ابیاتِ باھُوؒ

ابیاتِ باھُوؒ

ک:کلمے نال مَیں ناتی دھوتی، کَلمے نال وِیاہی ھو
کلمے میرا پَڑھیا جَنازہ کلمے گور سہائی ھو
کلمے نال بہشتیں جاناں کلمہ کرے صفائی ھو
مُڑن مَحال تِنہاں نُوں باھوؒ جنہاں صاحب آپ بُلائی ھو

 

With kalima I have bathed and I am married with it, Hoo

Kalima performed my funeral and my grave decorated with it Hoo

With kalima I will enter heavens and kalima cleans in it Hoo  

Who is invited by Honourable Bahoo return is impossible from it Hoo 

Kalmay naal main nati dhoti, kalmay naal vihahi Hoo

Kalmay mera pa’Rhya janaza kalmay gor suhai  Hoo

Kalmy naal bahishtai’N jana’N kalma kary safai Hoo

Mu’Ran mahaal tinha’N no’N Bahoo jinha’N sahib aap bulai Hoo

 

- بلاشبہ کلمہ طیبہ دین کی بنیاد، کلید  اور بندہ مؤمن کا   اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے جیسا کہ سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھو (رح)  صحابہ کرام (رض) کا کلمہ طیبہ سے تعلق بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:

’’الغرض !اصحاب ِرسول اﷲ (ﷺ) کے پا س ظاہر ی علم نہ تھا لیکن ذکر اﷲکی تاثیر ،کلمہ طیب ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ِ ‘‘ کی محبت اور قلبی، روحی، سِرّی  جیسے ذکر ِخفیہ سے اُنہیں علمِ لدنی اور علمِ تفسیر کا روشن اور پُر تاثیر فیض حاصل تھا-وہ اپنی ہر گفتگو میں پہلے کلمہ طیب یا اﷲ تعالیٰ کانام لیتے تھے اوراِس کے بعد کوئی دوسری بات کرتے تھے‘‘-(کلیدالتوحید کلاں)

دراصل کلمہ طیبہ بندہ مؤ من کا اللہ عزوجل سے ایک عہد ہے کہ   اب وہ اللہ عزوجل کےعلاوہ دل میں کسی کو نہیں بسائے گا اور زندگی کے شب و روز اور ہر لمحہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بسر کرے گا-جیساکہ آپ (رح) ارشادفرماتے ہیں:’’پس معلوم ہوا کہ عارف باللہ اٹھتے بیٹھتے جو کام بھی کرتاہے اللہ تعالیٰ کے حکم اور حضور  نبی رحمت(ﷺ)  کی اجازت سے کرتاہے- اس کا دین و دنیا کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘-(شمس العارفین)

 بی سری دیدن خدا باشد  روا

 

کی بود آنچشم مخلوقی صفت

2:’’ظاہری آنکھوں سے خدا کو کسی نے نہیں دیکھا مگر جیتے جی مرکر خدا کو دیکھا جاسکتاہے‘‘-(نورالھدٰی)

اسم اللہ ذات اورکلمہ طیبہ کےذکر کی بدولت اللہ عزوجل طالب تما م گناہوں کو ختم فرمادیتا ہے او ر بلا شبہ  ایسے خوش بخت کی قبر اور حشر پر نور ہوں گے جیساکہ  حضرت سخی سُلطان باھو (رح) ارشادفرماتے ہیں:

’’اِس طرح جب دل اسم اللہ ذات اور کلمہ طیب کا ذکر کرتا ہے تو ہر بار اُسے ستر ہزار ختمِ قرآن مجید کا ثواب ملتا ہے بلکہ اِس سے بھی زیادہ بے حد و بے حساب ثواب ملتا ہے- جب ایسا صاحب ِقلب آدمی ذکر ِ اسم اللہ ذات کے تصور میں آنکھیں بند کرتا ہے اور غرقِ مراقبہ ہو کر دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے توتجلیاتِ نورِ ذات اور مشاہدۂ ربوبیت میں غرق ہو جاتا ہے اور خدا کے حکم سے اُس کے 80 سال کے گناہ نورِاسم اللہ ذات کی عصمت اور کلمہ طیبات ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی برکت سے کراماً کاتبین کے دفاترسے مٹا دیے جاتے ہیں‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

3:سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے کہ ’’جو شخص کلمہ طیب کا ذکر کرتا ہے اُس کا ٹھکانہ جنت ہے‘‘(عین الفقر)- ایک اور مقام پہ آپ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے: ’’جس نے ایک مرتبہ کہا   ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ وہ بلا حساب و بلا عذاب جنت میں داخل ہوگیا‘‘(نورالھدٰی)-  کلمہ طیب کے ذکرسے اللہ عزوجل بندہ مؤمن کے دل کو صفائی عطافرماتا ہے  جس کی بناء پہ وہ من جانب اللہ جملہ انعامات الٰہیہ کا مستحق بن جاتا ہے جیساکہ آپ (رح)ارشادفرماتے ہیں:

’’دونوں جہان علمِ قرآن کی قید میں ہیں اور علمِ قرآن کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ  رَّسُوْلُ اللّٰہِ   کی طے میں ہے اور کلمہ طیب اسمِ اللہ ذات کی طے میں ہے - کلمہ طیب و اسمِ اللہ ذات طالب اللہ کے  ہفت اندامِ وجود کو یک بارگی پاک کر دیتے ہیں جس سے طالب کے وجود کا بھاری پردہ اُٹھ جاتا ہے اور وہ مشرفِ دیدارِ پروردگارہوجاتاہے ‘‘-(امیرالکونین)

4: کچھ طالبا نِ مولیٰ اپنے طلب صادق  اور قوتِ عمل کی بنیاد پر اللہ عزوجل کے فضل کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں  اور مرشد کامل مرد خود آگاہ  کی توجہ ا س کو حاصل ہو جاتی ہے اور پھر اس کے عمل میں اللہ عزوجل کی رضا غالب آجاتی ہے ایساخوش بخت طالب بظا ہر ناسوت میں رہتے ہوئے بھی  ہمہ وقت عالم لاہوت کے باسی ہوتا ہے اوران کا عالم ِ ناسُوت کی طرف متوجہ ہونامحال ہوتا ہے- جیساکہ آپ (رح) ارشادفرماتے ہیں:

’’پس بادشاہ ولی اللہ کے تابع ہوتاہے اور مشرق سے مغرب تک ہر ملک اور ہر بادشاہ اور ہر علاقہ فقیر کے تصرف میں ہوتا ہے- اگر ظاہرباطن میں ولی اللہ فقیر کی توجہ شامل ِحال نہ ہو تو بادشاہ کوئی مہم بھی سر نہیں دے سکتا چاہے اُس کے پا س ہزاراں ہزار لشکر ہی کیوں نہ ہوں-رات دن بکثرت دعائیں مانگنے اور بے شمار دولت ِ سیم و زر خرچ کرنے سے فقیرِ کامل کی ایک توجہ ہی کافی ہے -اُس فقیرِ کامل کی توجہ جو کنۂ قربِ ذاتِ الٰہی کی توجہ، کنۂ کن کی توجہ اور کنۂ کلمہ طیبات  ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ کی  توجہ  جانتا  ہو- ایسے فقیرِ کامل کی توجہ روز بروز ترقی پذیر اور رواں رہتی ہے اور قیامت تک نہیں رکتی بلکہ فقیرِ کامل کی توجہ ایسی کامل ہوتی ہے کہ اُس سے طالب اللہ قیامت سے پیشتر ہی ایمان کی سلامتی کے ساتھ بہشت میں داخل ہو کر مامون ہو جاتاہے‘‘-(نورالھدٰی)

اس لیے آپ  (رح)ارشادفرماتے ہیں:

عِشق نہ چھوڑے مُکھ نہ موڑے توڑے سے تلواراں کھَنّے ھو

 


سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر