صفائی کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

صفائی کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

صفائی کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی اکتوبر 2023

سیدی رسول اللہ(ﷺ) نے جسمانی طہارت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی،آپ (ﷺ)نے ماحول،  گھر، برتن اور راستوں تک کو صاف رکھنے کاحکم فرمایا، راستوں اور گزر گاہوں اور تالابوں اور دریاؤں میں بول و براز اور گندگی ڈالنے سے منع فرمایا ،راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیا، کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا کھانے کی برکت قرار دیا- آپ(ﷺ )نے پیتے ہوئے برتن میں سانس لینے اور کھانے پر پھونکنے سے منع فرمایا- نیند سے بیدار ہوکر ہاتھ تین بار دھونے سے قبل برتن میں نہ ڈالنے کا حکم ارشاد فرمایا- تکلیف دہ بو سے ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے لہسن اور پیاز کھا کر مساجد سے دور رہنے کی تلقین فرمائی -ا حادیث  مبارکہ میں ظاہری طہارت و پاکیزگی کے بارے میں کئی فرامین مبارکہ ہیں اُن میں چندروایات مبارکہ لکھنےکی سعادت حاصل کرتے ہیں :

حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم دودھ پیا کرو تو کلی کر لیا کرو کیونکہ اس میں چکناہٹ ہوتی ہے‘‘-[1]

اس سے اندازہ لگائیں کہ اسلام صفائی کو کس درجہ اہمیت دیتا ہے کہ دودھ کی چکناہٹ کو بھی دور کرنے کا حکم مبارک ارشادفرمایا- آپ ایک اورحدیث مبارک سے فہم حاصل کرلیں کہ پیغمبر اسلام (ﷺ) نے کس قدرصفائی کی تعلیم وتلقین فرمائی کہ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ:

’’حضور نبی کریم(ﷺ )ہمارے ہاں تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے ایک شخص کے بکھرے ہوئے بال دیکھے تو ارشادفرمایا :اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ اپنے بال درست کرلے‘‘-

(اسی طرح )آپ (ﷺ) نے ایک شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھاتو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ کپڑے دھولیا کرے‘‘-[2]

ایک اور روایت میں ہے کہ:

’’ایک مرتبہ ایک شخص بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) میں حاضر ہوا جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :کیاتمہارے پاس اللہ پاک کا دیا ہوا مال نہیں ہے؟عرض کی (یارسول اللہ (ﷺ)! ہاں ہے- تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کونسا مال؟ عرض کی:اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، بھیڑ، بکریاں،گھوڑے اور غلام عطا فرمائے ہیں-(توسیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ) جب اللہ پا ک نے تمہیں نعمت دی ہے تو اس نعمت کا اثر اور عزت تم پر دکھائی دینی چاہیے‘‘-[3]

یہی وجہ ہے کہ :

’’جب حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) جب حروریہ کے پاس سفیر بن کرگئے تو یمن کے نہایت قیمتی لباس پہن کرتشریف لے گئے جب وہاں پہنچے تو یمنیوں نے کہا:مرحبا اے ابن عباس! یہ کیا لباس ہے؟ آپ (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا: تم اس پر معترض ہو؟ بلاشبہ میں نے حضور نبی کریم (ﷺ)کو بہتر سے بہتر کپڑوں میں دیکھا ہے ‘‘-[4]

ان مذکورہ احادیث مبارکہ کے علاوہ یہ فرامین مقدسہ بھی صفائی کی اہمیت کو مزید عیاں کرتے ہیں:

 کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ کی صفائی کے بارے میں حضرت سلمان (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا کھانے کی برکت ہے‘‘- [5]

سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد  فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاکی پسند فرماتا ہے،ستھرا ہے، ستھرا پن پسندفرماتا ہے، کریم ہے کرم کو پسندفرماتا ہے، اللہ عزوجل سخی ہے سخاوت کو پسند فرماتا ہے لہٰذا تم اپنے صحن صاف رکھو اوریہودسے مشابہت نہ کرو‘‘-[6]

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے دانتوں کی صفائی کے بارے میں ارشادفرمایا:

’’مسواک کرنا منہ کی صفائی اور رب کی رضا ہے‘‘- [7]

آپ (ﷺ) نے مزید ارشادفرمایا :

’’اگر مجھے امت پہ دُشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم فرماتا‘‘- [8]

سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ایک موقع پہ منہ کی صفائی کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

’’اپنے منہ کو مسواک کے ذریعے صاف رکھو کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہے‘‘-[9]

دراصل! اسلامی عقائد میں جو اہمیت توحید کی ہے وہی حیثیت عبادت میں طہارت کی ہے-یعنی جس طرح توحید کے بغیر کوئی عقیدہ اور عمل قبول نہیں ہو سکتا، ویسے ہی طہارت کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہو سکتی-جیساکہ تاجدارِ کائنات، سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا‘‘- [10]

آپ (ﷺ) نے مزید ارشاد فرمایا:

’’طہارت نماز کی چابی ہے‘‘- [11]

حضرت عبد اللہ بن بِشر مازنی (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اپنے ناخن تراشو، ناخنوں کے تراشے دفن کر دو، انگلیوں کے جوڑ صاف کرو،مسوڑھوں سے طعام کے ذرات صاف کرو،دانت صاف کرو اور میرے پاس گندہ اور بدبودار منہ لے کر نہ آیاکرو‘‘- [12]

9: حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’اپنی وسعت وحیثیت کے بقدر پاک و صاف رہنے کا اہتمام کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد ہی نظافت پر رکھی ہے،اور جنت میں داخل ہی وہ شخص ہوگا جو پاک وصاف رہنے کا اہتمام کرتا ہو‘‘- [13]

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’برتنوں اور گھروں کے صحن کی صفائی سےغنا ومال داری نصیب ہوتی ہے‘‘- [14]

 حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’اللہ عزوجل کی طرف سے ہرمسلمان پہ واجب ہے کہ وہ سات دنوں میں  (کم از کم) ایک دن (ضرور) غسل کرے ‘‘- [15]

سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’بے شک تم اپنے بھائیوں کےپا س جاؤگے،پس تم اپنے لباس اچھے رکھنااور اپنی سواریوں کا خیال رکھنایہاں تک کہ تم لباس میں تل کی مانند ہو(یعنی جس طرح تل جسم پر واضح ہوتا ہے تم بھی لوگوں میں اتنے صاف سُتھرے رہو کہ تم سب سے الگ تھلگ نظر آؤ)‘‘- [16]

باطنی صفائی کی تعلیم وتلقین اور اہمیت:

جس طرح ظاہری اجسام مختلف بیماریوں (بخار، کھانسی، کینسر وغیرہ) کے شکار ہوتے ہیں،اسی طرح قلوب بھی مختلف بیماریوں (شرک، کفر، غرور و تکبر، خود پسندی، کینہ، حسد، نفاق،  فتنہ، تعصب اور ریاء وغیرہ) کی زدمیں آتے ہیں-اس لیے حقیقی کامیابی کے لیے فقط ظاہر کی طہارت کافی نہیں ہے بلکہ باطن کی طہارت بھی لازمی ہے-کیونکہ اقرار باللسان، ایمان کیلئے کافی نہیں جب تک تصدیق بالقلب کا عمل جاری نہ ہو جائے تو ایمان کامل نہیں ہوتا-یہاں ذیل میں ظاہری احکاماتِ طہارت کی طرح باطنی طہارت کے بارے میں مرقوم فرامین مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

 حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نکتہ لگ جاتاہے ، پس جب اس گناہ سے باز آتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ ہوتا جاتاہے یہاں تک کہ وہ سیاہی اس کے دل پہ چھا جاتی ہے اور یہی رَین یعنی وہ زنگ ہے جس کا ذکرفرماتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشادفرمایا :

’’ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ‘‘

’’ کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے‘‘- [17]

معاذ اللہ بعض اوقات بندہ ایسے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے دل پہ ایسا پختہ نکتہ لگتا ہے جس کا مٹنا محا ل ہوتا ہے جیساکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے کسی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال چھین لیاتو اس کی وجہ سے اس کے دل پہ سیاہ نکتہ لگ جائے گا جس کو قیامت تک کوئی چیز نہیں مٹاسکے گی ‘‘-[18]

انسانی جسم میں دل کی حیثیت ایک حاکم کی ہے،ا س کی اصلاح پہ پورے جسم کی اصلاح کا دار ومدار ہے اور اس کے فسادی ہونے کی وجہ سے پورےجسم میں فساد پھیل جاتا ہے- جیسا کہ آقا کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’خبردار جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم صحیح ہے اور اگر وہ فاسد تو سارا جسم فاسد ہے خبردار وہ دل ہے‘‘- [19]

خلاصہ کلام:

’’طہارت و پاکیزگی ایمان کا حصہ ( نصف ایمان )ہے ‘‘-

لیکن یاد رہے! اس صفائی کا ہرگز صرف یہ مطلب نہیں کہ آپ صر ف نہا دھوکر صاف لباس پہن لیں تو اس حدیث مبارک پہ عمل ہوجائے گا ،بلکہ اس کا لطیف مفہوم محی الدین سیدنا الشیخ عبدالقادرجیلانی الحسنی والحسینیؒ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ :

’’طہارت دوقسم کی ہے: (1)طہارتِ ظاہر جس کا تعلق شریعت سے ہے اور وہ پانی سے حاصل ہوتی ہے-

(2) طہارت باطن جو توبہ،تلقین،تصفیۂ قلب اور سلوک طریقت سے حاصل ہوتی ہے‘‘-

حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

ان آیات اور روایات سے اہلِ بصیرت کویہ علم ہواکہ باطن کوپاک کرنا سب سے اہم فریضہ ہے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان مبارک ’’طہارت نصف ایمان ہے‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ظاہر کو پانی بہاکر صاف سُتھرا کر لیا جائے جبکہ باطن بدستور پلیدیوں اورنجاستوں سے پراگندہ رہے-اس لیے کہ طہارت کے چار درجات ہیں:

  1. ظاہری بدن کو ناپاکیوں،نجاستوں اور پاخانے وغیرہ سے پاک کرنا-
  2. اعضاءکو خطاؤں اور گناہوں سے پاک کرنا-
  3. دل کو بداخلاقی اورناپسندیدہ خصلتوں سے پاک رکھنا-
  4. باطن کو اللہ عزوجل کے سوا ہرچیز سے پاک کرنا-

آخرالذکر نبیوں اور صدیقوں کی طہارت ہے –

اسلام ایک ایسا دین ہے جو ذہن، روح اور جسم کی صفائی اور پاکیزگی کو پسندفرماتا اور اس کا درس دیتا ہے- قرآن کریم کی آیات سے اور رسول اللہ (ﷺ)کی احادیث مبارکہ سے پاکیزگی کی اہمیت عیاں ہے-پاکیزہ جسم اور روح نہ صرف دل کو خالص رکھتے ہیں بلکہ یہ ہماری صحت کے بھی ضامن ہیں-بحیثیت مسلمان یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے جسم اور روح کو پاک رکھنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ کے رستے پر اپنا سفر جاری رکھ سکیں- اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو-آمین!

٭٭٭


[1]ابن ماجة ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا،ج: 1،ص:167،رقم الحدیث:499۔

[2]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث (المتوفى: 275هـ)،المراسیل، ( بیروت: مؤسسة الرسالة ، الطبعة: الأولى، 1421ھ)، كِتَابُ اللباس ،ج: 4، ص:51، رقم الحدیث:4062۔

[3]ایضاً، رقم الحدیث:4063۔

[4]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث (المتوفى: 275هـ)،المراسیل، ( بیروت: مؤسسة الرسالة ، الطبعة: الأولى، 1421ھ)، كِتَابُ اللباس، ج: 4، ص:45۔

[5]الطیالسی، سليمان بن داود،(المتوفى: 204هـ)،مسند أبي داود، الطبعة: الأولى، 1419ھ،(الناشر: دار هجر ، مصر)،باب، سَلْمَانُ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالیٰ، ج:2،ص:46

[6]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ھ) ، بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّظَافَةِ، ج:5،ص:11۔ رقم الحدیث:2799۔

[7]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)، كِتَابُ الصَّوْمِ ،ج: 3،ص:31

[8]ایضاً

[9]البیھقی،أحمد بن الحسين،شعب الایمان،ایڈیشن اول،( الریاض:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، 1423ھ)،باب تعظیم القرآن، ج:3، ص:451، رقم الحدیث: 1940۔

[10]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الطَّهَارَةِ، ج:1،ص:203

[11]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) كِتَاب الطَّهَارَةِ،ج:1،ص:16،رقم الحدیث:61

[12]القرطبي، محمد بن أحمد ، الجامع لأحكام القرآن-ایڈیشن دوم (القاهرة:دارالكتب المصرية-1384ھ)، زیرآیت البقرۃ: 124، ج:12، ص:102

[13]المناوی، محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي ، فيض القدير شرح الجامع الصغير،(المكتبة التجارية الكبرى – مصر، الطبعة: الأولى، 1356)،باب،حرف التاء،ج،3،ص:270،رقم الحدیث:6234

[14]الذهبي، محمد بن أحمد بن عثمان،(المتوفى: 748ھ)، ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، (دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت، لبنان، الطبعة: الأولى، 1382)،باب،علي بن محمد الزهری،ج:3،ص:155

[15]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح، ایڈیشن اولی، (دارالطوق النجاة-1422ھ)، كِتَابُ الجُمُعَةِ، ج:2، ص:5، رقم الحدیث: 898

[16]حاکم، محمد بن عبد اللہ، المستدرك على الصحيحين (بيروت، دار الكتب العلمية، 1411ھ)، كِتَابُ اللِّبَاسِ، ج: 4،ص:203، رقم الحدیث: 7371

[17]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ھ) ، بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ،ج:5،ص:434- رقم الحدیث:3334

[18]حاکم،محمد بن عبد اللہ، المستدرك على الصحيحين(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)، كِتَابُ الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ، ج: 4،ص:327-رقم الحدیث:7800

[19]البخاری،محمدبن اسماعیل(ؒ)، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دارالطوق النجاة-1422ھ)،کتاب الایمان، ج:1، ص:20، رقم الحدیث: 52

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر