نوبل پرائز

نوبل پرائز

نوبل پرائز کا بانی الفریڈ نوبیل سویڈن کا ایک مشہور کیمیا دان اور کاروباری آدمی تھا جس نے ڈائینا مائیٹ سمیت کئی اہم ایجادات کیں ۱۸۹۶ میں موت پانے سے ایک سال قبل اس نے پیرس کے سویڈش نارویجن کلب میں اپنی مشہور تیسری وصیت تحریر کی جس میں اپنی جائیداد کا بڑا حصہ (آج کی کرنسی کے مطابق ۱۷۰۲  ملین سویڈش کرونے)ایک پرائز کیلئے مختص کئے ـ ـ اس نے اپنی وصیت میں تحریر کیا کہ اس رقم کو محفوظ سرمایہ کاری میں لگا کر حاصل ہونے والے منافع سے طبیعات ، کیمیا، طب ، ادب اور امن کے شعبہ جات میں سال بھر کے دوران انسانیت کیلئے بہترین خدمات انجام دینے والوں کو انعام دیا جائیـ ابتدا میں اسکے لواحقین کی جانب سے اس وصیت پر اعتراضات اٹھائے گئے چنانچہ انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے پانچ سال کا عرصہ بیت گیا اور اس انعام کا اجرا ۱۹۰۱ء میں ممکن ہواــ ـ ـ اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہیـ بعد ازاں ۱۹۶۸ میں سویڈن کے سنٹرل بینک نے اکنامک سائنس میں بھی نوبیل پرائز کا اجراء کیاـ-

 الفریڈ نوبیل کی وصیت کے مطابق طبیعات اور کیمیا کے شعبہ جات میں یہ انعام سویڈش اکیڈمی آف سائنس ، طب کے شعبہ میںکرولنسکا انسٹیٹیوٹ اِن سٹاک ہوم ، ادب کے شعبہ میں اکیڈمی اِن سٹاک ہوم  اور امن کے شعبہ میں ناروے کی قانون ساز اسمبلی کے منتخب کردہ پانچ افراد کی کمیٹی کے ذریعہ دینے کا کہا گیاـ اس نے بالخصوص یہ تحریر کیا کہ یہ انعام دیتے وقت قومیت کی بناء پر کسی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے اور اسی شخص کو دیا جائے جو اس کا صحیح حقدار ہو اس وقت رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنس طبیعات، کیمیا اور اکنامکس کے پرائز کیلئے لوگوں کے انتخاب کی ذمہ دار ہیـ، دی نوبیل اسمبلی ایٹ کرو لنسکا انسٹیٹیوٹ طب میں دی سویڈش اکیڈمی لٹریچر کا نوبیل انعام دینے کی ذمہ دار ہے ـ جبکہ انتخاب کیلئے لوگوں کی نامزدگیاں بھی صرف مخصوص لوگ کر سکتے ہیں مثلاً طبیعات، کیمیا ، طب اور لٹریچر کیلئے نوبیل کمیٹی جن لوگوں کو دعوت دیتی ہے صرف وہی نامزدگیاں جمع کروا سکتے ہیں اسی طرح اکنامکس کیلئے اکنامک سائنسز پرائز کمیٹی کی دعوت موصول ہونے پر ہی لوگ نامزدگیوں کیلئے نام تجویز کرسکتے ہیں- دی نارویجن نوبیل کمیٹیـ امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزدگیوں اور حتمی انتخاب کی ذمہ دار ہے پانچ ارکان پر مشتمل یہ کمیٹی ناروے کی پارلیمنٹ کی جانب سے مقرر کی جاتی ہیـ کمیٹیوں کے منتخب شدہ اداروں اور افراد کے علاوہ ـ کوئی بھی شخص یا ادارہ از خود نوبیل انعام کیلئے اپنا نام تجویز نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی دوسرے کا جب تک کہ اسے ان کمیٹیوں کی جانب سے ایسا کرنے کی دعوت موصول نہ ہوـ۱۹۰۱ سے ۲۰۱۴ کے درمیان کل ۸۶۰ مختلف افراد اور ۲۲ ادارہ جات کو یہ انعام دیا جا چکا ہے جن میں سے ۷۵ انعامات اکنامکس کے شعبہ میں دیئے گئے ہیںـ اور کل چار افراد اور دو ادارہ جات کو یہ انعام ایک سے زائد مرتبہ دیا گیا ہے امن کا نوبیل انعام اوسلو، ناروے میں دیا جاتا ہے جبکہ دیگر شعبہ جات کے انعامات سٹوک ہولم، سویڈن میں دیے جاتے ہیں- ــ

 نوبیل پرائز جیتنے والے کو آٹھ ملین سویڈش کرونے ( دس کروڑ پاکستانی روپے سے زائد )، نوبیل گولڈ میڈل اور نوبیل ڈپلومہ دیا جاتا ہے اتنی بڑی مالیت اور ابتدا میں چند بڑے اور مشہور سائنسدانوں (آئن سٹائن، ہائیزن برگ وغیرہ ) کو ایوارڈ ملنے کے باعث یہ دنیا بھر میں بہت مقبول ہوا اور بہت جلد یہ ایوارڈ دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ سمجھا جانے لگا تاہم اتنی مقبولیت کے ساتھ ساتھ یہ انعام متنازعہ حیثیت بھی اختیار کر گیا کیونکہ بہت سے انعامات ایسی شخصیات کو دیئے گئے جو اس کے حقدار نہ تھے اور بسا اوقات حقدار لوگ اس ایوارڈ سے محروم رہ گئیـ ایسے متنازعہ انعامات کی بہترین مثال امریکی صدر باراک اوبامہ ہیں جنہیں امن کا نوبیل انعام اس وقت دیا گیا جب انہیں امریکی صدر بنے ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا جبکہ ان کا نام تجویز کرنے کی ڈیڈ لائن اس وقت ختم ہو چکی تھی جب انہیں صدارتی کرسی پر براجمان ہوئے فقط گیارہ روز گزرے تھے انہوں نے اس سے قبل یا بعد دنیا کے امن کیلئے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا کئی ممتاز امریکی تجزیّہ نگاروں کے مطابق اوبامہ کے عہد میں جنگی جنون میں اضافہ ہوا ہے اسی وجہ سے اس فیصلہ کو عالمی سطح پر بہت تنقید کا سامنا ہوا ہے اسی طرح ہینری کسنجر اور ویتنامی سیاست دان لی ڈک تھو کو ویتنام میں امن معاہدہ پر ۱۹۷۳ء میں نوبیل پرائز کیلئے منتخب کیا گیا لیکن لی ڈک تھو نے انعام لینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس وقت تک ویتنام میں امن قائم نہیں ہوا تھا حتیٰ کہ انعام دیئے جانے کے تین سال بعد تک بھی وہاں جنگ جاری رہی اس فیصلے پر احتجاجاً نارویجن نوبیل کمیٹی کے دو ارکان نے استعفیٰ بھی دے دیا میانمار کی انسانی حقوق کی علمبردار آنگ سانگ سوچی کو ۱۹۹۱ء میں جمہوریت کیلئے پر امن تحریک اور انسانی حقوق کیلئے لڑنے پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا تاہم آنگ سانگ سوچی میانمار میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم پر مسلسل مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جس پر انہیں کئی نوبیل انعام یافتہ شخصیات نے بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ نوبیل پرائز واپس کریں - چائنا میں انسانی حقوق کے کارکن لیو زیابو جیل میں تھے تو چائنا کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کیلئے ان کا نام نوبیل پرائز کیلئے اناؤنس کردیا گیا جس پہ چائنا کی وزارتِ خارجہ نے شدید ردِّ عمل کا اِظہار کیا اور اس رویّہ کو ایوارڈ کے قوانین کے خِلاف قرار دیا - اسی طرح انگریز کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے بر صغیر کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں ملوّث مہاتما گاندھی کو امن کا نوبیل انعام تو نہیں دیا گیا البتہ انہیں متعدد مرتبہ تجویز ضرور کیا گیا جبکہ دوسری جانب پر امن جدوجہدِ آزادی کرنے والے قائد اعظم محمد علی جناح کا نام کبھی تجویز نہیں ہواـ اسی طرح اگر ہم دنیا بھر کے لٹریچر پر نظر دوڑائیں تو صدی کے بڑے بڑے ناموں میں علامہ اقبال کا نام سنہری حروف میں نظر آتا ہے جنہوں نے لٹریچر میں انقلابی خدمات سر انجام دیں مگر انہیں نوبیل انعام کیلئے منتخب نہیں کیا گیا جبکہ اس کے بر عکس کئی پستہ قامت و بونا قد ادیبوں کو نوبیل پرائز کے ذریعے شہرت دی گئی جن کی وجہ شہرت صرف نوبیل پرائز ہے -

بعض واقعات ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر