عین الفقر : قسط2

عین الفقر : قسط2

مرشد ِکامل کی پہچان کیا ہے؟طالب اللہ کو پل بھر میں ہر دو جہان سے بے نیاز کر دیتا ہے-مرشد ِکامل کی پہچان کیا ہے؟طالب اللہ کو پل بھرمیں مقامِ فنا فی اللہ کا استغراق بخش دیتا ہے ، وہ قصہّ خوانی نہیں کرتا اور نہ ہی طالب اللہ کو زبانی ذکر اذکار میں مشغول کرتا ہے-مرشد ِکامل کی پہچان کیا ہے؟اُس کی ایک ہی نظر عبادت ِ جاودانی سے زیادہ کارگر ہوتی ہے-مرشد ِکامل کی پہچان کیا ہے؟طالب اللہ کا ہاتھ پکڑتے ہی اُسے امن الامان کے مقام پر پہنچا دیتا ہے- فرمانِ الٰہی ہے: ’’اور جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بےخوف ہوگیا‘‘-(پارہ :4، آل عمران:97) اے مردک! [1] کوشش کر اور مرتبۂ مردک سے نکل کر مرتبۂ مرد حاصل کر لے-مرتبۂ مردک کیا ہے؟مرتبۂ مردک یہ ہے کہ اِنسان ہر وقت دشمنانِ خدا یعنی نفس و شیطان سے لڑتا رہے اور مرتبۂ مردِ غازی یہ ہے کہ اِنسان ایک ہی وار میں اغیارِ حق کا سر قلم کر کے نفس کو ہوا و ہوس سے پاک کر دے تاکہ ہر وقت کے لڑائی جھگڑے سے جان چھوٹ جائے اور اُسے اِستقامت نصیب ہو جائے کہ اِستقامت بہتر ہے کرامت و مقامت [2] سے- مرشد ِکامل کی پہچان کیا ہے؟طالبوں کو حضوریٔ حق بخشتا ہے کہ حضوری بخشے بغیر طالبوں کو ذکر اذکار میں مشغول کرنا باعث ِصد گناہ وہزار ہا زیان ہے کیونکہ مرشد ِکامل صاحب ِ استغراق ہوتا ہے اور ذکر نام ہے ہجر و فرا ق اور دُوری کا- صاحب ِمسمّٰی[3]   کا بھلا ذکر ِاسم سے کیا واسطہ؟ پس مرشد ِکامل مکمل واصل اُسے کہتے ہیں جو طالب اللہ کو غیر ماسوٰی اللہ سے پاک کر کے اُس کی پریشانیوں کو ختم کر دے اور اُسے ریاضت ِ ریا سے نجات دلا دے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘- (پارہ:26، ا لحجرات :13) راہ ِحق میں ریاضت ِ راز کی ضرورت ہے نہ کہ گفت و شنید اور پند و وعظ کی-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟‘‘ (پارہ:1، البقرۃ:44)اے عالمِ جاہل ! مرشد ِکامل کی ایک ہی نظر ہزار ہا سال کی عبادت سے بہتر ہے کہ علمِ قیل و قال میں سراسر سردردی ہے لیکن مرشد ِکامل کی نظر میں عطائے معرفت ِوصال ہے، البتہ اگر مرشد ِ کامل طالب اللہ کو زہدو تقویٰ میں مشغول کر کے ریاضت کروانا چاہے تو 12یا 24یا 40سال تک ریاضت کروا سکتا ہے لیکن اگر عطا کرنا چاہے تو ذکر فکر اورزہد و تقویٰ میں مشغول کئے بغیر پل بھر میں وصالِ حق بخش سکتا ہے- جہاں اِستغراقِ فنا فی اللہ بقا باللہ کا لازوال وصال ہے وہاں کیا حاجت ِ مشقت ِ سالہا سال ہے- (جاری ہے)


[1]نامرد، کمزور و کم ہمت آدمی- مخنث کے طور پر بولا جاتا ہے-

[2]مقامت = راہِ حق میں پیش آنے والے مختلف مقامات و درجات- جب طالب اللہ تمام مقامات و درجات طے کر کے مقربِ حق ہو جاتا ہے تو صاحب ِ استقامت کہلاتا ہے-

[3]صاحب ِمسمّٰی = واصل باللہ فنا فی اللہ فقیر- مطلب یہ ہے کہ جسے خود اللہ تعالیٰ مل جائے اسے ذکر اذکار کی ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ تو ہر وقت محو ِدیدارِ حق رہتا ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر