شمائلِ تصوف درتعلیماتِ سلطان العارفینؒ

شمائلِ تصوف درتعلیماتِ سلطان العارفینؒ

شمائلِ تصوف درتعلیماتِ سلطان العارفینؒ

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز نومبر 2020

تصوف یا صوفی ازم (Sufism)[1] اسلامی تہذیب و ثقافت کی اساسیات اور علومِ دینیہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے جس کے مبادی، منابع اور مآخذ قرآن و سنت سے ثابت ہیں[2]- یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ تصوف کی احتیاج ہر دور کے اسلامی معاشرے میں رہی ہے چاہے وہ قرونِ اولی ٰ ہو یا قرون وسطیٰ- اسلام کا یہ منفرد وممیز طریق (تصوف) اپنی اعلی ٰ روایات و اقدا ر کا عملی تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے- تصوف اپنی حقانیت میں آفاقی و عالمگیر اور اپنی غایت و مقصدیت میں اخلاقِ عالیہ، تزکیہ و تصفیہ اور تحرک و عمل سے عبارت ہے اس لئے جمود و تعطل سے بیزاری اختیار کرتا ہے- معرفتِ ربانی اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) تصوف(طریقت ) کا مطلوب اور خدمتِ گری و احترامِ آدمیت اس کی پہچان ہے- تصوف ایمان و عقائد کو تقویت،معاملات کو حسن اور عبادات کو عمدگی عطا کرتا ہے- مزید یہ کہ تصوف اور شریعت میں کوئی تضاد نہیں بلکہ تصوف (طریقت) شریعتِ محمدی(ﷺ)کا امین اور ناموسِ دین کا پہریدار ہے[3]- فی الاصل شریعت و طریقت(تصوف ) کی یکجائی ہی دین کی تکمیل اور دین کا حسن ہے -

امام ابو القاسم عبد الکریم القشیریؒ نے شریعت و طریقت (تصوف،حقیقت ) کی باہمی ضرورت اور تعلق کو یوں بیان کیا ہے:

’’پس جس شریعت کو حقیقت کی تائید حاصل نہ ہو وہ غیر مقبول ہے اورجو حقیقت شریعت سے مقید نہ ہو وہ بھی غیر مقبول ہے‘‘-[4]

شیخ عبد اللہ انصاریؒ فرماتے ہیں:

’’ہر چند کہ شریعت سر بسر حقیقت ہے اور حقیقت تمام تر شریعت، حقیقت کی بنیاد شریعت ہے، شریعت حقیقت کے بغیر اور حقیقت شریعت کے بغیر بیکار ہے اور عمل کرنے والے ان دونوں کے بغیر بیکار ہیں‘‘-[5]

اسی طرح علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

’’شریعت اور طریقت دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں‘‘-

مزید برآں! شیخ جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’ہمارا مذہب(تصوف) کتاب و سنت کے اصولوں کا پابند ہے ‘‘-

امام عبد الوہاب الشعرانیؒ ’’طبقات الکبریٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’بندے کا احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا نچوڑ تصوف ہے‘‘-

شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ نے تمام علوم ( جو فہمِ شریعت میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں) کو مبادی طریقت کے طور پر بیان کیا ہے-آپؒ ’’عوارف المعارف‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ،علم الفرائض و علم الکلام،معانی و بیان، لغت و نحو، غرض وہ تمام علوم جو فہمِ شریعت میں کام آتے ہیں، سب کے سب ضدِ تصوف نہیں بلکہ مقدماتِ تصوف و مبادی طریقت ہیں‘‘-

سطورِ بالا سے پتہ چلا کہ تصوف قرآن و سنت سے مغائر و متضاد کوئی طریق نہیں بلکہ اپنے تمام تر اعمال، احوال اور مشاہدات کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھتا ہے-تمام صوفیائے کرام اور اکابرین اسلام نے اپنی تعلیمات میں تصوف کے متنوع خصائص اور شمائلِ بطریقِ احسن بیان فرمائے ہیں-

حُجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد الغزالیؒ ’’المنقذمن الضلا ل‘‘میں فرماتے ہیں:

’’میں نے دس سال مجاہدہ کیلئے خلوت گزینی اختیار کی-اسی خلوت کے دوران مجھ پر ایسے امور کا انکشاف ہوا جس احاطہ و اندازہ ممکن نہیں لیکن امور نافعہ جن کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجھے یقین ہو گیا کہ صوفیاء کرام ہی معرفتِ الٰہی کی راہ پر گامزن ہیں- ان کی سیرت سب کی سیرتوں سے بہتر ہے- ان کا طریقہ سب کے طریقوں سے درست ،ان کا خُلق سب کے اخلاق سے پاکیزہ ہے بلکہ تمام عقلاء کی عقل،حکماء کی حکمت، علماء کا علم اور اس کے اسرار کو جمع کرلیا جائے تب بھی ان کے سیرت و اخلاق سے بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے تمام ظاہری و باطنی حرکات و سکنات براہِ راست سینہ نبوت کے نور سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کائنات میں نورِ نبوت سے بڑھ کر کوئی نورنہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے‘‘-

سلطان العارفین برہان الواصلین حضرت سلطان باھوؒ نےاپنی تعلیمات اور مثالی فکر میں تصوف کے دقیق اور لطیف پہلؤوں کی تصریح کرتے ہوئے جس طرح حقیقت و شمائلِ تصوف کو بیان فرمایا ہے اس کی مثال دنیائے تصوف میں نایاب ہے- آپؒ نےتصوف کو ایک منفرد اسلوب میں بیان کیا ہے جو معرفت و حقیقت کے اسرا ر و رموز سے آشنائی کیلئے جامع بھی ہے اور عام فہم بھی- یہی وجہ ہے کہ آپؒ کی تعلیمات کا مطالعہ (بصدق دل و طلب کامل) کرنے والا معرفتِ مولیٰ و عشقِ محمدی(ﷺ)(جو تصوف کی اصل ہے) جیسی عظیم دولت سے محروم نہیں رہتا-آپؒ نے اپنی کتب میں تصوف کیلئے باطن،معرفت ولقائے الٰہی،فقر ،تزکیہ و تصفیہ، دل کی صفائی اور استغراقِ توحید کا لفظ استعمال فرمایا ہے- حضرت سلطان باھوؒ نےاپنی کتب میں تصوف کی درج ذیل تعریفات و توضیحات بیان کی ہیں-

1- تصوف کا معنی توحیدہے:

آپؒ ’’محک الفقر ‘‘میں لکھتے ہیں :

’’تصوف کے کیا معنی ہیں؟ تصوف کےمعنی ہیں توحید- توحید کے کیا معنی ہیں؟ تو حید کےمعنی ہیں اللہ ہی اللہ‘‘-

2-تصوف دل کی کامل صفائی کانام ہے:

آپؒ  ’’کلید التوحید کلاں‘‘میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’تصوف دل کو صاف کرنے والی چیز کو کہتے ہیں‘‘-

مزید آپؒ ’’محک الفقر‘‘میں بیان فرماتے ہیں :

’’تصوف دل کی کامل صفائی، معرفتِ الٰہی اور اِستغراقِ توحیدِ ربانی کانام ہے‘‘-

3- حروفِ تصوف کی حقیقت:

’’تصوف کے چار حروف ہیں ’’ت، ص، و، ف‘‘-حرف ’’ت‘‘ سے تصرف کرتا ہے اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں اور اس کا ایصال ِثواب کرتا ہے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی روح مبارک کو، حرف ’’ص‘‘ سے صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے،حرف ’’و‘‘ سے وعدہ خلافی نہیں کرتا اور حرف ’’ف‘‘سے فتح القلوب اور فنائے نفس- جو آدمی ان صفات سے متصف نہیں اُسے صاحبِ تصوف نہیں کہا جاسکتا‘‘- [6]

4- تصوف عمل سے عبارت ہے:

تصوف محض تھیوری (علم) کی بجائے عمل پر زوردیتا ہے اور عمل و مشاہدہ کو آپؒ نے علمِ تصوف کے مصنف کیلئے لازمی گردانا ہے-

’’علمِ تصوف کے مصنف کو چاہیے کہ پہلے وہ ہر علم کو اپنے عمل اور قبضہ و تصرف میں لاکر اُس کا معائنہ و تجربہ اور امتحان و آزمائش کرے تاکہ رجعت و پریشانی کا شکار نہ ہو اور اس کے بعد ضبطِ تحریر میں لاکر کتاب تصنیف کرے‘‘-[7]

حضرت سلطان باھوؒ اپنے متعلق فرماتے ہیں:

’’مَیں ہر علم کو اپنے عمل میں رکھتا ہوں اور ہر علم کو معرفتِ حق تعالیٰ کے حوالے سے پڑھتا ہوں‘‘-[8]

5- علمِ تصوف اور دیگر علوم:

علمِ تصوف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپؒ لکھتے ہیں :

’’علمِ تصوف دیگر ہر علم سے برتر ہے کیونکہ علمِ تصوف توحید پر نہایت قوی اِیمان کو کہتے ہیں- جو آدمی علمِ تصوف کے دائم مطالعہ میں نہیں رہتا وہ ہر وقت حرص و ہوا سے پریشان رہتا ہے- علمِ تصوف علمِ رحمٰن ہے جس سے جمعیت حاصل ہوتی ہے اور علمِ دنیا علمِ شیطان ہے جس سے پریشانی لاحق ہوتی ہے- میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-[9]

6-ایمان و عزت کا سرمایہ:

’’ایمان و عزت و شرف کا سرمایہ نص و حدیث و فقہ تصوف کا علم ہے‘‘-[10]

قرآن و حدیث، فقہ اور تصوف کو یکجا کردینا تعلیماتِ سلطان العارفین کاخاصہ ہے-

7- طریقت (تصوف) کی ابتدا و انتہا شریعت ہے:

’’شریعت دارالسّلطنت ِ شاہ ہے،طریقت کو شریعت ہی سے راہ ہے،باطن کی ہر راہ و ہر مقام شریعت ہی سے نکلتا ہے اور شریعت ہی میں واپس آتا ہے‘‘-[11]

یعنی تصوف و طریقت میں ہر راہ اور ہر مقام کی ابتدا بھی شریعت ہے اور انتہا بھی شریعت ہے-

آپؒ مزید فرماتےہیں:

’’باطن یہ ہےکہ جو کچھ باطن میں دیکھا جائے اس کا نص و حدیث اور قرآن و شریعت کے مطابق وجود پر ظہور ہو ورنہ باطن باطل قرار پائے گا کیونکہ شریعت دراصل باطن ہی کا اظہار ہے‘‘-[12]

حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں ہر ایسے قول و فعل کی نفی کی ہے جو شریعتِ نبوی (ﷺ) کے خلاف ہوبلکہ آپؒ مخالفِ شریعت کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

’’مخالفِ شریعت اندھا ہے جو مرتے دم تک نورِ ہدایت سے محروم رہتا ہے‘‘-[13]

8-راہِ سلوک (تصوف) میں قدم رکھے بغیر محض علم کا حصول کیساہے؟

’’جس شخص کو معرفتِ حق تعالیٰ حاصل نہیں اور وہ سلک سلوکِ تصوف کو نہیں جانتا، اس نے چاہے ہزاروں کتابیں کیوں نہ پڑھ رکھی ہوں وہ جاہل ہی رہتا ہے کہ اُس کی زبان زندہ مگر دل مردہ رہتا ہے اور وہ محض علم کا بوجھ اُٹھانے والا جانور ہی ہوتا ہے‘‘- [14]

آپؒ ایک اور جگہ پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو آدمی طالبِ مولیٰ نہیں بنتا اور علمِ تصوف و معرفتِ مولیٰ کا علم نہیں پڑھتا وہ طالبِ دنیا ہو کر گمراہ ہوجاتا ہے‘‘- [15]

مذکورہ قول سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صرف علم حاصل کرلینا زبان کی زندگی(منطق و دلائل کی فراوانی)جبکہ تصوف سےوابستگی دل کی حیات کاذریعہ ہے-

9-علمِ تصوف پڑھ کر نفس شرمندہ ہوتا ہے:

حضرت سلطان باھوؒ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ نفس مسائلِ علمِ فقہ پڑھنے، علمِ عربی پڑھنے اور طاعتِ خدا وندی میں ریاضت ِ ظاہری کرنے سے بے حد موٹا ہوتا ہے،خَلقِ خدا میں نیک نامی و شہرت سے بہت خوش ہوتا ہے اور ہوائے خود پسندی میں مبتلا ہو کر خود کو لوگوں کی نظروں میں آراستہ و پیراستہ کیے رکھتا ہےلیکن ِ علمِ تصوف یعنی علمِ وحدانیتِ توحید اور علمِ معرفتِ الٰہی پڑھ کر شرمندہ ہوتا ہے ‘‘-

10-تصوف کے چار طریق:

’’تصوف کا پہلا خاص الخاص طریق شریعت ہے، دوسرا طریقت ہے جو بال سےبھی زیادہ باریک ہے، تیسرا حقیقت ہے جس سے ذاتِ حق کے مشکل و دقیق ترین نکات کی گرہ کشائی ہوتی ہے اور چوتھا معرفت ہے جس میں معرفتِ الٰہی کا بے پایاں و عمیق دریائے توحید موجزن ہے‘‘- [16]

11-تصوف کی تاثیر :

’’تصوف دل سے ماسویٰ اللہ کا زنگ اتارنے کی راہ ہے جس میں تصورِ ربّانی سے حضوری کا شرفِ لطیف، روحانیتِ قبور کا تصرف، توجہ قرب اللہ کی توفیق تفکر فنا فی اللہ کی تحقیق اور جامع الجمعیت رفاقتِ حق پائی جاتی ہے‘‘-[17]

12-علم ِ تصوف کا حصول:

’’علمِ تصوف اسم ِاللہ سے حاصل ہوتا ہے جس کے صرف حرف ’’ا‘‘ ہی سےہزارہا علوم منکشف ہوتے ہیں-یہی وہ علم ہے جس کا اشارہ اس آیتِ کریمہ میں ہے،فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا‘‘

’’اور آدم علیہ السلام کو تمام اسماءکا علم عطا کیا گیا‘‘-[18]

آپؒ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

’’کوئی بھی چیز شریعت و قرآن و اسم ِ اللہ سے باہر نہیں‘‘-[19]

اسمِ اللہ ذات(ذکر اللہ ) تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ کا مرکز و محور ہے- آپؒ نے اپنی تصانیف میں کثیر مقامات پر اسم اللہُ ذات کی ضروت و اہمیت اور افادیت پر بحث فرمائی ہے-

اسم اللہ ذات کا یہ فیض آج بھی خانوادہ حضرت سلطان باھوؒ سے کئی عشروں سے بلا تعطل جاری و ساری ہے جسے خلقِ خدا تک(بلا امتیاِ رنگ ونسل، مذہب،قوم، علاقہ) عام کرنے کا فریضہ میراث باھوؒ کے وارث حضرت سلطان محمد علی صاحب نے اٹھا رکھا ہے- آپ کا تعلق حضرت سلطان باھوؒ کی دسویں پشت سے ہے اور آپ اس وقت سلطان العارفین کے آفاقی پیغام اور عالمگیر مشن کو پوری دنیا تک پہنچانے کیلئے ہرلحظہ مصروفِ عمل ہیں-

خلاصہ بحث :

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات جہاں طالبانِ مولیٰ کیلئے معرفت و حقیقت کا بحرِ بیکراں ہیں وہیں تصوف و روحانیت کے طلباء کیلئے نصاب کا درجہ بھی رکھتی ہیں جس میں تصوف کی حقیقی جہت کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے- آپؒ کی تعلیمات پرعمل پیرا ہوتے ہوئے اسلامی تصوف کی روح کو سمجھا جاسکتا ہے- آپؒ نے تصوف کے علاوہ بھی کئی اہم موضوعات (جوانسانی فلاح و بقاء کیلئے لازم ہے)کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے جو انسانیت کو درپیش عصری مسائل سے نجات کا موثر حل پیش کرتے ہیں لیکن ان موضوعات کی عوامی سطح پر تفہیم (Understanding) کیلئے تحقیق اور مباحثے کی ضرورت ہے جس کیلئے ملک کے تعلیمی،تحقیقی اور مباحثی مراکز اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں-

٭٭٭


[1]میری مراد اسلامی تصوف ہے جو رہبانیت کی نفی اورجُہدِ مسلسل کی تلقین کرتا ہے- جسے اقبالیاتی فکر میں یوں کَہ لیں کہ جو ’’حرم کے درد کا درماں‘‘ بھی ہے اور ’’رسمِ شبیری‘‘ کا علمبردار بھی-

[2]تصوف کے مراجع اور مآخذ پر ایک طویل بحث ہے جس کیلئے تصوف کی امہات کتب اور ارباب تصوف کی تعلیمات سےرہنمائی لی جاسکتی ہے-

[3]تصوف (طریقت ) کو قرآن و سنت سے متضاد و مخالف یا اسلام کے متوازن و معارض ایک الگ دین قرار دینے والے (مخالفینِ تصوف) در اصل معتزلی الحاد اور تخریبی استشراقی فکر کے حامل ہیں جن کا تصوف سے تعلق محض بے تُکی تنقید تک ہے - یہی وہ طبقہ ہے جو نہ صرف تصوف و روحانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ خاتم النبیین، سرورِ دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کے شمائل و فضائل باطنیہ کے بیان سےبھی نظریں چراتا ہے- اسی طرح ناقدین تصوف کا ایک اور گروہ بھی ہے  جو اصلاحِ باطن و تزکیۂ نفس  کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے فقط ظاہر پر اکتفا کرتا ہے-یہ حضرات علم و فن کے پہاڑ ہی سہی مگر پھر بھی حقیقت و معرفتِ حق سے تہی دامن ہیں- شیخ ابو نصر سراج الطوسیؒ نے ’’کتاب اللمع فی التصوف‘‘ میں یہ حقائق بڑی صراحت سے بیان فرمائے ہیں-

[4](الرسالہ القشیریہ، ص:118، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

[5](علامہ ابن عابدین شامی(م:1198ھ) ،ردالمحتار علی الدرالمختار،ج:6،ص:380)

[6](محک الفقر کلاں :ص:113)

[7](نورالھدیٰ کلاں ،ص:257)

[8](نورالھدیٰ کلاں:ص 228)

[9](محک الفقر کلاں،ص:113 )

[10](کلید التوحید کلاں،ص: 563 )

[11](محک الفقر کلاں،ص:  57)

[12](کلید التوحید کلاں ،ص :385)

[13](کلید التوحید کلاں،ص: 429)

[14]( عین الفقر،ص:45)

[15](محک الفقر کلاں،ص: 113)

[16](ایضاً)

[17](عقلِ بیدار،ص:49)

[18](محک الفقرکلاں،ص:  113)

[19](محک الفقر کلاں،ص:59)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر