شمس العارفین قسط 30

شمس العارفین قسط 30

جب کوئی کامل صاحب ِدعوت کسی ولی اللہ کے مزار پر دعوت پڑھنے کے لئے جائے تو پہلے وضو کرکے دو رکعات نماز نفل ادا کرے اور پھر قبر کہ ہم نشینی میں دل کی توجہ سے مذکورہ بالا سورتوں میں سے کوئی ایک سورۃ پڑھے یا قرآن مجید میں سے جو کچھ یاد ہو وہ پڑھے تو اہل ِمزار کی روح حاضر ہوجائے گی - اگر صاحب ِدعوت غالب ہے تو پڑھتے وقت روحانی اُس کے سامنے ادب سے دست بستہ کھڑا ہو کر قرآن سنے گا اور اگر صاحب ِدعوت ناقص ہے تو روحانی اُس کے سامنے ایک ہاتھ یا ایک بالشت کے فاصلے پر بیٹھ کر قرآن سنے گا، اِس دوران صاحب ِدعوت اُسے ترتیب ِعلم سے قید کرلے گا، پھر عمر بھر روحانی اُس کی قید سے آزاد نہ ہو سکے گا، وہ جب چاہے گا روحانی اُس کے پاس حاضر ہو جائے گا - صاحب ِباطن و صاحب ِنظر عارف باللہ کے لئے ایک روحانی ولی اللہ کو اِس قدر قوت و توفیق حاصل ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو جہان بھر کے تمام جن و اِنس و فرشتے اور روئے زمین کی ہر چیز اُس کے سامنے پیش ہو جائے کہ روحانی تمام عالمِ زندہ پر غالب ہوتا ہے  اور اگر صاحب ِعیاں تر تیب سے دعوت پڑھے تو تمام انبیاءو اؤلیاء و اصحاب و غوث و قطب و شہداء و ابدال و اوتاد و فقیر درویش عارف واصل ولی اللہ مومنین کی ارواح اور حضرت آدم صفی اللہ سے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)تک اور حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) سے روزِ قیامت تک کل و جز کی تمام ارواح صاحب ِدعوت کے گرد صف بستہ کھڑی ہو جائیں اور دنیا بھر کی تمام روحانیت اُس کے سامنے حاضر ہو جائے اور صاحب ِدعوت سے ملاقات و مصافحہ کرے - صاحب ِعیاں اگر ایک ہی بار ایسی دعوت پڑھ لے تو عمر بھر زندگی و موت کی حالت میں اُسے کافی ہو رہتی ہے کہ برکت ِحکمِ الٰہی سے مزارات پر ایسی عین العیان دعوت پڑھ کر جملہ ارواح کو قید کیا جا سکتا ہے- جو شخص دعوت کی یہ راہ نہیں جانتا اُسے دعوت پڑھنے سے کچھ بھی آگاہی حاصل نہیں ہوتی- جو کوئی کسی اہل ِ حضور و غالب الارواح اہل ِ دعوت فقیرکو آزار پہنچاتا ہے وہ دونوں جہان میں خراب ہوتا ہے -

انتہائی کامل اہل ِ دعوت ایسے ہوتا ہے جیسے کہ ایک غازی شہسوار کہ جس نے دو دھاری تلوار ہاتھ میں پکڑ رکھی ہو اور وہ بحکمِ خدا کفار کو قتل کر رہا ہو-جان لے کہ دعوت پانچ قسم کی ہوتی ہے- ایک دعوت وسیلۂ ازل ہے جو مقامِ ازل تک پہنچاتی ہے- دوسری دعوت وسیلۂ ابد ہے جو مقامِ ابدتک پہنچاتی ہے - تیسری دعوت وسیلۂ دنیا ہے جو مشرق سے مغرب تک تمام روئے زمین کی حکومت و تصرف تک پہنچاتی ہے - چوتھی دعوت وسیلۂ عقبیٰ ہے جو عقبیٰ تک پہنچاتی ہے - پانچویں دعوتِ معرفت ِمولیٰ ہے جو مقامِ معرفت ِالٰہی پر مشاہدۂ نورِ نا متناہی اور مجلس ِمحمد مصطفےٰ (ﷺ) کی حضوری تک پہنچاتی ہے -

جان لے کہ دعوت پڑھنے کے لائق صرف وہ عامل عالم مکمل صاحب ِقرب و وصال عارف باللہ ہوتا ہے جو رجعت سے پاک غالب الاؤلیاءفقیر ہو نہ کہ نفس پرور و مغرور اہل ِہوا - جو شخص ترتیب کے ساتھ اچھی طرح وضو کرے اور متواتر تین دن تک ہر رات دو رکعات میں قرآن مجید ختم کرے تو اُس کے اِس عمل کا اثر قیامت تک ختم نہ ہوگا- ایسی دعوت پڑھنے والا شخص دونوں جہان میں غالب الاؤلیاءہو جائے گا لیکن کسی عامل کی اجازت کے بغیر یہ دعوت جاری نہیں ہوتی - اگر کسی کو قرآن مجید یاد نہیں اور وہ دوگانہ نہیں پڑھتا تو سورۃ مزمل پڑھتا رہے ، ایک ہی ہفتہ میں وہ کامل مکمل ہو جائے گا -ترتیب ِابتدا و انتہائے دعوت یہ ہے کہ قرآن مجید ایک ہادی و پیشوا و راہنما کلام اللہ ہے جو دونوں جہان کا معتبر وسیلہ ہے - اللہ تعالیٰ کے ظاہر و باطن کے تمام خزانے، خشکی و تری اور بحر و بر کی جملہ مخلوق کے حالات اور چھ سمتوں میں پھیلی ہوئی توحید ِذات و صفات کی تمام تفصیل قرآن مجید میں موجود ہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: ’’تری اور خشکی کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی تفصیل قرآن مجید میں نہ ہو‘‘- البتہ ہر ایک کو اِس کی تحقیق ہونی چاہیے کیونکہ دین و دنیا کے تمام معاملات کے لئے علیحدہ علیحدہ اعداد و شمار ہیں اور اُن کی علیحدہ علیحدہ خاصیت و ترتیب ہے، چنانچہ امرمعروف، نہی و منکر، قصص ِانبیا ء، وعدہ وعید اور ناسخ و منسوخ وغیرہ کے لئے علیحدہ علیحدہ آیات ہیں -بعض لوگ دعوت پڑھنے میں خود عامل کامل ہوتے ہیں اور بعض حکم و اجازت میں کامل ہوتے ہیں - بہتر یہ ہے کہ صاحب ِدعوت خود بھی عامل کامل ہو اور حکم و اجازت میں بھی عامل کامل ہو - دینی و دنیوی مشکلات کے حل کے لئے دعوت پڑھنا اُن صاحب ِکمال کاملین کا کام ہے جو رجعت و زوال سے پاک ہوتے ہیں - جب یہ دعوت شروع کرتے ہیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے اُنہیں دعوت پڑھنے کا اذن و حکم مل جاتا ہے - تحقیق سے ثابت ہے کہ ایسی دعوت دو طرح سے پڑھی جاتی ہے - ایک  حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعے اور دوسرے اؤلیاءاللہ کے مزارات پر قرآن خوانی کے ذریعے - جو شخص  نہ تو حاضراتِ اسم اللہ ذات کے ذریعے دعوت پڑھنا جانتا ہے اور نہ ہی قبورِ اؤلیاء اللہ پر قرآن خوانی کے ذریعے دعوت پڑھنا جانتا ہے وہ کسی بھی قسم کی دعوت پڑھنے کے لائق نہیں ہے کہ علمِ تکسیر اور عالمِ تکسیر تو امیر ہوتا ہے –

جان لے کہ علمِ تکسیر دعوت ہے اور دعوت کے چار حروف ہیں اور طاعت و شرائط کے اعتبار سے ہر حرف شرف و عزت کا حامل ہے - چار حروفِ دعوت یہ ہیں-: حرف ’’ د ‘‘ سے دائرۂ دل کو ذکر ِدوام سے پاک کرنا ہے اور ذکر ِدوام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوتا ہے - حرف ’’ ع ‘‘ سے علمِ غیبی لاریبی کی تفصیل الہامِ روحانی سے اور عالمِ غیب کے مؤکل فرشتوں سے معلوم کرنا ہے - حرف ’’و ‘‘سے وِرد وَظائف اور کلامِ الٰہی کو ترتیب و ادب و عزت و اعتقاد سے پڑھنا ہے - حرف’’  ت ‘‘ سے ترک کرنا ہے اُس چیز کا کہ جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے اصحاب نے ترک کیا ہو - ایسے تمام معاملات مبتدی دعوت کے معاملات ہیں –

ارے ہاں! یہ ایک حقیقت ہے کہ جیسے پارہ کسی عامل کامل کے بغیر کشتہ نہیں ہوتا اُسی طرح عمل ِ دعوت بھی کسی صاحب ِ دعوت ِ قبور عامل کامل صاحب ِحضور کے حکم و اجازت کے بغیر جاری نہیں ہوتا- ناقصوں کے لئے دعوت پڑھنا دائمی رجعت و رنج کا باعث ہے لیکن کاملوں کے لئے مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی حضوری اور گنج ِجمعیت کا باعث ہے-صاحب ِدعوتِ کامل کو زکوٰۃ و نصاب و دور مدور و بذل و ختم و دعوت پڑھنے کے لئے موزوں وقت و مناسب جگہ کا انتخاب و رجعت و عدد و حسابِ نیک ساعت و جلالی و جمالی حیوانات کا گوشت کھانے سے پرہیز وغیرہ کی کیا ضرورت ہے؟ کہ یہ تمام بے شمار وسوسے و خطرات ہیں جو ناقصوں کو پیش آتے ہیں کیونکہ وہ ترتیب ِدعوت کی ابتدا و انتہا کو نہیں جانتے اور محض رضائے الٰہی کی خاطر اللہ کے نام کو درمیان میں نہیں لاتے-

جان لے کہ دعوتِ کل و جز ، دعوتِ ذکر ، دعوتِ فکر ، دعوتِ تجلیاتِ نورِ الٰہی اور دعوتِ منتہی کا تعلق اِن دو آیاتِ کریمہ سے ہے کہ اِن میں اسمِ اعظم متصل پڑھا جاتا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’فَفِرُّوْآاِلَی اللّٰہِ‘‘[1] اللہ کی طرف رجوع کرو کہ اُسی کی مہربانی سے ہی ہر کام جاری و ساری ہوتا ہے اور اُس کی توجہ و وہم و خیال اِن دو آیات کی برکت سے سراسر وصالِ الٰہی ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’   اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ[2]- 

 



[1]دوڑو اللہ کی طرف-

[2]اَللّٰہُ (اسمِ اللہ ذات) مومنوں کا ایسا دوست ہے جو اُنہیں ظلمات سے نکال کر نور میں لے آتا ہے-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر