بانی اصلاحی جماعت آداب کے عظیم پیکر

بانی اصلاحی جماعت آداب کے عظیم پیکر

بانی اصلاحی جماعت آداب کے عظیم پیکر

مصنف: افضل عباس خان دسمبر 2020

’’کشف المحجوب‘‘ میں سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ (المتوفی:481ھ) نے حضرت ابو حفص حداد نیشاپوریؒ (المتوفی: 267 ھ) کا قول نقل فرمایا ہے:

’’اَلتَّصَوُّفُ کُلُّہُ آدَابٌ لِکُلِّ وَقْتٍ آدَابٌ وَ لِکُلِّ حَالٍ آدَابٌ وَلِکُلِّ مَقَامٍ آدَابٌ‘‘

’’تصوف مکمل آداب کا نام ہے-(یعنی) ہر وقت کے لئے آداب، ہر حال کیلئے آداب اور ہر مقام کیلئے آداب‘‘-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ بھی ادب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عِلم پڑھیا تے اَدب نہ سِکھیا کی لیناں عِلم نوں پَڑھ کے ھو

یعنی ایسے علم کو حاصل کرنے کا کیا فائدہ جس سے وجود میں ادب پیدا نہ ہو-

آپؒ ایک اور مقام پر مزید فرماتے ہیں:

بِے ادباں نہ سَار ادب دِی گئے ادباں تھیں وانجے ھو
جیڑھے تھاں مِٹی دے بھَانڈے کدی نہ ہوندے کانجے ھو

یعنی بے ادب لوگ تو سراسر ادب سے بے خبر ہوتے ہیں-انہیں کسی دوسرے کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کی کوئی خبر ہی نہیں ہوتی-ان کی مثل ان مٹی کے برتنوں کی طرح ہے جو مٹی سے بننے کے باوجود اپنی پاکیزگی اور صفائی میں مشکوک رہتے ہیں- اس لئے ان برتنوں کو مانجھ کر دھات کے برتنوں کی طرح صاف نہیں کیا جاسکتا-

تمام صوفیاء کے نزدیک ’’تصوف‘‘ ادب ہی ادب ہے؛ اور حضرت سلطان باھوؒ نے اپنے طریق تربیت میں ادب آداب پہ بہت زیادہ توجہ دی ہے کیونکہ صوفیائے کاملین کی ہر ہر ادا ادب کے سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے- گوکہ ادب کے بہت سارے پہلو ہیں اور آدابِ صوفیاء کی کئی طرح سے وضاحت کی جاسکتی ہے- لیکن اس مضمون میں مختصرًا حضور مرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب  (قدس اللہ سرّہٗ)کی ظاہری زندگی میں جو آداب نمایاں نظر آتے ہیں، ان کا بیان ہو گا تاکہ ان سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی زندگیوں کو بھی منور کیا جائے اور آنے والے لوگوں کیلئے بھی اس سے رہنمائی کا سامان پیدا ہو-کیونکہ حضور مرشد کریم نے اپنی عملی تربیت سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اسلاف کا وہ فیض جو آپ تک پہنچا، آپ نے اس کو کیسے اپنے سینے اور اپنے عمل میں محفوظ کیا؛ اور کس طریق سے اپنی جماعت اور تربیت کے ذریعے لوگوں میں ان آداب کا از سرنو احیاء فرمایا-

1-آدابِ نماز :

آدابِ نماز میں آپؒ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپؒ باجماعت نماز ادا کرنے کو بے حد پسند فرماتے تھے-چونکہ آپؒ کی زندگی کا اکثر وقت سفر میں گزرا تو آپؒ کے ہر سفر میں علمائےکرام آپؒ کی صحبت میں ضرور ساتھ ہوتے اور زیادہ تر کوشش ہوتی کہ نماز باجماعت ادا کی جائے-آپؒ جہاں بھی نماز ادا کرتے وہاں پاکیزگی کا بہت خیال رکھتے اور رکھواتے- سفر میں اکثر یہ مسئلہ پیش رہتا کہ بعض مقامات پر نماز ادا کرنے کے لئے مصلّے یا صفیں پوری نہ ہوتیں تو آپ کے رختِ سفر میں مستقل طور پر نماز کی چادریں ہوتی تھیں کہ اگر کوئی ایسی جگہ آجائے جہاں پہ مصلّے دستیاب نہ ہوں تو وہاں چادریں بچھا دی جاتیں اور آپ کے رفقاءِ سفر ان کے اوپر نماز ادا کرتے-آپؒ ہمیشہ حنفی فقہ میں بیان کی گئی پوری نماز ادا کیا کرتے تھے یعنی آپ غیر مؤکدہ سنتیں اور نوافل بھی باقاعدگی سے ادا فرماتے- آپؒ فرض نماز کے بعد لازمی دعا کرتے اور ظہر، مغرب و عشا کی بقیّہ نماز ادا فرمانے کے بعد دوبارہ دُعا فرماتے- دعا فرمانے کے بعد اٹھنے سے پہلے تین مرتبہ نیم بلند آواز میں کلمہ طیبہ کا ذکر کیا کرتے اور جب کھڑے ہو جاتے تو کلماتِ شکر ادا کرتے-بعد ازاں آپ تمام ساتھیوں سے مصافحہ کرتے-

2- آدابِ ذکر

آپؒ زیادہ تر تصورِ اسم اللہ ذات کا ذکر فرماتے تھے -چونکہ اس کے آداب میں خاموشی اور خلوت بنیادی چیز ہے اس لئے آپؒ جب بھی ذکر کا ارادہ فرماتے تو آپؒ کا کمرہ خالی کر دیا جاتا جس میں آپؒ کچھ دیر خلوت گزیں ہو کر ،قبلہ رو بیٹھ کر اسم اعظم شریف کا ذکر کیا کرتے تھے- گو کہ کبھی دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن آپ کے لئے ایک مخصوص چمڑے کا بیلٹ بنا ہوا تھا کہ اگر زیادہ دیر بیٹھنا ہو تو وہ کمر کو سپورٹ دیتا رہے-آپؒ اپنی خدمت میں رہنے والوں کو حکم فرماتے کہ روزانہ کی بنیاد پر اس بیلٹ کی پاکیزگی کا بھی خاص خیال رکھا جائے تاکہ اس کے اوپر گرد وغبار نہ ہو-

’’ذکر بالجہر‘‘اسم اللہ کے ذکر کا جہری طریقہ بھی ہے- جس کو حضرت سلطان باھوؒ کے فقراء ایک مخصوص انداز میں کرتے ہیں؛ وہ جب آپؒ کی خدمت میں کیا جاتا تو آپؒ جس جگہ چارپائی یا کرسی پہ جلوہ فرما ہوتے تو ذکر کرنے والے ساتھی دو صفوں میں بٹ کر یعنی آپؒ کے دائیں اور بائیں پہلو میں برابر تقسیم ہو کر بآوازِ بلند اسم اللہ کا ذکر کیا کرتے - جب ذکر اختتام پذیر ہوجاتا تو کافی لمحات تک آپؒ آنکھوں کو جھکا کر خاموش بیٹھے رہتے، پھر آپؒ ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوتے اور اگر مزید محفلِ ذکر یا محفلِ وعظ ہونی ہوتی تو اس کی طرف اشارہ فرماتے وگرنہ دعا فرما کر محفلِ ذکر کو اختتام فرماتے-

3- آدابِ ذکرِ مصطفےٰ ():

سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے اسم مبارک کا ذکر جب بھی آپؒ کی محفل میں مبارک ہوتا تو آپؒ اپنے دونوں انگوٹھے اپنے لبوں سے لگا کر اپنی آنکھوں کے اوپر رکھتے، اپنے سر مبارک کو خم دیتے جس طرح تعظیماً جھکایا جاتا ہے اور اپنی آنکھوں کو بھی بند فرماتے-اگر آپؒ کبھی گفتگو فرما رہے ہوتے جس میں آقا کریم (ﷺ) کی ذات گرامی سے کسی سوال کا ذکر آجاتا یا آپ کے اوصاف و کمال کا ذکر آجاتا تو حضور مرشد کریم اکثر اوقات اپنے دونوں ہاتھوں کو ادب و عجز کے خاص انداز میں جوڑ کر آقا کریم (ﷺ) کے ذکر مبارک کو مکمل فرماتے-

4-آدابِ ذکرِ اسلاف:

جب بھی آپؒ کی گفتگو میں انبیاء کرام (علیھم السلام)،صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور اولیاء کاملینؒ کا ذکر آتا تو آپ حسبِ مراتب ان کے اسماء سے پہلے اور بعد میں مؤدبانہ الفاظ کا استعمال کرتے یعنی اگر کسی نبی یا رسول کا ذکر آتا تو آپ نام سے پہلے حضرت یا سیدنا اور نام کے بعد ’’علیہ السلام‘‘ فرماتے-اسی طرح اگر صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کا ذکر آتا تو لازماً نام سے پہلے حضرت اور نام کے بعد ’’رضی اللہ عنہ یا عنہا‘‘ فرماتے- یعنی گفتگو میں اگر حضرت عمرؓ کی بات چل رہی ہے تو ہم تو حضرت عمر کہہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حضرت کہہ دیا تو تعظیم کا تقاضا مکمل ہو گیا لیکن اگر آپ کی گفتگو میں حضرت عمؓر کا ذکر دس بار بھی آتا تو آپ حضرت عمرؓ کے اسم سے پہلے حضرت یا سیدنا اور نام کے بعد ’’رضی اللہ عنہ‘‘ ضرور فرماتے- اسی طرح اگر اولیاء اللہ کا ذکر آتا تو آپ ان کے نام سے پہلے تعظیمی لقب اور نام کے بعد ’’رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ فرماتے-

5-اولیاء اللہ کی حاضری کے آداب

حضور بانیٔ اصلاحی جماعتؒ کی خدمت سے فیض یاب ہو کر جتنا بھی مشاہدہ کرنے کا شرف ملا اس میں آپؒ کی شخصیت میں یہ پہلو بھی بہت نمایاں ہے کہ آپؒ اپنے شیوخ یا دیگر اولیاء کاملین کے مزارات پہ انتہائی مؤدب حاضری دیاکرتے- حتیٰ کہ دیکھنے والےحالتِ رشک میں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو کس قدر بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے لیکن اس کے باوجود آپؒ کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ انتہائی مؤدبانہ اور عاجزانہ اندازمیں اولیاء کرام کے مزارات پہ حاضر ہوتے ہیں-دراصل یہ آپؒ کی خدمت میں رہنے والے مریدین کے لئے ایک سبق تھا کہ شیوخ کی خدمت میں کیسے حاضری کرنی چاہیے- اگر آپؒ دربار شریف سے شمال کی طرف سفر کرتے یعنی جو علاقے دربار حضرت سلطان باھو ؒ سے شمال کی طرف واقع ہیں تو وہاں آپؒ حالتِ آرام میں بھی یہ خیال کرتے کہ آپ کے پاؤں جنوب کی جانب نہ ہوں- کیونکہ جنوب میں حضرت سلطان باھو ، حضرت سلطان سید بہادر علی شاہ اور حضرت سلطان محمد عبد العزیزؒ  کا مزار شریف آتا تھا-اس لئے آپؒ فرماتے تھے کہ مجھے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ میں ان مبارک ہستیوں کے مزارات کی طرف پاؤں کر کے سوجاؤں -

جب آپ شہبازِ عارفاں سلطان سید محمد بہادر علی شاہؒ کے دربارپر نوراتا (9) یا اکیس راتا (21) کےلئے آرام فرما ہوتے تو آپ کے آرام کے لئے جو کمرہ تھا وہ دربار شریف سے شمال کی طرف تھا اور ہم نے جب بھی دیکھا آپؒ نے جنوب کی طرف پشت کر کے آرام نہیں فرمایا- آپؒ چہرہ آسمان کی طرف اور اگر کروٹ کے بل لیٹتے تو چہرہ جنوب کی جانب رکھتے- حتی کہ گاڑ ی میں بیٹھتے ہوئے، کہیں جاتے ہوئے، مسجد میں جاتے اور وضوء کرتے ہوئے بھی یعنی کسی بھی زاویے میں دربار شریف کی طرف پشت ہو رہی ہوتی تو آپؒ اپنی پشت کو دوسری طرف کرلیتے -جتنا عرصہ بھی آپؒ اپنے مرشد پاک کے دربار پہ قیام فرما رہتے آپ نیچے زمین پر سوتے اور کبھی بھی چارپائی کے اوپر آرام نہ فرماتے تھے- البتہ آخری ایک دو برسوں میں آپ کیلئے ایک پلنگ بنایا گیا جس پر آپ آرام فرماتے تھے-اس کے متعلق بھی آپؒ نے فرمایا کہ مجھے حضور پیر سید محمد بہادر علی شاہ صاحبؒ نے حکم فرمایاہے کہ آپ یہاں پلنگ استعمال کیا کریں-آپؒ نے اس پلنگ کے بھی نیچے سے پائے کٹوا دیے تھے جس کے باعث وہ زمین کے بہت قریب ہو گیا تھا-کیونکہ پلنگ کا حکم تھا اور آپؒ انکار بھی نہیں کر سکتے تھے اور پلنگ پہ سونا بھی نہیں چاہتے تو آپ نے اس پلنگ کی اونچائی ختم کروادی-

اسی طرح اکثر ساتھی وہاں پہ اونچا ہنستے یا بولتے تو آپ ان کو آنکھوں کے اشارے سے منع فرماتے کہ یہ میرے مرشد پاک کا دربار ہے اور یہاں یہ بات ادب کے منافی ہے کہ کوئی اونچا بولے یا اونچا ہنسے یا کوئی فحش گفتگو کرے-

6- آدابِ گفتگو:

آپؒ کی گفتگو ہمیشہ سراپا ادب ہوتی، گفتگو کے الفاظ انتہائی چنے ہوئے ہوتے جن میں تصنع یا بناوٹ نہ ہوتی تھی- بلکہ ہمیشہ ایسے الفاظ فرمایا کرتے تھے جو دل میں گھر کر جاتے تھے-جب آپؒ مختلف مشائخ و علماءِ کرام سے گفتگو فرماتے تو فقط اس وقت آپ علمی اصطلاحات کا استعمال فرماتے مگر جس وقت آپؒ سادہ لوح لوگوں یعنی جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے ان کے ساتھ بالکل سادہ زبان بلکہ ان کے محاوروں میں ان کے ساتھ گفتگو فرماتے-آپ کِھل کِھلا کر اونچا نہیں ہنستے تھے، کبھی کبھار اگر آپؒ کا قہقہ ہوتا تو وہ بہت ہی خوبصورت انداز میں ہوتا، لیکن عام طور پر آپ مسکر ا دیتے تھے-گفتگو کی آواز اور لہجہ بھی دھیمہ ہوتا تھا اور بلند آواز میں فقط اُس وقت گفتگو فرماتے جب آپ کے گرد زیادہ لوگ بیٹھے ہوتے اور آواز کو دور تک پہنچانا مقصود ہوتا- لیکن اگر آواز دھیمی بھی ہوتی تو یہ آپ کے وجودِ مبارک کی ایک کرامت تھی کہ کتنی بڑی محفل کیوں نہ ہو آپ بغیر سیپکر کے گفتگو فرماتے اور سب تک آپ کی آواز پہنچا کرتی- حالانکہ آپؒ کا لہجہ بھی بلند نہیں ہوتا تھا کہ زور لگا کر سب تک آواز پہنچائی جائے؛جس طرح عموماً لوگوں کی آواز پھٹی ہوئی یا بہت زیادہ بلند ہوتی ہے تو آپ کی آواز نہ بہت زیادہ بلند تھی اور نہ پھٹی ہوئی تھی بلکہ نسبتاً باریک آواز تھی لیکن آواز میں ایک وجاہت اور شان و شوکت تھی-آپؒ ہمیشہ نرمی سے گفتگو فرماتے خاص طور پر جب آپ کسی محفل میں تشریف لاتے تو اس قدر خلوص اور محبت بھری آواز اور لہجے میں ’’السلام علیکم‘‘ کہتے کہ پوری محفل آپ کی طرف متوجہ ہوجاتی اور لوگوں کے دلوں میں بے ساختہ آپؒ کی محبت پیدا ہوجاتی-

7-آدابِ مصافحہ:

مصافحہ کے آداب میں سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپؒ کبھی بھی بے توجہی میں مصافحہ نہیں فرماتے تھے بلکہ جس سے بھی مصافحہ کرتے اپنا دستِ شفقت پوری گرم جوشی کے ساتھ ملاتے اور جب تک مصافحہ کرنے والا ہاتھ نہ چھوڑتا آپؒ تب تک اپنا ہاتھ پیچھے نہ کھینچتے تھے- آپؒ جس سے مصافحہ کرتے آپ اپنی آنکھوں کو پوری طرح اس کی جانب متوجہ کرتے تا کہ اس کو یہ احساس نہ ہو کہ مَیں بے توجہی سے مل رہا ہوں- نماز کی جماعت کے بعد آپ نمازیوں سے مصافحہ فرماتے تھے، اکثر ایسے ساتھی ہوتے جو پانچوں نمازوں میں ساتھ شریک ہوتے وہ بار بار مصافحہ اور دست بوسی کے شرف سے لطف اندوز ہوتے- اگر کوئی انجان آدمی بھی آجاتا آپ معانقہ فرماتے اور پوری طرح اس سے حال احوال پوچھتے-کئی مرتبہ گرمیوں میں کسان اور کام کاج کرنےوالے مزدور یا غرباء جو پسینہ میں شرابور ہوتے، وہ بھی جب آپ سے گلے ملتے تو آپ کے چہرہ مبارک پہ کبھی بھی کراہت یا دور ہٹنے کے آثار پیدا نہ ہوئے بلکہ جب تک جو آدمی معانقہ کرتا آپ اس سے معانقہ فرماتے اور آپ نے کبھی کسی کو معانقہ سے منع نہ فرمایا -

8-آدابِ طعام:

آپؒ طعام سے پہلے بھی ہاتھ دھوتے اور طعام کے بعد بھی- طعام کے لئے آپؒ کا ایک مخصوص تولیہ تھا جب آپ کھانا کھانے لگتے تو وہ آپ کی گود میں بچھا دیا جاتا تھا آپ اکثر اوقات اس تولیہ سے ہاتھ خشک کر تے- جب آپ کھانا تناول فرما لیتے تو آپ تمام دسترخوان پہ تشریف فرما لوگوں کی طرف دیکھتے اگر سبھی کھانا کھا چکے ہوتے تو اس وقت آپ بلند آواز سے شکر الحمد للہ فرما کر ہاتھ اٹھاتے اور مسنون دعا پڑھتے-لیکن اگر کوئی ایک بچہ بھی دستر خوان پہ کھانا کھا رہا ہوتا تھا تو جب تک کھانا مکمل نہیں ہو جاتا تھا آپ دعا نہیں فرماتے تھے-یعنی لوگوں کے کھانا ختم ہونے کا انتظار فرماتے-صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا کہ حضور مرشد پاک ایک دن گھر تشریف لے جاتے ہوئے ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو سامنے روٹی کا ایک نوالہ نیچے پڑا تھا آپ نے اٹھوا کے پکڑا اور اس نوالے کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ:

’’حضرت سلطان صاحب کے لنگر کی بے ادبی نہ ہونے دیا کریں-اگر نعمت کی نا قدری کی جائے تو نعمتیں تنگ کر دی جاتی ہیں‘‘-

آپؒ سفر کے دوران جن علاقوں میں جاتے ان علاقوں کی مقامی سوغات کو تناول کیلئے پسند فرماتے-مثلاً اگر سفر میں ڈیرہ اسماعیل خان جانے کا اتفاق ہوتا تو وہاں کی ثوبت بہت شوق سے تناول فرماتے، یا اگر شکار میں ہوتے تو خرگوش، تیتر وغیرہ شوق سے تناول فرماتے -

9- آدابِ شکار :

آپؒ شکار کے متعلق فرماتے کہ ہم خاموش جگہوں پر شکار کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ ہماری ورزش بھی ہو جائے، طبیعت بھی بہل جائے، خاموشی کا موقع بھی مل جائے اور بزرگوں کی روایت بھی قائم رہے- آپ بندوق کے ساتھ تیتر، ہرن ، ہڑیال اور شکاری کتوں کے ساتھ خرگوش کا شکار کرتے تھے- لیکن جو کتے شکار میں استعمال کیے جاتے آپؒ فقہاء کے دستور کے مطابق انہیں تربیت دِلواتے- آپؒ کے حلقۂ شکار کا یہ اصول تھا کہ کوئی شکاری باغ سے پھل نہیں توڑ سکتا، اگر کسی کی فصل میں بیر لگے ہوئے ہیں تو بیر تک کو پتھر مارنے یا توڑ کر کھانے کی اجازت نہ تھی-فصلوں سے گزرتے وقت تازہ سبزیوں کو توڑنے کی شدید ممانعت ہوتی تھی- اسی طرح خرگوش کے شکار میں جب ایک خرگوش کے پیچھے جوڑ بھگایا جاتا تو اگر خرگوش اس جوڑ سے بھاگ جاتا تو آپ پھر راستہ تبدیل کر لیتے تاکہ راستے میں دوبارہ وہی خرگوش نہ آئے- کیونکہ آپؒ فرماتے تھے کہ ہم گوشت کھانے کے لئے شکار نہیں کرتے بلکہ لوگوں کی تربیت کیلئے شکار کرتے ہیں-اس لئے جو خرگوش بھاگا ہے وہ اگلے دن تو شکار کیا جاسکتا ہے لیکن اسی دن دوبارہ اس پر جوڑ نہیں چھوڑا جاسکتا-اگر کوئی ایسا کرتا تو آپ اس کو بہت سخت تنبیہ فرماتے- آپؒ شکار گاہوں میں بھی حفاظ، قرأء اور علماء کرام کے ہمراہ باجماعت نماز کا اہتمام فرماتے-

10-آدابِ گھڑ سواری:

آپؒ کبھی بھی بغیر دستار کے گھوڑے پر سوار نہیں ہوئے- یعنی گھڑ سواری میں دستار آپ کے آداب کا حصہ تھی- گھڑ سواری میں آپ کے شاگردِ خاص ملک محمد حیات گھنجیرہ صاحب نے بتایا کہ اگر آپ کسی کو بغیر دستار یا بغیر سر ڈھانپے گھوڑے پہ سوار دیکھتے تو ناپسند فرماتے اور ارشاد کرتے کہ :

’’اتوں مندر، تھلوں مسیت‘‘ ، (اوپر مندر نیچے مسجد )-

مراد کہ نیچے تو اچھا کام ہے کہ گھوڑے پہ سوار ہے مگر سر کی طرف سے اچھا کام نہیں کہ آداب کو ملحوظ نہیں رکھا گیا-

زندگی کے آخری چند برسوں میں آپ شکار میں کبھی کبھار پیدل چلنے کی بجائے گھوڑی پہ بھی بیٹھ جاتے تو شکار میں آپ دستار کم استعمال فرماتے اس کی بجائے اونی ٹوپی سرِ مبارک پہ سجاتے- آپؒ جب بھی گھوڑے پر بیٹھنے کے لئے تشریف لے جاتے تو ہمیشہ تازہ وضوء فرما کر گھوڑے پربیٹھتے- اگر کوئی گھوڑا میلا یا صاف نہ کیا گیا ہوتا تو اس پر بھی سواری نہ فرماتے بلکہ آپؒ فرماتے کہ گھوڑے کا صاف ہونا بھی سواری کے آداب میں ہے-

11-آدابِ تازی داری:

 گھڑ سواری الگ چیز ہے اور تازی داری الگ-تازی داری گھوڑا پالنے کو کہتے ہیں اور گھوڑا پالنے کے بھی آداب ہوتے ہیں جس پر ایک الگ تفصیلی کتاب مرتب کی جاسکتی ہے-لیکن مختصر وقت میں صرف یہ بتانا چاہوں گا کہ تازی داری کے آداب میں آپؒ ہمیشہ گھوڑے کا تھان صاف رکھنے کو کہتے اور گھوڑے کو سخت جگہ باندھنے سے منع فرماتے-گو کہ گھوڑا طاقتور جانور ہے لیکن اس کی بدنی ساخت ایسی ہے کہ اس کو سخت جگہ پہ نہ باندھا جائےتاکہ اگر یہ بیٹھے تو راحت محسوس کرے- آپؒ گھوڑوں کو گالی دینے سے بھی سختی سے منع فرماتے- آپؒ فرماتے کہ اگر کوئی گھوڑا سختی کر رہا ہے یعنی کاٹنے  اور لوگوں کو مارنے سے باز نہیں آتا تو اس تربیت کے لئے بعض دفعہ چھڑی رکھی جاسکتی ہے تاکہ گھوڑا قابو میں رہے- لیکن گھوڑے کو جوتی یا کوئی ایسی چیز نہ دکھائی جائے جس سے اہانت ہو-

12-آدابِ تربیت:

گو کہ ادب بذاتِ خود ایک تربیت ہے لیکن ایسے ساتھی جو آپ کے ساتھ زیر تربیت رہتے تھے آپ ان کے آداب کا بھی بہت خیال رکھتے تھے- یعنی ہر موسم کے مطابق ان کے لباس اور ان کے کھانے پینے کے مطابق ان کی ضروریات کا خیال رکھتے- آپؒ ہمیشہ ساتھیوں کو ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھنے کی تاکید فرماتے کہ کوئی ایسا قول مت بولو اور کوئی ایسا فعل سرانجام نہ دو جس سے تمہارے شریکِ سفر کی عزتِ نفس مجروح ہو اور وہ خود کو تم سے یادوسروں سے کم تر جاننے لگے-بلکہ اس کی عزت کرو تاکہ وہ سب ساتھیوں میں خود کو برابر سمجھے-آپؒ ہر ایک سے شفقت سے پیش آتے اور یہی وجہ تھی کہ آپؒ اپنی محفل میں شفقت و اخلاق اور اپنے وجود کی روحانیت کی بدولت جانِ محفل ہوتےتھے- یعنی اگر آپ دائیں دیکھتے تو ساری محفل دائیں دیکھتی، آپ بائیں دیکھتے تو ساری محفل بائیں دیکھتی، آپ مسکراتے تو ساری محفل مسکراتی-آپؒ جب گفتگو فرماتے تو لوگ مسکرا مسکرا کر آپ کی طرف دیکھتے اور آپ کے ہر ایک لفظ پہ محفل میں سبحان اللہ کی آواز آتی- جب آپ آنکھیں جھکا کر کسی خیال مبارک میں ہوتے یا آپ آنکھوں کو بند کر کے حالتِ مراقبہ میں جاتے تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ اپنی آنکھوں کو بلند کرے بلکہ ہر آدمی اپنی آنکھوں کو جھکا کر آپ کی محفل کے جلال کو محسوس کر رہا ہوتا-

13-آدابِ مساجد:

آپؒ کو مساجد سے بے پناہ محبت تھی-آپؒ جہاں کہیں بھی سفر میں تشریف لے جاتے تو اکثر اوقات آپ کے ساتھ قافلے میں تین سے چار گاڑیوں کا قافلہ چلتا تھا جس میں آپؒ کے زیر تربیت رہنے والے ساتھی ہوتے تھے تو آپؒ راستے میں وضو کے لئے زیادہ پانی استعمال کرنے سے منع فرماتے تاکہ مسجد کا بے جا اسراف نہ ہو- اسی طرح آپؒ نے دربار حضرت سلطان باھوؒ پہ جو مسجد تعمیر کروائی اس کے متعلق آپؒ سختی سے فرماتے کہ اس مسجد سے متعلقہ سامان صرف و صرف مسجد کیلئے استعمال کیا جائے-آپؒ گھوڑوں کے متعلق فرماتے تھے کہ میرے مرشد پاک کی طرف سے مجھے یہ گھوڑے امانت اور خدمت کے طور پر عطا ہوئے ہیں اس لئے ہمیں اجازت نہیں ہے کہ ہم اپنی ذاتی ضروریات کیلئے گھوڑوں کو فروخت کر سکیں البتہ مسجد کیلئے اجازت ہے کہ ہم گھوڑوں کو فروخت کر سکتے ہیں-یعنی اگر کوئی ایسا موقع آئے کہ ہمارے پاس رقم ختم ہو جائے اور مسجد کا کام بند ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ہم صرف مسجد کے کام کے لئے گھوڑے فروخت کر سکتے ہیں ورنہ ہمیں گھوڑے فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے-

یہاں آپؒ کی مسجد سے محبت کا ایک انتہائی خوبصورت اور دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:

’’آپؒ نے اپنی زندگی میں جس گھوڑے پہ سب سے زیادہ سواری اور نیزہ بازی کی وہ آپ کو نہایت عزیز تھا - جس کا نام کبوترا تھا وہ آپ نے مسجد پاک کیلئے فروخت فرما دیااور جو لوگ آپ کے ساتھ رہے ان کو معلوم ہے کہ اس گھوڑے کے بعد آپ کی نیزہ بازی کا وہ دور نہ رہا اور اس کے بعد ویسا لگاؤ کسی اور گھوڑے کے ساتھ نہ ہو سکا-آپؒ نے خود یہ واقعہ بیان کیا کہ مسجد پاک کا کام ہو رہا تھا اور رقم ختم ہو گئی میں سوچ رہا تھا کہ کہاں سے رقم دستیاب کی جائے کیونکہ کسی سے مانگنا مجھے اچھا نہیں لگتا-آپؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں ضلع سرگودھا میں ایک مقام پر دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا تو مجھے باطن میں روحانی طور پر محل شریف سے فرمایا گیا کہ مسجد کے لئے اپنی محبوب چیز قربان کرو-مَیں نے عرض کی حضور کونسی تو محل شریف سے حکم ہوا کہ کبوترے گھوڑے کو فروخت کر دو-آپؒ فرماتے ہیں کہ مجھے گھوڑے سے اتنی محبت تھی کہ جب نوالہ منہ ڈالنے لگا تو چند لمحات کے لئے وہ نوالہ میرے ہاتھ میں رہ گیا اور سوچنے لگا کہ مَیں اس گھوڑے کو بھی فروخت کروں گا لیکن آپؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے بغیر کسی تردد کے کبوترا گھوڑا مسجد پاک کیلئے فروخت کر دیا‘‘-

اسی طرح کا ایک خوبصورت واقعہ ہے کہ:

’’مسجد پاک کی تعمیر کے وقت جب مینار بن رہے تھے تو آپؒ میناروں کے ڈیزائن مستریوں اور انجینئرز کو بتا کر سفر پر روانہ ہو گئے-جب چند ماہ بعد آپؒ کی واپسی ہوئی تو وہ مینار اس طرح نہیں بنے تھے جس طرح آپؒ رہنمائی دے کر گئے تھے- کیونکہ جو مینار بنے تھے آپؒ کے مطابق مسجد کی شان و شوکت میں کمی بھی پیدا کر رہے تھے اور مضبوط بھی نہ تھے - اس لئے آپؒ نے ارادہ کیا کہ اس مینار کو شہید کروا کر بارِ دگر دوبارہ  بنوایا جائے-لیکن آپؒ نے فرمایا کہ اس طرح مسجد کے مینار کو شہید کرنا بے ادبی کے زمرے میں نہ آئے؛ حالانکہ آپ خود علم رکھتے تھے لیکن آپؒ نے جماعت میں شامل علماء کرام مثلاً مفتی اشفاق احمد صاحبؒ، مفتی صالح محمد صاحب ؒ اور دیگر مفتیان کرام سے مشورہ طلب کیا کہ جو مینار بن چکا ہے یہ خوبصورتی اور مضبوطی میں ویسا نہیں جیسا کہ ہم چاہتے تھے؛ اس لئے مَیں اس سے زیادہ خوبصورت اور مضبوط مینار بنوانا چاہتا ہوں تو کیا یہ مینار شہید کیا جاسکتا ہے؟ علماء کرام بھی آپ کی اس احتیاط اور مسجد پاک سے محبت پر حیران رہ گئے تو انہوں نے کہا کہ بالکل یہ کیا جاسکتا ہے-علماءکی رائے کے بعد آپ نے حکم جاری فرمایا کہ اس مینار کو شہید کر کے نئے مینار بنوائے جائیں جو اس سے زیادہ خوبصورت بھی ہوں اور مضبوط بھی‘‘-

درج بالا وہ آداب ہیں جو سر دست یاد تھے اور یہاں رقم کرنے کی سعادت حاصل کی وگرنہ آپ کا ہر قول، ہر عمل آپ کے وجود کی ہر حرکت اور ہر سکنت آداب میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھی اور آپ اس قول کی عملی تصویر تھے کہ’’تصوف مکمل آداب کا نام ہے‘‘-کیونکہ ادب ہی سے صوفیاء کو شناخت کیا جاتا ہے-اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر