فکرِسلطان الفقر سیمینار

فکرِسلطان الفقر سیمینار

فکرِسلطان الفقر سیمینار

مصنف: ادارہ اکتوبر 2017

صدارت: صاحبزادہ سُلطان احمد علی

(چیئرمین ’’مسلم انسٹیٹیوٹ‘‘،چیف ایڈیٹر ’’ماہنامہ مرأة العارفین انٹرنیشنل‘‘، مرکزی سیکرٹری جنرل ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘)

 

 

مہمانانِ گرامی:  (Panelists )

علامہ میاں محمدمعین الحق:(دیرینہ و قریبی ساتھی، میانوالی)

ملک نور حیات خان: (دیرینہ و قریبی ساتھی، کلر کہار)

قاضی محمد اظہر ایڈوکیٹ:(دیرینہ تحریکی ساتھی، سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ایبٹ آباد)

علامہ میاں محمد عمران: (دیرینہ و قریبی ساتھی،جہلم)

ڈاکٹر عاصم فہیم : (اسسٹنٹ پروفیسر اسلامی بینکنگ اینڈ فنانس،یونیورسٹی آف لاہور)

چوہدری سجاد علی: (دیرینہ و قریبی ساتھی، کوآرڈینیٹر العارفین گروپ آف پبلی کیشنز ، ممبر ایڈیٹوریل بورڈ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل)

ماڈریٹر:  (Moderator)

احمد القادری:(ریسرچ ایسوسی ایٹ ، مسلم انسٹیٹیوٹ، اسلام آباد)

 

ابتدائیہ کلمات:ازصاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

واجب الاحترام بھائیو، بزرگو، نوجوان ساتھیو ! انتہائی قابل احترام پینل کے ممبران  السلام ُعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

مَیں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کے حضور ہم سب سر بسجود، روح بعجز ہیں کہ اس نے ہمیں ایک انسان، ایک مسلمان اور ایک پاکستانی پیدا کیا-پاکستانی ہونا اور اس کے نظریہ کا امین ہونا یہ ایک غیرمعمولی بات ہے کیونکہ پاکستان کی جو تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے تاریخِ اسلام میں وہ بے نظیر  و بے مثال ہے-اس لئے آج کا دن تاریخِ اسلام کے اہم ترین ایام میں سے ایک ہے کہ آج کے دن یہ مملکتِ خداداد معرضِ وجود میں آئی جس کا تصور بھی ایک درویش، ایک فقیر اور ایک مردِ قلندر نے پیش کیا اور اسے عملی جامہ بھی ایک درویش نے پہنایا کیونکہ وہ دونوں درویش اپنے وقت کے صحیح مومن اور مردِ مجاہد تھے-آپ دیکھتے ہیں کہ پوری تاریخ میں جب بھی کبھی ’’religious status quo‘‘کے مفادات کوزِک پہنچتی ہے تو اس سٹیٹس کو کے نمائندے چیختے اور چلاتے ہیں دھاڑتے ہیں اور پھنکارتے ہیں-بقول علامہ اقبال ؒ:

در کلیسا ابن مریم را بدار آویختند!

 

 

مصطفےٰ از کعبہ ہجرت کردہ با اُمّ الکتاب![1]

’’اہلِ کلیسا نے ابن مریمؑ کو صلیب پر لٹکا دیا اور جنابِ رسول (ﷺ) کو کعبہ سے اُم الکتاب کے ساتھ ہجرت کرنا پڑی‘‘-

یعنی جہاں پر کوئی بھی حق و صداقت کی بات کرتا ہے تو وہاں کا حکمران طبقہ ( ruling elite) اُن کو جینے نہیں دیتا کیونکہ وہ تلوار و نیزے اور خنجر و چاکو لے کر ان کے پیچھےپڑ جاتے ہیں- اس لئے مجھے قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ میں بھی مومنانہ صفت  اور صداقت کا پہلو نظر آتا ہے کیونکہ ان کے وقت کا بھی جو’’religious status quo‘‘، تھا وہ انگریز کی گود میں کھیل رہا تھا اور ہندوستان میں کانگرس کے مفادات کا محافظ تھا-جب اُن انگریز نواز کانگریسی مُلاؤں کے مفادات پر جس طرح علامہ اقبال ؒ کے اشعار نے’’فلائنگ کک‘‘ماری اور جس طرح قائد اعظم ؒ نکی شمشیرِ فکر نے اُن کی جڑ کاٹی تو وہ اپنے فتووں کی چھریاں ، برچھیاں اور چاقو لے کر ان مرد قلندروں کے در پے ہوگئےکیونکہ ہر ایرے غیرے کے پیچھے یہ مُلاں نہیں پڑتے-جس کی جتنی سخت ضربِ قلندری ہو یہ اتنی شدت سے اس کے پیچھے پڑتے ہیں اس لئے پاکستان اور اس کے  نظریہ کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس دیس کے کانگریسی مُلاؤں  نے اس کی مخالفت کی تھی-

مزید اسی دن ہمارےمرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت ،سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب  (قدس اللہ سرّہٗ)اس دنیامیں جلوہ فرما ہوئے- بطور ایک سلسلۂ طریقت سے نسبت رکھنے کے، پاکستان کے لئے جو ہمارا سب سے بڑا ’’سورس آف انسپائیریشن‘‘ ہے وہ ہمارے مرشد کریم کی ذاتِ گرامی ہےجنہوں نے ہمیں پاکستان کا فہم،پاکستان کی شناخت اور پاکستان کے تصور سے آشنائی عطا کرتے ہوئے یہ بتایا کہ اس ملک کا جو ایک ’’روحانی تصور‘‘ (Divine design) ہوتاہےاُس میں پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے-یہ الگ بات ہے کہ اس ملک کے غیر مخلص حکمرانوں کی وجہ سے سفرکے اعتبار سے آپ کے ملک کا پاسپورٹ دنیا کا دوسرے نمبر پر سب سے بدترین پاسپورٹ تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا کی ’’سٹریٹیجک ڈسکشنز‘‘میں پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہوئی-پاکستان اپنی اُسی ’’جیو سٹریٹیجک امپورٹنس‘‘ کے ساتھ موجود ہے- ہمارے مرشد کریم نے پاکستان کے ’’ڈیوائن ڈیزائن‘‘ سے ہم  کو آگاہ فرما کر ہمیں ایک مشن و نظریہ دیا، ایک راستہ دکھایا جو ایک صحیح ، سیدھا، سچا، معتدل اور ہدایت پر مبنی راستہ ہے-

آج کے اس سیمینار میں حضور مرشد کریم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ) کی ذاتِ گرامی کی فکر، آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی شخصیت اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی جو روحانی کرم فرمائی ہے اس کے کئی مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کے لئے بہت ہی معزز و محترم شخصیات تشریف فرما ہیں- جن میں میاں معین الحق صاحب جن کا تعلق کمرمشانی ضلع میانوالی سے ہے، بنیادی طور پر یہ ایک عالمِ دین ہیں اور اصلاحی جماعت کے بالکل آغاز سے ہی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں- جماعت میں علمی و فکری جگہ پر میاں صاحب کی خدمات اور کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں کیونکہ اِن کو حضور مرشد کریم کے انتہائی معتمد ساتھیوں میں رہنے کا شرف حاصل ہے- مزید جماعت کے مختلف مواقع پر جو بڑے بڑے مراحل پیش آئے ان کی بنیادی مشاورت میں  بھی میاں صاحب کی بہت اہم ذمہ داریاں ہمیشہ سے رہی ہیں-

ان کے بعدقاضی محمد  اظہر ایڈوکیٹ صاحب تشریف فرما ہیں جن کو کئی حوالوں سے حضور مرشد کریم سے قریبی نسبت حاصل ہے- آپ ’’پریکٹیکل پولیٹیشن‘‘ بھی ہیں اور ایبٹ آباد ’’بار ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر بھی رہے ہیں-جماعت کی بہت سی کاوشیں خاص کر ’’سعی اتحاد امت‘‘ کا جو سلسلہ حضور مرشد کریم نے شروع فرمایا اس میں قاضی صاحب نے بہت بھر پور کردار ادا کیا-

اُن کے ساتھ ہماری ایک بہت ہی ’’یونیک‘‘ شخصیت، جناب ملک نور حیات خان اعوان  صاحب تشریف فرما ہیں اور مَیں یہ اعزاز سمجھتا ہوں کہ وہ  نا چیز کی درخواست پر اپنی جسمانی اور سفری تکلیف کے باوجود کلر کہار سےسفر فرماکر بطور خاص اس پروگرام میں تشریف لائے ہیں- ماہنامہ مرأۃ العارفین انٹرنیشنل میں  تمام قلبِ مومن کے مضامین ملک نور حیات خان کے نام سےشائع ہوئے ہیں اور ملک صاحب کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ انہوں نے سلطان العارفین حضرت سلطان  باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کے خانوادہ کی تقریباً پانچ (5)پشتوں کی زیارت کی ہے-جن میں  بہت ہی معتبر اور جید بزرگوں کی خدمت میں حاضر رہنے کا انہیں موقع میسر آیا ہے- ایک لفظ ہمارے ہاں اُردو اور پنجابی میں بہت مشہور ہے جس کو آپ بہت اچھے طریقہ سے سمجھتے ہیں ،مَیں سمجھتا ہوں کے حضور مرشد پاک کی سنگت میں وہ تین چار لوگ جن پہ واقعتاً اس لفظ کو منطبق کیا جاسکتا ہے اُن  میں سرِ فہرست ملک صاحب ہیں اور وہ لفظ ہے’’لاڈلہ‘‘-کیونکہ حضور مرشد کریم کی خدمت میں ان کو ایک بہت ہی لاڈ، پیار اور قرب میسر تھا-مزید ملک صاحب کی جماعتی اہمیت یہ ہے کہ اصلاحی جماعت کا جو اوّلین پرچم تھااس پرچم کا ڈیزائن اور اس ڈیزائن کی تحریری صورت میں’’جسٹی فکیشن‘‘سب سے پہلے ملک نور حیات خان صاحب نے پیش کی  کیونکہ ملک صاحب اس پرچم کی کمیٹی کے سرکردہ رکن تھے اس لئے ان کی نگرانی میں اصلاحی جماعت کا پہلا پرچم کلر کہار میں تیار ہوا اور اس وقت ان کا کتابچہ ’’ہمارا پرچم‘‘ کے نام سے شائع  بھی ہوا-

ملک صاحب کا اُس وقت یہ تعارف تھا کہ وہ ایک پولیس انسپکٹر ہیں-ایک دفعہ اُچھالی میں حضور مرشد کریم کے پرانے ڈیرہ پاک  کے شمالی طرف اس کے عقب کے میدان میں اجتماع تھا تو وہاں ملک صاحب کو سٹیج پر بلانے کے لئے یہ اعلان ہوا کہ ملک نور حیات خان انسپیکٹر پنجاب پولیس خطاب فرمائیں گے-ہمارے استاد محترم حضرت شیخ القرآن مولانا  منظور احمد ؒ آف نواں جنڈانوالہ بعد میں کہنے لگے کہ جب میں نے سنا کہ کوئی پولیس والا خطاب کرنے آیا ہے تو میں نے سوچا کہ وہ ضرور پولیس کی وردی میں ہوگا لیکن جب ملک صاحب کو میں نے دیکھا کہ  وہ تو ایک بالکل جٹ آدمی تھے، سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی میں تو فکر مند ہو گیا کہ حضرت صاحب نے کیسے بندےکو سٹیج پر بلالیا ہے-لیکن مَیں پولیس والے کی باتیں سُن کر حیران رہ گیا کہ ہماری پولیس میں ایسے ذوق و شوق والے بندے بھی موجود ہیں-’’حافظ شیرازی‘‘ کا نام آپ نے سنا ہوگا، اُن کا دیوان فارسی لٹریچر کا شاندار ترین دیوان ہے-ملک نور حیات خان صاحب کی ایک خوبی  یہ بھی ہے کہ یہ پولیس میں رہنے کے باوجود بھی دیوانِ حافظ کے حافظ ہیں اور انہوں نے حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) کی بکثرت کتب کا مطالعہ کیا ہے- ان کے والدین اور آباؤ اجداد کی بھی اسی طرح کڑی بہ کڑی نسبت سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) تک جاتی ہے -

ان کے ساتھ میاں محمد عمران صاحب تشریف فرما ہیں جو کہ ایک  مستند عالمِ دین ہیں اور حضور مرشد کریم (قدس اللہ سرّہٗ) کےانتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ایک  ہیں-مجھےیہ شرف حاصل ہے کہ حضور جانشین سلطان الفقر سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس)، بندہ ناچیز اور میاں محمد عمران صاحب ہم مدرسہ میں اکٹھے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کرتے رہےہیں-میاں صاحب کا تعلق کھوہار سے ہے اور ان کے والد محترم میاں محمد عبد اللہ صاحب ؒ خود بھی عالمِ دین اور صاحبِ مسند تھے-ان کےوالدِ گرامی کی نسبت سےایک جملہ میرے دل پر نقش ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی طالب اور سالک کےلئے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوتا کہ حضور مرشدِ کریم سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب  (قدس اللہ سرّہٗ)نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ ایک دو طالبانِ مولاجنہوں نے میرے دل کو خوش کیا ہے ان میں ایک میاں محمد عبد اللہ صاحب ؒ ہیں‘‘-بہت سے ساتھی جانتے ہیں کہ حضور مرشد کریم اپنے آستانہ عالیہ کے علاوہ یعنی  شہبازِ عارفاں حضرت سلطان باھو  (قدس اللہ سرّہٗ)، شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبد العزیز  (قدس اللہ سرّہٗ) اور حضور پیر بہادر علی شاہ  (قدس اللہ سرّہٗ) کےدربارِ عالیہ کے علاوہ آپ کسی جگہ بھی رسوماتِ اعراس کی تقریبات مثلاً غسل، چادر پوشی اور گُل پاشی میں شرکت بہت ہی کم کرتے تھے –لیکن آپ خود میاں محمد عبد اللہ صاحب ؒ کے مزار پر تشریف لے جاکر عرس کی صدارت فرماتے اوررسوماتِ عرس اپنےہاتھوں سے سر انجام دیتے-اس لئے میاں صاحب  اور ان کے گھرانے کو یہ سعادت نصیب ہے کہ ان کو حضور مرشد کریم کی بہت قربت میں رہنے کا موقع نصیب آیا ہے-

اس کے ساتھ ڈاکٹر عاصم فہیم صاحب تشریف فرما ہیں جو کہ پنجاب یونیورسٹی آف لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر آف اسلامک بیکنگ اینڈ فنانس  کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں-جماعت کے حوالے سے بہت سے ساتھیوں نے حضور مرشد کریم  کی شفقت و مہربانی کو دیکھا  ہے آپ (قدس اللہ سرّہٗ) بچوں سے خصوصی شفقت فرماتے تھے اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا بہت بچپنا تھا جب ان کو حاضری نصیب ہوئی اور ان کا حضور مرشد کریم سے تعارف ہوا جس کی وجہ سے ان پر حضور مرشد کریم کی بہت ہی خصوصی کرم نوازی ہے-

ان کے ساتھ چوہدری سجاد علی صاحب تشریف فرما ہیں جنہیں ایک طویل عرصہ حضور مرشد کریم کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا ہےاور کئی طویل اسفار میں حضور مرشد کریم کی بارگاہ کی صحبت اور سفر میں ڈرائیونگ کا موقع بھی میسر رہا ہے-خاص کر ’’تنظیم العارفین‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کاجو پہلا ونگ تھا اس میں جتنی بھی ٹیکنیکل چیزیں، ڈاکیومینٹیشن کے حوالہ سے اور باقی دیگر چیزوں کے حوالہ سے وہ چوہدری صاحب کے ذمہ تھیں -چوہدری صاحب کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ جب سے جماعت کا سیکورٹی شعبہ  قائم ہوا ہے اس سیکورٹی شعبہ کی سربراہی اور بنیادی معاونت شروع سے آج تک ان کے ذمہ رہی ہے- اس کے علاوہ بھی چوہدری صاحب کو بہت سی سعادتیں حضور مرشد کریم کی شفقت و مہربانی سےہمیشہ سے میسر رہی ہیں-

آج کے اس پینل کا یہ تو وہ مختصر تعارف تھا جو مَیں ضروری سمجھتا تھا کہ آپ سے کروا دوں کیونکہ آج جوچیز ہم یہاں سے حاصل کریں گے وہ ہمارے لئے ایک رہنمائی کا سبب بن سکتی ہےکیونکہ یہ چیز کتابوں سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ سینے کے ذریعے ہمارے دلوں میں منتقل ہوتی ہے- یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ نے کسی فلاسفر، شاعر، ادیب یا کسی آرٹسٹ شخصیت کا نام اور کام سنا ہو یا آپ نے ان کے بارے میں جتنا مرضی پڑھ رکھا ہو ، لیکن آپ نے ان سے ایک بار ملاقات کی ہےتو آپ ان کے تمام پڑھی ہوئی فکر کا تعارف ایک طرف رکھتے ہیں اور ان سے ایک لمحہ بھر کی ملاقات آپ ایک طرف رکھ کر یہ کہتے ہیں کہ مجھے فلاں شخصیت سے ایک بار مصافحہ کا اتفاق ہوا-آج نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک پروگرام تھا جس میں بہت سے تحریکِ پاکستان کے کارکن تشریف فرما تھےجو کہ ایک بہت بڑا ’’سورس آف انسپائریشن‘‘ ہے-ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جنہوں نے قائد اعظم ؒ کے ساتھ ایک باضابطہ وقت گزارا ہومگر ان کی اہمیت یہ ہےکہ وہ ان جلسوں میں ایک بچے اور طالبعلم کے طور پر شریک ہوتے تھےجن جلسوں میں قائد اعظم ؒ خطاب فرمایا کرتے تھے-یعنی وہ قائد اعظم ؒسے ملے نہیں ہیں اور عین ممکن ہےکہ ان کا مصافحہ بھی نہ ہوا ہو لیکن انہوں نے قائد اعظم کو دور سے دیکھا ہے-اس لئے ایسی شخصیت کی ایک جھلک  دیکھنا یا اُن سے مصافحہ کرنا ان کے طویل مطالعہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے-کیونکہ علمِ نفسیات میں ایک چیز کو بڑی اہمیت حاصل ہے جسے وائبز(wibes) کہتے ہیں مثلاً آپ کہتے ہیں کہ مجھے فلاں شخصیت سے پوزیٹو وائبز آئیں یا آپ کو فلاں شخصیت سے منفی وائبز آئیں-یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ  :

“There is something in your body which travel through space and light”.

’’آپ کے وجود میں کچھ ایسا ہے جو خلاء اور روشنی  میں  سفر کرکے دوسرے کے وجود میں منتقل  ہوتا ہے‘‘-

یعنی کچھ ایسا ضرور ہے کہ جس کی تاثیر آپ کے اوپر مرتب ہوتی ہے آپ کے جسم  سے کچھ شعاعیں اور کرنیں ایسی نکلتی ہیں جنہیں دیکھا اور چھوا نہیں جا سکتا مگر انہیں محسوس کیا جاسکتا ہے-اس لئےیہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے نہ صرف حضور مرشد کریم حضور سلطان الفقر حضرت سخی سلطان  محمد اصغر علی (قدس اللہ سرّہٗ) کی ذاتِ اقدس کی زیارت کی  اور آپ(قدس اللہ سرّہٗ)  سے مصافحہ و معانقہ کیا ہے بلکہ انہوں نے حضور مرشد کریم کی خدمت میں رہ کر آپ(قدس اللہ سرّہٗ)   کی کیفیات کو دیکھا ہے- یعنی انہوں نےحضور  مرشد کریم کے اُٹھنے اور بیٹھنے کو، چلنے اور پھرنے کو، بولنے اور کلام فرمانے کو، کھانے اور پینے کو،آپ کے آرام فرمانے اور معلاماتِ عبادت و وظائف و تصورکو دیکھا ہے- انہوں نے حضور مرشد کریم کے درسِ فیوض و برکات اور فرمودات و ارشادات سے براہِ راست اکتسابِ فیض کیا ہے-اس لئے ہمارے لئے خوش نصیبی کی بات ہے کہ وہ وائبز جو حضور مرشد کریم کے جسدِ اطہر، قلبِ اطہراور آپ کی فکر مبارک سے براہِ راست انہوں نے اپنے وجود میں سمیٹی ہیں، یہ یہاں ہمارے وجود میں اُن وائبزکو منتقل کرنے کے لئے بیٹھے ہیں-مَیں ذاتی طور پر اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ آپ کی صحبت کی جو تاثیر ہےوہ طویل مطالعہ کی تاثیر سے بڑھ جاتی ہے- مجھے خود شیخ سعدی (﷫) کا ایک قطعہ بہت پسند ہےجس میں حضرت شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ:

گِلے خوشبوئے در حمّام روزے
بدو گفتم کہ ’’مشکی یا عبیری‘‘؟
بگفتا! من گِلے نا چیز بودم
جمالِ ہمنشیں در من اثر کرد

 

رسید از دستِ محبوبی بہ دستم
کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم
و لیکن مدتے با گُل نشستم
و گرنہ من ھُماں خاکم کہ ھستم

’’ایک روز ایک حمام میں ایک محبوب کے ہاتھوں سے اُتری ہوئی کچھ مٹی مجھ تک پہنچی تو وہ بہت ہی خوشبو دارتھی- مَیں نے اُس مٹی سے سوال کیا کہ تم مُشک ہو یا عنبر ہو؟ کیونکہ تمہارے اندر موجود دلکش خوشبو نے مجھے مست کر دیا ہے- اُس (مٹی)نے کہا کہ میں تو ایک ناچیز سی مٹی تھی لیکن ایک مُدّت تک ایک پھُول کی صحبت میں رہی ہوں- میرے ہمنشین کے جمال نے مجھ پر اپنا اثر فرمایا جو مجھ میں یہ خوشبو پیدا ہو گئی وگرنہ مَیں تو وہی مٹی ہی ہوں جو پہلے تھی‘‘-

آپ کو بتاؤں کہ پہلے زمانہ میں اشرافیہ حمام میں جاتے تھے جیسے آج بیوٹی پارلر یا بیوٹی سیلون ہیں ویسے حمام ہوا کرتے تھے-جس طرح اب جیسے شیمپو، یا دیگر کاسمیٹکس کی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں  اس وقت خوشبو دار قسم کی ایک خاص مٹی ہوتی تھی جس سے بدن کو دھویا جاتا تھا - یعنی اس مٹی کو ایک خوشبو دار بدن کی صحبت میسر آئی جسے شیخ سعدی ؒ پھول سے تعبیر کرتے ہیں تو اس مٹی کی تاثیر تبدیل ہوگئی ، خوشبو تبدیل ہو گئی -اگر مٹی پھول کی صحبت میں بیٹھ جائےتو مٹی کی خاصیت تبدیل ہوجاتی ہے اسی طرح  اگر ایک ادنیٰ، گنہگار آدمی کسی مردِ کامل کی بارگاہ میں بیٹھ جائےتو مردِ کامل کی صحبت ایک ادنیٰ آدمی پر وہی تاثیر پیدا کرتی ہےجو پھول مٹی کے اوپر پیدا کرتا ہے-

اسی طرح مولانا رومی ؒ بھی اپنے شیخ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

شکر ایزد را که دیدم روی تو
چشم گریانم ز گریه کند بود
بس بگفتم کو وصال و کو نجات
جستجویی در دلم انداختی
خاک را هایی و هویی کی بُدی

 

یافتم ناگه رهی من سوی تو
یافت نور از نرگس جادوی تو
برد این کو کو مرا در کوی تو
تا ز جستجو روانم در جوی تو
گر نبودی جذب
های و هوی تو

’’خدا کا شکر ہے کہ میں نے آپ کا چہرہ دیکھا ، کہ اچانک میں نے تیری طرف آنے کا راستہ پا لیا-رو رو کے میری آنکھیں  کمزور ہو گئی تھی لیکن آپ کی جادوئی آنکھوں سے روشنی نصیب ہوئی-مَیں  نے کہا اے وصال و نجات تو کہاں ہے؟ میری (پرندے کی طرح) یہ کُو کُو مجھے تیرے دروازے تک لے آئی -آپ نے میرے دل میں جستجو داخل کر دی اور وہ تلاش مجھے آپ کی ندی کے کنارے تک لے آئی- (میں تو ایک بے نَم تودۂ خاک تھا) مجھ خاک میں ہنگامِ ہاو ھُو کیسے پیدا ہو سکتا تھا اگر تیرے ہا و ھُو کا جذب مجھے نصیب نہ ہوتا  ‘‘-

بہر کیف! اس پروگرام میں شرکت ہمارے لئے سعادت ہے اور مَیں اس سعادت کو حاصل کرنے میں اپنے تمام ان معزز و محترم بھائیو اور بزرگوں اور آج کے مہمانانِ گرامی  اور تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ سفری مشکلات اور تکالیف اٹھاکر ہمارے ساتھ اس تقریب میں شریک ہوئے- لیکن آپ کا بھی بہت شکریہ کہ آپ اس تقریب میں تشریف لائےاور آپ کو بہت مبارک بھی کہ آپ اس تقریب میں تشریف لائے-

ماڈریٹر:

جنابِ صاحبِ صدر نے نہایت خوبصورت گفتگو فرماتے ہوئے فصاحت و بلاغت سے نشست کے اغراض و مقاصد بیان فرما دئیے ہیں- اب مہمانانِ گرامی جن کا تعارف ہو چکا ، اُن میں سے جناب میاں محمد معین الحق صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات سے حاضرین کوآگاہ کریں-

میاں محمد معین الحق صاحب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سب سے پہلے یوم سلطان الفقر اور یوم آزادی کے اس عظیم دن کے حوالہ سے مَیں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کیونکہ یہ ہم سب کے لئے بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی کا دن ہے-اس لئے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اس دن میں ایک ایسا خطہ عطا کیا جس میں ہم آزادانہ طور پر اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں-افسوس! کہ جس  مقصدکے لئے یہ خطہ اراضی ہم نے حاصل کیا تھا وہ جوں کا توں رہ گیا ہے-لیکن حضور مرشد کریم  بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ)نے یہ مہربانی و کرم نوازی فرمائی کہ آپ نے یہ جماعت تشکیل دے کر پاکستان کے حصول کا مقصد لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کیا- جس کا یہ نتیجہ ہےکہ آج ہر انسان کے دل میں پاکستان اور بانیٔ پاکستان کی محبت بھی موجود ہے-ورنہ اس سے پہلے جو حالات تھے وہ یہی تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بارے میں لوگوں کی یہ سوچ تھی کہ پتا نہیں یہ مسلمان بھی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ایک مخصوص طبقہ نے مذہب کو بُنیاد بنا کر اپنی کانگریس نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت قائد اعظم پہ الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے  مگر یہ اِصلاحی جماعت کا ایک عظیم کارنامہ ہے کہ بانیٔ پاکستان کی شخصیت و افکار پہ عوام میں بہت بڑی رہنمائی دی گئی ہے - ایک دن مَیں نے شیخ الحدیث صاحب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان کا ایک یہی عمل ہی کافی ہے کہ انہوں  مسلمانوں کے لئے مملکت ِ خداداد ’’پاکستان ‘‘ حاصل کیا ہے-پھر اگر آپ ظاہری صورت میں دیکھنا چاہیں تو جتنا احترام مزارِ قائد کا ہے اور کسی کا نہیں ہے- اس لئے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک عظیم مسلمان تھے اور انہوں نے مسلمانوں پر احسان کیا ہے-لیکن اصل میں اسلام  کی حقیقت مساوات، اخوت اور آزادی ہمارے عام ذہنوں میں نہیں تھی کیونکہ ہمارے ذہنوں میں تو اسلام صرف رسومات  تک ہی محدود تھا بیسویں صدی میں حضرت قائد اعظم اور حضرت علامہ اقبال نے یہ واضح کیا کہ اسلام تو کسی بھی فلسفۂ زندگی سے زیادہ وسیع معنی رکھتا ہے - اکثر یہ جو نعرہ لگایا جاتا ہے کہ:

اولیاء اللہ کا فیضان

 

پاکستان پاکستان

اس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا کہ یہ کیا ہے؟ اس طرح  اولیاء اللہ کا فیضان حاصل کرنےکے متعلق اپنے بیعت ہونے کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں:

’’قاری محمد نصر اللہ صاحب اور قاری محمد فضل کریم صاحب کےذریعے میرا اصلاحی جماعت سے رابطہ ہوا کیونکہ یہ دونوں میرےقرآن کریم پڑھنےکے ساتھی تھے- جب مَیں دورہ حدیث مکمل کر کے واپس آیا تو یہ جماعت کے ساتھ کمر مشانی آئے انہوں نے مجھے دعوت دی کہ ہمارے مرشد کریم ہیں جو تصور اسم اللہ ذات عطا کرتے ہیں اور ہم وہیں پر رہتے ہیں،آپ بھی آئیں-مَیں نے ان کو معذرت کرتے ہوئے یہ کہا کہ جو اولیاء کرام کی کتب میں لکھا ہے یاجو کچھ اُن سے ملنا تھا وہ طریقہ کار اب نظر نہیں آتا-لہٰذا اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں  تو دین سیکھ کر بغیر کسی لالچ کے دین کی خدمت کرتے رہیں،   بس یہی کافی ہے- لیکن میرے بار بار اِنکار پر بھی انہوں نے مجھے باربار اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ ایک مرتبہ آکرصرف  زیارت کرلیں کیونکہ مَیں نے پہلے بہت سے پیر دیکھے تھے  تو میں نے کہا نہیں بھائی مَیں اس طرف نہیں آتاآپ مجھے چھوڑدیں میں ٹھیک ہوں - اِس دوران جماعت کے کچھ اور ساتھیوں سے بھی مُلاقات ہوئی -بہرحال وہ مجھے قربانی کی عید کے دوسرے دن  مجبور کرکے لے آئےتو دوپہر کےوقت وہاں پہنچ کر حضور مرشدکریم سے  ملاقات کی-دیکھے تو بہت بزرگ تھےلیکن جو ابھی صدرِ محفل فرمارہے تھے کہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کو دیکھنے سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جو نظر نہیں آتیں لیکن وہ اثر کرجاتی ہیں-معاملہ کچھ ایسا ہی ہواکہ آپ کو دیکھا تو دیکھنے میں ایسا محسوس ہوا کہ ایسا شخص زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ حضور  مرشد کریم جیسا کوئی نہیں ہے-نہ آپ کی گفتار و کردار میں اور نہ ہی دنیا کی کوئی  چیز آپ سے کوئی بھی مشابہت رکھتی ہے-جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا جو اندازِ گفتگو تھا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ہر ایک آدمی سے تین تین مرتبہ خیریت دریافت کرتے تھے- جتنے ساتھی آپ سے ملاقات  کرتے آپ ہرایک سے پوچھتے کہ خیریت سے ہیں، گھر خیریت ہے سفر ٹھیک ہوا،مجھ سے بھی وہی پوچھا لیکن ایک جملہ اضافی تھا فرمایا کہ :

’’آگئے ہیں اب ٹھیک آگئے ہیں‘‘ -

بس یہ تھوڑی سی گفتگو فرمانے کے بعدآپ نے فرمایا کہ آپ اب آرام کریں ہم بھی آرام کرتے ہیں عصر کے بعد ملاقات ہوگی-لیکن کیفیت ایسی تھی کہ ہمارا دل چاہتا تھا کہ آپ آکر بیٹھیں، ہم دیکھتے رہیں اور آپ باتیں کریں، ہم سنتے جائیں-انتظار کی شدت بڑھ رہی  تھی تو اُس دن آپ بھی معمول سے پہلے آگئےاور جونہی آپ تشریف لائےتو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے مہمان کہاں ہیں-ساتھیوں نے بتایا کہ حضور مرشد کریم تشریف لائے ہیں آپ آجائیں-جونہی آپ کی بارگاہ میں پہنچے تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے عین الفقر شریف اور اسم اللہ ذات منگوایا-عین الفقر شریف مجھے عطا کی اور فرمایا کہ اسے کھول کر پڑھو، مَیں نے پڑھنا شروع کردیا- جب مَیں دو تین لائنز پڑھتا تو اس کے بعد آپ اس کی وضاحت فرماتے اور یہ عمل اسی طرح تین دفعہ ہوا-اس کے بعد اسم اللہ ذات دے کر یہ فرمایا کہ یہ کتاب اور اسم اللہ ذات آپ کا ہے-اس سےپہلے مجھے یہی کتاب اور یہی اسم اللہ ذات حاجی محمد نواز القادری صاحب کمر مشانی میں دے کر آئے تھے-اُس وقت جب مَیں نے اسے کھولا تو میں نے کہا یہ تو پڑھنے کی کتاب ہے ہی نہیں،مَیں نے اسے رکھ دیا- لیکن جب آپ نے وہ کھول کر پڑھوائی اور پھر اس کے متعلق سمجھایا تو اس کے بعد جب ہم واپس گئے تو اس کتاب کو رکھنے کو دل نہیں کرتا تھا دل کرتا تھا کہ بس اس کو پڑھتے جائیں-اس لئےکہ یہ وہ فیضان  کی شعاعیں تھیں جوآپ کے وجودِ اطہر سے نکلیں اور ہم پر اثر کرگئیں-

یہ حقیقت میں ہمارے لئے ایک خاص بات ہے کہ  اللہ رب العزت نے ہمیں اس طرف مائل کردیا کیونکہ اسی جماعت سے ہمیں اسلام کی حقیقت اور ملک پاکستان کے حصول کا مقصد سمجھ آیا کہ اسلام کیلئے ملک پاکستان کیوں لیا گیا ہے-کیونکہ اولیاء اللہ  کی اسی جماعت نے ہمیں مساوات، اخوت اور آزادی سے آگاہ  کر کے ہمارے دلوں کو بغض، عناد، کینہ و تکبر سے پاک کیا کیونکہ یہ جماعت ، پاک لوگوں کی ہے اور اس کا مشن ہی دلوں کو  مختلف برائیوں سے پاک کرنا ہے-اس جماعت کو ’’جماعت پاک‘‘ کیوں کہا جاتا ہے اس کے لئے مَیں ایک مشاہدہ پیش کرنا چاہوں گا جو کہ پہلے واقع کی دوسری کڑی ہے:

ہم آپ سے ملاقات کرنے کے لئے گئے تو صرف ایک دو دن کے لئے تھےلیکن کیفیت یہ بن گئی  کہ ہمیں واپس جانا بھول گیا تھا کہ ہم نے واپس بھی جانا ہے،ہمارے کوئی کام بھی ہیں جن کو ہم نےسر انجام دینا ہے،لیکن ہمیں وہاں سات دن ہوگئے-آپ نے سفر فرمانا تھاتو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نےفرمایا کہ آپ بھی گھر جائیں ہم بھی سفر پر جاتے ہیں اور محرم شریف کی چھ (6) تاریخ کو آپ دربار پر آجانا-دربار شریف ہم کبھی گئے تو نہیں تھے لیکن بہ دلِ نخواستہ ہم گھر تو چلے گئے لیکن وہاں جا کر ہمیں چھ تاریخ کا شدت سے انتظار شروع ہوگیا-جب وہاں پہنچے تو آپ  (قدس اللہ سرّہٗ) نے جماعت کی بات کی کہ میاں صاحب ہماری ایک جماعت ہے آپ اس میں کام کریں- مَیں  چونکہ کراچی میں پڑھتا رہا ہوں وہاں بہت سی تحریکیں اور جماعتیں بنتی  دیکھیں  تھیں جن میں ہر ایک کا اپنا اپنا مفاد تھا، یہاں بھی حضور مرشد کریم نے جماعت کی بات  کی تومیری ناقص عقل کی وجہ سے میرے دل میں فوراًیہ خیال گزرا کہ پہلے بھی بہت جماعتیں دیکھی ہیں اب یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا کیونکہ یہاں اللہ کے نام کا ذکر دیا جاتا ہے اور یہ جماعت کی بات کر رہے ہیں، یہ بات تو ٹھیک نہیں ہےکیونکہ جماعت کا نظام  تو مفاد پر منحصر ہوتا ہےیہ کام الٹ ہوجائے گا یہ تو اپنا مفاد ہے-بس ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ حضور مرشد کریم نے فرمایا کہ میاں صاحب! یہ اللہ پاک کے نام کی پاک جماعت ہے- جو آدمی بھی کسی دنیاوی فائدے کے لئےآئے گا تو یہ اللہ کا پاک نام اس جماعت کو دنیاوی مفاد سے پاک رکھے گی یعنی اس میں کوئی  دنیاوی مفاد نہیں ہوگا اور جو آدمی اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے آئے گا تو فرمایا کہ کام کون کرتا ہے؟مَیں نے عرض کی کہ حضور کام تو سارے اللہ ہی کرتا ہے،پھر آپ نے فرمایا جس کا یہ یقین ہوگا اس کا کوئی کام رہے گا بھی نہیں-یقین کریں کہ جب آپ نے یہ بات فرمائی تو میرے دل میں ایسا محسوس ہوا کہ اس کے علاوہ کوئی جماعت ہےہی نہیں!-

جماعت میں داخل ہونے کے بعد ہم پر بھی ہزاروں سوال ہوئے کہ یہ جماعت ایسی ہوگی، ویسی ہوگی یہ کرے گی وہ کرے گی لیکن ہم بھی ان کو یہی کہتے تھے کہ آپ نے ہم سے جو اعتماد لینا ہے یا جو کچھ لکھوانا ہے لکھوا لیں کیونکہ جو کام بھی اسلام کے مطابق ہے یہ جماعت وہی کام کرے گی اور وہ کام ہرگز نہیں کرے گی جو اسلام کے خلاف  ہو- یقین  کریں کہ حضور مرشد کریم نے جو الفاظ فرمائے تھےکہ دنیا کی خاطر اگرکوئی آئے گاتو یہ پاک جماعت اس کو اپنے اندر نہیں رہنےدی گی،یہ اللہ کا نام اس کو نکال دے گا - اسی کی ترجمانی میں کہنا چاہوں گا کہ اپنی آنکھوں سے بہت سے آدمی دیکھے ہیں جو جماعت میں دنیاوی غرض سے تھے  ہم نے ان کو سمجھایا کہ یہ کام ایسا نہیں ہےآپ اس لئے آئیں کہ اس سے آپ کے دنیاوی مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا-تو بالآخر وہ دُنیا دار لوگ اسم اللہ ذات کی برکت سے جماعت سے علیحدہ ہوگئے-یہی وہ تاثیر ہے جو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) سے شعاعوں کی صورت میں نکلتی تھی جس نے بہت سےلوگوں کی ایسی حالت کو بدلا ہے کہ کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا-اسی شعاعوں سے بدلتی قسمت و کیفیت کا ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:

’’چاچا محمد اسلم خان ہمارے بزرگ ساتھی تھے،اُن کا ایک بیٹا تھا محمد ظفر اللہ-ایک مرتبہ وہ اپنے کسی سے کام سے اُچھالی آئےتو ان کے ساتھ ایک ڈرائیور جو بالکل شراب میں مست رہتا تھا-وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے لئے دو بوتلیں خریدیں ، ایک راستے کے لئے ایک اس کے پاس رکھنے کےلئے- ہم  جتنے ساتھی تھے اُچھالی پہنچ کر ملاقات کے لیے چلے گئے اور اس ڈرائیور کو گاڑی کے پاس چھوڑ دیا-جب ہم ملاقات کے لئے گئے تو وہ ڈرائیور پیچھے سے وضوء کرنے میں لگ گیا- ابھی  وہ وضوء  سے فارغ ہوا تھا کہ اتنی دیر میں ہم بھی ملاقات کر کے واپس آگئے-اس نے ہم سے کہا کہ ٹھیک ہے یار میں گناہگار تو ہوں، کیا میں مسلمان بھی نہیں ہوں ؟ کیا میں مل بھی نہیں سکتا؟ ہم نے اسے کہا چلو آپ کی بھی ملاقات کرواتے ہیں-اس کی ملاقات کروا کے تھوڑی دیر بیٹھے تو ہم نے کہاچلیں تو وہ کہنے لگا نہیں ابھی بیٹھیں-کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جب ہم وہاں سے نکلے،چونکہ  وہ پینے کا عادی تھا تو میں نے اسے کہا کہ بھائی کیا خیال ہے چلو کسی کمرے میں چل کر آپ کی پیاس بجھائیں-اس ڈرائیور نے کہا نہیں بھائی! ایسی ہستی کو دیکھنے اور ملاقات کرنے کے بعد کیا اب بھی مَیں شراب پیوں گا!مَیں اب شراب نہیں پیوں گا - وہ دِن گیا اور آج کا دِن ہے اُس شخص نے کبھی شراب یا منشیات کو ہاتھ تک نہیں لگایا ، کسی شیخِ کامل کا یہ کمال میں سِیَر ت و تذکار کی کتابوں میں تو پڑھ رکھا تھا مگر اس کا حق الیقین حضور مرشد کریم بانی اِصلاحی جماعت قدس اللہ سرّہٗ کی خدمت میں آکر ہوا - تو یہی وہ حقیقت ہے کہ ایسی شخصیات سے نکلی شعاعیں انسان کے ظاہری اور باطنی وجود کو پاک کردیتی ہیں جوکہ  مطالعہ سے ممکن نہیں ہے‘‘-

جیسا کہ شیخ رومی ؒ فرماتے ہیں کہ:

یک زمانہ صحبتِ بہ اولیاء

 

بہتر از صد سالہ طاعت ِ بے ریا

’’اولیاء اللہ کی ایک لمحہ کی صحبت ہزار سال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہے‘‘-

یعنی وہ ایک لمحہ جس میں اولیاء کرام کی نگاہِ شفقت سے انسان کے اندرونی معاملات درست ہوتے ہیں وہ مطالعہ سے نہیں ہوتے-یہ ایک حقیقت ہے کہ سلطان الفقر،بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ)نے ہمارے اندر اسلام کی حقیقت یعنی مساوات، اخوت اور آزادی کو اجاگر کیا ہے -کیونکہ یہی وہ مساوات، اخوت و آزادی ہے کہ اصلاحی جماعت میں اکثریت ساتھی مختلف اضلاع سے ہیں لیکن جماعت پاک میں سب ایک ہی جگہ برابر ہیں جس کی وجہ سے انسان کو ظاہری و باطنی صورت میں آزاد ملی-اگر اس سے پہلے کوئی آدمی آزاد تھا تو وہ جسمانی طور پر ہوگا لیکن ذہنی طور پر کوئی بھی آزاد نہیں تھا-ذہنی طور پر وہی انسان آزاد ہے جو حضور مرشد کریم کی صحبت و نگاہِ شفقت میں آگیا ہےکیونکہ جب انسان کے ذہنی تصور بھی اللہ رب العزت کی جانب گئےتو وہ سب دنیا کے جھنجھال سے آزاد ہوگئے-

میرے بھائیو! مرشد کریم نے ہم سب پر ایک مہربانی فرمائی ہےکہ تصورِ اسم اللہ ذات کے ذریعے ہمارے باطن کو پاک کیا-مزید جماعت پاک کے صدور حضرات پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے خصوصی اور انوکھی مہربانی فرمائی ہے-جن کے بارے میں کئی لوگوں کی زبانی سنا ہے کہ حضور مرشد کریم فرمایا کرتے تھے کہ جو میری جماعت کے صدور وہ جن کی تربیت ہوچکی ہے اور وہ شاید دنیاداروں کی نظر میں کسی کام کے نہیں ہونگے لیکن اگر اُن کے باطن  کی حقیقت کھول دی جائےتو وہ بہت بڑے ’’ولی اللہ‘‘ ہیں کیونکہ بڑے بڑے ولی اللہ سے ان کا رتبہ بلند ہے-اس بات کا مشاہدہ مجھے اس طرح ہوا کہ:

’’کراچی سے میرے ایک ہم سبق ساتھی قاری غلام مصطفےٰ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)سے ملاقات کے لئے اچھالی گئے تو مَیں واپس جارہا تھا-انہوں نے وہاں چار دن قیام  کیا تو مجھے بھی دوبارہ جانا پڑا-حضور مرشد کریم کا یہ معمول رہا کہ جتنے دن ہم وہاں رہے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)’’نور الہٰدی‘‘ کتاب منگوا کر مجھے پڑھنے کے لئے دیتےتھے،مَیں اسے پڑھتا،قاری صاحب سنتے اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ) خاموش بیٹھے رہتے تھے-چار دن یہی معاملات رہے،چوتھے دن آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اسے اجازت دی اور فرمایا کہ قاری صاحب ہم آپ کی صحیح  معنوں میں خدمت نہیں کر سکے-قاری صاحب کہنے لگے کہ حضور ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں کہنے کی تو نہیں ہے لیکن پھر بھی کہنا چاہتا ہوں،آپ نے فرمایا ماشاء اللہ کہیں! تو اس نے فرمایا کہ حضور میں حج پرگیا تھا اور جتنا سکون مجھے یہاں ان چار دنوں میں ملا ہے اتنا سکون مجھے وہاں بھی نہیں ملا-اس کے بعد جب ہم اجازت لے کر گاڑی میں بیٹھے تو قاری صاحب کہنے لگے کہ میاں صاحب! یہ پیر نہیں ہیں!پھر خاموش ہو گئے ، تھوڑی دیر بعد کہنے لگے کہ ! مَیں یہ کہناچاہتا ہوں کہ وہ پیر نہیں بلکہ پیر گر ہیں یعنی پیر بنانے والے ہیں‘‘-

حقیقت بات یہ ہے کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے ہمیں جو راستہ  عطا کیا ہے وہ بالکل اسی  طرح ہے جس طرح پاکستان اولیاء اللہ کا فیضان ہے-کیونکہ جو چیز اس جماعت کے مشن میں ہے دراصل وہ اسلام کی حقیقت ہے جس کو ہم نے پروان چڑھانا ہے اور ان شاء اللہ آپ کے فضل و کرم سے پروان چڑھے گا- ان شاء اللہ!پاکستان اسی طرح محفوظ ہے جس طرح حضرت موسیٰ  اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے یتیم بچوں کے خزانے کو دیوار  تعمیر کر کے محفوظ بنایا تھا-مَیں پہلے بھی کئی جگہ یا اپنے سکول میں بیٹھے بیٹھے بھی یہ بات کَہ دیتا تھا کہ یہ پاکستان کہیں نہیں جاتا! جب وہ یتیم جو اس خزانے کا مالک ہے، آجائے گا تو یہ دیوار گرے گی جس سے خزانہ نکلے گا-ان شاء اللہ ہمیں اس یتیم کا انتطار ہے جس یتیم کا ذکر حضور غوث پاک قدس اللہ سرّہٗ نے اپنے ’’رسالہ غوثیہ ‘‘میں بیان  فرمایا ہے کہ وہ یتیم کس طرح کا ہوگا- اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے-

صدرِ محفل:

میاں صاحب کے آخری کلمات پر مَیں ایک شعر عرض کرنا چاہوں گااور یہ دعا بھی ہے جس طرح علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں اس یتیم کے انتظار کا اظہار کیا ہے کہ:

اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا

 

اے فروغِ دیدۂ امکاں بیا[2]

’’(اے نائب حق)اے زمانے کے گھوڑے کے سوارآ(اس دنیا میں اپنا ظہور فرما) تو امکان کی آنکھ کا نور ہے(تجھ سے عمل کے نئے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں)‘‘-

تو جس یتیم کا ذکر میاں صاحب کررہے تھے اسی کو ندا لگاتے ہوئے علامہ صاحب یہ شعر فرماتے ہیں کہ اُس  یتیم کے دیدار سے امکانِ کائنات کو فروغ ملتا ہے اس لئے اب اسے اپنا  ظہور فرمانا چاہیے-اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس دُرِ یتیم کا جلد ظہور فرمائے اور ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان کے حامی و مددگار ہوں-یہ بات میں اکثر مختلف ساتھیوں سے فکری محافل اور مجالس میں کرتا ہوں اور آج آپ سے عرض کرنا چاہوں گا کیونکہ ایسی بات عوامی نوعیت کی محافل میں اپنے اپنے مفاہیم پر مشتمل ہوتی ہے یعنی جس کی جو مرضی ہوتی ہے وہ اس بات کو اس کے مطابق ڈھال کر آپ کے ساتھ منسوب کرتا ہے- لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آقا پاک() کی بشارات ہیں کہ غزوہ ہند اسی سرزمین پر ہونا ہےاور سیدنا امام مہدی علیہ السلام جو صحاحِ ستہ کی مرویات کے مطابق آقا پاک () کی آل میں سے ہوں گے،انہوں نے اور ان کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ظہور فرمانا ہے -اس لئے ہم پر لازم ہےکہ ان کی آمد کے لئےکیا تیاری کرتے ہیں؟کیونکہ یہ ایک ایسا حساس نظریہ ہے جو آپ کی فکر کو بے عملی پر بھی ڈھال سکتا ہے اور عمل پر بھی ڈھال سکتا ہے-لیکن اس میں حسبِ طبیعت بے عملی کی طرف مائل ہو جانے کے بہت امکانات ہیں کیونکہ مَیں نے کئی علماء سے بہت سے ایسے سوالات کئے ہیں کہ اس زمانہ کو جوظہورِ مہدیؑ کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمانے والے ہیں جس کی بشارات شیخ ناظم ؒ جوکہ ترکی کے عصرِ حاضر کے عظیم اولیاء میں سے تھے انہوں نے بھی فرمائیں - لیکن جب ہم علماء سے پوچھتے ہیں کہ یہ ان کے ظہور کازمانہ ہے تو ہماری ذمہ داری کیا ہے؟افسوس! کہ وہ علماء کرام  جو اس نظریہ کے امین ہیں اور اس کا پرچار کرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ اب آپ کی ذمہ داری ختم ہوگئی ہے اب اُن کی ذمہ داری ہے-اگر میری ذمہ داری ختم ہے تو اس  کا مطلب یہ ہے کہ مَیں نے ان کے لشکر میں شامل ہونے کی کوئی مجاہدانہ تیاری نہیں کرنی اور ان کے استقبال کے لئے کسی کو کچھ نہیں کہنا-اس طرح یہ نظریہ آپ کی فکر کو بے عملی پر ڈھالتا ہےلیکن دوسری صورت میں یہ آپ قدس اللہ سرّہٗ کی فکر و عمل کو اس طرح مزید قوت بخشتا ہےکہ میرے مولا! وہ تیرا خاص اور مخفی بندہ ہے جس کے راز کو تیرے رازداروں کے علاوہ کوئی نہیں جانتاجس کے انتظار میں یہ 1400برس گزرے وہ کب ظہور فرمائے گا ؟

شیرِ خدا حضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے سوال کیا گیا کہ قریب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ موت!- عرض کی گئی کہ موت سے بھی زیادہ قریب تر کیا ہے؟ آپ نے فرمایاکہ قیامت!-یعنی موت سے بھی زیادہ قیامت قریب ہے-

آپ اندازہ لگائیں ! کہ ان کے انتظار میں 14صدیاں بیتی ہیں اور ہر صدی کے ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ سوچ رکھے کہ میرے زمانہ کے بعد ان کا زمانہ ہے جس میں انہوں نے ظہور فرمانا ہے،اس لئے مَیں اور میری آئندہ نسل ان کے استقبال کے لئے تیار رہے-اگر وہ ہمارے ہوتے ہوئے ظہور فرمائیں تو ہم اللہ کے حضوراپنے دامن اُٹھا کر یہ دعاکرتے ہیں کہ اے میرے مولا! وہ گمراہی اور فتنوں کا دور ہوگا اس لئے ہمیں یہ توفیق عطاکرنا کہ ہم ان کی صحیح معرفت حاصل کرلیں اور ان کے لشکر میں شامل ہوجائیں-لیکن اگر وہ ہمارے بعد ظہور فرمائیں تو ہماری دعا یہ ہونی چاہیے کہ اے میرے مالک! کسی ایسی جگہ پر قبر عطا فرماناکہ جہاں ان کے لشکر کے گھوڑے گزریں اور ہماری ہڈیوں کی خاک ان لشکر کے گھوڑوں کےسموں سے چمٹ جائے تو یہ بھی ہمارے لئے باعثِ شفاعت و بخشش ہوگی-اپنی اولاد کو بھی اُس وقت کیلئے نسل در نسل تیار رہنے کی تلقین کرنی چاہئے کہ جب سیدنا امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں تو رب کے حضور اُن کی حمایت اور معرفت کی توفیق کی دُعا کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں کذابوں او ر مہدیّت کے جھوٹے دعویداروں کے فتنوں سے محفوظ رکھے -

مگر یہ ذہن نشین رہے  اس دُرِیتیم کا ظہور یقینی ہے جس کا وقت صرف اللہ کے علم میں ہے-ہمارا کام ان کی آمد کے لئے خود کوتیار رکھ کراپنی  آئندہ نسل کے سینوں میں ان کی تیاری کے پیغام کو منتقل کرنا ہے-میاں صاحب کے اس زبردست اور حکیمانہ اشارے پر حکیم الامت ؒ کے اشعار یاد آتے ہیں ، انہوں نے اپنی اردو شاعری میں فرمایا:

دنیا کو ہے اس مہدیٔ حق کی ضرورت

 

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار!

ماڈریٹر:

اب ہمارے اگلے مقرر حضور مرشد کریم بانیٔ اصلاحی جماعت کے دیرینہ اور معتمد ترین ساتھی ہیں میری مراد سابق پولیس انسپکٹر جناب محترم ملک نور حیات خان صاحب ہیں-نہایت ادب سے جناب سے ملتمس ہوں کہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں!

ملک نور حیات خان صاحب:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سب سے پہلے تو مَیں جناب صدرِ محفل اور انتظامیہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھ  جیسے ناچیز کو اس محفل میں اظہارِ خیال کے لئے بُلایا-جہاں تک اس ہستی کا تعلق ہے میرے خیال میں ان کے متعلق بے شمار واقعات ہیں کہ اگر ان کا ذکر شروع کردیا جائے تو وہ ختم ہونے میں نہیں آتے-اس لئے اس ہستی پاک کا مختصر تعارف ان دو باتوں سے بیان کرنا چاہوں گا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی شخصیت کیا تھی؟ اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے یہ جماعت بنا کر ہمیں کیا عطا کیا ؟ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی شخصیت یہ تھی کہ آپ شریعت میں کامل، طریقت میں مکمل اور معرفتِ الٰہی میں اکمل تھے-جب کوئی شخص ان تینوں شعبہ جات مثلاً شریعت ، طریقت او

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر