اسلامی معاشرت کی رُوح : محبت و عشقِ مصطفےٰﷺ (آخری قسط)

اسلامی معاشرت کی رُوح : محبت و عشقِ مصطفےٰﷺ (آخری قسط)

اسلامی معاشرت کی رُوح : محبت و عشقِ مصطفےٰﷺ (آخری قسط)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی اپریل 2020

  1. النور

النوراللہ تعالیٰ کا اسم صفت ہے لیکن دیگر اسماء کی طرح اس سے بھی اپنے محبوب کریم (ﷺ) کی ذات گرامی کو متصف فرمایا ہے -یعنی نہ صرف یہ کہ حبیب مکرم (ﷺ) خود منور ہیں بلکہ جو بھی آقا کریم (ﷺ)کے دامنِ محبت و اطاعت سے وابستہ ہو جاتا ہے آپ (ﷺ) اسے بھی منور فرما دیتے ہیں -کیونکہ اللہ نے آپ (ﷺ)کو سراج منیر کا منصب عطا کیا -اسی لئے سیدی و شیخی اعلیٰ حضرتؒ نےفرمایا:

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میری چشم عالم سے چھپ جانے والے

  1. اَلشَّهِيْدُ

پھر قاضی عیاض مالکیؒ نے شمار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ’’اَلشَّهِيْد‘‘ بھی ہے جس کا معنی ’’عالم (جاننے والا)‘‘ ہے- ایک قول کیاگیا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر گواہ-

’’وَسَمَّاهُ «شَهِيْدًا» وَ «شَاهِدًا‘‘

’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بھی ’’شہیدؐ‘‘ اور ’’شاہدؐ‘‘ کے اسماء سے موسوم کیا ہے‘‘-

جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّا أَرْسَلْنٰكَ شاهِدًا‘‘[1]

’’(اے محبوب مکرم (ﷺ)!)بے شک ہم نے آپ (ﷺ) کو شاہد بنا کر بھیجا ہے‘‘-

اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

 «وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ‘‘[2]

’’اور رسول اللہ (ﷺ) تمہارے نگہبان اور گواہ ہیں‘‘-

  1. اَلْكَرِيْمُ

اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک ’’کریم‘‘ ہے اس کا معنی بہت زیادہ بھلائی والا؛ اور ایک قول کیا گیا ہے کہ بہت زیادہ فضیلت والا ہے-

وَسَمَّاهُ تَعَالٰى «كَرِيْمًا»

اور اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو ’’کریم‘‘ کے اسم مبارک سے بھی موسوم کیا ہے-

 جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

«إِنَّه لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ‘‘[3]

’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی اور عظمت والے رسول (ﷺ) کا (منزل من اللہ) فرمان ہے‘‘-

کریم صفت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے، اس آیت میں سے معلوم ہوا کہ اس اسم صفت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم(ﷺ) کو متصف فرمادیا-

  1. الْعَظِيْمُ

اسی طرح قاضی عیاض مالکیؒ شمار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک ’’عظیم‘‘ ہے جس کامعنی بڑی شان والا جس کے مقابلے میں کسی کی کوئی اوقات نہیں-

’’وَقَالَ فِيْ النَّبِيِّ (ﷺ) وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيْمٌ ‘‘[4]

اور اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: بے شک آپ (ﷺ) عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ‘‘-

اِس اعتبار سے آپ ’’اسم العظیم‘‘ سے بھی متصف ہیں -

  1. اَلشَّكُوْرُ

اس کے بعد قاضی عیاضؒ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک حدیث پاک میں ’’الشکور‘‘ بھی ہے جس کا معنی تھوڑے عمل پر زیادہ جزا دینے والا ہے اور ایک قول کیا گیا ہے کہ (اس کا معنی ہے) فرمانبرداروں کی حوصلہ افزائی فرمانے والا-

وَوَصَفَ بِذَلِكَ نَبِيَّهٗ نُوْحًا عَلَيْهِ السَّلَامُ فَقَالَ: «إِنَّهُ كانَ عَبْدًا شَكُوْرًا[5] وَقَدْ وَصَفَ النَّبِيُّ (ﷺ) نَفْسَهٗ بِذَلِكَ فَقَالَ: «أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا» أَيْ مُعْتَرِفًا بِنِعْمِ رَبِّيْ، عَارِفًا بِقَدْرِ ذَلِكَ، مُثْنِيًا عَلَيْهِ،

اور اللہ تعالیٰ نے اس اسم مبارک (الشکور) کے ساتھ اپنے نبی حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھی متصف فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ(«إِنَّهُ كانَ عَبْدًا شَكُوْرًا) ’’ بے شک نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گزار بندے تھے‘‘ اور تحقیق حضور نبی کریم (ﷺ) نے بھی اپنی تعریف اسی نام مبارک (الشکور) کے ساتھ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ’’کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘ - یعنی اپنے رب کی نعمتوں کا معترف، ان کی قدر کو پہنچاننے والا ، ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے والا نہ بنوں-

  1. اَلصَّادِقُ

پھر اگلا اسمِ صفت بیان کرتے ہوئے قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک حدیث ماثور میں’’صادق‘‘ ہے

وَوَرَدَ فِي الْحَدِيْثِ أَيْضًا اِسْمُهٗ (ﷺ) «بِالصَّادِقِ الْمَصْدُوْقِ

’’اور حدیث پاک میں اسی طرح آپ (ﷺ) کا اسم مبارک ’’صادق مصدوق (ﷺ)‘‘ بھی آیا ہے‘‘-

  1. اَلْوَلِي/اَلْمَوْلٰى

اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے’’الولی‘‘ اور ’’المولیٰ‘‘ بھی ہیں اور ان دونوں اسماء مبارک کا معنی مدد کرنے والا ہے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ‘‘[6]

اور تمہارے مددگار اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) ہی ہیں-

اور رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

أَنَا وَلِيُّ كُلُّ مُؤْمِنٍ             میں ہر مومن کا ولی ہوں

اور رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

«مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» .

’’جس کا میں مولا ہوں پس علی (رضی اللہ عنہ)اس کا مولا ہے‘‘-

چونکہ حدیث مبارکہ بھی وحیِ الٰہی ہے اس لئےیہاں نعوذ باللہ !حدیث پاک پر معترضین اعتراض کرتے ہیں کہ مولا تو صرف رب کی ذات ہے لیکن اس حدیث پاک میں آقا کریم (ﷺ) اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو مولا کہا جا رہا ہے؟ ؟

ارے خدا کے بندو!ذرا قرآن میں تو غوطہ زن ہو کر دیکھو جہاں آقا کریم (ﷺ) کی ازواجِ مطہرات اور شہد والے معاملات کا ذکر ہو رہا؛قرآن فرما رہا ہے کہ:

’’فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰـہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘[7]

’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے اور جبریل اور صالح مومنین بھی‘‘-

ابھی حال ہی میں مجھے سعادتِ عمرہ نصیب ہوئی حرمِ مکی کے بالکل سامنےٹاور کے نیچے ایک مارکیٹ ہے وہاں کے ایک مکتبہ سے میں نے امام ابن کثیرؒ کی کتاب معجزات النبی (ﷺ) خریدی-صدافسوس! کہ کئی ایسی احادیث مبارکہ ہیں جن کو اس کتاب میں سے حذف کر دیا گیا اور صرف اسی کتاب سے نہیں دیگر بے شمار کتب سے بھی یہا ماجرا کیا جا رہا ہے - حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ کار انتہائی بد ترین علمی و تحقیقی خیانت ہے کہ اپنے منہج کے پسند و ناپسند کے اعتبار سے احادیث مبارکہ کو کتب میں سے حذف کر دیا جائے-منہج میں اختلاف ہو سکتا ہے، ابتداء سے ہوتا آرہا ہے؛ اسی طرح حدیث مبارکہ کی سند، اس کے ضعف و صحت میں بحث کی جاسکتی ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے مناقب اور فضائل کے ابواب میں تحریف کر دی جائے ، اہلِ بیت اطہار کے مناقب و فضائل کے ابواب میں تحریف کر دی جائے - مجھے ایک دوست نے علامہ محمد اقبال کے کلیاتِ فارسی کا عربی ترجمہ بھجوایاجو کہ ایک عرب ملک سے شائع ہوا ہے - ناچیز دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ’’اسرار و رموز‘‘ میں سے سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم کی صفت ’’ابو تراب‘‘ کی شرح میں لکھی گئی نظم اور سیدنا امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے متعلق ’’ سرِّ حادثائے کربلا‘‘ والی نظم بھی کتاب کا حصہ نہیں تھی ، اور اہلِ بیت سے متعلق دیگر اشعار میں بھی تحریف تھی - میرے بھائی جب اتنے مروڑ اٹھتے ہیں مناقب و فضائلِ بیت پہ تو آپ کیوں نہیں اپنے ایمان و عقیدہ میں نظرِ ثانی کرتے؟

عہدِ حاضر میں کئی گمراہ فرقوں کی جسارتوں کی وجہ سے کتبِ احادیث میں تحریف ایک مستقل موضوعِ تحقیق ہےاور اس لئے علمائے حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی چھان بین کرتے رہیں اور اس طرح کی اغلاط کسی سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پہ سرزد ہوں تو ان کو اس سے متنبہ کیا جائے-

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا اسم صفت بیان کرتے ہوئے قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے ہیں :

  1. اَلْقُدُّوْسُ

اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک ’’القدوس‘‘ بھی ہے جس کا معنی نقائص سے منزّہ اور حدث سے پاک ہے؛اور بیت المقدس کو یہ نام اس لئے دیا گیاکیونکہ اس میں گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے اور اسی سے ہے ’’اَلْوَادِي الْمُقَدَّسِ‘‘اور ’’رُوْحُ الْقُدُسِ‘‘-

’’وَقَعَ فِيْ كُتُبِ الْأَنْبِيَاءِ فِي أَسْمَائِهٖ (ﷺ) ’’اَلْمُقَدَّسُ‘‘ أَيِ الْمُطَهَّرُ مِنَ الذُّنُوْبِ‘‘

’’اور انبیاء کرام (علیھم السلام) کے صحائف میں حضور نبی کریم (ﷺ) کےاسماء مبارک میں سے’’الْمُقَدَّسُ ‘‘بھی درج ہے یعنی گناہوں سے پاک ومنزّہ-

اس لئےصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ (ﷺ) کوہر عیب و نقص سے مبرا پیدا فرمایا ہے- جیسا کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے معروف قصائد زبان زدِ عام ہیں -

  1. اَلْعَفُوُّ

اللہ تعالیٰ کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم مبارک ’’اَلْعَفُوُّ ‘‘ ہے جس کا معنی بہت زیادہ درگزر فرمانے والا ہے-

’’وَقَدْ وَصَفَ اللهُ تَعَالَى بِهَذَا نَبِيَّهٗ فِي الْقُرْآنِ وَالتَّوْرَاةِ، وَأَمَرَهُ بِالْعَفْوِ ‘‘

’’اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور تورات میں اپنے نبی کریم (ﷺ) کو اس نام سے متصف فرمایا ہےاور اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو درگزر فرمانے کا حکم فرمایا ہے‘‘-

جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’خُذِ الْعَفْوَ ‘‘[8]

(اے محبوب (ﷺ) !)معاف کرنا اخیتا رکرو

دوسرے مقام پراللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

’’فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ‘‘[9]

پس انہیں معاف فرما دیجیئے اور انہیں درگزر فرمائیے

 اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ:

’’أَنْ تَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَكَ وَقَالَ فِي التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيْلِ فِي الْحَدِيثِ الْمَشْهُوْرِ فِيْ صِفَتِهٖ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيْظٍ، وَلَكِنْ يَعْفُوْ وَيَصْفَحُ‘‘

’’(اے محبوب کریم (ﷺ) آپ (ﷺ)اس کو معاف فرمائیں جو آپ (ﷺ) کے ساتھ ناروا سلوک کرےاور اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں ایک حدیث مشہور کے مطابق آپ (ﷺ) کی شان اقدس میں بیان فرمایا ہے کہ آپ (ﷺ) ناسخت مزاج اور نہ سنگ دل ہوں گے بلکہ آپ (ﷺ) عفو و درگزر فرمانے والے ہوں گے‘‘-

اسی طرح قاضی عیاض مالکی اور دیگر آئمہ و محدثین کرام ؒ نے اس پر مزید بھی کئی دلائل ارشاد فرمائے ہیں؛ اور یہاں ان بیان کردہ دلائل میں سے اس انتخاب کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھاکہ یہ بات دلوں پہ اَن مٹ نقوش کی طرح نقش ہو جائے اور ہمارے عقیدہ و ایمان کا حصہ بن جائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات اور اسماء کی کثرت رکھی اسی طرح اپنے حبیب مکرم(ﷺ) کے اسماء اور اوصاف کی بھی کثرت رکھی ہے بلکہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم (ﷺ)کی ذات گرامی کو اپنی صفات کا مظہر اتم بنایا ہے-

علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانیؒ ’’جَوَاہِرُ الْبحَارِ، فی فضائل النبی المختار(ﷺ) ‘‘میں سید عبد الکریم جیلی جو سیدنا غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کے نواسے اور شیخ محی الدین ابن عربی شیخی و خلیلی و حبیبیؒ کے شاگرد ہیں ؛وہ کہتے ہیں کہ:

’’وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا (ﷺ) قُطْبُ رَحْیِ الْکَمَالَاتِ، وَ مَنْصَبُ حَقَائِقِ الْأَسْمَاءِ وَ الصِّفَاتِ، اَلْغَوْثُ الْفَرْدُ الْجَامِعُ لِمَا قَصُرَتْ عَنْہٗ سَائِرُ الْمَوْجُوْدَاتِ‘‘[10]

’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰے (ﷺ) کمالات کا مظہر ہیں اسما ء وصفات کےحقائق کا مظہر کا مل ہیں آپ (ﷺ) در یتیم اور غوثِ زمان ہیں آپ (ﷺ) اس منزلِ رفیع پر فائز ہیں جسے تمام مخلوق حاصل نہ کرسکے ‘‘-

علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانیؒ ’’جواہر البحار‘‘ میں مزید لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’قَدْ اِخْتَلَسْتُ مِنْ ذَاتِیْ ،نُسْخَۃً جَا مِعَۃً لِاَسْمَائِیْ وَصِفَاتِیْ، یَزِیْدُ حَقَائِقَ الْکُنْہِ ‘‘[11]

’’میں نے اپنے نورذاتی سے ایک ایسے پیکر دل نواز کوتخلیق کیا ہے جو میر ی صفات اور اسماء کا جا مع ہے وہ میری تجلیا ت کا مظہر ہے ‘‘-

مزید فرماتے ہیں کہ:

’’فَالْاَ نْبِیَا ءُ وَالْاَوْلِیَا ءُ صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْھِمْ مَظَاہِرُ الْاَسْمَاءِ وَالصِّفَاتِ وَمُحَمَّدٌ (ﷺ) مَظْہَرُ الذَّاتِ ‘‘

’’تما م انبیا ء کر ام اور اولیا ئے کرام اللہ پاک کی صفات اور اسماء کے مظہر ہیں جبکہ محمدعربی (ﷺ) اللہ پاک کی ذات کے مظہر ہیں ‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کو پیدا فرما کر اوصاف و کمالات عطا فرمائے ہیں وہ یوں ہے کہ گویا اس نے اپنے نورِ ذاتی سے ایک پیکر دلنواز تخلیق کیا ہے جو اس کی اسماء اور صفات کابھی جامع ہےبلکہ اس دنیا میں اس کی ذات کا بھی مظہر اتم ہے-

خاتمۃ المفسرین مفتی بغداد علامہ محمود احمد آلوسیؒ  نے بھی یہی کلام کیا کہ:

’’اِذْ ھُوْ (ﷺ) مِرْآۃُ الْحَقِّ یَتَجَلّٰی مِنْہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَلَوْ تَجَلّٰی لَھُمْ صَرْفًا لَاحْتَرَقُوْا بِاَوَّلِ سَطْوَاتِ عَظْمَتِہٖ‘‘[12]

’’یاد رکھو!رسول اللہ (ﷺ) حق کا آئینہ ہیں جس سے اللہ تعالیٰ مومنین پر تجلی فرماتا ہےاور اگر اللہ تعالیٰ (حق کے آئینہ) کے وسیلے کے بغیر تجلی فرماتا تو وہ تمام پہلے لمحہ میں ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت کے جلال کی وجہ سے جل جاتے‘‘-

شیخ روز بہان بقلی شیرازی (المتوفی:606ھ) ’’تفسیر عرائس البیان‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

کَا نَ النَّبِیُّ (ﷺ) مِرْآۃَ الْحَقِّ یَتَجَلّٰی بِجَلَالِہٖ وَ جَمَالِہٖ لِلْاَمْنَا ءِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ مِنْہُ،یَرَوْنَ اللہَ بِرُؤْیَتِہٖ -

’’نبی پا ک (ﷺ)حق کا آئینہ ہیں جس میں اللہ پا ک امناء اور صدیقین کیلیے اپنے جلال اور جمال کے ساتھ جلوہ فرماتا ہے جس میں وہ آقاپاک (ﷺ)کے وسیلہ جلیلہ سےاللہ پاک کا دیدار کرتے ہیں ‘‘-

علامہ محمود آلوسی صوفیاء کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اگر حضرت یعقوب علیہ السلام آپ(ﷺ) کو دیکھتے تو اس جلوے کو بھول جاتے حالانکہ علامہ محمود آلوسی نے خود صوفیا کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے چہرے میں خدا کا جلوہ دیکھتے تھے-

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ (ﷺ) کا جلوہ خدا کےجلوے سے زیادہ ہے؟اس کا جواب علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی ؒ ’’جواہر البحار ‘‘میں یوں لکھتے ہیں:

’’وَاجْعَلْہٗ مِثْلَ الْمِرْآۃِ أَمَامَکَ، وَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللہَ تَعَالیٰ لَا بُدَّ أَنْ یَّتَجَلِّیَ لِسَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ (ﷺ) فِیْ مِرْآتِہٖ فَیَکُوْنُ ظُہُوْرُ الْحَقِّ تَعَالیٰ فِیْ مِرْآتِہٖ أَکْمَلَ ظُہُوْرِ وَ أَعْدَلَہٗ وَ أَحْسَنَہٗ لِمَا ھِیَ عَلَیْہٖ مِرْآتُہٗ مِنَ الْکَمَالِ فَإِذَا أَدْرَکْتَ الْحَقَّ تَعَالیٰ فِیْ مِرْآتِہٖ(ﷺ) تَکُوْنُ قَدْأَدْرَکْتَ مِنْہُ کَمَالًا لَمْ تُدْرِکْہُ فِیْ غَیْرِ مِرْآتِہٖ (ﷺ)‘‘[13]

’’آپ (ﷺ) کواپنے سامنے ایک آئینہ کی حیثیت سے رکھ اور تحقیق مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناً حضور پاک (ﷺ) کے آئینہ قلب میں تجلی فرماتا ہےآپ (ﷺ) کے اس آئینہ میں اللہ تعالیٰ کا ظہور مکمل،عمدہ اور احسن ہوتا ہے کیونکہ آپ (ﷺ) کا ہی آئینہ اکمل ہے جب تو ذاتِ باری تعالیٰ کا مشاہدہ حضور نبی اکرم (ﷺ)کے آئینہ دل میں کرےگا تو یہ مشاہدہ اتنا مکمل ہوگا کہ اس سے زیادہ مشاہدہ اور کسی کے آئینہ میں نہیں کیا جاسکتا-(اس لئے آئینہ ٔ دلِ یوسف سے آئینۂ دلِ مصطفےٰ (ﷺ) اکمل ہے)‘‘-

اس لئے سرکار دوعالم(ﷺ)کی ذات گرامی اس کائنات میں آئینۂ جمالِ الٰہی ہے-

میرے بھائیواور بزرگو! اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ کسی مومن مسلمان کے دل میں عظمت و معرفتِ مصطفٰے (ﷺ) بھی داخل ہو جائے اور وہ اس بات کا ادراک بھی کر لے کہ میں جس نبی کا کلمہ گو ہوں اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات تمام عیوب سے مبرا پیدا فرمائی ہے اور اس کو اپنی صفات کا مظہر اتم بنایا-تاکہ اسے آقا کریم (ﷺ) کا دامنِ محبت و عشق حاصل ہوجائے-کیونکہ بقولِ عُشاق:

تیری معراج کہ تو عرش بریں تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا

اللہ تعالی نے سرکار دو عالم(ﷺ) کی ذات گرامی کو یکتائے روزگار پیدا کیا اور نہ ہی آپ (ﷺ) کی مثل اور مثال کسی کو پیدا فرمایا؛ اور جتنے اوصاف وکمالات سرکار دوعالم (ﷺ) کو عطا کئے کسی اور مخلوق کے حصے میں نہ آ سکے-اس لئےیہ اس بات پر دلیل ہے کہ تہذیب وتمدن، سہولتیں، جغرافیے، رہن سہن، بود وباش، ایجادات، قوانین و دستور بدل جائیں گو کہ زمانہ مکمل تغیر کا شکار ہو جائے ہر چیز تہ و بالا ہو کر نئی سے نئی دنیا وجود میں آجائے تب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کو اتنی کثرتِ اوصاف عطا کی کہ ہر زمانےو تہذیب، رنگ ونسل، خطے وقبیلے کا آدمی جب چاہے جہاں چاہے میرے حبیب مکرم (ﷺ) کی ذات گرامی کے فیض سے فیض یاب ہو سکتا ہے-

آج اس اُمتِ مرحوم کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اپنے آپ کو دامنِ مصطفٰے(ﷺ) سے وابستہ کیا جائے-کیونکہ بقول حکیم الامت:

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات

اس شعر پہ سوال اٹھتا ہے کہ جو دین رحمت ، جس کا نبی (ﷺ)رحمت، جس کی کتاب رحمت، جس کا پیغام رحمت ہے وہ دین بتکدۂ تصورات کیسے بنتا ہے؟

 اس کا جواب اس میں تلاش کریں کہ اس دینِ رحمت کے نام لیواؤں نے کیا کہرام بپا کر وا رکھا ہے؟ کیا قتل و غارت اور بربریت بپا کر رکھی ہے؟ اور تحقیق کیجئے کہ یہ فساد اور کشت و خون کا بازار گرم کرنے والے اور اس زمین پہ سرکار (ﷺ)کی امت کا قتل عام کرنے والے وہی تھے اور وہی ہیں جن کے دل عظمت اور فضیلتِ مصطفٰے (ﷺ) کی گواہی دینے سے ہچکچاتے ہیں - یہ وہی ہیں جو سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی سیاسی پیروکاری تو کرتے ہیں (وہ بھی اپنی تراشیدہ تشریح کے مطابق) مگر آقا پاک (ﷺ) کے روحانی مقامات و کمالات کا انکار کرتے ہیں - یہ وہی ہیں جو درود و سلام پڑھنے پہ فتنے کرتے ہیں - یہ وہی ہیں جو امتِ مصطفےٰ (ﷺ) کی تکفیر اس بنیاد پہ کرتے ہیں کہ یہ امت حضور (ﷺ) کے فیضِ لازوال سے باریاب و شرف یاب ہونے کیلئے قبر انور و روضۂ اطہر کی زیارت کا قصد کیوں کرتی ہے - یہ وہی ہیں جو اپنی مسلح تنظیموں کے مقتول کارندوں کو شہید کہہ کر قرآنی آیات سے زندہ مانتے ہیں مگر نبی پاک (ﷺ) کو (معاذ اللہ) مردہ ثابت کرنے کیلئے علمائے حق سے بر سرِ عام مناظرے کرتے ہیں ، جتنے فسادی گروہ پاک و ہند میں ، شام و عراق میں ہیں انہی کے ہیں - کیونکہ انہوں نے دین کو ’’بتکدۂ تصورات‘‘ بنا کے رکھا ہوا ہے – لیکن وہ لوگ جن کی ’’عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق‘‘، جن دلوں میں عشق مصطفٰےاور عظمتِ مصطفٰے (ﷺ) کی معرفت پیدا ہو جاتی ہے وہ سرکار(ﷺ) کی سنت کو اپناتے ہوئے نہ صرف امت اسلامی کےلئے بلکہ کل عالم، جن و انس کےلئے سراپا رحمت بن جاتے ہیں-کیونکہ یہ عشق مصطفٰے(ﷺ)کی نشانی ہے کہ وجود میں رحم و کرم پیدا ہوتا ہے-

 میرے بھائیو! یہ ملک پرامن رہ سکتا ہے، یہ امتِ مرحوم پُرامن رہ سکتی ہے اگر عشقِ مصطفٰے(ﷺ) سے دلوں کو اجالا بخشا جائے-

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین یہی دعوت لے کر کوچہ کوچہ، گلی گلی چل رہی ہے کہ عظمت و معرفت ومحبت و عشقِ مصطفٰے(ﷺ)سے دلوں کو منور کر دیا جائے، صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے قائم کردہ رواج کو اپنے درمیان رائج کیا جائے تاکہ اس امت میں امن قائم ہو اور اس کا بیڑہ پار ہو-

اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو---!

٭٭٭


[1](الاحزاب:45)

[2](البقرۃ:143)

[3](الحاقہ:40)

[4](القلم:4)

[5](الاسراء:3)

[6](المائدہ:55)

[7](التحریم:4)

[8](الاعراف:199)

[9](المائدہ:13)

[10](جواہر البحار، ج:4، ص:285)

[11](جواہر البحار، ج:4، ص:264)

[12](تفسیر روح المعانی)

[13](جواہرُ البِحار،ج:4،ص:313)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر