تحریکِ خالصتان: آزادی کا ریفرنڈم اور بھارت کی امتیازی پالیسیاں

تحریکِ خالصتان:  آزادی کا ریفرنڈم اور بھارت کی امتیازی پالیسیاں

تحریکِ خالصتان: آزادی کا ریفرنڈم اور بھارت کی امتیازی پالیسیاں

مصنف: محمد محبوب مئی 2023

کسی ریاست یا ملک کی عمارت مضبوط اور غیر متزلزل بنیادوں پہ کھڑی نہ ہو یا اس کا جغرافیہ غیر فطری اور غیر حقیقی ہو یا یوں کہہ لیں تو بہتر ہوگا کہ اس کی بنیادیں فریب، مکاری، چالاکی اور جھوٹ پر استوار کی گئی ہوں تو وہ ریاست زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی- اس کی بنیادی وجہ قانونِ فطرت ہے کہ جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی کو جتنے پردوں میں لپیٹ کر چھپایا جائے وہ ایک دن ضرور بے نقاب ہوتا ہے- اس تمہید سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت ’’انڈین نیشنل ازم‘‘ کے نعرے پر جو جغرافیہ ’’متحدہ ہندوستان‘‘  یا ’’سیکولر بھارت‘‘ کے نام پر تشکیل پایا تھا اس جغرافیہ کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ یہ خطہ کبھی متحد نہیں رہا، اگر رہا بھی ہے تو طاقت کے زور پر- جب بھی طاقت کے توازن کا پلڑا کمزور ہوا تو یہ خطہ بکھرتا چلا گیا-حتٰی کہ جب پورے ہندوستان پر انگریز قابض تھا تب بھی 565 کے قریب شاہی ریاستیں اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار تھیں اور ساتھ ساتھ انگریزوں سے آزادی کی تحریکیں بھی چلتی رہیں- بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور 15 اگست 1947ء کو بھارت کو آزادی ملی-

تقسیم ہند کے دوران جس طرح بھارتی قیادت نے انگریز سے ساز باز کر کے پاکستان کے ساتھ تاریخی دھوکہ بازی کی ہے اسی طرح جھوٹ، فریب اور مکاری سےاقلیتوں، چھوٹی ذات کے ہندوؤں، شاہی ریاستوں کے نوابین اور خصوصاً بھارتی پنجاب میں بسنے والے سکھوں سے بھی کی گئی- جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے کہ مکاری اور فریب چھپتا نہیں ہے آج بھارت سے کم و بیش 70 کے قریب چھوٹی اور بڑی آزادی کی تحریکیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں- تاریخی طور پر تقسیم ہند کے وقت مکار کانگریسی کی سکھ رہنماؤں کے ساتھ کی گئی دھوکہ دہی اور پھر 80 کی دہائی میں ہونے والے مظالم اور ان کے مقدس مقامات کی کھلے عام بے حرمتی نے سکھوں کو اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے پر مجبور کیا اور انہوں نے بھارت سے آزاد علیحدہ وطن ’’خالصتان‘‘کی آواز بلند کی- آج ہندوستان میں ہندوتوا، آر ایس آیس اور بی جے پی کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور سکھوں پر بڑھتے ہوئے مظالم، مذہبی منافرت اور انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے آزادی کی تحریکیں مسلسل زور پکڑ رہی ہیں- ایک طویل عرصے سے ہندوستان میں بسنے والے سکھ اپنے ایک الگ ملک خالصتان کے حصول کیلئے اندورن و بیرون ملک تحریک چلا رہے ہیں- بھارت، سکھوں پر ظلم و جبر کے باوجود خالصتان کی آواز کو دبانے میں ناکام رہا ہے- آج یہ تحریک نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے حق کے حصول اور بھارتی جبر کو بے نقاب کرنے کے لئے پوری شدت سے اپنی آواز بلند کر رہی ہے- زیر نظر مضمون میں اس تحریک کا تاریخی پس منظر اور سکھوں پر بھارتی مظالم کی تاریخ کے ساتھ ساتھ تحریک میں آنے والی حالیہ برسوں میں تیزی کی وجوہات اور مستقبل کا ذکر کریں گے-

تحریک خالصتان کا تاریخی پس منظر:

لفظ خالصتان کا مآخذ خالصہ ہے- جس کا مطلب خالصہ یا خالص لوگوں کے رہنے کی سر زمین- یہ تحریک بھارتی پنجاب میں بسنے والے سکھوں کی جانب سے بھارت سے علیحدہ وطن ’خالصتان‘ کے حصول کا مطالبہ کرتی ہے- جب مارچ 1940ء  میں مسلمانوں کی جانب سے ہندوستان کی تقسیم اور علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ ہوا تو سکھ رہنماؤں کو اپنے مستقبل کی تشویش ہوئی- بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس وقت سکھ رہنماؤں کو تحریک پاکستان میں ساتھ دینے کی درخواست کی لیکن سکھ رہنماؤں نےجواہر لعل نہرو اور گاندھی کے فریب میں آکر ہندوستان کا بھر پور ساتھ دیا- جب بھارت کو آزادی مل گئی تو بھارتی رہنماؤں کے سکھوں کے ساتھ تیور بدل گئے اور سکھوں سے کئے گئے وعدوں سے مکر گئے- اس کے بعد وقتاً فوقتاً سکھ رہنما بھارتی پنجاب کو بھارت سے الگ کر کے علیحدہ وطن خالصتان کا مطالبہ کرتے رہے ہیں- 1960ء کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں سکھوں نے خودمختاری کا مطالبہ کیا اور یہ تحریک خالصتان ملک کے قیام کے لیے 70 کی دہائی میں مزید شدت اختیار کر گئی- 1978ء میں چندی گڑھ میں سکھوں نے ’’دل خالصہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا-

80 کی دہائی میں سکھوں پر بھارتی مظالم اور تحریک خالصتان کا عروج:

1980ء کی دہائی میں اقلیتوں خصوصاً سکھوں پر جب بھارتی مظالم اور ریاستی دہشتگردی انتہاء پر پہنچی تو تحریک خالصتان کو دوبارہ عروج ملا- جون 1984ء کے پہلے ہفتے میں 3 سے 8 جون تک بھارتی فوج نے سکھوں پر بربریت کی انتہا کرتے ہوئے سکھ دھرم کے مقدس مقام ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ کی حرمت کو ٹینکوں کے گولوں سے روند ڈالا اور محض ایک ہفتے کے اندر ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا- بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور حکومت میں سکھوں کے خلاف بھارتی فوج کی اس سفاکانہ مہم کو آپریشن بلیو سٹار کا نام دیا گیا جس میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سمیت متعدد سکھ رہنماؤں کو بے دردی سے مارا گیا- مقدس مقامات کی بے حرمتی کے علاوہ بھارتی سے علیحدگی پسند سکھوں اور ٹیمپل میں موجود عام زائرین پر ایسے غیر انسانی مظالم ڈھائے گئے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی- ایک اندازے کے مطابق ان مختصر دنوں میں تقریباً 50000 سکھوں کو مارا گیا- [1]آپریشن بلیو سٹار اور سکھوں کی نسل کشی کے بعد سکھوں کی بھارت سے علیحدہ وطن کی جدوجہد جاری رہی لیکن بھارتی حکومت نے ریاستی مشینری کی مدد سے اسے کچلنے کی ہر ممکن کوشش کی- ہرمندر صاحب پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے، 1987ء میں مندر پر ایک اور حملہ کیا گیا، جسے آپریشن بلیک تھنڈر کا نام دیا گیا-[2]

زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک اور خالصتان کی آواز:

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مرکزی حکومت نے ستمبر 2020 میں کسانوں پر ایسے زرعی قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی جو ان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا- ان قوانین کے خلاف کسان نہ صرف بھارتی پنجاب بلکہ ملک بھر میں سراپا احتجاج ہوئے- کسانوں کی ٹریکٹر ریلی احتجاج کے دوران 26 جنوری 2021ء کو بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان لال قلعہ میں داخل ہوئے اور قلعہ پر بھارتی پرچم اتار کر سکھوں کے مذہبی پرچم لہرائے گئے- ان قوانین کے خلاف انڈین ریاستوں پنجاب، ہریانہ، اُتر پردیش، راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کسان ایک سال سے انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے تھے- بھارتی قیادت نے طاقت کے زور پر کسانوں کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں متعدد پر تشدد واقعات رونما ہوئے - اس تحریک کے دوران کم و بیش 700 کسانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا-[3] بالآخر مظلوم کسانوں کا احتجاج رنگ لے آیا اور نومبر 2021ء کو بھارتی وزیراعظم نے قوانین واپس لینے کا اعلان کیا- کسانوں کی تحریک کو نہ صرف بیرونِ ممالک مقیم سکھوں کی طرف سے نمایاں حمایت ملی بلکہ وہاں کی حکومتوں نے بھی کسانوں کے حق میں بیانات دیئے- مثلاً کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے دو مرتبہ کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی گئی-[4]برطانوی پارلیمنٹ کے تقریباً 36 اراکین نے بھی ایک خط کے ذریعے سراپا احتجاج کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی-[5]

زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے باعث بھارت نے یہ قوانین واپس لینے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن بھارت کے کسانوں خصوصاً پنجاب کے سکھوں میں خالصتان کی تحریک نے شدت پکڑی- سکھوں کے مطابق متنازع قوانین ان کی طاقت، عزت اور انا کو للکارنے کا ایک انداز ہے جس طرح شہریت قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تھی-

سکھوں کی بیرون ممالک میں خالصتان کے لئے جدوجہد آزادی:

سکھوں کے خلاف بھارتی حکومت کی وحشیانہ کاروائیوں کے بعد بہت سے سکھ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہندوستان چھوڑ کر بیرون ملک مقیم ہو گئےہیں- وہاں خالصتان کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے سکھ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں-[6]دنیا کے کئی ممالک میں سکھوں کی جدوجہد اب بھی جاری ہے- دنیا کے متعدد ممالک برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں خالصتان تحریک کے حامی سکھوں کی تنظیمیں کافی متحرک ہیں- خالصتان تحریک کی حامی ایک معروف تنظیم ’’سکھ فار جسٹس‘‘ (SFJ) بھی ہے-یہ تنظیم خالصتان کی جدوجہد میں بھارت سمیت متعدد ممالک میں ریفرنڈم کے حوالے سے نہ صرف تحریک چلا رہی ہے بلکہ خالصتان کے قیام کے لئے کئی ریفرنڈم بھی منعقد کروا چکی ہے- مثلاً اس تنظیم نے امریکہ میں 31 اکتوبر 2013ء کو مسز گاندھی کے قتل کی برسی کے موقع پر دس لاکھ سکھوں کی دستخط شدہ رٹ پٹیشن اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کونسل (UNHRC) میں دائر کرائی اور یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں ہونے والے سکھوں کے قتلِ عام کو عالمی سطح پر سکھوں کی نسل کشی قرار دی جائے اور اس انسانی المیہ کے ذمہ دار بھارتی رہنماؤں کو خصوصی ٹربیونلز قائم کر کے قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں  قرار واقعی سزا دی جائے -[7]

اس کے علاوہ 6 جون 2014ء کو اسی سکھ تنظیم نے عالمی سطح پر انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں کے دستخط حاصل کرنے کے لئے ایک مہم چلائی ہے جس کو سکھ ریفرنڈم 2020ء کا عنوان دیا گیا ہے - اس کے مطابق 2020ء میں بھارت کے باہر بسنے والے 50 لاکھ سکھ ایک ریفرنڈم کے ذریعے اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ بھارت کے زیر قبضہ پنجاب کو بھارت سے آزادی حاصل کر لینی چاہیے یا بھارتی غلامی میں رہنا ہے-

اسی سلسلے میں 31 اکتوبر 2021ء کو لندن میں سکھوں نے خالصتان کے قیام کیلئے کئی مراحل میں ریفرنڈم کا انعقاد کروایا جس میں 10 ہزار سے زائد سکھوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا- ریفرنڈم کے موقع پر سکھ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بھارت طاقت کے ذریعے سکھوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے- ریفرنڈم کے دوران سکھ رہنماؤں نے امریکا،کینیڈا، بیلجیئم، آسٹریلیا اور بھارتی پنجاب میں بھی ریفرنڈم کا ارادہ ظاہر کیا ہے-مزید اس موقع پر سکھ رہنما آزاد خالصتان کے حق میں نعرے بھی بلند کرتے رہے-

سال 2021ء کے اختتام تک سکھوں کی ایک بڑی تعداد (تقریباً 2 لاکھ سے زائد) اس ریفرنڈم کے حق میں ووٹ کا سٹ کرچکی تھی-[8]

حال ہی میں آسٹریلیا کے شہر میلبرون میں خالصتان کے حق میں ریفرنڈم ہوا جس میں پچپن ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا- دوران ریفرنڈم سکھ خالصتان کے نعرے بلند کرتے رہے- اس سے قبل کینیڈا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور سات یورپی ممالک میں خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ ہوچکی ہے-[9]

بھارت اور دیگر ممالک میں خالصتان تحریک کی حا لیہ گرمجوشی:

گزشتہ سال اگست میں کسانوں کی احتجاجی تحریک کے بعد حالیہ دنوں میں دوبارہ نہ صرف بھارتی پنجاب اور دیگر ریاستوں میں جبکہ دنیا کے متعدد ممالک میں خالصتان کی تحریک شدت پکڑ رہی ہے- اس تحریک میں شدت کا باعث خالصتان تحریک کی حامی جماعت ’’وارث پنجاب دے‘‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ اور کارکنوں پر بھارتی پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن اور تشدد ہے- امرت پال سنگھ کے دو بیانات قابل ذکر ہیں جس میں وہ خالصتان تحریک کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

’’اگر آر ایس ایس اور ہندو رہنما انڈیا میں ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتے ہیں تو سکھ خالصتان کی تمنا کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘[10]

ایک اور بیان میں انہوں نےیہاں تک بھی کہا کہ:

’’میں خود کو انڈین نہیں سمجھتا- میرے پاس جو پاسپورٹ ہے وہ مجھے ہندوستانی نہیں بناتا- یہ صرف ایک دستاویز ہے جس کے ساتھ سفر کرنا ہے‘‘-[11]

یہ صرف امرت پال سنگھ کا بیان نہیں بلکہ بھارتی شدت پسندانہ اور جابرانہ پالیسوں میں پسے ہوئے لاکھوں سکھوں کے دل کی آواز ہے- سکھ چاہے بھارت میں بستا ہو یا بیرون ممالک ، وہ خالصتان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے- اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں سامنے آیا جب حالیہ برطانیہ میں مقیم سکھوں نے لندن میں انڈین ہائی کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی سفارت خانے کی عمارت سے ترنگا اُتار کر خالصتان کا پرچم لہرا دیا-[12]

اس دوران مظاہرین خالصتان تحریک کے حق میں نعرے بازی بھی کرتے رہے- تا دم تحریر پنجاب میں خالصتان تحریک کے حامی سکھوں پر بھارتی پنجاب پولیس کا شدید کریک ڈاؤن اور ہائی الرٹ جاری ہے- چندی گڑھ سمیت کئی شہروں میں دفعہ 144 نافذ ہے- پولیس نے فیروز پور، فرید کوٹ، بٹالہ، ہوشیار پور، گرداس پور اور جالندھر سمیت کئی مقامات پر فلیگ مارچ کیا- بھارتی پنجاب حکومت نے موبائل انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروس پر پابندی لگائی ہوئی ہے-[13]

اختتامیہ:

طاقت کے زور پر سکھوں کے مذہبی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر بھارت سیکورٹی فورسز کی چڑھائی سے نہ صرف بھارت جبکہ دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے سکھوں کے دلوں میں ایک زخم اور درد موجود ہے اور سکھوں کے ساتھ بھارت کی غداری تصور کرتے ہیں- نہرو، گاندھی، پٹیل اور اندرا گاندھی کے بعد سکھوں کو فاشسٹ اور ہندوتوا نظریات کی حامل مودی سرکار کے ظلم و ستم سے ایک بار پھر اندازہ ہوگیا ہے کہ بھارت میں کس طرح انہیں تیسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے- جس کی واضح مثال کسانوں کی احتجاجی تحریک میں سامنے آنے والے واقعات ہیں-

بی جے پی اور مودی سرکار کی حکومت نے بزرگ سکھوں، بچوں اور عورتوں پر لاٹھیاں برسا کر خالصتان تحریک کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا- کسانوں کے احتجاج میں سکھ اداکار، کھلاڑی اور مختلف شعبہ زندگی کے افراد نے نہ صرف شرکت کی بلکہ سکھوں کی عملی مدد بھی کی- اس کے علاوہ سکھوں کو بھارتی مظالم کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بھی کافی مدد حاصل ہوئی-

اگرچہ گزشتہ سال بھارتی حکومت نے زرعی قوانین واپس تو لے لئے ہیں لیکن غیر منصفانہ پالیسوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم نےہمیشہ کے لیے سکھوں میں ایک جذبہ پیدا کیا جس سے خالصتان تحریک میں حالیہ شدت اور تیزی پیدا ہوئی- سکھوں کے احتجاج نے خالصتان تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے-دنیا بھر کے سکھ، دیگر کمیونٹی کے پسے ہوئے طبقات اور کشمیری انسانی حقوق کے عالمی دن پر بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے ہیں-خالصتان کی آزادی کے لیے دنیا بھر میں بڑی ریلیوں، جلسوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے- بیرونی ممالک برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور دنیا کے متعدد ممالک میں الگ وطن خالصتان کے لیے سکھوں کا احتجاج ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے- وہاں آئے روز سکھ ریفرنڈم کے ذریعے خالصتان کے حق میں اپنا فیصلہ سنا رہے ہیں- بہت سے ماہرینِ سیاسیات و بین الاقوامی امور کے نزدیک یہ تحریک بھارت کی تباہی کا شاخسانہ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے اور جب ظلم حد سے تجاوز کر جائے تو ظالم اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے- کئی ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں سکھوں کا یہ خواب ’’خالصتان‘‘ کے نام سے شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے-

٭٭٭



[1]India’s Operation Blue Star: A Tragic Memory

https://www.pakistantoday.com.pk/2021/06/03/indias-operation-blue-star-a-tragic-memory/

[2]Ibid

[3]The human cost of India’s yearlong farmers’ protest

https://www.aljazeera.com/news/2021/11/30/human-cost-india-farmer-protest-agriculture

[4]Farmers’ protest in India is concerning, says Canadian PM Justin Trudeau https://www.hindustantimes.com/world-news/farmers-protest-in-india-is-concerning-says-canadian-pm-justin-trudeau/story-t7FUtuEoLD7vzpmzBEGwdK.html

[5]36 British MPs back farmers’ protest, want UK to raise issue with India

https://www.hindustantimes.com/world-news/36-british-mps-back-farmers-protest-want-uk-to-raise-issue-with-india/story-tyXApoXTtKJyIkXEcDdUVP.html

[6]https://www.nation.com.pk/27-Nov-2017/indian-anxiety-and-khalistan-2020

[7]Sikhs demand UN probe into 1984 India ‘genocide’ https://www.dawn.com/news/1053589

[8]5th phase of Khalistan referendum held in London

https://www.pakistantoday.com.pk/2021/12/06/5th-phase-of-khalistan-referendum-held-in-london/

[9]60,000 Australian Sikhs defy Modi in vote for Khalistan Referendum

https://tribune.com.pk/story/2398312/60000-australian-sikhs-defy-modi-in-vote-for-khalistan-referendum

[10]https://www.bbc.com/urdu/articles/crgej392j0po

[11]https://www.bbc.com/urdu/articles/cqe59qpre5do?at_medium=RSS&at_campaign=KARANGA

[12]Indian flag replaced with Khalistan flag at Indian High Commission in London

https://www.geo.tv/latest/477308-indian-flag-replaced-with-khalistan-flag-at-indian-high-commission-in-london

[13]https://www.forbes.com/sites/siladityaray/2023/03/20/indian-state-blocks-internet-and-text-messaging-for-27-million-residents-heres-why/

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر