زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبد الحق محدِّثِ دہلوی)

زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبد الحق محدِّثِ دہلوی)

زبدۃ الاسرار (از : شیخ عبد الحق محدِّثِ دہلوی)

مصنف: مترجم : ایس ایچ قادری اگست 2015

(گزشتہ سے پیوستہ)

مشائخ کی ایک جماعت نے خبر دی جن میں سے آخری شیخ ابو البرکات بن صخر نے شیخ عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیھم اجمعین سے روایت کی ہے- شیخ عدی بن مسافر وہ بزرگ ہیں جن کے حق میں شیخ ابو البرکات بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:-

{لَوْ کَانَتِ النُّبُوَّۃَ تُنَالُ بِالْمُجَاھَدَۃِ لَنَالَھَا عَدِیِ بْنُ مُسَافِرٍ}

’’اگر نبوت کا حصول مجاہدہ و ریاضت سے ممکن ہوتا تو عدی بن مسافر اسے ضرور پا لیتے-‘‘ (۱)

 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کی بہت زیادہ تعریف فرماتے تھے - (ایک مرتبہ) ان کی طاقت کا مشاہدہ (اس طرح) کیا کہ انہوں نے ان سے پوچھا کہ

’’کیا آپ جانتے ہیں کہ شیخ عبد القادرالجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ سابقہ مشائخ میں سے کسی نے یہ کہا ہو کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ نہیں-

میں نے عرض کی کہ (پھر) اس قول کا مفہوم کیا ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ یہ اپنے وقت میں سیدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقامِ فردیت کوظاہر کرتا ہے-

جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ ہر وقت کے لیے ایک فرد (فردیت کا حامل ولی اللہ) ہوتا ہے (ان میں سے کسی نے ایسی بات کیوں نہیں کہی؟)-

تو انہوں نے جواب دیا کہ سوائے شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اُن میں سے کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا-

میں نے عرض کی کہ کیا انہیں یہ کہنے کا حکم دیا گیا ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بے شک انہیں حکم دیا گیا ہے اور تمام اَولیاء کرام نے حکم ہونے کی وجہ سے سروں کو جھکا لیا- کیا تم نے فرشتوں کو نہیں دیکھا کہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو اُس وقت ہی سجدہ کیا جب انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا-‘‘ (۲)

مشائخ نے شیخ ابو سعید القیلوی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ ان سے پوچھا گیا کہ

’’کیا شیخ عبد القادرالجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم کے تحت فرمایا کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے؟

انہوں نے جواب دیا :-

 اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمان حکم سے ہی جاری فرمایا اور یہ قطبِ وقت کی زبان ہے- زمانے کے اقطاب میں سے جسے خاموش رہنے کا حکم ہے تو اسے خاموش رہنے کے سواء چارہ نہیں اور جسے بولنے کا حکم ہے تو وہ مقامِ قطبیت میں اکمل ہے کیونکہ وہ شفاعت کی زبان ہے-‘‘

مشائخ نے حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ

’’ کیا حضرت شیخ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} کا قول حکم کے تحت کہا یا بغیر حکم کے؟

انہوں نے جواب دیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قول حکم کے تحت ہی فرمایا ہے-‘‘

مشائخ نے حضرت شیخ علی بن الھیئتی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی- روایت کرنے والے مشائخ میں سے آخری حضرت شیخ العارف ابو محمد علی بن ادریس الیعقوبی رحمۃ اللہ علیھم اجمعین ہیں- انہوں نے فرمایا:-

{لَمَّا قَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ اِلٰی آخِرِہٖ صَعِدَ سَیِّدِیْ عَلِیُ بْنُ الْھَیْئَتِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اِلَیْہِ فَوْقَ الْکُرْسِیِّ وَ اَخَذَ قَدَمَہُ وَ جَعَلَھَا عَلٰی عُنُقِہٖ وَ دَخَلَ تَحْتَ ذَیْلِہٖ}

’’جب حضرت شیخ عبد القادرالجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے { قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ } کا قول مکمل فرمایا تو سیدی علی بن الھیئتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مسندِ کرسی کے پاس جاکر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدم مبارک کو پکڑ کر اپنی گردن پر رکھ لیا اور آپ کے پیروکاروں میں داخل ہو گئے- ‘‘

اُن کے اصحاب نے اُن سے اِس بارے عرض کی کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟تو انہوں نے فرمایا:-

{لِاَنَّہُ اُمِرَ اَنْ یَقُوْلَھَا وَ اُذِنَ لَہٗ فِیْ عَزْلِ مَنْ اَنْکَرَھَا عَلَیْہِ مِنَ الْاَوْلِیَآئِ فَاَرَدْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ سَارَعَ اِلَی الْاِنْقِیَادِ لَہٗ}

’’کیونکہ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہنے کا حکم دیا گیا ہے اور اَولیاء کرام میں سے جو اس قول کا انکار کرے (آپ رضی اللہ عنہ کو) اُسے معزول کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنے والوں میں پہل کروں-‘‘

شیخ علی بن الھیئتی ان چار مشائخ میں سے ہیں جن کو عراق کے مشائخ {اَلْبُرُوْئَ ۃُ} (شفا بخش) کے نام سے پکارتے ہیں اس لیے کہ وہ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا عطا فرماتے ہیں اور وہ چار مشائخ یہ ہیں :-

شیخ عبدا لقادر جیلانی، شیخ علی بن الھیئتی ، شیخ بقا بن بطو اور شیخ ابو سعید القیلوی رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین-

مشائخ کی ایک جماعت نے خبر دی جن میں شیخ ابو الثناء محمود بن احمد الکُردی ، شیخ بقا بن بطو، شیخ ابو سعید القیلوی ، شیخ عدی بن مسافر، شیخ علی بن الھیئتی اور شیخ احمد کبیر رفاعی کے علاوہ تقریبا پچاس کے قریب مشائخ تھے جنہوں نے مختلف اوقات میں یہ بات بتائی کہ

’’ ہم اس مجلس میں حاضر تھے جس میں حضرت شیخ عبدالقادرالجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے - اس محفل میں پچاس سے زائد عراق کے بڑے بڑے مشائخ موجود تھے سب نے اپنی گردنیں جھکا لیں اور شیخ علی بن الھیئتی نے شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم مبارک اپنی گردن پر (ظاہراً بھی) رکھ لیا-‘‘

پھر ہم تک دیگر شہروں کے مختلف مشائخ سے یہ بات بھی پہنچی جو اُس وقت ( شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محفل ) میں حاضر نہیں تھے کہ انہوں نے بھی اپنی گردنیں جھکادیں اور شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول مبارک (سننے) کی خبر دی- ہم تک ان میں سے کسی ایک کی بھی یہ خبر نہیں پہنچی کہ ُاس نے اِس کا انکار کیا ہو-‘‘

مشائخ کے ایک گروہ نے شیخ ابو سعید القیلوی سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ

’’جب شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے { قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ } فرمایا تو حق عزوجل نے آپ (شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے قلب پر تجلی فرمائی اور مقربین فرشتوں کے ایک لشکر کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خلعت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی جسے آپ نے تمام اَولیاء کی موجودگی میں پہن لیا- وہ اَولیاء چاہے آپ سے پہلے والے تھے یا بعد والے، چاہے اپنے جسموں کے ساتھ زندہ اور ارواح کے ساتھ فوت شدہ تھے اور فرشتے اور مردانِ غیب آپ کی مجلس کے گردا گرد جمع تھے، (کچھ) ہوا میں صفیں بنا کر کھڑے تھے یہاں تک کہ آسمان بھر گیا اور زمین پر اللہ کا کوئی ولی ایسا نہ رہا جس نے اپنی گردن نہ جھکائی ہو-‘‘

مشائخ کی ایک جماعت نے بقا بن بطو کے متعلقہ خبر دی (ان کا قول ہے) کہ

’’جب شیخ عبد القادرالجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے { قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ } فرمایا تو فرشتوں نے کہا اے عبداللہ آپ نے سچ فرمایا-‘‘

شیخ بقا بن بطو بزرگ مشائخ میں سے تھے اور یہ اُن چار مشائخ میں سے ایک ہیں جنہیں {اَلْبُرُوْئَ ۃُ} شفابخش کہا جاتا ہے-

روایت کیا گیا ہے کہ

’’ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ابتدائی وقت میں شیخ بقا بن بطو کی زیارت کے لیے جایا کرتے تو اُن کی ہیبت سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اضطراب طاری ہو جاتا اور (آنکھوں سے) خون بہاتے پھر ایک سال بعد (حالات ایسے بدلے کہ) شیخ بقا بن بطو شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کے لیے جاتے تو اُن پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہیبت سے کپکپی طاری ہو جاتی اور وہ (آنکھوں سے) خون بہاتے- یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے-‘‘

مشائخ نے شیخ مکارم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ انہوں نے فرمایا:-

{ اَشْھَدَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ اَنَّہُ لَمْ یَبْقَ اَحَدٌ مِّمَّنْ عُقِدَ لَہُ الْوِلَایَۃُ فِیْ اَقْطَارِ الْاَرْضِ اَدْنَاھَا وَ اَقْصَاھَا اِلَّا شَاھَدَ عَلَمَ الْقُطْبِیَّۃِ مَحْمُوْلًا بَیْنَ یَدَیْہِ یَعْنِیِ الشَّیْخَ عَبْدَ الْقَادِرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ تَاجَ الْغَوْثِیَّۃِ عَلٰی رَاْسِہٖ وَ رَاٰی عَلَیْہِ خِلْعَۃَ التَّصْرِیْفِ الْعَامِ النَّافِذِ فِی الْوُجُوْدِ وَ اَھْلِیَّۃَ وِلَایَۃٍ وَّ عَزْلٍ مُعَلَّمَۃً بِطِرَازِ الشَّرِیْعَۃِ وَ الْحَقِیْقَۃِ }

’’اس دن اللہ عز و جل نے مجھے مشاہدہ کرایا کہ زمین کی قرب و جوار کی تمام جوانب و اَطراف کے ہر شخص نے ، جسے ولایت کا تاج پہنایا گیا، مشاہدہ کیا کہ قطبیت کا جھنڈا شیخ عبد القادرالجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ہے اور غوثیت کا تاج ان کے سر مبارک پر ہے- یہ بھی دیکھ لیا کہ وجود میں عام تصرف کی خلعت بھی انہیں پہنائی گئی ہے اور ان کو شریعت اور حقیت کے طریقہ سے حاصل شدہ ولایت کی اہلیت اور معزول کرنے کا تصرف بھی حاصل ہے-‘‘

مزید فرمایا کہ

’’میں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے تو ہر ولی اللہ نے اپنا سر جھکا دیا اور اُسی آنِ واحد میں اس کا دل بھی شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تابع ہوگیا حتی کہ مملکت کے خاص دس ابدالوں نے جو اپنے وقت کے سلطان تھے جن میں شیخ بقا بن بطو، شیخ ابو سعید القیلوی، شیخ علی بن الھیتی، شیخ عدی بن مسافر، شیخ موسیٰ الزولی ، شیخ احمد بن الرفاعی، شیخ عبد الرحمن الطفسونجی، شیخ ابو محمد القاسم بن عبد اللہ البصری، شیخ حیات بن قیس الحرانی اور شیخ ابو مدین المغربی تھے رضی اللہ عنھم اجمعین ، ان سب نے حاضرین کے ساتھ مل کر کہا (یا شیخ غوث الاعظم!) آپ نے سچ کہا-‘‘

مشائخ نے شیخ خلیفہ الاکبر سے روایت کیا، شیخ خلیفہ الاکبر کثرت سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کیا کرتے تھے، انہوں نے فرمایا:-

{ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْتُ لَہُ قَدْ قَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ فَقَالَ صَدَقَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ وَ کَیْفَ لاَ وَ ھُوَ الْقُطْبُ وَ اَنَا اَرْعَاہُ }

’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور عرض کی کہ شیخ عبد القادر نے فرمایا ہے کہ میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے تو آقا ﷺ نے فرمایا کہ شیخ عبد القادر نے سچ کہا - اور کیسے نہ کہتے وہ (وقت کے) قطب ہیں اور میں ان پر مہربانی کررہا ہوں- ‘‘

مشائخ کی ایک جماعت نے شیخ لؤلو القطب سے روایت کرتے ہوئے خبر دی - اس دن وہ مکۃ المکرمہ میں تھے- لوگوں نے اُن کی اللہ تعالیٰ کی معیّت میں وہ کیفیت دیکھی جو ان کے وقت میں کسی کی نہ دیکھی- لوگوں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ (کیفیت) کس شیخ کی طرف منسوب ہے؟

آپ نے ہمارے دلوں کی مسابقت کرتے ہوئے فرمایا:-

’’میرے شیخ، الشیخ عبد القادر الجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے فرمایا ہے { قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ } اور روئے زمین کے تین سو تیرہ اَولیائے اللہ عز و جل نے اپنے سر جھکا لیے ہیں- اِس وقت حرمین شریفین میں سترہ اَولیاء ہیں، عراق میں ساٹھ ہیں، عجم میں چالیس، شام میں تیس، مصر میں بیس، مغرب میں ستائیس، مشرق میں تئیس، حبشہ میں گیارہ، وادیٔ یاجوج و ماجوج میں سات ، وادیٔ سراندیپ میں سات، کوہِ قاف میں سینتالیس اور بحر المحیط میں چوبیس اَولیاء کرام ہیں-‘‘

مشائخ کی ایک جماعت نے شیخ ابو محمد قاسم بن عبد اللہ البصری سے روایت کرتے ہوئے خبر دی انہوں نے فرمایا:

’’جب شیخ عبد القادرجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ کہیں { قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ } تو میں نے دیکھا کہ مشرق اور مغرب کے تمام اَولیاء کرام نے اپنے سر جھکا لیے سوائے عجم کے ایک آدمی کے کہ اس نے ایسا نہ کیا تو اُسی وقت اس کی (باطنی) حالت بدل گئی-‘‘

مشائخ کی ایک جماعت نے شیخ احمد بن رفاعی سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ

’’ ایک دن وہ رواق میں تشریف فرما تھے پس اچانک اپنا سر جھکا لیا اور فرمایا کہ میرے سر پر بھی- پس کسی نے ان سے سوال کیا کہ کس نے اس کی راہنمائی کی ؟ تو فرمایا کہ ابھی شیخ عبد القادر الجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغداد میں فرمایا ہے کہ {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ}

پس ہم نے اسی وقت تاریخ لکھ لی- (بعض میں تصدیق ہوگئی کہ) جس وقت شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا وہ بعینہٖ وہی وقت تھا-‘‘

مشائخ نے شیخ عبد الرحمن الطفسونجی سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ

’’ایک دن انہوں نے طفسونج میں اپنے ساتھیوں کے درمیان اپنی گردن جھکا دی اور فرمایا کہ میرے سر پر بھی-

ہم نے عرض کی تو فرمایا شیخ عبد القادر الجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغداد میں یہ فرمایا ہے {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ}

ہم نے اُس دن کی تاریخ اپنے پاس لکھ لی- پھر ہمارے پاس خبر پہنچی شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ قول) اُسی دن فرمایا جس دن ہم نے تاریخ لکھی تھی-‘‘

مشائخ نے شیخ رغیب الرّجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی- انہوں نے فرمایا:-

’’شیخ رسلان دمشقی نے اسی وقت سر جھکا لیا جب شیخ عبد القادر الجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغداد میں فرمایا کہ {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ }‘‘

اور ان کے ساتھیوں نے بھی یہی خبر دی ہے:-

’’اور(شیخ رغیب الرّجی نے مزید) فرمایا اللہ کے کچھ خاص (بندے) موتیوں (کی مانند) ہیں جنہوں نے القدس کے سمندروں سے پیاس بجھائی، معرفت کے فرش پر بیٹھے، اُن کے راز نے ربوبیت کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور احدیت کی عظمت کو دیکھا، اُن کے وصف وجودِ کبریا میں معدوم ہو گئے، اُن کے وجود ہیبت کے معائنہ سے فنا ہوگئے، اُن پر اُنس و پیار کی چادر ڈالی گئی ، وہ عنایات کی سیڑھیاں چڑھتے رہے حتیّٰ کہ مقام القرار تک پہنچ گئے، اُن کی روح پر یومِ ازل کی صبح کی ہوائیں چلیں، انہوں نے انوار کی کانوں سے حکمتوں کے ساتھ گفتگو کی، پوشیدہ اسرار و رموز اُن کے راز کے سویداء سے مل گئے، وہ صحیح حضوری اور صحو میں ہیں، حیا کے ساتھ کھڑے ہیں، بہت زیادہ ادب کرنے والے ہیں، عاجزی سے کلام کرتے ہیں، فقر پر فخر کرتے ہیں، خصوصی قرب والے ہیں، عزت و اکرام سے انہیں مخاطب کیا جاتا ہے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے افضل ترین بقاء اور سلامتی ہو-

جب اِن (شیخ رغیب الرّجی) سے عرض کی گئی کہ آج حقیقت میں ایسے (اللہ کے بندے) موجود ہیں جن میں یہ تمام اَوصاف پائی جاتی ہوں؟ تو فرمایا:-

(ہاں موجود ہیں) اور شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے سردار ہیں- ‘‘

حضرت ابو یوسف الانصاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے شیخ رغیب الرّجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کلام کے بعد یہ فرماتے ہوئے (بھی)سنا کہ:-

{کَانَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ ھُوَ الْقُطْبُ الْعَالِیْ وَ الْفَرْدُ السَّامِیُ اِلَیْہِ انْتَھَتْ رِیَاسَۃُ عُلُوْمِ الْمَعَارِفِ وَ لَہٗ سُلِمَتْ اَزِمَّۃُ مَعَالِمِ الْحَقَائِقِ کَانَ سَیِّدُ الْبِزَّاۃِ الشُّھُبِ مِنَ الْعَارِفِیْنَ و قَایِدُ رَکْبِ الْمُحِبِّیْنَ الصَّادِقِیْنَ مِنَ الْوَاصِلِیْنَ کَانَ سَمْتُہٗ یُحَلِّلُ الْعُقُوْلَ ھَیْبَۃً وَّ وَقَارًا وَ صَمْتُہٗ یَکْسُو الْقَلْبَ اِجْلَالًا وَّ اَنْوَارًا وَّ نُطْقُہٗ یُحَصِّلُ مَا فِی الصُّدُوْرِ وَ اَنْفَاسُہٗ یُبَعْثِرُمَا فِی الْقُبُوْرِ وَ اَنْوَارُہٗ اَضَآئَ تْ بِھَا اَرْکَانُ الطَّرِیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ}

’’شیخ عبد القادر الجیلانی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند پایہ قطب ہیں، بلند مرتبہ فرد ہیں، انہی کی طرف علومِ معرفت کی ریاست مکمل ہوگئی، حقائق کی نشانیوں کی تمام ڈرویاں انہیں کے لیے مخصوص کر دی گئیں، آپ کامل ماہر عارفین کے سردار ہیں، آپ واصلین میں سے صدقِ دل سے محبت کرنے والے شہسواروں کے قائد ہیں، آپ کی ہیئت و حالت عقلوں کی گرہیں بڑی شان اور وقار سے کھولتی ہے ، آپ کی خاموشی دلوں کو عظمت اور انوار کا لباس اوڑھتی ہے، آپ کا بولنا سینوں کے راز کھولتا ہے، آپ کی سانسیں قبروںکے مردے اُٹھاتی ہیں ، آپ کے انوار سے راستوں کے اطراف روشن ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا- ‘‘

اللہ تعالیٰ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدقے آپ سے محبت کرنے والے، آپ کی اتباع کرنے والے اور آپ کو دوست رکھنے والوں پر رحم فرمائے- (اٰمین بجاہِ نبی الکریم ﷺ) رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین- (جاری ہے)

وضاحتی یادداشت:-

(۱) (یعنی وہ اس قدر مجاہدہ و ریاضت فرماتے تھے کہ اگر نبوت کا حصول مجاہدہ کے ذریعے ممکن ہوتا تو وہ ضرور پا لیتے- مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص چاہے جتنا بھی مجاہدہ و ریاضت کرلے وہ نبی یا رسول نہیں بن سکتا- نبوت خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عطا تھی-)

(۲) (علماء کرام کی تصریحات موجود ہیں کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدۂ تعظیمی کیا تھا اُن کی مثال پیش کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ تمام اَولیاء کرام نے بھی سیدنا شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعظیم میں سر جھکا لیے تھے- واللہ اعلم بالصواب)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر