ل: لوک قَبر دا کرسن چارہ لحد بناون ڈیرا ھو
چُٹکی بھَر مِٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھو
دے دَروُد گھراں نوں وَنجن کُوکن شَیرا شَیرا ھو
بے پرواہ درگاہ ربّ باھوؒ نہیں فَضلاں بَاجھ نَبیڑا ھو
People will make a grave and grave will be the dwelling Hoo
They will put a pinch of dust and will make the grave high Hoo
After funeral service they will head home and mourn you as their lion Hoo
Carefree is the court of Rabb Bahoo without His grace there is no resolution Hoo
Lok qabar da karsan chara lahad banawan ‘Dera Hoo
Chutki bhar mitti di pasan karsan ‘Dher uchera Hoo
Dy Darood ghara’N no’N wanjan kookun shaira shaira Hoo
By parwah dargah rab Bahoo nahi fazlaa’N bajh nabe’Ra Hoo
تشریح:
عاقبت توجائی خانہ شد قبر |
|
کس نبردہ در قبر این سیم وزر |
1-’’آخر تیرا ٹھکانہ بھی تو قبر کا گھر ہے اور قبر میں کبھی کوئی سونا چاندی ساتھ لے کر نہیں جاتا‘‘-(امیرالکونین)
رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے:’’حیاتِ دنیا ایک دن ہے اور ہمیں اِس میں روزہ رکھنا ہے‘‘(عین الفقر )-ایک مقام پہ حضرت سُلطان باھوؒ موت وقبر کے احوال کو یوں تفصیلاً بیان کرتے ہیں:’’جان لے کہ جان کنی کے وقت حضرت عزرائیل ؑ سر سے قدم تک وجود کے ساتوں اندام سے روحِ حیات کو اِس طرح جھنجھوڑتے ہیں جس طرح کہ مکھن کو اکٹھا کرنے کے لئے لسی کو جھنجھوڑا جا تاہے-بالکل اُسی طرح آدمی کی روح کو عزرائیلؑ اُس کے سر میں استخوان الابیض کے مقام میں جمع کرتے ہیں-استخوان الابیض زمین وآسمان سے بھی زیادہ وسیع مقام ہے-اِس مقام پر فرشتہ انسانی روح کو کھڑا کرکے اُس سے 370سوال کرتاہے- اُس کے بعد غسال مردے کو غسل دیتاہے اور پھر اُس کی نماز ِجنازہ پڑھی جاتی ہے-قبر تک پہنچتے پہنچتے میت سے 370سوال پوچھے جاتے ہیں- اُس کے بعد اُسے لحد ِقبر میں اتارا جاتاہے-وہاں منکر نکیر اُس سے سوال جواب کرتے ہیں-مزید ارشادفرماتے ہیں:’’(قبرمیں) تین آدمیوں کا جسم اللہ تعالیٰ کی امان میں سلامت رہتاہے جیسا کہ و ہ دورانِ حیات ہوتا تھا- اوّل علمائے عامل کا جسم، دوم فقرائے کامل کا جسم،سوم شہیدِمکمل اکمل کا جسم کہ یہ سب حضرات شہید ِاکبر ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد زندہ لوگوں سے ہم کلام ہوتے رہتے ہیں‘‘-(نورالھدٰی)
2:فرمانِ رسول (ﷺ) کی روشنی میں قبر مؤمنین کیلئے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ جبکہ کفار کیلئے جہنم کا ایک گڑھا ہے - لوگ تو قبر میں ڈال کر اوراوپر کئی من مٹی ڈال کرواپس چلے جائیں گے اور ہرکوئی اپنے اعمال کا جوابدہ ہوگا ایک مقام پہ آپؒ اللہ عزوجل کے مقبول بندوں کی موت کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :اولیاء اللہ مرتے نہیں ہیں بلکہ اپنی زندگی کو عالمِ ممات میں لے جاتے ہیں اور مرنے کے بعد خود کو زندہ کرلیتے ہیں-بعض عالم باللہ اولیا ء اللہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ قبروں سے باہر آکراپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں اور اپنے طالبوں کو ذکر اللہ کی تلقین کرتے رہے ہیں- آقا کریم(ﷺ) کا فرمان ہے: ’’ خبردار! بے شک اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہو جاتے ہیں‘‘(نورالھدٰی)- دوسرے مقام پہ آپؒ اللہ عزوجل کے نافرمان کی قبر کے احوال لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ اِس کے برعکس اہل ِ دنیا کی موت یوں ہے کہ جیسے کسی نے خنزیریا ریچھ یا کتے کو قبر میں ڈال دیا ہے کہ اُس کی صورت ہی ایسی ہو جاتی ہے اور وہ ہر وقت قبر میں معذب رہتا ہے اگرچہ بظاہر اُس کی قبر کو نقش و نگار سے مزین کر دیا جاتا ہے ‘‘- آپ(ﷺ) کا فرمان ہے : ’’آدمی جن لوگوں سے محبت رکھتا ہے اُس کا شمار اُنہی میں ہوتا ہے‘‘- (محک الفقر کلاں)
3:لوگ زیادہ سے زیادہ اس کے ایصال ِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی اور درود پاک پڑھیں گے وہ بھی اس کی قسمت میں ہواتو-وہاں لوگوں کے احوال مختلف ہوں گے جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:’’اہل ِناسوت کی موت اُسے مرنے کے بعد قبر کے عذاب میں مبتلا کرکے خراب کرتی ہے جس سے اہل ِناسوت کا وجود خاک و خاکسترہوکر نیست و نابود ہو جاتا ہے لیکن اہل ِلاھُوت لامکان کو جب موت آتی ہے تو قبر میں اُس کے جسم کے ساتوں اندام صحیح سلامت رہتے ہیں کیونکہ تصورِ اسم اللہ ذات کی وجہ سے اُس کا جسم نور بن جاتاہے، قلب زندہ ہوجاتاہے،روح مقد س ہوجاتی ہے اور وہ ہمیشہ انبیاء و اؤلیاء اللہ کی مجالس میں حاضر رہتاہے‘‘-(نورالھدٰی)
آپؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ’’قبر نے باھُو سے کہا کہ اے باھُو ! قرب ِخدا کیلئے یہ بہت اچھی خلوت گاہ ہے‘‘- (عین الفقر)
مزید ارشادفرمایا :’’باھُوکی قبر سے ہر وقت ھُوْ ھُوْ کی صدا بلند ہوتی رہتی ہے کیونکہ ذکر ِ ھُو ذاکرین ِالٰہی کا انتہائی ذکر ہے‘‘- (نورالھدٰی)
4: یادرہے انسا ن محض اعمال کے بنیاد پر نہ تزکیہ نفس کرسکتا ہے اور نہ جنت میں جاسکتا ہے جب تک اللہ عزوجل کا فضل وکرم شامل ِ حال نہ ہو-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں کوئی بھی کبھی ستھرا نہ ہوسکتا(تزکیہ حاصل نہ کرسکتا)ہاں اللہ ستھرا کردیتا ہے جسے چاہے‘‘ (النور:21)-آپؒ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے حصول کا طریقہ یہ بیان کرتے ہیں کہ:’’ اللہ تعالیٰ کی یہ عطا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہ فیض مرشد ِکامل محبوب سے حاصل ہوتا ہے‘‘-آپؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ باھُونے نعمت ِفقر کو بارگاہ مصطفٰے(ﷺ) سے پایا اوراللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محرمِ اسرا رہوا‘‘-(نورالھدٰی)