کلمہ طیب : تعلیمات ِ صوفیا کی روشنی میں (آخری قسط)

کلمہ طیب : تعلیمات ِ صوفیا کی روشنی میں (آخری قسط)

کلمہ طیب : تعلیمات ِ صوفیا کی روشنی میں (آخری قسط)

مصنف: لئیق احمد مارچ 2022

قفلِ قلب کی کلید:

تمام اصفیاء و اتقیاء نے انسان کے دل کی اہمیت کو واضح کیا ہےاور اس کی حرمت کی پاسداری کا حکم دیا ہے- بند ہ مومن کا دل حدیث نبوی (ﷺ) کی رُو سے حق تعالیٰ کی آماجگاہ قرار پایا ہے-جبکہ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام خزائن کو انسان کے قلب میں رکھ دیا ہے-حضور سلطان صاحبؒ نے کلمہ پا ک کو قلب کے تالے کی چابی قرار دیا ہے-نیز ارشاد فرمایا:

’’دونوں جہان اسم اللہ ذات کی طے میں آتے ہیں اور اسم اللہ ذات قلب انسانی کی طے میں آ تا ہے اور قلب انسانی کا تالا حاضرات اسم اللہ ذات اور کلمہ طيبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی چابی سے کھلتا ہے‘‘-[1]

ایک اور مقام پر حضور سلطان صاحب نے کلمہ پاک کو تمام نصیبوں کی کنجی قرار فرمایا ہے-نصیب کہ جس کا حاصل حق تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے- آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’تمام نصیب، تمام قسمت، تمام مراتب حکمت، تمام خزائن اور تمام علوم طلسمات کلمہ طیب میں پائے جاتے ہیں اور تمام نصیبوں کی کنجی کلمہ طیب ہے- کلمہ طیب پڑھنے والاشخص نہ کبھی بے نصیب ہوا ہے اور نہ ہوگا البتہ وہ کافر یہود بے نصیب رہتا ہے جومعبود حقیقی کی معرفت سے بے خبر ہے- جوشخص کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی کنہ کو جان لیتا ہے اور زبان محمدی (ﷺ) سے سبق لے کر کلمہ طیب کی خاصیت کو سمجھ لیتا ہے اور زبان ہلائے بغیر اور ضمیر اورلوح محفوظ سے کلمہ طیب کو پڑھتا ہے تو دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے تصرف کے جتنے خزانے موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی اس سے خفی و پوشید نہیں رہتا- جس شخص کے وجود میں کلمہ طیب تاثیر کرتا ہے اور اسے نفع دینے لگتا ہے تو اس کی رگ رگ میں کلمہ طیب دریا کی طرح جاری ہو جاتا ہے اور سر سے قدم تک اس کے وجود کا ہر بال کلمہ طیب کا وردکرنے لگتا ہے- اس طرح جب اس کے وجود میں کلمہ طیب قرار وسکون پکڑ لیتا ہے تو اس کی روح فرحت یاب ہو جاتی ہے، قلب زندہ ہو جا تا ہے نفس مر جا تا ہے اور تمام بری خصلتیں اس کے وجود سے نکل جاتی ہیں- جان لے کہ رسم و عادت کے طور پر کلمہ طیب پڑھ لینے کا مرتبہ اور ہے اور اللہ حیّ قیوم کے قرب حضور میں کلمہ طیب پڑھنے کا مرتبہ اور منصب اور ہے - حضور علیہ صلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے:’’محض زبان سے لا الہ الا اللہ پڑھنے والے لوگ تو کثیر ہیں‘‘-[2]

کلمے کی برکات:

کلمہ پاک کی کئی برکات کا ذکر احادیث و اقوالِ اکابرین میں ملتا ہے لیکن ضروری ہے کہ کلمہ پاک کو فقط زبانی کلامی نہ پڑھا جائے بلکہ اس کی ماہیت اور حقیقت کو جان کر اس کا ورد کیا جائے- کلمہ پاک اسلام، ایمان اور احسان کا صدر دروازہ ہے اور یہی تمام اسرار و رموز کا پیش خیمہ بھی ہے- حضور سلطان العارفین فرماتے ہیں:

’’جو شخص چاہتا ہے کہ بے حساب و بے حجاب ہو کر جملہ ثواب ایک ہی عمل سے حاصل کرلے اور اُس کے وجود میں نورِ ایمان جگمگاتا رہے اور وہ بلا روک ٹوک بہشت میں داخل ہو جائے تو اُسے چاہیے کہ وہ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کو اُس کی کنہ سے پڑھے‘‘-[3]

جو شخص مرشد کامل کی توجہ اور اجازت سے کلمہ پاک کی کنہ کھولتا ہے اور ظاہر و باطن میں ان حروفِ قدسیہ کے فیضان سے مستفیض ہوتا ہے تو اسے حضور رسالتِ مآب (ﷺ)  کی مجلس نصیب ہو جاتی ہے- بے شک و بلا شبہ آپ علیہ تحیۃ و الثناء جسے چاہیں اسے اپنے دیدار اور ملاقات سے نوازتے ہیں- حضور سلطان صاحب نے کلمہ پاک کی اس عظیم برکت کے متعلق ارشاد فرمایا:

’’مرشد کامل وہ ہے کہ طالب اللہ کے دل پر نگاہ کرے تو جو خار و خس اور شیطانی اور نفسانی وسوسے اور خطرات طالب اللہ کے قلب میں ہیں سب کو پہلی ہی نظر میں جلا دے اور طالب اللہ کے دل کو شیطان کی قید سے چھڑا دے اور پھر طالب اللہ کو کلمۂ طیب افضل ذکر  ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ (ﷺ) کی تلقین کرے- جان لے کہ کلمہ طیبہ میں چوبیس حروف ہیں اور دن رات میں چوبیس ہزار دم ہیں اور چوبیس ساعت ہیں اور ہر ایک گناہ ہر ساعت کو اس طرح جلا دیتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو-تلقین یقین کے ساتھ ہے اور یقین تلقین سے ہے- نفی اثبات کا ذکرِ جہر تین ضربی ہے- پہلی ضرب  میں جو ارشاد خداوندی ’’اور سیدھی بات کہو‘‘لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ کہہ کر دل پر ایسے جذبے کے ساتھ ضرب لگاتا ہے کہ دوسری ضرب میں ابد کا مقام کھل جاتا ہے اور طالب الله نفسانیت کے احوال سے توبہ کرتا ہے اور لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ کی تیسری ضرب سے مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے-[4]

اللہ والوں کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ دل پاک رکھا جائے کہ وہ اللہ کا گھر ہے اور اس میں دنیا ومافیہا کی گرد ہرگز نہ چڑھے کہ یہ بندے کو اس کے رب سے دور کردیتی ہے- کلمہ پاک کی برکت سے بندے کا دل دنیا کی نجس محبت سے پاک ہو جاتا اور اللہ کی محبت اس کے دل میں رچ بس جاتی ہے- جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو صاحبؒ فرماتے ہیں:

’’طالب صادق کو چاہئے کہ اسمائے الہٰیہ عالم برزخ کے ننانوے ناموں کا تصور ہمیشہ دل پر کیا کرے تاکہ ان کے اثر سے اس کے دل سے دنیا کی محبت نہ رہے (اور مٹ جائے) ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ‘‘جو شخص اللہ تعالیٰ کے ان ننانوے ناموں کو بخیال و تصور عالم برزخ کے پڑھتا ہے وہ صاحب محبت شوق و اشتیاق ہو جاتا ہے‘‘-[5]

کلمہ شریف پڑھنے والا غنی ہوتا ہے- یہ غنایت اسے وکیل اعظم پر کامل توکل سے نصیب ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد بندہ غیراللہ کی جانب نہیں دیکھتا- جس کا اعتقاد کمزور ہے اس کا وظیفہ فقط زبانی ہے-نیز آپؒ کا فرمان ہے:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے:’’دنیا مکر و فریب ہے اور مکر و فریب ہی سے ہاتھ آتی ہے‘‘-اہل حضور دنیا سے دور ہی بھلے-جب تُو اقرار کرتا ہے لَااِلہَ آِلَّا اللہ (کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے)تو پھر غیر کے آگے ہاتھ کیوں پھیلاتا ہے‘‘-[6]

کلمہ شریف وجود میں اس وقت تاثیر پکڑتا ہے جب قاری ظاہر باطن میں ہر نقطہ رزیلہ سے پاک ہوکر اس کا ورد کرتا ہے- حضرت سلطان باھوؒ نے اس فلسفہ کو یوں بیان فرمایا ہے:

’’کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ میں ایک خاص تاثیر ہے جو اس کے زبانی اقرار اورقلبی تصدیق میں پائی جاتی ہے - جب ذاکرکلمہ طیب کے وجود میں قلبی تصدیق کامل ہو جاتی ہے تو اس کے تمام وجود و جسم و جان میں کلمہ طیب کی تاثیر جاری ہو جاتی ہے جس سے اس کا نفس مر جا تا ہے اور وہ تمام انبیا واؤلیا کی ارواح سے ملاقات و دست مصافحہ کرنے پر قادر ہو جا تا ہے - یہ غرق فنافی اللہ ذات فقیر کا مرتبہ ہے - پس کلمہ طیب کے اقرار کا انحصارتصدیق دل پر ہے اور تصد یق دل کا انحصار توفیق روح پر ہے - جس طالب کو تصد یق وتوفیق نصیب ہو جاتی ہے وہ ولایت اولیاء میں حضرت رابعہ بصری و حضرت بایزید بسطامی کے درجے پر پہنچ جا تا ہے ورنہ محض زبانی کلمہ طیب پڑھنے والے یزید منافق تو بہت زیادہ ہیں- جو آدمی کلمہ طیب کی حقیقت جان کر اس کی تصد یق کر لیتا ہے وہ صادق مطلق ہو جا تا ہے اور کلمہ طیب اس کے وجود میں تاثیر کر تا ہے - پھروہ کلمہ طیب پڑھنے میں تاخیر نہیں کرتا کلمہ اس کامونس جان بن جاتا ہے‘‘-[7]

آدمی کے اجسام اس کی عادات کے مطابق پاک و ناپاک میں منقسم ہیں- جو آدمی خلوص دل سے اللہ پاک کا ذکر کرتا رہتا ہے اس کا جسم نور بن جاتا ہے- آپؒ اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’ایک وہ جسم ہے جو طاعت شعار ہوکر اشتغال اللہ (تصوراسم اللہ ذات) میں محو ر ہتا ہے اور نہایت ہی شوق سے لا الہ الا اللہ کا ذکر کر تار ہتا ہے یہ جسم سراسر نور ہے- دوسرا جسم وہ ہے جومردہ دل ہو کر حرص دنیا اور بسیار خوری میں مبتلا رہتا ہے یہ جسم سراسر نار ( آگ) ہے - نور جنت ہے اور نار جہنم ہے‘‘-[8]

کلمہ پاک کی برکت اِس زندگی میں اور آخرت کی زندگی میں بھی ساتھ رہتی ہے- ذاکر عارف فقیر اہل اللہ کی نشانی ہے کہ وہ قلبی ذکر اور کلمہ پاک کا ذکر کرتے ہیں- حضور سلطان صاحبؒ اس کے متعلق یوں تلقین فرماتے ہیں:

’’تصور اسم اللہ میں مشغول رہوتا کہ تمہارا شمار ذا کر عارفوں میں ہو کہ ذاکر عارف قبروں سے اسم اللہ کا ذکر کرتے ہوئےاٹھیں گے اور ذکر كلمہ طيب  ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی برکت سے حساب و عذاب کے بغیر بہشت میں داخل ہوں گے ‘‘-[9]

دنیا اور دین کا فلسفہ:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں آزمائش و امتحان کے لئے بھیجاہے- ایک ایسا امتحان جس میں اس نے غیر سے منہ پھیر کر حق کی جانب رجوع کرنا ہے- نفسانی خواہشات کا قلع قمع کرکے اللہ کی چاہت اور ارادت کی تکمیل کے لئے تگ و دو کرنی ہے- جو لوگ اس فلسفہ کو سمجھ کر’’ففرو الی اللہ‘‘ کی رِیت پر چلتے ہیں وہ کامرانی کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں جبکہ انکار کرنے والوں کی راہیں خواہ اس دنیا میں ان کیلئے تسکین بخش ثابت ہوں لیکن ہمیشہ کی زندگی میں تاریکی اور رسوائی کے سامان کے سوا ان کے لئے اور کچھ نہ ہوگا- کلمہ شریف محض ایک کلمہ نہیں ہے بلکہ یہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان تفریق کا ذریعہ بھی ہے- حضور سلطان العارفین اسی بارے میں فرماتے ہیں:

’’دنیا میں سب سے مُشکِل کام کون سا ہے؟ کافر کے لیے کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘  پڑھنا مُشکِل ہے‘‘-[10]

خاتم ذکر اللہ کلمہ پاک کا ذکر ہے:

حدیث پاک کی رُو سے کلمہ پاک تمام اذکار میں افضل قرار پایا ہے- یہی کلمہ تمام ذکر اذکار کا خاتم اور منتہی بھی ہے -جسے بھی خاتمہ بالخیر نصیب ہوا اسی کلمے کی برکت سے نصیب ہوا-جیسا کہ آپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’جس طرح توریت و انجیل و زبور کی خاتم کتاب قرآن ہے اسی طرح تمام عبادات کی خاتم عبادت ذکر اللہ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کا ذکر ہے- جس طرح خاتم انبیاء حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اسی طرح خاتم وحدانیت راز الٰہی فضل اللہ ہے اور خاتم ذکراللہِ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کاذکر ہے- جو آدمی ذکر اللہ سے دوستی نہیں رکھتا وہ ذاکرتو کیا مسلمان بھی نہیں کہ خاتمہ بالخیر ذکر اللہ ہی سے ہوتا ہے یعنی خاتمہ بالخیرکلمہ طیب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے ذکر سے ہی ہوتا ہے‘‘-[11]

پنجابی کلام میں سے چند انتخابات:

حضور سلطان العارفین نے جہاں اپنی فارسی تصنیفات میں کلمہ پاک کی شرحیں تحریر فرمائیں ہیں وہیں اپنے صوفیانہ کلام میں بھی کلمہ پاک کے فضائل کا بیان بھی کمالِ اتم فرمایا ہے- آپؒ کے پنجابی کلام میں سے چند ابیات شریف کا انتخاب کیا گیا ہے اور ذیل میں اس کی تشریح بیان کی گئی ہے-

اَندر کَلمہ کِل کِل کردا عِشق سکھایا کَلماں ھو
چوداں طَبق کلمے دے اندر قُرآن کتاباں عِلماں ھو
کانے کَپ کے قَلم بناون لِکھ نہ سَکن قَلماں ھو
باھوؒ ایہہ کلمہ مینوں پِیر پڑھایا ذرا نہ رہیاں اَلماں ھو

اس بات میں توحید کے رموز پنہاں ہیں - توحید کے چار مراتب ہیں، زبان سے کلمہ پڑھنا، تصدیق قلب سے کلمہ پڑھنا، کلمہ کی حقیقت کا مشاہدہ کرنا اور جملہ موجودات کے وجود میں ذاتِ الہٰ کے سوا کسی غیرکو نہ دیکھنا اور کلمہ کی اس حقیقت اور کنہ تک پہنچنا طالب کا اور پہنچانا مرشد کا کام ہے- آپؒ فرماتے ہیں کہ میرے اندر کلمہ کی جو حقیقت موجود ہے اسے میں نے عشق کی وجہ سے پایا ہے(عشق ایمان سے اگلا مرحلہ ہے) اور کلمہ کی حقیقت نے باطن کے اندر ہل چل مچا رکھی ہے- پوری کائنات،تمام انسانی کتب اور قرآن مجید کا علم کلمہ طیبہ کے اندر ہے- دنیا کے تمام مفسرین اور اہلِ قلم اس کلمہ کی شرح لکھتے چلے آ رہے ہیں لیکن ابھی تک اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے- مزید فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ مجھے میرے مرشد نے سمجھایا اور تلقین کی ہےاور میں نے اس کی حقیقت اور کنہ کو پا لیا ہے اب مجھے کوئی غم اور فکر نہیں ہے-

کلمیں دی کَل تَداں پیوسے جَداں کلمیں دِل نُوں پھَڑیا ھو
بے درداں نُوں خَبر نہ کوئی دردمنداں گَل مڑھیا ھو
کُفر ِاسلام دی کل تَداں پِیوسے جَداں بھن جگر وِچ وڑیا ھو
مَیں قُربان تِنہاں توں باھوؒ جِنہاں کلماں صحی کر پڑھیا ھو

اس بیعت میں حضور سلطان العارفینؒ کلمہ کی تاثیر اور اس کے انوار و تجلیات کی برکات کاذکر فرماتے ہیں کہ کلمہ پاک کی حقیقت اس وقت آشکار ہوتی ہے جب کلمہ پاک کا نور بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہے- کلمہ شریف کو اہلِ درد (عاشقانِ خدا)نے اپنی گردنوں میں تعویذ بنا کر پہن لیا ہے جبکہ دنیا دار اور بے معرفت لوگوں کو اس کلمہ کی وقعت کی کوئی خبر نہیں ہے- بندے کو کفر اور اسلام کے درمیان فرق اس وقت ہی واضح ہوتا ہے جب وہ اپنے ظاہر اور باطن میں یکسو ہوکر کلمہ پاک پڑھتا ہے کہ کلمہ پاک کا نور اس کے جگر میں داخل ہوکر اس کے وجود کو اپنے نور سے منور کردیتا ہے- آپؒ ان عاشقوں پہ قربان ہونے کی تمنا رکھتے ہیں جنہوں نے ماسویٰ اللہ کو ٹھکرا کر کلمہ پاک کی کنہ کو سمجھ کر اسے پڑھا ہے-

کَلمیں دی کَل تَداں پیوسے جَداں مُرشد کلماں دَسیا ھو
سَاری عُمروِچ کُفر دے جَالی بِن مُرشد دے دَسیا ھو
شاہ علی شیر بہادر وانگن وڈھ کلمیں کُفر نوں سَٹیا ھو
دِل صافی تاں ہووے باھوؒ جاں کلماں لُوں لُوں رَسیا ھو

حضور سلطان صاحبؒ نے باطنی بیعت رسالتِ مآب (ﷺ) کے دستِ مبارک پہ کی اور آپؒ کی تصنیفات میں مرشد کی تعریف ہی یہ ہے جو اتباعِ سنت اور پیکرِ عشقِ محمد (ﷺ) ہو- جب طالب مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے تو وہ اسے سب سے پہلے کلمہ پڑھاتا ہے اور اسے کلمہ پاک کی تلقین کرتا ہے جس کے بعد طالب کا دل کلمہ پاک کے نور سے فیض یاب ہوجاتا ہے-کلمہ کی حقیقت مرشد کامل اکمل مکمل کے سینہ پر عیاں ہوتی ہے اور وہ طالب پر بھی یہ راز افشاں کرتا ہےاور طالب کے وجود میں تمامِ خصائلِ بد کو کلمہ کی شمشیر سے اسی طرح ختم کردیتا ہے جس طرح حضور سیدنامولا علی کرم اللہ وجہ الکریم نے بہادر کی طرح کفر کو کاٹ پھینکا-آپؒ نے دل کے انتہائی تصفیہ کا کلیہ پیش فرمایا ہے کہ جب کلمہ پاک کا نور انسان کے ہر ہر بال اور رگوں میں سرائیت کرجاتا ہے تب اس کا دل اور وجود صحیح معنوں میں پاک اور طیب ہوتے ہیں-

زبانی کلمہ ہر کوئی پَڑھدا دِل دا پَڑھدا کوئی ھو
جِتھے کلمہ دِل دا پڑھیئے اُتھے مِلے زبان ناں ڈھوئی ھو
دِل دا کلمہ عاشق پَڑھدے کی جَانن یار گلوئی ھو
ایہہ کلمہ اسانوں پیر پڑھایا باھوؒ میں سَدا سُوہاگن ہوئی ھو

اس بیعت میں آپؒ نے کلمہ کے ذاکرین کے متعلق بیان فرمایا ہے- کلمہ پڑھنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں- ایک وہ جو فقط اپنی زبان سے کلمہ پاک کے حروف ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے وہ ہیں جو دل سے کلمہ پاک پڑھتے ہیں اور جب کلمہ دل سے پڑھا جائے تو زبان کو جنبش دینے کی گنجائش باقی نہیں رہتی- دل کا کلمہ عاشق پڑھتے ہیں ،زبانی کلمہ گو اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے-کلمہ پاک کے تین حصے ہیں جسے حضور سلطان صاحب فقر فنا، فقر بقا اور فقر منتہی بیان فرمایا ہے- جب بندہ نفی لاالہ پڑھتا ہے تو وہ ہر شے سے بےنیاز ہوکر اپنی ذات(نفسانی خواہشات) کو بھی فنا کردیتا ہےاور پھر اثبات الا اللہ پڑھ کر وہ بقا حاصل کرتا ہے یعنی اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس- جب محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو عشق و عرفان کی لذت اس کے وجود پہ طاری ہوجاتی ہے اور اس پر کلمہ پاک کی کنہ کھل جاتی ہے- آپؒ فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ پاک مجھے میرے مرشد کریم حضور نبی کریم (ﷺ) نے پڑھایا ہے جسے پڑھنے کے بعد میں ہمیشہ کیلئے توحید کی رمز سے آشکار ہوکر نیک بخت ہوگیا جیسے سوہاگن اپنے سہاگ سے بہرہ مند ہوتی ہے-

حرفِ آخر:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی معرفت و عبادت کیلئے بھیجا ہے- اس دنیا کا نظام توحید کی بنا پر قائم ہے اور توحید کے کلمات نفی اثبات ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا وہ پانی ہے جو انسان کے دل کو سیر کرنے کیلئے کافی ہے- کلمہ پاک کی ماہیت اور حقیقت کو صوفیاء کرام نے نہایت واضح انداز میں بیان فرمایا ہے- ضروری ہے کہ اس فلسفہ کو سمجھا جائے اور اہلِ تصوف سے رشتہ استوار کرکے کلمہ پاک کی کنہ تک پہنچا جائے کیونکہ کلمہ طیب (توحید و رسالت) دین کی اساس ہے اور ارکانِ اسلام کا اولین رکن ہے-

٭٭٭


[1]( نور الھدٰی،ص:114)

[2]( نور الھدٰی،ص: 28-29)

[3]( نورالہدیٰ، ص: 320)

[4](نورالہدٰی خورد، ص: 100-101)

[5](عین الفقر،ص:300-301)

[6](عین الفقر،ص:230)

[7](عین الفقر،ص:170)

[8]( محک الفقر کلاں،ص:212)

[9]( محک الفقر کلاں،ص:310)

[10]( محک الفقر کلاں،ص:456)

[11]( محک الفقر کلاں،ص:464)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر