اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط دوئم'

اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط دوئم'

اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط دوئم'

مصنف: فائزہ بلال مارچ 2016

سیّدناالمجاہد با لنفس ö :﴿جان کے ساتھ جہاد کرنے والے﴾:

﴿فقاتل فی سبیل اللّٰہ لا تکلف الا نفسک و حرض المومنین ﴾ ’’ پس آپ ﷺ کی راہ میں جہاد کیجئے بجز آپ ﷺ کے ذاتی فعل کے او رکوئی حکم نہیں اور مومنین کو ترغیب دیجئے ‘‘-

زجاج کہتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ کو تنہا بھی جہاد کرنا پڑے تو جہاد کیجئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن پر آپ ﷺ کی فتح کا وعدہ فرمایا ہے -

’’ ابو سفیان نے بدر الصغریٰ میں آپ ﷺ سے مقابلہ کا وعدہ کیا تھا بعض مسلمانوں نے وہاں جانا پسند نہ کیا تھا - اس موقع پر آپ ﷺ نے کسی کے منع کرنے کی طرف توجہ نہیں دی اور ستر اصحاب کے ساتھ جنگ کے لئے روانہ ہوگئے اگر کوئی کبھی نہ جاتا تو شاید آپ ﷺ تنہا ہی روانہ ہو جاتے کیونکہ جہاد کے لیے صرف آپ ﷺ کے نفس کو مکلّف کیا گیا اور مومنین کو تحریص کی دعوت دی گئی ‘‘ - ﴿۴۱

یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ شجاع اور دلیر تھے اور قتال کے احوال کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو ہی قتال و جہاد کا مکلّف قرار دیا -

سید نا المجاھد باالمال ﷺ : ﴿مال کے ساتھ جہاد کرنے والے﴾ :

﴿ان الذین امنوا وھاجروا وجاھد وا با موالہم و انفسہم فی سبیل اللّٰہ والذین ا ووا و نصروا اولٓئک بعضہم اولیائ بعض ﴾ ﴿۵۱ 

’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد بھی کیا اور جن لوگوں نے ﴿مہاجرین کو﴾ جگہ دی اور ان کی نصرت کی یہی لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں‘‘ -

اس آیت مبارکہ میں مہاجرین اوّلین کی اَفضلیت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ جہاد کیا ، اپنے وطن کو خیر باد کہا اور ان کے مال و جائیداد پر کفار ِمکہ نے قبضہ کر لیا - انہوں نے بغیر ہتھیاروں، بغیر عددی قوت اور بغیر تیاری کے غزوہ بدر میں بھی جہاد کیا اور انصار جنہوں نے اپنی جانوں اور مالوں سے ان مہاجرین کی مدد کی اور ان کی بے سروسامانی کی حالت میں ان کو ٹھکانہ فراہم کیا اور دین اسلام کے ساتھ ہمیشہ مخلص رہے انہیں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذ ین اتبعوھم باحسان رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ ﴾ ﴿۶۱

’’ مہاجرین و انصار میں سبقت لے جانے والے سب سے پہلے ایمان لانے والے جن لوگوں نے نیک کاموں میں ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے‘‘-

پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ جن مومنین نے اللہ کی راہ میں جانوں اور مالوں اور علم کے ساتھ جہاد کیا اللہ کے ہاں ان کا بلند مرتبہ اور مقام ہے- ﴿۷۱

یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں خلوصِ نیت کے ساتھ تمام میسر وسائل اور مجتمع توانائیوں کے ہمراہ باطل سے ٹکراجانے کے لیے تیا ر کھڑے رہتے ہیں - ایک مجاہد کا اصل سرمایہ تو اطاعت میر ، ثبات و استقامت اور پھر تو کل علی اللہ ہے-

سید نا المجاھد فی سبیل اللّٰہ ﷺ :﴿ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے﴾

﴿ و اذ غدوت من اھلک تبوئ المومینین مقاعد للقتال واللّٰہ سمیع علیم ﴾ ﴿۸۱

’’ اور جب آپ ﷺ صبح کے وقت اپنے گھر سے چل کر مسلمانوں کو مقابلہ کرنے کے لئے مقامات پر جما رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سب سن رہے تھے ‘‘-

ان آیات میں جنگ بدر اور جنگ اُحد کا تذکرہ کیا گیا ہے- جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور وہ چالیس آدمیوں کے ایک تجارتی قافلہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے تھے - انہوں نے اللہ اور رسول اکرم ﷺ کے احکامات پر پورا عمل کیا لہٰذا اللہ کریم نے انہیں فتح و نصرت سے نوازا تھا جبکہ اُ حد میں اسلامی لشکر بھی بڑا تھا اور مسلمان تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے تھے لیکن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی سو نقصان اُ ٹھایا- ﴿۹۱

اسلامی فلسفہ جہاد میں خلوص نیت اور توکل علی اللہ اصل ہتھیار ہیں - جنگی جہاد میں ایک حکمت یہ ہے کہ یہ سینوں کے لئے شفائ ہے اور ذہنی ‘ جسمانی اور روحانی بیماریوں کو دور کرتا ہے - تقوٰی اور توکل میں اضافے کا باعث ہے- ﴿۰۲

جنگ میں فتح عددی کثرت یا اسلحہ کی زیادتی پر منحصر نہیں بلکہ اس کا دار و مدار صبر و تقویٰ اور اطاعت میر پر ہے - نبی اکرم ﷺ نے مرد مومن کے لئے اندر اور باہر ہر دو محاذوں پر طاغوتی طاقتوں کے خلاف جہاد کو لازم قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ غزوہ بدر واپسی پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم جہادِ اصغر سے جہاد اکبر کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ جس قدر کثرت سے ایک مسلمان پر جدوجہد فرض ہے کسی دوسرے پر نہیں - ایک طرف تو وہ اپنے نفس کے شر کے خلاف نبرد آزما ہوتا ہے تو دوسری طرف رزم ِحق وباطل میں برسرِ پیکا ر ہوتا ہے-

سید نا کثیر الجھاد ﷺ :﴿ کثرت سے جہاد کرنے والے ﴾:

﴿عن انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ والجھا د ماض منذ بعثنی اللّٰہ الٰی ان یقاتل اخر امتی الدجال لا یبطلہ جور جائر ولا عدل عادل والایمان بالاقدار ﴾﴿۱۲

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم حضرت محمد ﷺ نے فرمایا اور جہاد جاری رہے گا جس دن سے اللہ نے مجھے پیغمبر بنایا ہے یہاں تک کہ میری آخری اُمت دجال سے لڑے گی جہاد باطل نہیں ہو سکتا نہ کسی ظالم کے ظلم سے اور نہ کسی عادل کے عدل سے اور تقدیر پر ایمان لانا درست ہے‘‘-

سیدنا دائم الجھاد ﷺ :﴿ہمیشہ جہاد کرنے والے﴾

حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے بعد نبی اکرم ﷺ سر مبارک دھو رہے تھے کہ جبرائیل تشریف لائے اور بنو قریظہ اور بنو نضیر کی طرف پیش قدمی کا اشارہ دیا - آپ ﷺ نے اسی وقت سر پر کپڑا باندھا اور ان کے پاس پہنچے ، اللہ کریم نے تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ان کی مدد فرمائی - ﴿۲۲

نبی اکرم حضرت محمد ﷺ مع لشکر اصحاب رضی اللہ عنھم ہمیشہ باطل قوتوں کے خلاف نبردآزما رہے حتیٰ کہ وہ گھریلو اُمور میں مشغول ہوتے ، وحی آتی اور وہ سب معاملات بالائے طاق رکھ کرجہاد کے لئے دوڑ پڑتے-

آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی اُ مت ہمیشہ کفرو باطل کے ساتھ برسر پیکار رہے گی حتیٰ کہ وہ قرب قیامت کا نے دجال سے لڑے گی-

سید نا ذوالسیف ﷺ: ﴿صاحبِ تلوار﴾ 

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اکرم حضرت محمد ﷺ نے کہ نہ تو میں یہودیت کے ساتھ بھیجا گیا اور نہ عیسائیت کے ساتھ بلکہ میں آسان دین کے ساتھ بھیجا گیا ہو ں- ایک گھڑی صبح سویرے یا شام کے وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور آپ ﷺنے فرمایا کہ ایک شخص کا جہاد کی صف میں کھڑے ہونا اس کی ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے- ﴿۳۲

جہاد فی سبیل اللہ کو نظام عبادات میں بلند مقام حاصل ہے-

سید نا سیف اللّٰہ المسلول ﷺ ﴿اللہ کی کھلی تلوار﴾:

حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

ان الرسول نور لیستضائ بہ مھند من سیوف اللّٰہ مسلول

 

’’ بے شک آپ ﷺ اللہ کی کھلی تلوار ہیں جس سے نور حاصل کیا جاتا ہے اور آپ ﷺ فولاد کی کھلی تلوار ہیں ‘‘ - ﴿۴۲

معروف قول ہے کہ آپ ﷺ نے اس شعر پر کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کی طرف اپنی کملی پھینکی جو کہ اس وقت آپ ﷺ پہنے ہوئے تھے- بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ چادر دس ہزار درہم میں خرید لی اور کہا کہ میں حضور اکرم حضرت محمد ﷺ کی اس چادر کو کسی پر ایثار نہیں کرتا-

یعنی آپ ﷺ کی ذات مبارکہ جنگ جو، بہادر اور حق کی حفاظت کے لئے بھی تلوار ہے اور باطل کی بیخ کنی کے لئے بھی سیف اللہ المسلول ہے-                                                ﴿جاری ہے﴾

حوالہ جات:-

۳۱-النسائ: ۴۸

۴۱-سعیدی غلام رسول، مولانا تبیان القرآن، ۲/۴۳۷

۵۱-الانفال: ۲۷

 ۶۱-التوبہ: ۰۰۱

۷۱-سعیدی غلام رسول، مولانا تبیان القرآن، ۴/۸۰۷

۸۱-اٰل عمران : ۱۲۱

۹۱-سعیدی غلام رسول، مولانا تبیان القرآن، ۲/۶۳۳

۰۲-محسودی، ثاقب یحیٰ خاں، اسلامی جنگی جہاد ﴿اسلامی آئین جنگ﴾لائل پور: نیو سول لائنز ، ص :۱۰۱

۱۲-ابی داؤد، سلمان بن اشعث، سنن ابی داؤد ، بیروت لبنان: المکتبۃ العصریہ صیدا، باب: فی الغزو مع ائمہ الجور ، حدیث نمبر: ۲۳۵۲، ۳/۸۱

۲۲- الطبری، ابوجعفر، محمد بن جریر، جامع البیان عن تاویل آی القرآن، بیروت لبنان: دارالشامیہ، ۴/۱۵

۳۲- احمد بن حنبل، المسند باب : حدیث ابی امامہ، ۶۳/۴۲۶

۴۲-السہیلی، ابو القاسم ، عبدالرحمٰن بن عبداللّٰہ ، الروض الانف فی شرح السیر النبویہ لابن ھشام ، بیروت لبنان : دار احیائ التراث العربی، ۷/۹۷۳

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر