دستک : قومی استحکام کے راستے اور امیدیں

دستک : قومی استحکام کے راستے اور امیدیں

دستک : قومی استحکام کے راستے اور امیدیں

مصنف: ستمبر 2015

قومی استحکام کے راستے اور امیدیں 

قوموں کی تاریخ میں نشیب وفراز کاآناگردشِ ایام کامعمول ہے جب کہ پختہ شعور اور نظریاتی اساس والی اقوام فراخی وتنگی اورامن وجنگ ایسی صورتِ حال میں اپنے مقاصد نہیں بھولتیں - پاکستان قوم کے پاکیزہ نظریات اوربلند مقاصد اِسے دیگر اقوام عالم سے ممیز کرتے ہیں - قومی تہوار کسی بھی قوم کے جوش وولولہ ،ہمت وحوصلہ اورنظریاتی مقاصد سے لگائو کوناپنے کی معیاری کسوٹی ہوتے ہیں-مملکت پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے حالت جنگ میں ہے اور اندرونی اوربیرونی کریہہ الصورت ملک دشمن عناصر مملکت پاکستان کو ناتواں اورکمزور کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کازورلگارہے ہیں لیکن آفرین ہے پاکستانی قوم اور ریاستی اداروں پہ کہ جو ہرمحاذ پہ مذکورہ ملک دشمن عناصر کوشکست فاش سے دوچار کرنے میں مصروف کار ہیں - پاکستان قوم نے سیکورٹی وجوہات وتحفظات کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے امسال نہایت کروفر و جوش ودبدبہ سے یوم آزادی منایا‘جس سے اقوام عالم میں مملکت پاکستان کی نسبت سے انتہائی مثبت پیغام ترسیل ہوا -۱۴اگست ۲۰۱۵ کو ۵۸:۰۸ بجے صبح ملک کے کونے کونے میں آزادی سائرن بجائے گئے اورعامۃ الناس نے مملکت پاکستان سے کمال درجہ محبت و عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے گھروں ،دفاتر میں اورشاہرائوں پہ اپنی سواریاں روک کرایک منٹ کی خاموشی اختیار کی -پاکستان میں لوگوں نے کراچی تاخیبر گلیوں اوربازاروں کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے آراستہ کیا اورعمارتوں پہ پاکستانی پرچم لہرایا-شہرشہرجلسے وجلوس اور ریلیاں نکالی گئیں اورمجالس مذاکرہ کااہتمام کیا گیا جس میں اہل الرائے نے آزادی کی اہمیت اوروطن سے محبت کاپیغام دیا -یوم آزادی کے موقع پہ جیلوں میں قیدیوں کاجذبۂ شادمانی بھی دیدنی تھا-خدائے رحمن رحیم عروس البلاد کراچی کونظرِ بد سے بچائے کہ جہاں اس بار یوم آزادی کے موقع پہ اہلیان کراچی نے اربوں روپے کی جھنڈیاں، سبز ہلالی پرچم اوردیگر آرائشی سامان خرید کر ،کراچی مارکیٹ میں خریداری کاریکارڈ قائم کیا-شمالی وزیرستان کے باسیوں اورخاص کرخیبر پختون خواہ میں مختلف جگہوں پہ رہائش پذیر آئی ڈی پیز نے جشن آزادی کے حوالے سے حب الوطنی کے جذبہ کو اس درجۂ کمال پہ پہنچایا کہ حاسدینِ پاکستان حسرت ویاس سے تکتے رہ گئے - لاہور میں واہگہ بارڈر پہ پرچم بدلنے کی تقریب ہویامینار پاکستان پہ آتش بازی ،ہردوتقریبات میں زندہ دلانِ لاہور کاجذبۂ جنون جھلکتا رہا-کوئٹہ کہ جہاں آزادی کے جشن میں سینکڑوں فراریوں کے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے اعلان سے نام نہاد علیحدگی پسندوں کاتوڈھڑن تختہ ہی ہو گیا اور غیور بلوچ عوام نے پاکستان سے اپنی فطری محبت کا کھل کر اِظہار کیا - پاک فضائیہ کی تاریخ میں پہلی بار رسالپور اکیڈمی میں نائٹ پریڈ منعقد کی گئی اورپاک فضائیہ کے چاک وچوبند دستوں نے سلامی پیش کی -اسلام آباد میں جشن آزادی کی مرکزی تقریب کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی جس کی صدارت صدر پاکستان نے کی اوروزیراعظم ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی - جس وقت پاکستان کی قومی و سیاسی قیادت کنونشن سنٹر ہال میں داخل ہوئی تو لوگوں نے بھرپور استقبال کیا خاص کر جب افواجِ پاکستان کے سالارِ اعلیٰ جنرل راحیل شریف ہال میں داخل ہوئے تو ’’سویلین شرکأ‘‘ نے انتہائی تپاک اور شدید گرمجوشی سے استقبال کیا اور معلوم ہورہا تھا کہ پاکستانی قوم اپنے ہیروز کا کس طرح استقبال کرتی ہے - 

اکثر عالمی اورمقامی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کی ہے کہ بلاشبہ امسال جشن آزادی کی ہرنہج پہ پاکستانی عوام کی بھرپور شرکت سابقہ روایات سے ہٹ کر انتہائی غیر معمولی تھی -پاکستانی عوام کے احساسِ عدم تحفظ کودورکرنے اوران کو غیر یقینی صورتِ حال سے نکالنے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی غیر معمولی کدّ وکاوِش اورپاک افواج کی قربانیوں اورجاری وساری فتوحات کابڑا ہاتھ ہے -جنرل راحیل شریف کرپشن اوربدعنوانی کے بارے میں زیروٹالرنس رکھتے ہیں ، انہوں نےNLCسکینڈل میں ملوث افسران کوسزادے کر ایک قابلِ تقلید نظیر قائم کی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس کاریاست پاکستان پہ اعتماد بڑھا ہے- اب سیاسی قیادت کوبھی ازخود تطہیرکے عمل سے گزرنا چاہیے اورایسا کرنے سے سیاسی قیادت اورمتعلقہ ریاستی ادارے بھی مضبوطی کی جانب گامزن ہوں گے - عروس البلاد کراچی کے چند ماہ قبل تک حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ،شدت پسندی ،فرقہ وارانہ چپقلش ،نسلی ولسانی تعصب ،ٹارگٹ کلنگز اورکرپشن سمیت ایسا کون ساجرم تھا کہ جس نے اہلیانِ کراچی کی نیندیں حرام نہ کی ہوں لیکن رینجرز کے موجودہ آپریشن سے کراچی کے حالات تیز ی سے معمول کی طرف آ رہے ہیں -جس کی بدولت عید الفطر اوریوم آزادی کے تہواروں پہ کراچی کی مارکیٹ میں خریداری اورفروخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے -حاصلِ گفت گو یہ کہ سابقہ اَدوار کے مقابل آج رینجرز کو کوئی اضافی اختیارات اوروسائل حاصل نہیں لیکن جنرل راحیل شریف کی ایماندارانہ ، مخلصانہ اورپیشہ وارانہ قیادت کافرق بہرحال موجود ہے -اس امر میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ پاکستانی عوام میں جو پذیرائی جنرل راحیل شریف کے حصہ میں آئی ہے ماضی میں اس کی مثال ندارد -پاکستانی قوم جنرل راحیل شریف کے شانہ بشانہ اندرونی اوربیرونی خطرات کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہے - اِس وقت پاکستان کے عوام اس امر پہ متفق ہیں کہ پاکستان کا استحکام اورمضبوطی اسی بات میں مضمر ہے کہ ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی اور قومی مفاد کی خاطر کام کیا جائے ، اب عوام ایسے ہی لوگوں کو چاہتی اور پسند کرتی ہے جو اپنے کردار سے ثابت کریں کہ اُن کے وجود و عمل سے پاکستان کے استحکام اور ترقی کو فائدہ پہنچا ہے - لسانی ، علاقائی ، نسلی ، فرقہ وارانہ اور صوبائیت کے نام پہ سیاست نے پاکستان کو کمزور کیا جس وجہ سے اب عوام کو بھی چوکنا رہنا چاہئے اور ایسے مفاد پرستوں کی پیروی کی بجائے قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کو اپنا قومی و سیاسی ہیرو آئیڈیالائز کرکے آگے بڑھنا چاہئے - 

سانحہ قصور:-

قصور کے ایک نواحی گائوں میں پیش آنے والا شرمناک واقعہ گزشتہ دنوں میڈیا کا موضوع بنارہا- بتایا جاتا ہے کہ حسین والا نامی ایک گائوں میں اوباش اور بدقماش نوجوانوں کا ایک گروپ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بد فعلی کا مرتکب ہوتا، ان کی ویڈیوز بناتا جس کے ذریعے ان کے لواحقین کو بلیک میل کر کے اس سلسلے کو آگے چلایا جا رہا تھا - افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ گھنائونا عمل مسلسل چھ سات سال سے جاری تھا اور کسی کو اس گائوں کے باہر کانوں کان خبر تک نہیں تھی اگر کسی نے تھانے جانے کی ہمت بھی کی تو اوباش پارٹی نے اس کیلئے زندگی جہنم بنا دی- بالآخر کچھ نوجوانوں کی چیخ و پکار کرنے پر میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا تو علم ہوا کہ متأثر ہ بچوں کی تعداد تین سے چار سو کے درمیان ہے جو انتہائی تکلیف دہ اورشرم کی بات ہے ،اگر ایک بچہ بھی ہدف ہوتا تو یہ اذیت ناک تھا ، ایک قتل سے زیادہ اذیت ناک -اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے -اس حوالے سے بہت بھاری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں سے متعلق اپنے اوّلین فرائض سے رُو گردانی کرتے ہیں پھر ذمہ داری عائد ہوتی ہے معاشرے کے باثر افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر جن کی ناک تلے یہ انسانیت سوزی وقوع پذیر ہوتی ہے -

افسوس ہے ہم اس قدر ندامت میں گر چکے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ریپپ جیسے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں -باشعور لوگوں کے خیال میں اس کی اصل وجہ دین سے دوری اور خواہشات کا عام ہونا ہے -والدین اور انتظامیہ کی عدم توجہی سے ایسے درندہ صفت لوگ حرکت میں آکر معاشرے کی بربادی کا باعث بنتے ہیں اورسانحہ قصور جیسے واقعات جنم لیتے ہیں - والدین اور ارباب ِ اختیارکی برابر ذمہ داری ہے کہ اولاد اور معاشرہ کے اصلاحی، تربیتی پہلوئوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ پاکیزہ معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے-

 اربابِ اختیار کو اِس واقعے میں ملوث افراد کو ایسی عبرت ناک سزا دینی چاہیے کہ وہ رہتی دنیا تک مثال بن جائے اور آئندہ کوئی اس مذموم عمل کو سوچنے کی بھی ہمت نہ کرے - ضلع قصور میںمذکورہ سانحہ کے قصورواروں کو بیچ چوراہے لٹکا دینا چاہیے اور تختِ طائوس پر بٹھانے کی بجائے تختہ دار پر لٹکا دینا چاہیے-

قومی استحکام کے راستے اور امیدیں 
قوموں کی تاریخ میں نشیب وفراز کاآناگردشِ ایام کامعمول ہے جب کہ پختہ شعور اور نظریاتی اساس والی اقوام فراخی وتنگی اورامن وجنگ ایسی صورتِ حال میں اپنے مقاصد نہیں بھولتیں - پاکستان قوم کے پاکیزہ نظریات اوربلند مقاصد اِسے دیگر اقوام عالم سے ممیز کرتے ہیں - قومی تہوار کسی بھی قوم کے جوش وولولہ ،ہمت وحوصلہ اورنظریاتی مقاصد سے لگائو کوناپنے کی معیاری کسوٹی ہوتے ہیں-مملکت پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے حالت جنگ میں ہے اور اندرونی اوربیرونی کریہہ الصورت ملک دشمن عناصر مملکت پاکستان کو ناتواں اورکمزور کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کازورلگارہے ہیں لیکن آفرین ہے پاکستانی قوم اور ریاستی اداروں پہ کہ جو ہرمحاذ پہ مذکورہ ملک دشمن عناصر کوشکست فاش سے دوچار کرنے میں مصروف کار ہیں - پاکستان قوم نے سیکورٹی وجوہات وتحفظات کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے امسال نہایت کروفر و جوش ودبدبہ سے یوم آزادی منایا‘جس سے اقوام عالم میں مملکت پاکستان کی نسبت سے انتہائی مثبت پیغام ترسیل ہوا -۱۴اگست ۲۰۱۵ کو ۵۸:۰۸ بجے صبح ملک کے کونے کونے میں آزادی سائرن بجائے گئے اورعامۃ الناس نے مملکت پاکستان سے کمال درجہ محبت و عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے گھروں ،دفاتر میں اورشاہرائوں پہ اپنی سواریاں روک کرایک منٹ کی خاموشی اختیار کی -پاکستان میں لوگوں نے کراچی تاخیبر گلیوں اوربازاروں کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے آراستہ کیا اورعمارتوں پہ پاکستانی پرچم لہرایا-شہرشہرجلسے وجلوس اور ریلیاں نکالی گئیں اورمجالس مذاکرہ کااہتمام کیا گیا جس میں اہل الرائے نے آزادی کی اہمیت اوروطن سے محبت کاپیغام دیا -یوم آزادی کے موقع پہ جیلوں میں قیدیوں کاجذبۂ شادمانی بھی دیدنی تھا-خدائے رحمن رحیم عروس البلاد کراچی کونظرِ بد سے بچائے کہ جہاں اس بار یوم آزادی کے موقع پہ اہلیان کراچی نے اربوں روپے کی جھنڈیاں، سبز ہلالی پرچم اوردیگر آرائشی سامان خرید کر ،کراچی مارکیٹ میں خریداری کاریکارڈ قائم کیا-شمالی وزیرستان کے باسیوں اورخاص کرخیبر پختون خواہ میں مختلف جگہوں پہ رہائش پذیر آئی ڈی پیز نے جشن آزادی کے حوالے سے حب الوطنی کے جذبہ کو اس درجۂ کمال پہ پہنچایا کہ حاسدینِ پاکستان حسرت ویاس سے تکتے رہ گئے - لاہور میں واہگہ بارڈر پہ پرچم بدلنے کی تقریب ہویامینار پاکستان پہ آتش بازی ،ہردوتقریبات میں زندہ دلانِ لاہور کاجذبۂ جنون جھلکتا رہا-کوئٹہ کہ جہاں آزادی کے جشن میں سینکڑوں فراریوں کے ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونے کے اعلان سے نام نہاد علیحدگی پسندوں کاتوڈھڑن تختہ ہی ہو گیا اور غیور بلوچ عوام نے پاکستان سے اپنی فطری محبت کا کھل کر اِظہار کیا - پاک فضائیہ کی تاریخ میں پہلی بار رسالپور اکیڈمی میں نائٹ پریڈ منعقد کی گئی اورپاک فضائیہ کے چاک وچوبند دستوں نے سلامی پیش کی -اسلام آباد میں جشن آزادی کی مرکزی تقریب کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی جس کی صدارت صدر پاکستان نے کی اوروزیراعظم ،آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی - جس وقت پاکستان کی قومی و سیاسی قیادت کنونشن سنٹر ہال میں داخل ہوئی تو لوگوں نے بھرپور استقبال کیا خاص کر جب افواجِ پاکستان کے سالارِ اعلیٰ جنرل راحیل شریف ہال میں داخل ہوئے تو ’’سویلین شرکأ‘‘ نے انتہائی تپاک اور شدید گرمجوشی سے استقبال کیا اور معلوم ہورہا تھا کہ پاکستانی قوم اپنے ہیروز کا کس طرح استقبال کرتی ہے - 
اکثر عالمی اورمقامی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کی ہے کہ بلاشبہ امسال جشن آزادی کی ہرنہج پہ پاکستانی عوام کی بھرپور شرکت سابقہ روایات سے ہٹ کر انتہائی غیر معمولی تھی -پاکستانی عوام کے احساسِ عدم تحفظ کودورکرنے اوران کو غیر یقینی صورتِ حال سے نکالنے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی غیر معمولی کدّ وکاوِش اورپاک افواج کی قربانیوں اورجاری وساری فتوحات کابڑا ہاتھ ہے -جنرل راحیل شریف کرپشن اوربدعنوانی کے بارے میں زیروٹالرنس رکھتے ہیں ، انہوں نےNLCسکینڈل میں ملوث افسران کوسزادے کر ایک قابلِ تقلید نظیر قائم کی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس کاریاست پاکستان پہ اعتماد بڑھا ہے- اب سیاسی قیادت کوبھی ازخود تطہیرکے عمل سے گزرنا چاہیے اورایسا کرنے سے سیاسی قیادت اورمتعلقہ ریاستی ادارے بھی مضبوطی کی جانب گامزن ہوں گے - عروس البلاد کراچی کے چند ماہ قبل تک حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ،شدت پسندی ،فرقہ وارانہ چپقلش ،نسلی ولسانی تعصب ،ٹارگٹ کلنگز اورکرپشن سمیت ایسا کون ساجرم تھا کہ جس نے اہلیانِ کراچی کی نیندیں حرام نہ کی ہوں لیکن رینجرز کے موجودہ آپریشن سے کراچی کے حالات تیز ی سے معمول کی طرف آ رہے ہیں -جس کی بدولت عید الفطر اوریوم آزادی کے تہواروں پہ کراچی کی مارکیٹ میں خریداری اورفروخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے -حاصلِ گفت گو یہ کہ سابقہ اَدوار کے مقابل آج رینجرز کو کوئی اضافی اختیارات اوروسائل حاصل نہیں لیکن جنرل راحیل شریف کی ایماندارانہ ، مخلصانہ اورپیشہ وارانہ قیادت کافرق بہرحال موجود ہے -اس امر میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ پاکستانی عوام میں جو پذیرائی جنرل راحیل شریف کے حصہ میں آئی ہے ماضی میں اس کی مثال ندارد -پاکستانی قوم جنرل راحیل شریف کے شانہ بشانہ اندرونی اوربیرونی خطرات کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہے - اِس وقت پاکستان کے عوام اس امر پہ متفق ہیں کہ پاکستان کا استحکام اورمضبوطی اسی بات میں مضمر ہے کہ ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی اور قومی مفاد کی خاطر کام کیا جائے ، اب عوام ایسے ہی لوگوں کو چاہتی اور پسند کرتی ہے جو اپنے کردار سے ثابت کریں کہ اُن کے وجود و عمل سے پاکستان کے استحکام اور ترقی کو فائدہ پہنچا ہے - لسانی ، علاقائی ، نسلی ، فرقہ وارانہ اور صوبائیت کے نام پہ سیاست نے پاکستان کو کمزور کیا جس وجہ سے اب عوام کو بھی چوکنا رہنا چاہئے اور ایسے مفاد پرستوں کی پیروی کی بجائے قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کو اپنا قومی و سیاسی ہیرو آئیڈیالائز کرکے آگے بڑھنا چاہئے - 
سانحہ قصور:-
قصور کے ایک نواحی گائوں میں پیش آنے والا شرمناک واقعہ گزشتہ دنوں میڈیا کا موضوع بنارہا- بتایا جاتا ہے کہ حسین والا نامی ایک گائوں میں اوباش اور بدقماش نوجوانوں کا ایک گروپ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بد فعلی کا مرتکب ہوتا، ان کی ویڈیوز بناتا جس کے ذریعے ان کے لواحقین کو بلیک میل کر کے اس سلسلے کو آگے چلایا جا رہا تھا - افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ گھنائونا عمل مسلسل چھ سات سال سے جاری تھا اور کسی کو اس گائوں کے باہر کانوں کان خبر تک نہیں تھی اگر کسی نے تھانے جانے کی ہمت بھی کی تو اوباش پارٹی نے اس کیلئے زندگی جہنم بنا دی- بالآخر کچھ نوجوانوں کی چیخ و پکار کرنے پر میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا تو علم ہوا کہ متأثر ہ بچوں کی تعداد تین سے چار سو کے درمیان ہے جو انتہائی تکلیف دہ اورشرم کی بات ہے ،اگر ایک بچہ بھی ہدف ہوتا تو یہ اذیت ناک تھا ، ایک قتل سے زیادہ اذیت ناک -اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے -اس حوالے سے بہت بھاری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں سے متعلق اپنے اوّلین فرائض سے رُو گردانی کرتے ہیں پھر ذمہ داری عائد ہوتی ہے معاشرے کے باثر افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر جن کی ناک تلے یہ انسانیت سوزی وقوع پذیر ہوتی ہے -
افسوس ہے ہم اس قدر ندامت میں گر چکے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ریپپ جیسے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں -باشعور لوگوں کے خیال میں اس کی اصل وجہ دین سے دوری اور خواہشات کا عام ہونا ہے -والدین اور انتظامیہ کی عدم توجہی سے ایسے درندہ صفت لوگ حرکت میں آکر معاشرے کی بربادی کا باعث بنتے ہیں اورسانحہ قصور جیسے واقعات جنم لیتے ہیں - والدین اور ارباب ِ اختیارکی برابر ذمہ داری ہے کہ اولاد اور معاشرہ کے اصلاحی، تربیتی پہلوئوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ پاکیزہ معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے-
 اربابِ اختیار کو اِس واقعے میں ملوث افراد کو ایسی عبرت ناک سزا دینی چاہیے کہ وہ رہتی دنیا تک مثال بن جائے اور آئندہ کوئی اس مذموم عمل کو سوچنے کی بھی ہمت نہ کرے - ضلع قصور میںمذکورہ سانحہ کے قصورواروں کو بیچ چوراہے لٹکا دینا چاہیے اور تختِ طائوس پر بٹھانے کی بجائے تختہ دار پر لٹکا دینا چاہیے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر