کم ہوئے- [9]
تاہم، غیرمتوازن ترقی کے سبب صوبائی سطح پر عدم اطمینان بڑھا ہے، جیسے سندھ میں دیہی-شہری تقسیم یا خیبر پختونخوا میں انفراسٹرکچر کی کمی - [10]
انضمام کے لیے بین الصوبائی تعاون اور مشترکہ منصوبہ بندی ضروری ہے- مثال کے طور پر، پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے آبپاشی کے جدید نظام کو فروغ دینا چاہیے- [11]
اسی طرح، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں یکساں سرمایہ کاری سے نہ صرف انسانی ترقی کا گراف بہتر ہوگا بلکہ علاقائی تفاوت بھی کم ہوگی- حکومت کی جانب سے سندھ-بلوچستان سرحدی علاقوں میں خصوصی اقتصادی زونز کا قیام اس سمت میں ایک مثبت قدم ہے - [12]
مختصر یہ کہ، علاقائی توازن اور انضمام کے بغیرقومی یکجہتی اور معاشی استحکام ممکن نہیں- اس کے لیے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانااور عوامی مشاورت پر مبنی پالیسیاں بنانا دشوار ہیں-
حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کا جائزہ
پاکستان میں حکومتی پالیسیاں اکثر معاشی استحکام، شہری ترقی اور سماجی انصاف کے دعووں کے ساتھ بنائی جاتی ہیں، لیکن ان کے عملی نفاذ اور نتائج پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں- مثلاً، CPEC کے تحت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نے معیشت کو جزوی فروغ دیا، لیکن مقامی آبادیوں کے فوائد کی غیرمساوی تقسیم اور ماحولیاتی اثرات پر تنقید کی گئی - [13]
اسی طرح، کامیاب جوان پروگرام اور احساس پروگرام جیسی سماجی اسکیمیں نوجوانوں اور غریبوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہیں، مگر غیرمؤثر انتظام اور کرپشن کے باعث ان کا اثر محدود رہا - [14]
شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے، پنجاب حکومت کی راوی ریور فرنٹ ڈویلپمنٹ اور سندھ کی کلفٹن اربن فارسٹ جیسے اقدامات قابل تعریف ہیں، لیکن ان میں ماحولیاتی تجزیے کی کمی اور مقامی لوگوں کی بے دخلی کے مسائل بھی سامنے آئے - [15]
قومی کلائمیٹ پالیسی 2021ءاور ٹین بلین ٹری سونامی جیسے ماحولیاتی پروجیکٹس مثبت ہیں، لیکن فنڈز کے ضیاع اور طویل مدتی نگرانی کے فقدان نے ان کی کامیابی کو خطرے میں ڈالا ہے - [16]
حکومتی اقدامات کی کامیابی کے لیے شفافیت اور عوامی مشاورت پر مبنی پالیسیاں ناگزیر ہیں- مثلاً، اسمارٹ گورننس کے نفاذ اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے عوامی خدمات کی ترسیل بہتر ہو سکتی ہے - [17]
بین الاقوامی مثالوں سے سبق
تعمیراتی منصوبہ نیوم (NEOM) ممکنہ طور پر 2039ء میں مکمل ہو گا- یہ بحیرہ احمر کے ساحل کے قریب واقع سعودی شہر ہو گا جہاں مصنوعی ذہانت (AI)سمیت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا- اسے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا ہے-نیوم کے پہلے بین الاقوامی مرکز کے قیام کیلئے برطانیہ میں ہالبورن کے وسطی ضلع میں واقع چانسری ہاؤس کا انتحاب کیا گیا ہے- اس دفتر کا افتتاح نیوم کے بین الاقوامی منظرنامے پر احاطے کیلئے ایک اہم سنگ میل رکھتاہے، جو مملکت برطانیہ اور نیوم کے درمیان پہلے سے جاری شراکتوں میں ایک اہم ترین اضافہ ہے-
نیوم کے قیام کا مقصد جدید تقاضوں کے مطابق دنیا بھر کے لوگوں کیلئے رہائش اور کام کرنے کے بدلتے ہوئے طریقوں کو متعارف کرواناہے- ان کا کہنا تھا کہ لندن میں اس کے دفتر کے قیام سے برطانیہ کے سرمایہ کاروں، تنظیموں اور اختراع کاروں کو اس منصوبے اور اس کی عالمی اہمیت کو متعارف کرانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا ہو گا-[18]
اسلام آباد اور شینزین دو ایسے شہر ہیں جو کبھی چھوٹے سے گاؤں تھے، لیکن آج یہ ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتے ہیں- ان کی ترقی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان کا قریبی بڑے شہروں سے گہرا تعلق رہا ہے- اسلام آباد کے ساتھ راولپنڈی ہے، جبکہ شینزین کے ساتھ ہانگ کانگ-اسی طرح پاکستان میں دریائے راوی کے آس پاس کا علاقہ بھی بہت اہم ہے- یہاں 100 کلومیٹر کے اندر تین بڑے شہر موجود ہیں، جہاں تقریباً 3 کروڑ لوگ رہتے ہیں- اس علاقے کے قریب پنجاب کی 75 فیصد فیکٹریاں بھی موجود ہیں-یہ سب کچھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر ہم کسی نئے شہر کو سمجھ داری سے بنائیں اور اس کو قریبی شہروں سے اچھی طرح جوڑیں، تو وہ شہر بہت تیزی سے ترقی کر سکتا ہے-یہ علاقہ مزدوروں، فیکٹریوں، سستی زمین، اور شہروں سے رابطے جیسی چیزوں کیلئے بہت موزوں ہے- اگر ہم اچھی منصوبہ بندی کریں، تو یہاں ایک نیا، ترقی یافتہ اور جدید شہر بنایا جا سکتا ہے، جو ملک کیلئے بہت فائدہ مند ہوگا- [19]
مصر کا ’’نیو ایڈمنسٹریٹو کیپٹل‘‘ (NAC)58بلین ڈالر کا ایک منصوبہ ہے جو قاہرہ کے بے ہنگم شہری دباؤ کو کم کرنے، جدید انتظامی اصولوں کو فروغ دینے اور معیشت کو متنوع بنانے کے لیے شروع کیا گیا- یہ شہر صحرا میں 700 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں اسمارٹ ٹیکنالوجیز جیسے خودکار ٹریفک سسٹمز، ڈیجیٹل گورننس اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہے- چینی کمپنیوں (China State Construction Engineering Corporation) کے ساتھ شراکت داریوں نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو تیز کیا، جو بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے- [20]
ورٹیکل رہائشی منصوبے دنیا کے بڑے شہروں میں آبادی کے دباؤ اور زمین کی کمی کا ایک عملی حل بن چکے ہیں- جیسا کہ نیویارک میں 85فیصد سے زائد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے،50فیصد سے زیادہ رہائشی عمارتیں 20 منزلہ یا اس سے بلند ہیں -[21]لندن میں 2022ء کے اعدادوشمار کے مطابق، 40فیصد نئے رہائشی یونٹس ورٹیکل ڈویلپمنٹس میں تعمیر کیے گئے ہیں- [22] بیجنگ میں صورتحال اور بھی واضح ہے جہاں 60فیصد شہری آبادی اونچی عمارتوں میں رہائش پذیر ہے، جس سے زرعی زمینوں کا تحفظ ممکن ہوا ہے[23] -
پاکستان میں، جہاں شہری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہاں ورٹیکل رہائشی نظام کا شدید فقدان ہے- روایتی افقی تعمیرات اور غیرمنصوبہ بند شہری پھیلاؤ کے باعث زرعی زمینیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں-
ممکنہ چیلنجز :
آج، دنیا کی تقریباً 56 فیصد آبادی 4.4 ارب باشندے شہروں میں رہتی ہے- یہ رجحان جاری رہنے کی توقع ہے، شہری آبادی 2050 تک اپنے موجودہ سائز سے دوگنی سے بھی زیادہ ہو جائے گی، جس وقت تقریباً 10 میں سے 7 افراد شہروں میں رہیں گے-شہروں میں عالمی جی ڈی پی کا 80 فیصد سے زیادہ پیدا ہونے کے ساتھ، اگر شہر کو اچھی طرح سے منظم کیا جائے تو یہ پیداواریت اور جدت میں اضافے کے ذریعے پائیدار ترقی میں معاون ہوسکتا ہے-تاہم، شہری آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار اور پیمانہ چیلنجز لاتا ہے، جیسے کہ مہنگی رہائش، نقل و حمل کے نظام سمیت قابل عمل بنیادی ڈھانچہ، بنیادی خدمات اور ملازمتوں کی تیز رفتار مانگ کو پورا کرنا، خاص طور پر تقریباً 1 ارب شہری غریبوں کے لیے جو شہروں کے قریب رہنے کے لیے غیر رسمی بستیوں میں رہتے ہیں دُنیا بھر میں جنگوں اور تنازعات کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں- یہ لوگ اکثر شہروں میں پناہ گزیں ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں انہیں تحفظ اور بہتر زندگی کی امید ہوتی ہے- لیکن جب بڑی تعداد میں لوگ شہروں میں آتے ہیں، تو وہاں پہلے سے موجود مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں جیسے رہائش، پانی، صحت اور نوکریوں کی کمی - پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں سیلاب اور معاشی مشکلات نے حالات کو پہلے ہی مشکل کر رکھا ہے، جب بہت سے نئے لوگ شہروں میں آتے ہیں چاہے وہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے ہوں یا مشکل حالات کی وجہ سے شہروں کا رخ کرتے ہیں توان شہروں کے حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں-
ایک بار جب کوئی شہر بن جاتا ہے، تو اس کی جسمانی شکل اور زمینی استعمال کے طریقے کئی نسلوں تک چلتے رہتے ہیں، جس سے غیر پائیدار پھیلاؤ ہوتا ہے- شہری زمینی استعمال کی توسیع آبادی میں اضافے کو 50 فیصد تک پیچھے چھوڑ دیتی ہے، جس سے توقع ہے کہ 2030ء تک دنیا میں 1.2 ملین مربع کلومیٹر نیا شہری تعمیر شدہ علاقہ شامل ہو جائے گا- اس طرح کا پھیلاؤ زمین اور قدرتی وسائل پر دباؤ ڈالتا ہے، جس کے نتیجے میں ناپسندیدہ نتائج برآمد ہوتے ہیں- شہر عالمی توانائی کی کھپت کا دو تہائی حصہ ہیں اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے 70 فیصد سے زیادہ کے ذمہ دار ہیں-شہر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں تیزی سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ موسمیاتی اور آفات کے خطرے سے ان کا سامنا بڑھ جاتا ہے جیسے جیسے وہ بڑھتے ہیں- 1985ء سے، تقریباً 76,400 مربع کلومیٹر نئی شہری زمین ایسے مقامات پر شامل کی گئی جہاں شدید سیلاب کے دوران 0.5 میٹر سے زیادہ گہرائی تھی- یہ گریٹر لندن کے رقبے کے تقریباً 50 گنا ہے- عالمی سطح پر، 1.81 ارب لوگ (یعنی ہر 4 میں سے 1 شخص) زیادہ خطرے والے (سیلاب والے )علاقوں میں رہتے ہیں- گنجان آباد اور تیزی سے شہر بننےوالے دریا ئی میدانوں اور ترقی پذیر ممالک کے ساحلی علاقوں میں خطرہ خاص طور پر زیادہ ہے، جہاں دنیا کی سیلاب متاثرین کی کل آبادی میں سے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کا 89 فیصد رہتا ہے- [24]
پاکستان میں شہری ترقی کیلئے اصلاحات: مختصر خلاصہ
پاکستان میں شہری ترقی کے اقتصادی اور سماجی فوائد آبادی میں تیزی سے اضافہ، خطرناک شہری پھیلاؤ، ناکام عوامی خدمات، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور کمزور اقتصادی پیداواری صلاحیت جیسے مسائل کی وجہ سے خطرے میں ہیں- ایشیائی ترقیاتی بینک کی حمایت سے تیار کردہ ایک جامع قومی شہری تشخیص رپورٹ میں ان چیلنجز کا جائزہ لیا گیا ہے اور پائیدار حل تجویز کیے گئے ہیں-
شہری انتظامیہ اور منصوبہ بندی میں ترقی پسندانہ اصلاحات کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے- اہم سفارشات میں شہری انتظامیہ کے افعال کی منتقلی، واضح عمودی اور افقی شہری انتظامیہ کا ماڈل قائم کرنا اور ردِ عمل والے منصوبہ بندی کے نقطہ نظر سے فعال نقطہ نظر کی طرف جانا شامل ہیں-
پاکستان کو ایک نیا شہری ماڈل اپنانے کی ضرورت ہے جو اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی فوائد کو اپنائےہو- اس کے لیے منصوبہ بندی اور تشخیص کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا، فعال ادارے قائم کرنااور مقامی حکومتوں کے ایکٹ اور ان کے نفاذ کے درمیان خلیج کو پُر کرنا ضروری ہے-
خلاصہ یہ کہ پاکستان کو اپنے شہروں کو محفوظ، لچکدار، اور قابل رہائش بنانے کیلئے پالیسی، منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کی حمایت کی ضرورت ہے- اس کے ساتھ ساتھ بہتر آمدنی، تعلیم اور روزی روٹی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت ہے-[25]
تجویزات اور نتیجہ:
عالمی اقتصادی فورم شہری حکومتوں کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ:
- ایک بڑھتے ہوئے مسابقتی منظرنامے میں سرمایہ اور انسانی وسائل کو راغب کرنے کیلئے ریگولیٹری اصلاحات متعارف کرائیں-
- ہمیں ایسی حکومتیں بنانی ہوں گی جو تیز فیصلہ کرنے والی، صاف اور شفاف ہوں اور جو بڑے شہروں کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اسی پیمانے پر کام کر سکیں-
- لوگوں اور عملے میں سرمایہ کاری کرکے ادارتی صلاحیت کو فروغ دیں-
- شہری رہنماؤں کو خطرہ سے گریز کرنے کی ڈیفالٹ پوزیشن کو تبدیل کرنے اور حساب شدہ خطرات مول لینے کیلئے بااختیار بنائیں-
- فیصلہ سازی میں شہریوں، غیر سرکاری تنظیموں، نجی شعبے اور محققین کو شامل کریں تاکہ مشاورت کو بہتر بنایا جا سکے اور اعتماد پیدا کیا جا سکے-
- نامیاتی نشوونما کی اجازت دینے کے لیے صحیح توازن حاصل کریں جبکہ ماسٹر پلانز پر عمل کریں-
- لاگت کو کم کرنے اور انٹرآپریٹریٹی کو فروغ دینے کے لیے معیارات کا استعمال کریں اور دوبارہ استعمال کو فروغ دیں-
- ورٹیکل ڈویلپمنٹ کیلئے خصوصی تعمیراتی قوانین بنائے جائیں اور بلند عمارتوں کی منظوری کے عمل کو سراہا جائے-
- شہروں میں پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنایا جائے تاکہ اونچی عمارتیں پائیدار طریقے سےقائم رہ سکیں-
- زرعی زمینوں کے تحفظ کیلئےشہری حدود مقرر کی جائیں اور افقی تعمیرات پر پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ کھیتی باڑی کی زمینیں محفوظ رہیں-
- اگر پاکستان ورٹیکل ڈویلپمنٹ کی جانب سنجیدگی سے اقدامات کرے، تو یہ نہ صرف رہائشی بحران کو حل کر سکتا ہے، بلکہ ماحولیاتی توازن اور خوراک کی قلت کو بھی یقینی طور پر پورا کیا جا سکتا ہے-
نتیجہ:
شہری آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور شہروں کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ بڑا توجہ طلب ہے اس سے جہاں شہری ماحول میں خرابی پیدا ہو رہی ہے وہاں غذائی قلت، رہن سہن، پینے کے پانی، نکاسی آب، صحت و تعلیم سمیت بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کے مستقبل میں شدید تر ہونے کے خدشات ہیں- بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کو سالانہ تین لاکھ پچاس ہزار اور مجموعی طور پر ایک کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہے- ایسے میں موجودہ اربن ڈویلپمنٹ کی جگہ نیا نظام لانا ہو گا- ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی پی) نے بھی اس حوالے سے نئے شہر بسانے اور مستقل پالیسی اپنانے کی تجویز دی ہے- 2023ء کی مردم شماری کے مطابق شہری آبادی 93.8 ملین ہو چکی ہے جو 2030 تک 99.4 ملین ہو جائے گی- شہری علاقوں میں 53 فیصد آبادی کو تاحال بہترین پانی کی عدم فراہمی کے مسائل کا سامنا ہے- تقریباً 18 فیصد آبادی بنیادی حفظان صحت کے اقدامات سے محروم ہے- اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اور مقامی حکومتیں شہروں میں سروسز مینجمنٹ کو بہتر نہیں بنا سکیں- پاکستان کو دس ، بیس اور تیس سالہ شہر کاری کا نیا پلان بنانے کی اشد ضرورت ہے- اکنامک پاور، تعلیم، رہن سہن کے بہتر مواقع فراہم کرنے کیلئے پائیدار پالیسی اپنانا ہو گی- کلائمیٹ چینج اور سیلابوں کے باعث ہونے والے اربوں ڈالر نقصانات بھی قابل غور ہیں- یہ درست ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملکی معیشت پر بڑا بوجھ ہے جس پر کنٹرول کرنا ناگزیر ہے- بہترین منصوبہ بندی اور بنیادی سہولتوں کے ساتھ نئے شہر بسانے کی تجویز قابل قدر ہے- اس سے روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے اور تعمیراتی سامان تیار کرنے والی انڈسٹری بھی فعال ہو گی اور موجودہ شہروں کے پھیلاؤ کا بھی سدباب ہو گا-
٭٭٭
[1]https://file.pide.org.pk/pdf/brief/Cities-of-the-Future-Webinar-Brief-17-2021.pdf
[2]Pakistan Bureau of Statistics, Economic Survey 2022-23
[3]World Bank, Pakistan@100: Shaping the Future (2022).
[4]UNDP, Sustainable Urban Development in Pakistan (2021)
[5]State Bank of Pakistan, Digital Governance and Economy (2023)
[6]World Bank, Climate Risk Country Profile: Pakistan (2023)
[7]UNEP, Ten Billion Tree Tsunami Progress Report (2022)
[8]UNDP, Sustainable Development Goals in Pakistan (2023)
[9]Pakistan Planning Commission, Regional Development Report (2020)
[10]UNDP, Pakistan National Human Development Report (2019)
[11]World Bank, Water Resource Management in South Asia (2021)
[12]State Bank of Pakistan, Economic Zones and Growth (2022)
[13]World Bank, Pakistan Development Update (2022)
[14]UNDP, Social Protection in Pakistan (2021)
[15]Dawn, Urban Development Challenges (2023)
[16]Pakistan Climate Change Authority, Annual Report (2022)
[17]State Bank of Pakistan, Governance Reforms (2023)
[18]BBC Report, 23 February 2023
[19]https://file.pide.org.pk/pdf/brief/Cities-of-the-Future-Webinar-Brief-17-2021.pdf
[20]World Bank Report on Egypt’s Economic Strategy (2023)
[21]NYC Planning Department, 2023
[22]Greater London Authority, 2022
[23]China Statistical Yearbook, 2023
[24]https://thedocs.worldbank.org/en/doc/5ee854aff2b120cb30ef910f4e7421f9-0310012023/original/Pakistan-Development-Update-Report-April-2023.pdf
[25]Asian Development Bank. (2021). *Pakistan National Urban Assessment*.
Retrieved from [https://www.adb.org] (https://www.adb.org)