لمحہَ حاضِرکاادراک

لمحہَ حاضِرکاادراک

لمحہَ حاضِرکاادراک

مصنف: محمد ذیشان دانش اپریل 2019

وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا یہ سٹیشن پر آنے والی گاڑی کی مثل ہے جس کا انتظار ہمیں کرنا ہے نہ کہ گاڑی کو، کوئی کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو اس کے انتظار میں یہ رکتا نہیں، یہ ایک ایسا سیلِ رواں ہے جس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا - خواہ ہم بیمار ہوں ، ہمارے مسائل اصل اور حقیقی ہی کیوں نہ ہوں یہ تھمتا نہیں، چہ جائیکہ ہمارے جواز بودے ہوں، عذر شکستہ، تساہل پسندی کےباعث بے عملی، سستی کی وجہ سے کام ادھورے رہ جائیں، بہانے بے سر و پا ہوں جس سے ہم نتائج اور منزل سے دور ہوں- اپنی رفتار کے ساتھ چلنے والوں کے علاوہ یہ وقت رحم نہیں کھاتا، نہ تھکتا ہے، نہ تھمتا ہے، نہ رکتا ہے، آہستہ بھی نہیں ہوتا،گرچہ رفتار کو عارضی طور پر ہی سہی دھیما بھی نہیں کرتا-یہ عربی نسل گھوڑے کی طرح اپنی رفتار کو نہ تھمنے دیتا ہے نہ ہی رکنے،کسی کے لئے بھی نہیں ، یہ اپنی اصل میں مستقل مزاج شاہ ہے، یہ وقت بس اک ادائے بے نیازی سے گزرتا چلا جاتا ہے حتی کہ اپنے آپ کو ضروری سمجھنے والے، اپنے آپ کو کچھ اہم تصور کرنے والے جان جاتے ہیں کہ ہم اب اہم نہیں- اگر کچھ اہم تھا، اگر کچھ اہم ہے تو وہ وقت ہے، گزرتا لمحہ اہم ہے، ہرسکینڈ اہم ہے، ہمارے فیصلوں اور اندازوں کے درست ہونے کی خاطر وقت اپنے آپ کو التوء کا شکار نہیں کرتا-ہمارا افسوس، ہمارا پچھتانا، کیفیتِ غم، مایوسی، پریشانی، ندامت حتی کہ مقبول توبہ بھی گزرے وقت کو واپس نہیں لا سکتی، وقت کی باگ کو موڑ انہیں جا سکتا-بس مدعا یہ ہے کہ جو لمحہ گزر گیا سو وہ گزر گیا وہ واپس آ نہیں سکتا، مقبول توبہ کہنے سے مراد یہی ہے کہ عملِ بے خیر کی معافی مل جائے گی لیکن وہ ساعتیں، وہ گھڑیاں،وہ لمحے، وہ وقت جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا-اسی لئے حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے بھی حدیثِ مبارکہ کی تشریح اپنے انداز میں کچھ یوں کی کہ :

جو دم غافل، سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ فرمایا ھو؎

جو ساعت، جو دم، جو گھڑی، جو لمحہ، جو سیکنڈ غفلت میں گزر گیا، سو جہل، کفر، تاریکی،نسیان اور آوارگی میں گزر گیا، وہ واپس نہیں آئے گا - لہٰذا وقت اور اہمیتِ وقت کو سمجھتے ہوئے اپنے وقت کومایوسی میں نا گزارو، اسے ناامیدی کی بھینٹ نہ چڑھاؤ ، اسے منفی خیالات سے پراگندہ نہ کرو، اسے پریشانی کے باعث ضائع نہ کرو، اسے حسد کی آگ میں نہ جلاؤ ، اسے غصہ کے تندور میں بھسم نہ کرو ، اسے نفرت کے الاؤ جلانے میں نہ گزارو، یہ کونین کی سب سے قیمتی متاع اور خزانہ ہے جو ہر گزرتے لمحے کم ہو رہا ہے- یہ وقت ہمارے لئے قابلِ قدر ہے لہٰذا،اس کی قدر کرو  اور اگر اس کی قدر سے واقف نہیں تو اس کے واقفِ حال ہو کر اس کی قدر جانو-کیونکہ گزرا وقت واپس نہیں آئے گا کہ تم اس گزرے لمحے پر ماتم کناں ہو تو یہ نہیں کہے گا کہ چلو اس پر مہربانی کرتے ہوئے اس پر واپس ہو جاؤں-قوانینِ قدرت اٹل ہیں جو تبدیل نہیں ہوں گے حالات پہلے جیسے ہو سکتے ہیں، لیکن وہ گھڑیاں کبھی واپس نہیں آ سکتیں جو گزر جائیں- اگر یہ گزارشات اثر کر گئیں ہیں، اور مدعا سمجھ میں آ گیا ہے تو بس اتنا عرض کرنا ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے حال پر رحم کریں اور مستقبل کو سنوارنے میں لگ جائیں-مستقبل اس دنیا کا ہو یا بعد ازموت حقیقی دنیا کا-وقت کی قدر کریں اس کی اہمیت کو سمجھیں، بقول حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ):

سنیا سخن گئیاں کھل اکھیاں، اساں چت مولا ول لایا ھو

اہمیت وقت کو سمجھنے کے لیے ایک مثال پیشِ خدمت ہے کہ نماز امت محمدیہ(ﷺ) پر ہر حال میں فرض کی گئی ہے اور اس کے لئے وقت مقرر ہے-اگر تو اس مقررہ وقت میں اللہ کے حضور سربسجود ہوئے تو نماز ادا ہوئی اور اگر وقت مقررہ کے بعد اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو ادا نہیں بلکہ قضا ہو گی- عمل بھی ایک اوربارگاہِ مقدس بھی ایک لیکن فرقِ وقت کی بدولت، اک ادا ہے اور اک قضاء دونوں کے اجر میں بہت فرق ہےاور یہ فرق اللہ پاک نے وقت کی اہمیت کو باور کروانے کے لئے رکھا ہے-

زندگی چاہے انفرادی ہو، اجتماعی یا قومی، اسے سنوارنے، بنانے میں وقت اور اہمیت وقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے- جو قومیں اپنے اجداد کی شان و شوکت پر ناز کرتے ہوئے ماضی میں جیتی ہیں، اپنے آپ کو انہی لمحات میں قید کر لیتی ہیں اور وقت کی اہمیت کا ادراک نہیں کرتیں، اپنی رفتار وقت کے مطابق نہیں بڑھاتیں وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زوال اور پستی کی جانب پھسلتی چلی جاتی ہیں کیونکہ وہ لمحہِ موجودہ کی جانب پشت کئے ہیں-وہ وقت کے تند و تیز طوفان کے تھپیڑے سہنے کی تاب نہیں رکھتیں، ان کا چراغ بجھانے کے لئے کسی پھونک کا اہتمام بھی نہیں کرنا پڑتا- ایسی قومیں لمحہ حاضر کی بے توقیری اور لمحہِ ماضی میں جینے کے باعث دھرتی پر بوجھ ہوتی ہیں، ان کا بوجھ اٹھانے والی دوسری اقوام آہستہ آہستہ انہیں اپنا غلام بنا لیتی ہیں اور غلاموں کی کوئی قوم نہیں ہوتی سو ایسی قومیں مٹ جاتی ہیں، ملیا میٹ ہو جاتی ہیں، ان کا نام و نشان فقط حصول عبرت کے لئے رہ جاتا ہے-اس کے برعکس جو قومیں ماضی سےسبق سیکھ کر اہمیتِ وقت کوپھانپ لیں لمحہِ حال میں جینے کا عزم کرتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں ان کا مستقبل بتدریج روشن ہوتا چلا جاتا ہے، ان کی ترقی بے مثال ہونے لگتی ہے، وہ دھرتی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتی ہیں ان کو روکا نہیں جا سکتا، وہ دیگر انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہیں- کئی مثالیں اک سانس میں دی جاسکتی ہیں، جن میں بجلی، صحت کی سہولیات، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فاصلوں کا کم ہونا، مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونا وغیرہ- ذرا سہ توقف سے غور کریں تو جان جائیں گے کہ ہم ان سہولیات سے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں  اور یہ کیسے ہوتا ہے اپنی طاقت کو، اپنی انرجی کو ، لمحہ حاضر کے لئے وقف کرنے کے باعث -  وقت کا احساس ہو جائے تو بندہ ’’ہوا و ہوس‘‘ کا بننے کی بجائے ’’مولا‘‘ کا بننے لگتا ہے یہیں سے عشق کے سفر کا آغاز ہوتا ہے-

کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو

اس گزارش کا مقصد فقط یہی ہے کہ جان لیں کہ زندگی چاہے انفرادی ہو یا قومی، جینے کا وقت، فیصلہ کرنے کا وقت، لمحۂ موجودہ ہے-بس اس پہلو کواپنی زندگی میں یقینی بنانا ہے کہ ہمارا ہر لمحہ تعمیری ہو، ہماری ہر سانس حصولِ مقصد کے لئے وقف ہو، ہمارے جذبے سرد نہ ہوں، ہماری سوچوں میں دور دور تک مایوسی نہ ہو بلکہ ہر سانس امید کے ساتھ اپنے مالک پر بھروسہ کر کے اس طرح گزرے کہ ہر لمحہ حکمت کے ساتھ موجودہ اور آنے والے مسائل کو سُلجھانے کی منصوبہ بندی اور عمل میں گزرے - وقت تھمتا نہیں کسی کی قید میں نہیں آتا ، ہاں یہ ایک زندہ اور اٹل حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو جھٹلانا بھی ناممکن ہے کہ جب جب، جس جس نے وقت کی رفتار کے مطابق جینا شروع کیا اس کی آن بان اور شان میں اضافہ ہی ہوا ، بقول عارف لاہوری :

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

صُوفیہ جسے ’’مرنے سے پہلے موت‘‘ کہتے ہیں اس کا ایک تابندہ پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنے نفس کی بری خواہشات سے نجات پا کر اپنے یار کی آرزو میں وقت کی رفتار سے کہیں آگے نکل جاتا ہے جہاں صرف ’’لا اِلٰہ الا اللہ‘‘ ہے زمان و مکان کی زُنّاری عقل سے روح آزاد ہو جاتی ہے-یہی زمانِ خالص ہے یہیں ’’مرنے سے پہلے موت‘‘ کی حقیقت  ملتی ہے - بقول حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ):

جو مرن تھیں اَگے مر گئے باھُو، تاں مطلب نوں پایا ھُو

تو آگے بڑھنے کا یہی وقت ہے- اگرلمحات کی حقیقت کی اہمیت کو جان جائیں تو ---!

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر