امیر الکونین قسط 48

امیر الکونین قسط 48

علمِ باطن غیبی، علمِ وحدت ِفردانیت ِلاریبی، علمِ دیدا، علمِ قلب بیدار، علمِ بقا، علمِ نفس فنا، علمِ زندہ قلب و روح بقا، علمِ ادب، علمِ حیا، علمِ جمعیت آئینۂ روشن ضمیر صفا اور علمِ لقا کے یہ تمام علوم مطالعۂ علمِ موت سے کھلتے ہیں -’’کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ (ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) کا سبق یاد رکھ اور ’’کُلُّ مَتَاعِ الدُّ نْیَا قَلِیْلٌ‘‘(کل متاعِ دنیا قلیل ہے) کو ترک کر دے تاکہ تُو علمِ مطالعۂ موت کے لائق ہو کر دیدار ِ پروردگار سے مشرف ہو سکے- معرفت بھی تین قسم کی ہے- مطالعۂ علمِ موت سے مبتدی کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے، مطالعۂ علمِ موت سے متوسط کے دل میں معرفت پیدا ہوتی ہے اور مطالعۂ علمِ موت سے منتہی کے دل میں مشاہدۂ دیدار ِحضور سے قرب اللہ کا نور پیدا ہوتا ہے - مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ سب سے پہلے طالب کو مطالعۂ علمِ موت کے یہ تین سبق یاد کرا دے تاکہ طالب محروم و جاہل نہ رہے اور رات دن مطالعۂ علم میں مشغول رہے کہ تمام تحصیل ِعلم اِس ایک آیت کے مطالعہ سے حاصل ہو جاتی ہے، فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’پس جو ذرہ بھر نیکی کرے گا اُسے اُس کا نیک اجر ملے گا اور جو ذرہ بھر برائی کرے گا اُسے اُس کا بدلہ ضرور ملے گا‘‘-  

ابیات: (1)’’نیکی اور بدی کا ہر ذرہ زراعت کی فصل کے خرمن(کھلواڑ) کی مثل ہے، تُو اپنے وجود میں اِس فصل کی نگہداشت کر ‘‘-

(2)’’یہ سب کچھ جو تیرے باہر ہے تیرے اندر نہیں ہونا چاہیے کہ تیرے باہر جو کچھ ہے وہ سب مخلوق ہے جس کا ظہور روز ِ الست سے ہے‘‘-

طالب اللہ کو وہی علم پڑھنا چاہیے جو موت و حیات کی کسی بھی حالت میں اُس سے جدا نہ ہو اور وہ معرفت ِ دیدار سے مشرف ہونے کا علم ہے-علم وہ ہے جو قبر و لحد میں تیرا نگہبان رفیقِ با توفیق اور شفیع ِتحقیق ہو، تیرے ساتوں اندامِ وجود کو پاک رکھے، محاسبۂ قیامت اور محاسبۂ قبر سے پاک رکھے-یہ تصور ِاسم اللہ ذات کا علم ہے جو طالب اللہ کو ہر قسم کی نجات بخشتا ہے-

بیت: ’’تجھے جو کچھ پڑھنا ہے وہ اسم اللہ ذات سے پڑھ کہ اسم اللہ ذات نے ہمیشہ تیرے ساتھ رہنا ہے ‘‘-

قرآن ، توریت ، انجیل و زبورو ہر کتاب ِمسائل ِفقہ اسم اللہ ذات کی تفسیر ہے اور چاروں کتابیں اسم اللہ ذات کی شرح ہیں- جو کوئی اسم اللہ ذات کو اُس کی کنہ سے پڑھنا جان لیتا ہے اُس پر ظاہر و باطن کے تمام علوم واضح ہو جاتے ہیں، پھر اُسے دیگر علوم پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی-مطالعۂ اسم اللہ ذات مطالعۂ اِستغراق ہے جو مطالعۂ اوراق سے بہتر ہے-

بیت: ’’جس کا ذکر لقا کی خاطر اور فکر بقا کی خاطر ہو ایسا ذاکر علمِ خدا کا عالم ہوتا ہے‘‘-

ایسے عالم کو فضل ِ خدا اور درسِ لقا و بقا حاصل ہوتا ہے اور اُس کے سینے میں قلب ِصفا ہوتا ہے- جو آدمی اِس علم کی خبر نہیں رکھتا وہ مردہ دل جاہل بے حیا ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ہاں کیوں نہیں جس نے اسلام قبول کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر کے محسن بن گیا اُس کے لئے پروردگار کی طرف سے یہ اجر ہے کہ اُس پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی کوئی غم‘‘- مزید فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’اور جس نے اسلام قبول کیا، اپنا رُخ اللہ کی طرف کیا اور نیکی کی راہ پر گامزن ہو گیا بے شک اُس نے نجات کے لئے مضبوط رسی کو پکڑا‘‘-

جان لے کہ علمِ معاملات اور علمِ عبادات درجات ہیں، اِن کا عالم قرب اللہ ذات کی حضوری کے علم سے بے خبر رہتا ہے-اگرچہ مسائل ِفقہ کا علم باعث ِثواب ہے مگر علمِ باطن سے بے خبر ہے-بے حجاب وسیلہ علمِ بقا باللہ ہے جو علمِ تصور و علمِ تصرف و علمِ تفکر و علمِ تصوف و علمِ سلک سلوک و علمِ توجہ اور علمِ توحید پر مشتمل ہے-یہ جملہ علوم عین العلمِ حق ہیں کہ یہ حق سے ملاتے ہیں اور علمِ باطل سے بیزار کرتے ہیں-وہ شخص بڑا احمق ہے جو علمِ حق کو چھوڑ کر علمِ باطل یعنی علمِ رشوت و ریا و عجب و ہوا کو اختیار کرتا ہے-

 

(جاری ہے)

علمِ باطن غیبی، علمِ وحدت ِفردانیت ِلاریبی، علمِ دیدا، علمِ قلب بیدار، علمِ بقا، علمِ نفس فنا، علمِ زندہ قلب و روح بقا، علمِ ادب، علمِ حیا، علمِ جمعیت آئینۂ روشن ضمیر صفا اور علمِ لقا کے یہ تمام علوم مطالعۂ علمِ موت سے کھلتے ہیں -’’کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ (ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) کا سبق یاد رکھ اور ’’کُلُّ مَتَاعِ الدُّ نْیَا قَلِیْلٌ‘‘(کل متاعِ دنیا قلیل ہے) کو ترک کر دے تاکہ تُو علمِ مطالعۂ موت کے لائق ہو کر دیدار ِ پروردگار سے مشرف ہو سکے- معرفت بھی تین قسم کی ہے- مطالعۂ علمِ موت سے مبتدی کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے، مطالعۂ علمِ موت سے متوسط کے دل میں معرفت پیدا ہوتی ہے اور مطالعۂ علمِ موت سے منتہی کے دل میں مشاہدۂ دیدار ِحضور سے قرب اللہ کا نور پیدا ہوتا ہے - مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ سب سے پہلے طالب کو مطالعۂ علمِ موت کے یہ تین سبق یاد کرا دے تاکہ طالب محروم و جاہل نہ رہے اور رات دن مطالعۂ علم میں مشغول رہے کہ تمام تحصیل ِعلم اِس ایک آیت کے مطالعہ سے حاصل ہو جاتی ہے، فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’پس جو ذرہ بھر نیکی کرے گا اُسے اُس کا نیک اجر ملے گا اور جو ذرہ بھر برائی کرے گا اُسے اُس کا بدلہ ضرور ملے گا‘‘-

ابیات: (1)’’نیکی اور بدی کا ہر ذرہ زراعت کی فصل کے خرمن(کھلواڑ) کی مثل ہے، تُو اپنے وجود میں اِس فصل کی نگہداشت کر ‘‘-

(2)’’یہ سب کچھ جو تیرے باہر ہے تیرے اندر نہیں ہونا چاہیے کہ تیرے باہر جو کچھ ہے وہ سب مخلوق ہے جس کا ظہور روز ِ الست سے ہے‘‘-

طالب اللہ کو وہی علم پڑھنا چاہیے جو موت و حیات کی کسی بھی حالت میں اُس سے جدا نہ ہو اور وہ معرفت ِ دیدار سے مشرف ہونے کا علم ہے-علم وہ ہے جو قبر و لحد میں تیرا نگہبان رفیقِ با توفیق اور شفیع ِتحقیق ہو، تیرے ساتوں اندامِ وجود کو پاک رکھے، محاسبۂ قیامت اور محاسبۂ قبر سے پاک رکھے-یہ تصور ِاسم اللہ ذات کا علم ہے جو طالب اللہ کو ہر قسم کی نجات بخشتا ہے-

بیت: ’’تجھے جو کچھ پڑھنا ہے وہ اسم اللہ ذات سے پڑھ کہ اسم اللہ ذات نے ہمیشہ تیرے ساتھ رہنا ہے ‘‘-

قرآن ، توریت ، انجیل و زبورو ہر کتاب ِمسائل ِفقہ اسم اللہ ذات کی تفسیر ہے اور چاروں کتابیں اسم اللہ ذات کی شرح ہیں- جو کوئی اسم اللہ ذات کو اُس کی کنہ سے پڑھنا جان لیتا ہے اُس پر ظاہر و باطن کے تمام علوم واضح ہو جاتے ہیں، پھر اُسے دیگر علوم پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی-مطالعۂ اسم اللہ ذات مطالعۂ اِستغراق ہے جو مطالعۂ اوراق سے بہتر ہے-

بیت: ’’جس کا ذکر لقا کی خاطر اور فکر بقا کی خاطر ہو ایسا ذاکر علمِ خدا کا عالم ہوتا ہے‘‘-

ایسے عالم کو فضل ِ خدا اور درسِ لقا و بقا حاصل ہوتا ہے اور اُس کے سینے میں قلب ِصفا ہوتا ہے- جو آدمی اِس علم کی خبر نہیں رکھتا وہ مردہ دل جاہل بے حیا ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ہاں کیوں نہیں جس نے اسلام قبول کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر کے محسن بن گیا اُس کے لئے پروردگار کی طرف سے یہ اجر ہے کہ اُس پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی کوئی غم‘‘- مزید فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’اور جس نے اسلام قبول کیا، اپنا رُخ اللہ کی طرف کیا اور نیکی کی راہ پر گامزن ہو گیا بے شک اُس نے نجات کے لئے مضبوط رسی کو پکڑا‘‘-

جان لے کہ علمِ معاملات اور علمِ عبادات درجات ہیں، اِن کا عالم قرب اللہ ذات کی حضوری کے علم سے بے خبر رہتا ہے-اگرچہ مسائل ِفقہ کا علم باعث ِثواب ہے مگر علمِ باطن سے بے خبر ہے-بے حجاب وسیلہ علمِ بقا باللہ ہے جو علمِ تصور و علمِ تصرف و علمِ تفکر و علمِ تصوف و علمِ سلک سلوک و علمِ توجہ اور علمِ توحید پر مشتمل ہے-یہ جملہ علوم عین العلمِ حق ہیں کہ یہ حق سے ملاتے ہیں اور علمِ باطل سے بیزار کرتے ہیں-وہ شخص بڑا احمق ہے جو علمِ حق کو چھوڑ کر علمِ باطل یعنی علمِ رشوت و ریا و عجب و ہوا کو اختیار کرتا ہے-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر