دستک : تحریکِ آزادی کشمیر ؛ ناقابل تسخیر جدوجہد

دستک : تحریکِ آزادی کشمیر ؛ ناقابل تسخیر جدوجہد

دستک : تحریکِ آزادی کشمیر ؛ ناقابل تسخیر جدوجہد

مصنف: ستمبر 2018

تحریکِ آزادی کشمیر: ناقابل تسخیر جدوجہد 

مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی تسلط قائم رکھنے کے لیے گزشتہ 7 دہائیوں سے 7لاکھ سے زائد بھارتی افواج کا جابرانہ کردار اور بھارتی حکومت کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد اور ناانصافیوں کے باوجود کشمیریوں کی تحریکِ حریت جاری ہے- زندہ دل کشمیری عوام کے جسدِحقیقی میں موجود آتشِ چنار و آتشِ حریت نے انہیں ناقابلِ تسخیر و ناقابلِ شکست بنا دیا ہ-یہ حقیقت چمکتے سورج سے زیادہ واضح ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر ایک متنا زعہ علاقہ ہے اور کشمیر ی عوام کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ وہ استصوابِ رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں-

گزشتہ 70سالوں میں بھارتی افواج کی جانب سے لاکھوں نہتے بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا، ہزاروں کشمیری قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اور ہزاروں ماؤں اور بہنوں کی عزتیں تار تار کی جا چکی ہیں لیکن ان غیور کشمیریوں نے ہندو بنیے کی غلامی اور تسلط کو لمحہ بھر کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا-درحقیقت مقبوضہ کشمیر کے غیور عوام کی پہلی نسل بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی، دوسری نسل جیلوں میں ہندو سامراج کی اذیتیں اور صعوبتیں جھیل رہی ہے جبکہ تیسری نسل اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے سڑکوں پر بھارتی فوج کی بندوقوں اور ٹینکوں کے سامنے آواز بلند کر رہے ہیں جسے خاموش کروانے کے لیے نام نہاد جمہوریت پسند سیکولر بھارت مکمل طور پر ناکام و نامراد ہو چکا ہے -

 بھارت کے پاس اپنے جھوٹ اور ظلم و جبر کو چھپانے کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں کرے اور ہندو اکثریت حاصل کرنے کے بعد نام نہاد ریفرنڈم کا ڈھونگ رچائے بعین اسی طرح جیسے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد الیکشن بندوق اور کرفیو کے سائے میں منعقد ہوتے چلے آئے ہیں-اپنے اس گھناؤنے منصوبہ کو پورا کرنے کے لیے ایک طرف بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے تو دوسری جانب مودی سرکار بھارتی آئین کی آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل370 کو منسوخ کرانے کےلیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے- اگرچہ یہ دفعات بذاتِ خود غیر قانونی ہیں کیونکہ کشمیر نے کبھی بھارت سے الحاق کیا ہی نہیں- تاہم از خود انڈین آئین کی آرٹیکل 35 اے کے تحت کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت اور وراثت کا حق وہاں کئی نسلوں سے آباد مقامی کشمیریوں کو حاصل ہے-جبکہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو ایک مخصوص حیثیت (Special Status )حاصل ہے جس کے مطابق بھارت نہ تو ریاست جموں و کشمیر کے آئین میں تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ ہی بھارت کا کوئی شہری جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے-لہذا مقبوضہ کشمیر میں ہندو اکثریت حاصل کرنے اور مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ان دونوں قوانین کو منسوخ یا تبدیل کروانا شدت پسندانہ ہندو ذہنیت کی اولین ترجیح ہے-اس ضمن میں بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل 370 کے خلاف درخواستیں زیرِ سماعت ہیں، کئی انٹر نیشنل وکلاء  نے اس پہ تنقید کی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کی جیورسڈکشن میں ہی نہیں آتا کہ وہ ان پٹیشنز کو سُن سکے-یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان دفعات میں تبدیلی کے بعد بھارتی سرمایہ کار مقبوضہ کشمیر میں مغربی کنارے(West Bank) کی طرز پر آبادکاری کی بستیاں بسا لیں گے-یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے زندگی کا پہیہ جام ہے، کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں،حریت رہنما اپنے ہی گھروں میں نظر بند ہیں اورکشمیری عوام اس سازش کے خلاف سراپہ احتجاج ہیں-ایسے حالات میں حکومتِ پاکستا ن کو اقوامِ متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے-

پاکستان کے حالیہ عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے چئیرمین اور وزیرِاعظم کی جانب سے کی جانے والی تقریر میں کشمیر مسئلہ کے حل کی کوشش کا اعادہ قابل ِ ستائش ہے نیز ان کی پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں حالیہ مستقل مندوب ملیحہ لودھی سے ہونے والی ملاقات میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر پُرزور طریقہ سے اٹھائے جانے کی گفتگو بھی خوش آئند ہے-البتہ نئی حکومت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ عالمی دنیا کو یہ باور کروائیں کہ کشمیر محض دو ممالک کے درمیان ایک سیاسی نہیں بلکہ عالمی نوعیت کا انسانی مسئلہ ہے- مزید یہ کہ نئی حکومت اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے-گزشتہ ایک ماہ میں60 سے زائد کشمیری نوجوانوں کی بھارتی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے شہادتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئی حکومت کو چاہئےہو گا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فی الفور رُکوانے کے لیے کلیدی کردار ادا کرے -چونکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل لازمی ہے اس لیے نئی حکومت ایشیائی ممالک کا سربراہی اجلاس بھی منعقد کروا سکتی ہے جس میں کشمیر سمیت خطے کے دیگر اہم مسائل کے حل کی کوشش کی جا سکتی ہے-نئی حکومت کو چاہیے ہو گا کہ وہ کشمیر کمیٹی اور کشمیر کونسل کے کردار کو فعال بنانے کے لیے فی الفور مناسب اقدامات بھی کرے-پاکستان اور کشمیر کی عوام سمیت دنیا بھر کے باضمیر لوگ پر امید ہیں کہ کشمیر کا منصفانہ حل اس کی عوام کی امنگوں کے مطابق ضرور ہو گا اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ضرور ملیں گے- 

تحریکِ آزادی کشمیر: ناقابل تسخیر جدوجہد

مقبوضہ کشمیر پر غیر قانونی تسلط قائم رکھنے کے لیے گزشتہ 7 دہائیوں سے 7لاکھ سے زائد بھارتی افواج کا جابرانہ کردار اور بھارتی حکومت کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد اور ناانصافیوں کے باوجود کشمیریوں کی تحریکِ حریت جاری ہے- زندہ دل کشمیری عوام کے جسدِحقیقی میں موجود آتشِ چنار و آتشِ حریت نے انہیں ناقابلِ تسخیر و ناقابلِ شکست بنا دیا ہ-یہ حقیقت چمکتے سورج سے زیادہ واضح ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر ایک متنا زعہ علاقہ ہے اور کشمیر ی عوام کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ وہ استصوابِ رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں-

گزشتہ 70سالوں میں بھارتی افواج کی جانب سے لاکھوں نہتے بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا، ہزاروں کشمیری قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اور ہزاروں ماؤں اور بہنوں کی عزتیں تار تار کی جا چکی ہیں لیکن ان غیور کشمیریوں نے ہندو بنیے کی غلامی اور تسلط کو لمحہ بھر کیلئے بھی تسلیم نہیں کیا-درحقیقت مقبوضہ کشمیر کے غیور عوام کی پہلی نسل بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی، دوسری نسل جیلوں میں ہندو سامراج کی اذیتیں اور صعوبتیں جھیل رہی ہے جبکہ تیسری نسل اپنے بنیادی انسانی حقوق کے لیے سڑکوں پر بھارتی فوج کی بندوقوں اور ٹینکوں کے سامنے آواز بلند کر رہے ہیں جسے خاموش کروانے کے لیے نام نہاد جمہوریت پسند سیکولر بھارت مکمل طور پر ناکام و نامراد ہو چکا ہے -

بھارت کے پاس اپنے جھوٹ اور ظلم و جبر کو چھپانے کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں کرے اور ہندو اکثریت حاصل کرنے کے بعد نام نہاد ریفرنڈم کا ڈھونگ رچائے بعین اسی طرح جیسے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد الیکشن بندوق اور کرفیو کے سائے میں منعقد ہوتے چلے آئے ہیں-اپنے اس گھناؤنے منصوبہ کو پورا کرنے کے لیے ایک طرف بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے تو دوسری جانب مودی سرکار بھارتی آئین کی آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل370 کو منسوخ کرانے کےلیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہی ہے- اگرچہ یہ دفعات بذاتِ خود غیر قانونی ہیں کیونکہ کشمیر نے کبھی بھارت سے الحاق کیا ہی نہیں- تاہم از خود انڈین آئین کی آرٹیکل 35 اے کے تحت کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت اور وراثت کا حق وہاں کئی نسلوں سے آباد مقامی کشمیریوں کو حاصل ہے-جبکہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو ایک مخصوص حیثیت (Special Status)حاصل ہے جس کے مطابق بھارت نہ تو ریاست جموں و کشمیر کے آئین میں تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ ہی بھارت کا کوئی شہری جموں و کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے-لہذا مقبوضہ کشمیر میں ہندو اکثریت حاصل کرنے اور مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ان دونوں قوانین کو منسوخ یا تبدیل کروانا شدت پسندانہ ہندو ذہنیت کی اولین ترجیح ہے-اس ضمن میں بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل 370 کے خلاف درخواستیں زیرِ سماعت ہیں، کئی انٹر نیشنل وکلاء  نے اس پہ تنقید کی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کی جیورسڈکشن میں ہی نہیں آتا کہ وہ ان پٹیشنز کو سُن سکے-یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان دفعات میں تبدیلی کے بعد بھارتی سرمایہ کار مقبوضہ کشمیر میں مغربی کنارے(West Bank) کی طرز پر آبادکاری کی بستیاں بسا لیں گے-یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے زندگی کا پہیہ جام ہے، کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں،حریت رہنما اپنے ہی گھروں میں نظر بند ہیں اورکشمیری عوام اس سازش کے خلاف سراپہ احتجاج ہیں-ایسے حالات میں حکومتِ پاکستا ن کو اقوامِ متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے-

پاکستان کے حالیہ عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے چئیرمین اور وزیرِاعظم کی جانب سے کی جانے والی تقریر میں کشمیر مسئلہ کے حل کی کوشش کا اعادہ قابل ِ ستائش ہے نیز ان کی پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں حالیہ مستقل مندوب ملیحہ لودھی سے ہونے والی ملاقات میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر پُرزور طریقہ سے اٹھائے جانے کی گفتگو بھی خوش آئند ہے-البتہ نئی حکومت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ عالمی دنیا کو یہ باور کروائیں کہ کشمیر محض دو ممالک کے درمیان ایک سیاسی نہیں بلکہ عالمی نوعیت کا انسانی مسئلہ ہے- مزید یہ کہ نئی حکومت اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے-گزشتہ ایک ماہ میں60 سے زائد کشمیری نوجوانوں کی بھارتی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے شہادتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئی حکومت کو چاہئےہو گا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فی الفور رُکوانے کے لیے کلیدی کردار ادا کرے -چونکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل لازمی ہے اس لیے نئی حکومت ایشیائی ممالک کا سربراہی اجلاس بھی منعقد کروا سکتی ہے جس میں کشمیر سمیت خطے کے دیگر اہم مسائل کے حل کی کوشش کی جا سکتی ہے-نئی حکومت کو چاہیے ہو گا کہ وہ کشمیر کمیٹی اور کشمیر کونسل کے کردار کو فعال بنانے کے لیے فی الفور مناسب اقدامات بھی کرے-پاکستان اور کشمیر کی عوام سمیت دنیا بھر کے باضمیر لوگ پر امید ہیں کہ کشمیر کا منصفانہ حل اس کی عوام کی امنگوں کے مطابق ضرور ہو گا اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ضرور ملیں گے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر