آزادیِ اظہار رائے پر رپورٹ کی تقریبِ رُونمائی

آزادیِ اظہار رائے پر رپورٹ کی تقریبِ رُونمائی

آزادیِ اظہار رائے پر رپورٹ کی تقریبِ رُونمائی

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جولائی 2015

 تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘ کے زیرِ اہتمام منعقد کردہ حالیہ ڈیبیٹ ’’کیا آزادی اظہارِ رائے، توہین کا حق دیتی ہے؟ ـ‘‘کی رپورٹ ۱۶ جون، ۲۰۱۵ء کو اسلام آباد میں تقریبِ رونمائی میں پیش کر دی گئی - تقریب میں مختلف ممالک کے سفیران ، دانشور حضرات ، محققین، ممبران ِ پارلیمنٹ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز ، طلبہ اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی- تقریب سے دانشور حضرات، تجزیہ نگاروں اور سیاسی شخصیات نے اظہارِ خیال کیا جس کی مختصر رپورٹ درج ذیل ہے-

افتتاحی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی

چئیر مین، مسلم انسٹیٹیوٹ

مَیں مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے تشریف لانے والے معزز مہمانانِ گرامی کا تہہ دل سے مشکور ہوں- آزادی اظہار رائے پر ہونے والی حالیہ ڈیبیٹ کے شرکاء، مہمانان اور دُنیا بھر سے حصہ لینے والے افراد کا ردِ عمل نہایت حوصلہ افزا ہے- آزادی اظہار رائے معاشرے کی بہتری کیلئے ایک ضروری حق ہے مگر اسی صورت میں جب اسے ذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا جائے- ایسا اظہارِ رائے جس سے معاشرے میں صدیوں سے موجود اقدار اور روایات کی توہین ہو اور معاشرے میں نفرت، انتشار اور تشدد جنم لے، اس پر قدغن لگانا ضروری ہے اور اس ضمن میں عالمی اتفاقِ رائے سے قانون بننے چاہئیں- ڈیبیٹ میں ڈاکٹر برائن کلگ نے یہ بھی واضح کیا کہ’’توہین کا حق‘‘ کسی بھی انسانی حقوق کے چارٹریا کنونشن میں شامل نہیں ہے- ڈیبیٹ میں مغربی آزادی کے علمبردار اور آزادی اظہارِ رائے کے لئے کام کرنے والے اسکالرز کے دلائل نے یہ ثابت کیا ہے کہ توہین کا مسئلہ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کیلئے اہمیت رکھتا ہے اور اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ معاشرے میں انتشار کو روکنے اور بھائی چارہ اور امن قائم رکھنے کیلئے توہین آمیز کلمات پر قدغن ہونی چاہئے- یہ بھی درست ہے کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر کئے جانے والے توہین آمیز اقدامات سے سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہوئے ہیں اور اس ضمن میں مغرب کو دوہرے معیارات ختم کرنا ہوں گے- اِس ڈیبیٹ کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اِس میں کوئی پاکستانی ، کوئی ایشیائی اور کوئی پیدائشی مسلمان بطور ڈیبیٹر یا مہمان ڈیبیٹر کے طور پہ نہیں تھا چار غیر مسلم ڈیبیٹر تھے جو کہ برطانیہ اور امریکہ کے ’’ٹاپ موسٹ کریڈیبل ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز‘‘ سے تھے اور صرف ایک خاتون مس لورین بوتھ مسلمان سکالر تھیں وہ بھی عیسائیت اور مغرب کی آزادی میں پلی بڑھیں ابھی چند برس قبل ہی انہوں نے اسلام قبول کیا ہے - وہ مغرب جو توہین کے حق کا واویلا کرتا ہے اُسی کے اپنے دانشوروں نے 19% اور 81% کے واضح فرق کے ساتھ یہ طے کیا ہے کہ اِظہارِ رائے کا مطلب ہرگز ہرگز کسی کی توہین نہیں لیا جا سکتا -

تعارفی پریزنٹیشن

جناب اُسامہ بن اشرف

ریسرچ ایسوسی ایٹ، مسلم انسٹیٹیوٹ

’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘ مسلم انسٹیٹیوٹ کا آن لائن ڈیبیٹ فورم ہے جو آکسفورڈ ڈیبیٹ فارمولہ کے تحت انسانیت بالخصوص مسلم دُنیا کو در پیش مختلف الانواع چیلنجز پر غیر جانبداری، منطق اور دلائل پر مبنی ڈیبیٹ منعقد کرواتا ہے تاکہ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے خیالات اور نظریات کے چھپے گوشے اور ان کی مختلف جہات سامنے لائی جا سکیں- آزادی اظہار رائے پر حالیہ ڈیبیٹ کا مقصد دُنیا بھر میں اس موضوع سے متعلق پائے جانے والے سوالات کا جواب تلاش کرنا تھا- اکیس روز تک جاری رہنے والی اس ڈیبیٹ میں ستر سے زائد ممالک کے افراد نے اپنے ووٹ اور اظہارِ خیال کے ذریعے حصہ لیا اور اکاسی فیصد افراد کے ووٹ کے مطابق آزادی اظہار رائے کسی کی توہین کا حق نہیں دیتی- ڈیبیٹ میں آزادی اظہار رائے کی مکمل آزادی کے حق میں دلائل دینے والے محترمہ ہیلری سٹافر نے بھی تسلیم کیا کہ چارلی ہیبڈو کے توہین آمیز خاکے انتہائی ذاتی سطح پر توہین آمیز تھے جبکہ موضوع کے خلاف دلائل دینے والے ڈاکٹر جیمسن ڈوئیگ نے کہا کہ امریکی معیار Brandunburgاور کنیڈین معیار Brian Dicksonکے مطابق چارلی ہیبڈو کے خاکے نفرت انگیز اور ٖغیر قانونی قرار دیے جا سکتے ہیں-

کلماتِ خاص از مہمانِ گرامی

جناب انجینئر خرم دستگیر خان

وفاقی وزیر برائے صنعت و تجارت

دُنیا بھر کے مسلمانوں کو مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا ہے اسی وجہ سے ہمارا موقف جو کئی موقعوں پر مغربی قوانین کے مطابق قابل دفاع ہے، انتہا پسندانہ اور قدامت پر مبنی مذہبی نسبت کے طوپر دیکھا جاتا ہے - اسی وجہ سے مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ڈیبیٹ فورم کی ابتداء بہت اہمیت کی حامل ہے- آزادی اظہار رائے پر مغرب میں بہت عرصہ سے بحث چل رہی ہے کہ اس کی حدود کہاں متعین کی جائیں اور آج بھی یہ حدود واضح نہیں ہیں چنانچہ اس موضوع پر ڈیبیٹ کی بہت گنجائش ہے- امریکہ اور اکثر یورپی ممالک میں اظہارِ رائے کی حدود تبدیل ہو رہی ہیں- امریکہ میں ایسا اظہارِ رائے جس سے ملک کو واضح طور پر خطرات لاحق ہوں اور نفرت انگیز کلمات جو تشدد پھیلا سکتے ہوں ان پر قدغن لگائی گئی ہے- دُنیا بھر کے مسلمانوں کو مسلم ڈیبیٹ جیسے فورمز کے ذریعے اس بحث کو آگے بڑھانا ہے کہ ہم آزادی اظہارِ رائے کے حق میں ہیں مگر کسی طور پر اپنے نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کو تسلیم نہیں کرسکتے-

خِطاب

جناب احمر بلال صوفی

ماہرِ بین الاقوامی قوانین و سابق وفاقی وزیر برائے آئین و قانون

مسلم انسٹیٹیوٹ کو انتہائی پروفیشنل اور شاندار علمی و تحقیقی کام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں - جس انداز میں اس ڈیبیٹ کا انعقاد کا گیا ہے وہ قابل تحسین ہے کیونکہ اس میں یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے دلائل شامل ہوں سکیں اور اس سے منطقی اور قانونی نتائج اخذ کئے جا سکیں دورِ حاضر میں اِسی طرح کے تھنک ٹینکس کی ضرورت ہے تاکہ اِس طرح کا بڑا کام کیا جا سکے - اقوامِ متحدہ کے International Covenant on Civil and Political Rights کے آرٹیکل ۱۸، ۱۹ اور ۲۰ آزادی اظہارِ رائے کو یقینی بناتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ خصوصی حالات میں اس پر قدغن بھی لگاتے ہیں مثلاً یہ جنگ کی ترغیب دینے اور انتشار پھیلانے پر پابندی لگاتے ہیں- ان آرٹیکلز کے ذریعے کسی ریاست کے اندرونی قوانین مرتب کئے جا سکتے ہیں- اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے چیپٹر سات کے تحت ایک قرار داد بھی موجود ہے جو آزادی اظہارِ رائے کے نام پر انتشار کی ترغیب دینے کو روکتی ہے- اسی طرح کسی انسان کی ہتک عزت نہیں کی جا سکتی جس کیلئے کئی ممالک میں قوانین موجود ہیں- اصل بحث تب شروع ہوتی ہے جب مذہب اور مذہبی شخصیات کی بات آتی ہے کہ ان کی توہین پر آزادی اظہار رائے پر کیا حدود وضح کرنی چاہئیں؟ توہینِ مذہب کے معاملے پر عالمی قوانین موجود ہیں اوراقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے مذہبی توہین کی روک تھام اور حوصلہ شکنی کیلئے بہت سی قراردادیں پاس کر چکے ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک عالمی فورم قائم کیا جائے جہاں مذہبی توہین کے متعلقہ واقعات کا مقدمہ لے جایا جائے اور وہاں ایسے معاملے سے نمٹا جائے-

ویڈیو لنک خِطاب

پروفیسر ڈاکٹر جیمسن ڈبلیو ڈوئیگ

پرنسٹن یونیورسٹی،امریکہ

آزادی اظہار رائے کو نفرت انگیز کلمات ادا کرنے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے اور کسی بھی شخص یا گروپ کو دوسرے شخص یا گروپ کی توہین نہیں کرنی چاہئے- کینیڈا کے معیارات اس ضمن میں بہت بہتر ہیں جن کے تحت کسی کے ذاتی یا گروہ کے احترام کو یقینی بنایا گیا ہے- دوسری جانب انسانی حقوق کے علمبردار جو آزادی اظہار رائے کے مکمل حق میں ہیں، وہ اس خدشہ کا اظہار کرتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن میرے خیال میں کینیڈا کے معیارات بہت بہتر ہیں جو ایک شخصی اور کسی گروپ کے وقار کا تحفظ کرتے ہوئے توہین کو روکتے ہیں تو دوسری جانب جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بھی نہیں بنتے- حالیہ ڈیبیٹ کے دوران ڈیبیٹ فورم کی جانب سے طرفین کو اپنے دلائل دینے کی آزادی دی گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر سے لوگوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا بھی موقع دیا گیا تھا جو قابل قدر ہے اور اگر آئیندہ بھی مجھے موقع ملا تو میں اپنی مہارت کے موضوعات پر منعقد کی جانے والی ڈیبیٹ کا حصہ بننے پر خوشی محسوس کروں گا-

ویڈیو لنک خِطاب

ڈاکٹر برائن کلگ

آکسفورڈ یونیورسٹی، برطانیہ

مسلم انسٹیٹیوٹ اور دی مسلم ڈیبیٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس موضوع پر ایک اہم وقت پر ڈیبیٹ کا انعقاد کیا جب اکثر لوگ اس معاملے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں- ڈیبیٹ کے تمام شرکاء کو اپنے موقف کی وضاحت کیلئے مکمل آزادی دی گئی تھی اور مجھے خوشی ہے کہ ہم میں سے کسی نے بھی دوسرے کی توہین نہیں کی اور یہ ڈیبیٹ آزادی اظہار رائے اور احترام کے حوالے سے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے- ڈیبیٹ ایک اچھے انداز اور باہمی احترام کے ساتھ منعقد ہوئی اور یہ سب اسی صورت ممکن ہوا جب اس کے لئے بہت اچھی اور محتاط منصوبہ بندی کی گئی تھی- تمام انسان ایک خاندان کے افراد کی طرح ہیں اور ان کا آپس کا رشتہ بھائی چارے پر مبنی ہونا چاہئے اور انسانی حقوق کے تمام کنونشنز کو اسی روشنی میں پڑھا جانا چاہئے- باہمی احترام کی آج کے دور میں سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ دنیا سکڑ رہی ہے اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کیلئے برداشت اور احترام کا رشتہ سامنے رکھنا ہے- اظہارِ رائے کے حق کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسروں کا نقطہ نظر سننے کا حق بھی رکھنا چاہئے-

خطاب

 لیفٹینینٹ جنرل (ر) امجد شعیب

معروف تجزیہ نگار

آزادی اظہارِ رائے ایک نعمت ہے جسے قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن واضح طور پر اس کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں وابستہ ہیں- ہر معاشرے کے کچھ مخصوص اقدار ہوتے ہیں اور ہم سب سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کونسا معاشرہ کن معاملات میں کس قدر حساس ہے اور ہمیں اس حساسیت کو تسلیم کرنا چاہئے- بچپن میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ کسی کے مذہبی اقدار کی توہین نہیں کرنی کیونکہ اس سے پر تشدُّد رَدِّ عمل جنم لے سکتا ہے چنانچہ آزدی اظہار رائے لا محدود حق نہیں ہے اور اس پر کچھ حدود و قیود لاگو ہوتی ہیں اگرچہ ان میں سے کچھ تحریری طور پر موجود نہ بھی ہوں- مغربی معاشروں میں تضادات موجود ہیں کیونکہ اگر کوئی ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن رسول اکرم ﷺ کی شان مین گستاخی کی جاتی ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا- تاہم یہ بھی واضح ہے کہ ایسے واقعات کو جواز بنا کر تشدد کو بھی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا- ہمیں دلائل کے ساتھ ان معاملات کا سامنا کرنا ہے اور اس ضمن میں مغربی معاشروں میں آگاہی پیدا کرنی ہے-

خِطاب

جناب ایس ایم ظفر

 معروف قانون دان و سابق وفاقی وزیر برائے قانون و پارلیمانی امور

ڈیبیٹ کی مکمل رپورٹ پڑھنے کے بعد میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ منطقی، علمی اور متحرک تھی اور صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ اِسلامی دُنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے- تمام تر انسانی حقوق کا اصل مغز انسانی وقار ہے- ہمارے قانون میں بھی انسانی وقار کا احترام موجود ہے- احترامِ آدمیت نے ہی ہمیں اپنی رائے بیان کرنے کا بھی حق دیا ہے- اسلامی تعلیمات کا مرکز بھی احترامِ آدمیت ہے اور اسی احترام میں ہم دوسروں کی رائے سنتے اور اس کا احترام کرتے ہیں - ڈیبیٹ میں موضوع کی مخالف محترمہ ہیلری سٹافر نے بھی یہ تسلیم کیا کہ دنیا میں کسی جگہ پر بھی آزادی اظہار رائے قطعی طور پر میسر نہیں ہے- کئی یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کا انکار کرنا جرم ہے- ہم یہ قانون کیوں نہیں بنا سکتے کہ کہیں پر بھی توہینِ رسالت جرم ہو گا؟ توہین آمیز اور نفرت انگیز کلمات کے علاوہ اظہارِ رائے کو آزادی دی جانی چاہئے- ناروے میں توہینِ رسالت کا مقدمہ دائر کرنے میں مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ وہاں کسی ایسے انسان کی توہین پر قانون موجود ہے جو اس وقت موجود ہو مگر چودہ سو سال قبل شخصیت کی توہین پر قانون موجود نہیں تھا- چنانچہ توہینِ رسالت پر قوانین بننے چاہئیں کیونکہ حضورﷺ کی ذاتِ مقدسہ کی محبت ہماری شخصیت کا حصہ ہے اور ہماری جائے پناہ بھی حضور اکرم ﷺ کی محبت ہے - اور جب یہ بحث منطق کے ساتھ کی جائے گی تو امید ہے خاطر خواہ نتائج ملیں گے - اظہارِ رائے کی آزادی لامحدود نہیں ہے بلکہ جہاں ایک شخص کی آزادی ختم ہوتی ہے وہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے ، جیسا کہ گوروں میں چھڑی پکڑ کر چلنے کا رواج عام تھا تو ایک نے کہا کہ ’’مجھے آزادی ہے کہ جہاں جیسے جب اور جتنی چاہے میں چھڑی گھماؤں ، دوسرے نے جواب دیا ’’لیکن اگر تمہاری چھڑی میری ناک پہ لگ گئی تو اسی چھڑی سے تمہاری پٹائی ہوگی‘‘ - دونوں اپنی جگہ درست تھے پہلے کو چھڑی گھمانے کی آزادی ہے جتنی چاہے گھمائے مگر دوسرے کی ناک کو بچا کر - اِسی طرح آزادیئِ اِظہار کی بھی اجازت ہے مگر دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے -

خِطابِ مہمانِ خصُوصی

جناب پرویز رشید

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات

آزادی اظہارِ رائے ایک ضروری اور لازمی حق ہے جو کسی بھی معاشرے کی ترقی اور اس کے ارتقاء کیلئے ضروری ہے- معاشروں میں موجود عقائد اور اقدار کا احترام کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ اس کی بنیاد ہوتے ہیں- ایسی رائے یا کلمات جو کسی کے عقائد یا اقدار کی توہین کریں، ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے- جب ہماری آزادی دوسروں کو متاثر کرتی ہے، وہاں ہمیں حدود لگانی چاہئیں- ہمیں دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چاہئے - اگر نفرت انگیز اور توہین آمیز کلمات کو نہ روکا گیا تو بہت جلد ہمارے معاشرے سے اقدار اور باہمی احترام ختم ہو جائیں گے جو ہمیں باقی مخلوقات سے منفرد کرنے والے اہم عوامل ہیں- ہر معاشرے کے معیارات مختلف ہیں اور اسی لئے ہمیں عالمی قوانین پر بنیاد کردہ قانون سازی کرنی چاہئے جو توہین آمیز اور نفرت انگیز کلمات کو روک سکیں- آزادای اظہارِ رائے پر لگائی جانے والی کسی بھی قدغن کے بے جا استعمال اور آزادی اظہار کی مکمل بندش کو روکنے کیلئے ہمیں عالمگیر معیارات کی ضروت ہے اور بحیثیت انسان ہم ایسا کر سکتے ہیں-

کلماتِ صدارت

 راجہ ظفر الحق

لیڈر آف دی ہائوس ، سینیٹ آف پاکستان

مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے آپ تک محدود رہتے ہیں اور ان کے پاس باقی دنیا سے بات چیت کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں لیکن مسلم انسٹیٹیوٹ نے ایسے پروگرام منعقد کروا کر تاریخ رقم کی ہے جن میں متعلقہ عالمی برادری کو بھی ساتھ ملایا گیا ہے - حالیہ ڈیبیٹ کا انعقاد دراصل مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے ایک جہاد ہے- میں یہ کہنا چاہوں گا کہ فورمز، قوانین اور کنونشنز معاشرے کیلئے یقیناً اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ماضی میں انسانی حقوق کے کنونشنز زیادہ کام نہیں کر سکے کیونکہ یہ ایک ڈھانچہ تو ترتیب دے سکتے ہیں لیکن انسانوں کی تربیت افراد کے ذریعے ہی کی جاتی ہے قوانین کے ذریعے نہیں- ڈیبیٹ کی ووٹنگ شرح سے معلوم ہوتا ہے کہ اب دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو سمجھتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے پر حدود ہونی چاہئیں اور اسے دوسروں کی توہین کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے- حضرت عمر فاروقؓ نے خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا تھا کہ انسان کی حرمت کعبہ شریف سے بھی زیادہ ہے- کسی انسان کی توہین کرنا اور اس کے احترام کا انکار کرنا اسلام کے مطابق اصل جرم ہے-

اِظہارِ تشکر

صاحبزادہ سلطان احمد علی

چئیرمین، مسلم انسٹیٹیوٹ

پروگرام کے اختتام پر تشریف لانے والے تمام خواتین و حضرات کا شکر گزار ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ڈیبیٹ کی رپورٹ محققین اور پالیسی سازوں کیلئے سود مند ثابت ہو گی- میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں یہ کام کرنے کی توفیق دی اور آئیڈیا دیا اور ہم یہ سب کرنے کے قابل ہوئے- میں آخر میں سورہ النمل کی اِس آیت کے ساتھ تقریب کے اختتام کا اِعلان کروں گا کہ {فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف لِیَبْلُوَنِیْٓ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُط وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌo}

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر