غزہ کا المیّہ

غزہ کا المیّہ

غزہ پٹی فلسطین کا وہ مغربی حصہ ہے جو اسرائیل کے مغرب ،مصری جزیرہ نما سینا کے مشرق اور بحیرہ ئِ روم کے جنوب میں واقع ہے-1967 ء تک غزہ پٹی حکومت ِ عموم فلسطین کے زیرِ اثر رہی جو حقیقتاً فلسطین کا واحد خو د مختارعلاقہ تھا، جیسا کہ 1967 ء تک فلسطین کے حصہ ’’مغربی ساحل‘‘ ،پر اُردن کی حکومت تھی- 1967ء میں چھ روزہ عرب اسرائیلی جنگ کے نتیجہ میںاسرائیل نے فلسطین کے دونوں علاقوں پر غاصبانہ قبضہ جما لیا اور عسکری طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو اُن کی آزادی اور حق ِخود ارادیت سے محروم رکھا- 27 برس بعد عالمی برادری اور حلیف ممالک کے دبائو بڑھنے پر اسرائیل اور فلسطین کے مابین 1994 ء میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کئی معاہدے طے پائے جس کو اوسلو معاہدے کہاگیا- ان معاہدوں میں فلسطین کی نمائندگی فلسطینی اَتھارٹی اور اس کے سربراہ یاسر عرفات نے کی- ان معاہدوں کے تحت غزہ پٹی میں ایک مر تبہ پھر ایک محدود خو د مختار حکو مت قا ئم ہوئی اور فلسطینی اتھارٹی نے غزہ پٹی کی باگ ڈور سنبھالی- فلسطین کے دونوں حصوں کو ایک بس سروس اور اسرائیل میں راہ داری کے ذریعہ منسلک کرنے کا معاہدہ طے پایا- اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر مکمل اختیار دینے کی یقین دہانی بھی کروائی- گو کہ اسرائیل نے فلسطینی ساحل اور فضائی حدود پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھی، غزہ میں بندرگاہ اور ممکنہ ہوائی اڈہ کے ذریعہ فلسطینی مواصلاتی نظام کی بہتری کے وعدے اور معاہدے بھی کیے گئے- نیز اسرائیل نے غزہ کی خو د مختاری اورمغربی ساحل سے رابطہ کی ہر ممکنہ یقین دہانی کرائی- ساتھ ہی ساتھ اسرائیل نے اوسلو معاہدوں میں بوقت ِ ضرورت فلسطینی علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے کا حق بھی محفوظ رکھا- دوسری طرف ہزار ہا یہودی آباد کا رجو اسرائیلی فوج کا سہارا لیے غزہ پٹی میں کئی مقامات پر یہودی آباد کاریاں قائم کر چکے تھے- ان علاقوں پر مسلسل بر اجمان رہے-

 2006 ء میں فلسطین میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن کے نتیجہ میں " حمّاس" اکثریتی جماعت کے طور پر اُبھری- حمّاس نے اپنے سیاسی مخالفین "الفتح" کے ساتھ قومی اتحادی حکومت قائم کی جو فقط ایک سال بر قرار رہ سکی - اس کی بنیادی وجہ وہ اقتصادی پابندیاں تھیں جو اسرائیل ، امریکہ ،روس، اقوامِ متحدہ اور یورپی یو نین نے حمّاس کے منتخب ہونے پر فلسطینی اتھارٹی پر لگا رکھی تھیں- ان عالمی طاقتوں نے حمّاس کا اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ کو فلسطین کے خلاف شدید دشوار پابندیوں کا باعث ٹھہرایا حالانکہ ایک خود مختار ریاست کے عوام کو اپنی آزادانہ حق رائے دہی اختیار کرنے پر سزا سنائے جانا دُنیا کی تاریخ میں ایک منفرد مثال تھی-

کئی ماہ کی خانہ جنگی کے بعد حماس نے الفتح کو غزہ پٹی سے بے دخل کر دیا- نتیجتاً 2007ء میں صدر محمود عباس نے حکو مت تحلیل کر دی اور فلسطین کے دونوں حصوں میں دو آزاد اور لا تعلق حکومتیں قائم ہو گئیں - مغربی ساحل الفتح کے زیر اثر رہا اور غزہ پٹی پر حماس نے حکو مت قائم کی 2008 ء میں فلسطین کے برادر ہمسایہ ممالک نے الفتح کی حکو مت کو حقیقی فلسطینی اتھارٹی تسلیم کیا اور اس طرح مغربی ساحل اقتصادی پابندیوںسے آزاد ہوا اور غزہ پٹی اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور میں داخل ہوئی-

 2005ء میں اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شرائون نے عالمی دبائو کے تحت غزہ پٹی سے انخلاء کا یک طرفہ منصوبہ بنایا- اس کے نزدیک اس طرح اسرائیل اپنی بہتر حفاظت کر سکتا تھا اور عالمی برادری کے سامنے اپنا ایک مثبت کردار پیش کر سکتا تھا- آخر کار ، اسرائیل نے 21 آباد کاریوں میں بسے 9,000 یہودی آباد کاروں کو انخلاء کا حکم دینے کے بعد جبراً ملک بدر کیا- اس وقت کی شدید غمزدہ اسرائیلی عوام شاید یہ نہیں سمجھ سکی تھی کہ یہودیوں کے مکمل انخلاء کے بعد غزہ پٹی کو فلسطینوں اور اسرائیل مخالف گروپوں کے حامیوں کے لیے عبرت کا نشانہ بننے سے روکنے کے لیے اسرائیلی افواج کے سامنے کو ئی رکاوٹ باقی نہ رہنی تھی۔2002- 2001 ء کے دوران اسرائیل نے پہلے ہی غزہ پٹی کے گرد ایک دراز قامت اور طویل فصیل قائم کر لی تھی جو غزہ پٹی کی معصوم عوام کو مقیّد کر سکے-

نتیجتاً 2008 ء میں اسرائیل نے فیصلہ کیا کہ غزہ پٹی کی عوام کو حمّاس کا ساتھ دینے کا صلہ دیا جائے- اسرائیل نے غزہ پٹی کے ساتھ آمد و رفت کے تمام راستے اور ذریعے منقطع کر دئیے اور ایندھن، عام اجناس ، خوراک ، ادویات، بجلی اور قدرتی گیس کی تر سیل بھی روک دی - اس طرح اسرائیل نے غزہ پٹی کو لاکھوں افراد پر مشتمل ریاستی جیل خانہ بنا دیا اور اس کے تما م شہریوں کو حمّا س کی سیاسی اور نظریاتی حمایت کی سزا میں قید کر دیا- ساتھ ہی ساتھ مصر نے سینا غزہ پٹی سے تما م مو اصلاتی روابط اور داخلی اور خارجی راستے منقطع کر دئیے- غزہ پٹی کی یہ ناکہ بندی جاری تھی کہ فروری 2008 ء میں حمّاس نے اسرائیلی علاقوں کی طرف غزہ پٹی سے راکٹ داغنے شروع کیے- گو کہ ان راکٹوں کی اکثریت یا تو اسرائیل کے ہوائی دفاعی نظام "فولادی گنبد" (Iron Dome) کی نظر ہوئے یا بیابان علاقوں میں جاگرے- حمّا س نے غزہ پٹی کے شدید سنگین حالات کی طرف اقوام ِ عالم کی توجہ مر کوز کرانے کے لیے اپنی مہم جاری رکھی- اسرائیل کے مطابق سال 2008 ء میں غزہ پٹی سے تین ہزار راکٹ اسرائیل کی طرف داغے گئے- کئی ماہ کے دوران حمّاس نے اسرائیل کو غزہ پٹی کی ناکہ بندی اور پابندیاں ہٹانے کے عوض جنگ بندی کی پیشکش برقرار رکھی لیکن اسرائیل نے اسلحہ کے ذخائر کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے دسمبر 2008 ء میں F-16 طیاروں کے ذریعہ غزہ پٹی پر شدید بمباری کا آغاز کیا اور غزہ پٹی اور غزہ شہر پر ان گنت ہوائی حملوں کے بعد، 7 جنوری 2009ء کو غزہ پٹی پر اسرائیلی بری فوجوں نے دھاوابول دیا- یہ عسکری بر بریت 22 دن جاری رہی اور اس کے دوران اسرائیلی افواج نے اسلحہ ذخائر ہونے کے الزام پر غزہ پٹی کے اسکولوں ، ہسپتالوں ، پولیس اسٹیشنوں ، سرکاری املاک، مساجد اور اقوام متحدہ کی املاک کو خصوصی نشانہ بنایا- اس دوران 500 فلسطینی ہلاک اور 3,000 زخمی ہوئے- غزہ کے 27 میں سے 15 ہسپتال، 110 میں سے 43 بنیادی طبّی مراکز اور 700 فیکٹریاں تباہ ہوئے- دس ہزار نجی کھیت اُجڑ گئے اور پچاس ہزار افراد بے گھر ہو گئے- چار

واپس اوپر