ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

دلیلاں چھوڑ وجودوں ہو ہشیار فقیرا ھو
بنھ توکل پنچھی اُڈدے پلے خرچ نہ زیرا ھو
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ نہیں کردے نال ذخیرا ھو
مولا خرچ پوہنچاوے باھوؒ جو پتھر وچ کیڑا ھو

Relinquish reasoning from your being O faqeer and vigilance in your tone Hoo

Birds fly off with trust in Allah and travel provision they have none Hoo

They always have their daily food and yet storage they have none Hoo

Providence provides food Bahoo for worm in the stone Hoo

Dalila’N cho’R wajodo’N ho hoshyar faqeera Hoo

Banh tawakkal panchi u’Dday pallay kharch nah zeera Hoo

Roz rozi u’D khaan hamesha nahi’N kar day nal zakheera Hoo

Mawla kharch ponhchaway Bahoo jo pathar wich keeRa Hoo

تشریح: 

(۱) توحید اور توکل چہرۂ فقر کی دو آنکھیں ہیں مگر ان دونوں آنکھوں کی نگاہ معرفتِ الٰہی ہے اور یہ نگاہ حُسن مطلق کی تجلیّات ملاحظہ کرتی ہے یا پھر یوں بھی کَہ سکتے ہیں کہ توحید اور توکل مردِ مومن کے رُوحانی بال و پر ہیں کہ جن سے وہ عالم ذاتِ باری کی طرف پرواز کرتا ہے اور یہ دونوں اُس کے ملکوتی بازو ہیں جن سے وہ امانتِ الٰہیہ کو اُٹھائے رکھتا ہے- شیطانی و نفسانی وسوسے اور حصولِ رزق کے لیے پریشانی و تفکر ایک مرض ہے جو اِن بال و پر اور بازؤں کی قوت اور صلاحیت بتدریج ختم کرتی رہتی ہے لیکن نورِ توکل سے ان امراض کا علاج ممکن ہے جیسا کہ حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں کہ :

’’وجود میں آتش حرصِ دُنیا کا موجود ہونا ایک مرض ہے- نورِ توکل ایک پانی ہے جس سے فقراء جب سیراب ہوتے ہیں تو اُنہیں کامل صحت اور جمعیت نصیب ہو جاتی ہے‘‘-[1]

طالبِ مولیٰ  کو چاہیے کہ وسوسوں سے اپنی جان چھڑائے اور حصولِ رزق کی پریشانی کو اپنے ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹا دے تاکہ اُس کا دِل موحد و متوکل ہوجائے اور مذکورہ اُوصاف کے مالک مرشد سے رُوحانی تلقین حاصل کرے آپ قدس اللہ سرہٗ توحید (اسم اللہ ذات) کی تلقین کے لیے توکل کو شرطِ اوّل گردانتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’اے باھُو! تلقین کیا چیز ہے اور تلقین کسے کہتے ہیں؟ تلقین نام ہے غیر ماسویٰ اللہ کو ترک کرنے اور اُسے طلاق دینے کا، تلقین نام ہے توکل کا، جس میں توکل نہیں وہ صاحب ِتلقین نہیں‘‘-[2]

’’آدمی ہر گز قید ِنفس سے خلاصی نہیں پا سکتا اور نہ ہی شیطان پر غلبہ پا سکتا ہے جب تک کہ ترک و توکل اختیار کرکے دل کو دنیا سے سرد نہ کر لے، نہ وہ مراتب ِطالبی پا سکتا ہے اور نہ ہی طلب میں مرد ہو سکتا ہے جب تک کہ کسی قادری جامع مرشد سے دست بیعت نہ کر لے‘‘[3]-

(۲) حصولِ رزق کی پریشانی و تفکر جسم و جان اور قلب و رُوح کی جمعیت کو پراگندہ کردیتی ہے- آپ قدس اللہ سرہٗ طالب مولیٰ کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ اپنے اِردگرد دیکھو! کہ انسان کے سوا اور کون سی مخلوق ہے جو حصول رزق کےلیے خدائے برحق پہ توکل کرنے سے گریزاں ہو- پرندوں ایسی ناتواں اور نرم و نازک مخلوق کے روزمرّہ کے معمولات کا بہ غور مطالعہ کرو کہ وہ جب صبح کو رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اپنے ساتھ اسباب لے کر اُڑان نہیں بھرتے خالی ہاتھ جاتے ہیں مگر شام کو نہ صرف اُن کا اپنا پیٹ بھرا ہوتا ہے بلکہ اُن کے ننھے ننھے بچے بھی سیر ہو کر نیند پوری کرتے ہیں-

(۳) اے طالب! توکل کا سبق ان پرندوں سے سیکھو کہ وہ ہر روز نئی روزی کے لیے اُڑان بھرتے ہیں اور خدائے برحق کے جہان سے صرف ایک دن کے لیے دانہ دانہ رزق اُٹھاتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اُن کے سامنے رزق کا ڈھیر بھی پڑا ہو تو بھی وہ اپنی روزانہ کی ضرورت کے مطابق ہی اِستفادہ کرتے ہیں اور اُٹھا اُٹھا کر حفظ ماتقدم کے طور پہ ذخیرہ نہیں کرتے کیونکہ اُن کی سرشت و فطرت میں پروردگار کے وعدۂ رزق پہ کامل یقین ودِیعَت کیا گیا ہے- اے طالب مولیٰ! تم اشرف المخلوقات میں سے ہو اس لیے توکل علی اللہ میں ان پرندوں سے کمتر نہ ہوجاؤ اور تمہیں اپنی امتیازی حیثیت کے مطابق چرند پرند سے بڑھ کر متوکل ہونا چاہیے-

 (۴)ہر جاندار کے لیے خالق جہان کا وعدہ ہے کہ:

’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا‘‘[4]

 

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے‘‘-

وہ بزرگ و برتر ذاتِ حق رحمن و رحیم ہے جو پتھر کے نیچے زندگی بسر کرنے والی مخلوق کو بھی رزق بہم پہنچا رہا ہے وہ ہے جو صحراؤں میں نخلستان پیدا کرتاہے، وہی ہے جو رزق کی فراہمی میں مخلوق میں فرق نہیں کرتا- اہلِ فقر و ہدایت رزق کے لیے مارے مارے نہیں پھرتے بلکہ وہ رزق کے بارے میں نظریۂ توکل پہ یقین رکھتے ہیں- آپ قدس اللہ سرہٗ مذکورہ نظریہ کی صراحت میں فرماتے ہیں کہ:

’’پس معلوم ہوا کہ عوام کا رزق کسب و اعمال سے آتا ہے اور خواص کارزق معرفت ِ ذاتِ حق لم یزل سے آتا ہے کہ وہ لازوال ہے متوکل آدمی روزی معاش کی فکر میں نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ ربیع و خریف کی فصل کا اِنتظار کرتا ہے کیونکہ روز ِازل جب رزق لکھا جا چکا تو نوکِ قلم ٹوٹ گئی تھی- مردہ دل آدمی کا رزق حرص ہے اور حرص کا پیٹ نہیں اِس لئے حریص آدمی کسی حال میں بھی مال سے سیر نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ غلط طریق پر رہتاہے-  اِس کے برعکس عارف ہر وقت اِستغراقِ حق کی حالت میں وصالِ مطلق کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اُن کا رزق ہر وقت اُن کے تعاقب میں سر گردان و پریشان رہتا ہے- اِس حقیقت کو بھلا یہ بے توکل و بے معرفت و بے عمل وبے شعور و بے مذہب جاہل و ناشائستہ لوگ کیا جانیں؟چنانچہ گبریلے (گوبر کا کیڑا) کا رزق گوبر ہے سو وہ اُس میں خوش رہتاہے اور عطار کا رزق عطرہے اور وہ اُس سے معطررہتا ہے- جو آدمی طلب ِاِلٰہی میں محو ہو جاتا ہے رزق اُس کی تلاش میں سرگرادن ہو جاتا ہے- فرمایا گیا ہے -:’’ جسے اﷲمل گیا وہ مالک ِکل ہوگیا‘‘- عارف، واصل اور متوکل  کے لئے ہر روز نیا رزق اُترتاہے - لہٰذا روح با یزید پُر سکون رہتی ہے لیکن نفس یزید پریشان رہتا ہے- بندے کا رزق موت کی طرح شہ رگ سے قریب رہتاہے- جس طرح موت بندے کو کہیں نہیں چھوڑتی اُسی طرح رزق بھی بندے کے پاس ہر جگہ پہنچ جاتاہے-

رزق گر بر آدمی عاشق نہ می بودی چرا

 

از زمین گندم گریبان چاک می آمد برون؟[5]

          ’’اگر رزق آدمی پر عاشق نہ ہوتا تو گندم کا دانہ زمین کا گریبان چاک کر کے باہر کیوں آتا؟‘‘


[1] (کلید التوحید کلاں)

[2](عین الفقر)

[3](کلید التوحید کلاں)

[4](ھود:6)

[5](کلید التوحید کلاں)

دلیلاں چھوڑ وجودوں ہو ہشیار فقیرا ھو
بنھ توکل پنچھی اُڈدے پلے خرچ نہ زیرا ھو
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ نہیں کردے نال ذخیرا ھو
مولا خرچ پوہنچاوے باھوؒ جو پتھر وچ کیڑا ھو


 

Relinquish reasoning from your being O faqeer and vigilance in your tone Hoo

Birds fly off with trust in Allah and travel provision they have none Hoo

They always have their daily food and yet storage they have none Hoo

Providence provides food Bahoo for worm in the stone Hoo

Dalila’N cho’R wajodo’N ho hoshyar faqeera Hoo

Banh tawakkal panchi u’Dday pallay kharch nah zeera Hoo

Roz rozi u’D khaan hamesha nahi’N kar day nal zakheera Hoo

Mawla kharch ponhchaway Bahoo jo pathar wich keeRa Hoo

(۱) توحید اور توکل چہرۂ فقر کی دو آنکھیں ہیں مگر ان دونوں آنکھوں کی نگاہ معرفتِ الٰہی ہے اور یہ نگاہ حُسن مطلق کی تجلیّات ملاحظہ کرتی ہے یا پھر یوں بھی کَہ سکتے ہیں کہ توحید اور توکل مردِ مومن کے رُوحانی بال و پر ہیں کہ جن سے وہ عالم ذاتِ باری کی طرف پرواز کرتا ہے اور یہ دونوں اُس کے ملکوتی بازو ہیں جن سے وہ امانتِ الٰہیہ کو اُٹھائے رکھتا ہے- شیطانی و نفسانی وسوسے اور حصولِ رزق کے لیے پریشانی و تفکر ایک مرض ہے جو اِن بال و پر اور بازؤں کی قوت اور صلاحیت بتدریج ختم کرتی رہتی ہے لیکن نورِ توکل سے ان امراض کا علاج ممکن ہے جیسا کہ حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں کہ :

’’وجود میں آتش حرصِ دُنیا کا موجود ہونا ایک مرض ہے- نورِ توکل ایک پانی ہے جس سے فقراء جب سیراب ہوتے ہیں تو اُنہیں کامل صحت اور جمعیت نصیب ہو جاتی ہے‘‘-[1]

طالبِ مولیٰ  کو چاہیے کہ وسوسوں سے اپنی جان چھڑائے اور حصولِ رزق کی پریشانی کو اپنے ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹا دے تاکہ اُس کا دِل موحد و متوکل ہوجائے اور مذکورہ اُوصاف کے مالک مرشد سے رُوحانی تلقین حاصل کرے آپ قدس اللہ سرہٗ توحید (اسم اللہ ذات) کی تلقین کے لیے توکل کو شرطِ اوّل گردانتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’اے باھُو! تلقین کیا چیز ہے اور تلقین کسے کہتے ہیں؟ تلقین نام ہے غیر ماسویٰ اللہ کو ترک کرنے اور اُسے طلاق دینے کا، تلقین نام ہے توکل کا، جس میں توکل نہیں وہ صاحب ِتلقین نہیں‘‘-[2]

’’آدمی ہر گز قید ِنفس سے خلاصی نہیں پا سکتا اور نہ ہی شیطان پر غلبہ پا سکتا ہے جب تک کہ ترک و توکل اختیار کرکے دل کو دنیا سے سرد نہ کر لے، نہ وہ مراتب ِطالبی پا سکتا ہے اور نہ ہی طلب میں مرد ہو سکتا ہے جب تک کہ کسی قادری جامع مرشد سے دست بیعت نہ کر لے‘‘[3]-

(۲) حصولِ رزق کی پریشانی و تفکر جسم و جان اور قلب و رُوح کی جمعیت کو پراگندہ کردیتی ہے- آپ قدس اللہ سرہٗ طالب مولیٰ کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ اپنے اِردگرد دیکھو! کہ انسان کے سوا اور کون سی مخلوق ہے جو حصول رزق کےلیے خدائے برحق پہ توکل کرنے سے گریزاں ہو- پرندوں ایسی ناتواں اور نرم و نازک مخلوق کے روزمرّہ کے معمولات کا بہ غور مطالعہ کرو کہ وہ جب صبح کو رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اپنے ساتھ اسباب لے کر اُڑان نہیں بھرتے خالی ہاتھ جاتے ہیں مگر شام کو نہ صرف اُن کا اپنا پیٹ بھرا ہوتا ہے بلکہ اُن کے ننھے ننھے بچے بھی سیر ہو کر نیند پوری کرتے ہیں-

(۳) اے طالب! توکل کا سبق ان پرندوں سے سیکھو کہ وہ ہر روز نئی روزی کے لیے اُڑان بھرتے ہیں اور خدائے برحق کے جہان سے صرف ایک دن کے لیے دانہ دانہ رزق اُٹھاتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اُن کے سامنے رزق کا ڈھیر بھی پڑا ہو تو بھی وہ اپنی روزانہ کی ضرورت کے مطابق ہی اِستفادہ کرتے ہیں اور اُٹھا اُٹھا کر حفظ ماتقدم کے طور پہ ذخیرہ نہیں کرتے کیونکہ اُن کی سرشت و فطرت میں پروردگار کے وعدۂ رزق پہ کامل یقین ودِیعَت کیا گیا ہے- اے طالب مولیٰ! تم اشرف المخلوقات میں سے ہو اس لیے توکل علی اللہ میں ان پرندوں سے کمتر نہ ہوجاؤ اور تمہیں اپنی امتیازی حیثیت کے مطابق چرند پرند سے بڑھ کر متوکل ہونا چاہیے-

 (۴)ہر جاندار کے لیے خالق جہان کا وعدہ ہے کہ:

’’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا‘‘[4]

 

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے‘‘-

وہ بزرگ و برتر ذاتِ حق رحمن و رحیم ہے جو پتھر کے نیچے زندگی بسر کرنے والی مخلوق کو بھی رزق بہم پہنچا رہا ہے وہ ہے جو صحراؤں میں نخلستان پیدا کرتاہے، وہی ہے جو رزق کی فراہمی میں مخلوق میں فرق نہیں کرتا- اہلِ فقر و ہدایت رزق کے لیے مارے مارے نہیں پھرتے بلکہ وہ رزق کے بارے میں نظریۂ توکل پہ یقین رکھتے ہیں- آپ قدس اللہ سرہٗ مذکورہ نظریہ کی صراحت میں فرماتے ہیں کہ:

’’پس معلوم ہوا کہ عوام کا رزق کسب و اعمال سے آتا ہے اور خواص کارزق معرفت ِ ذاتِ حق لم یزل سے آتا ہے کہ وہ لازوال ہے متوکل آدمی روزی معاش کی فکر میں نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ ربیع و خریف کی فصل کا اِنتظار کرتا ہے کیونکہ روز ِازل جب رزق لکھا جا چکا تو نوکِ قلم ٹوٹ گئی تھی- مردہ دل آدمی کا رزق حرص ہے اور حرص کا پیٹ نہیں اِس لئے حریص آدمی کسی حال میں بھی مال سے سیر نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ غلط طریق پر رہتاہے-  اِس کے برعکس عارف ہر وقت اِستغراقِ حق کی حالت میں وصالِ مطلق کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور اُن کا رزق ہر وقت اُن کے تعاقب میں سر گردان و پریشان رہتا ہے- اِس حقیقت کو بھلا یہ بے توکل و بے معرفت و بے عمل وبے شعور و بے مذہب جاہل و ناشائستہ لوگ کیا جانیں؟چنانچہ گبریلے (گوبر کا کیڑا) کا رزق گوبر ہے سو وہ اُس میں خوش رہتاہے اور عطار کا رزق عطرہے اور وہ اُس سے معطررہتا ہے- جو آدمی طلب ِاِلٰہی میں محو ہو جاتا ہے رزق اُس کی تلاش میں سرگرادن ہو جاتا ہے- فرمایا گیا ہے -:’’ جسے اﷲمل گیا وہ مالک ِکل ہوگیا‘‘- عارف، واصل اور متوکل  کے لئے ہر روز نیا رزق اُترتاہے - لہٰذا روح با یزید پُر سکون رہتی ہے لیکن نفس یزید پریشان رہتا ہے- بندے کا رزق موت کی طرح شہ رگ سے قریب رہتاہے- جس طرح موت بندے کو کہیں نہیں چھوڑتی اُسی طرح رزق بھی بندے کے پاس ہر جگہ پہنچ جاتاہے-

رزق گر بر آدمی عاشق نہ می بودی چرا

 

از زمین گندم گریبان چاک می آمد برون؟[5]

          ’’اگر رزق آدمی پر عاشق نہ ہوتا تو گندم کا دانہ زمین کا گریبان چاک کر کے باہر کیوں آتا؟‘‘



[1](کلید التوحید کلاں)

[2](عین الفقر)

[3](کلید التوحید کلاں)

[4](ھود:6)

[5](کلید التوحید کلاں)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر