یہ مسائل تصوف (آخری قسط)

یہ مسائل تصوف (آخری قسط)

یہ مسائل تصوف (آخری قسط)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2017

عارفوں کے کمالاتِ باطنی کی طرح کمالاتِ سُخن و تکلم بھی عام و عمومی نہیں ہوتے بلکہ اُس میں بھی ایک تاثیر ہوتی ہے جو بالکل تاثیرِ صحبت کی طرح اثر کرتی ہے-حضرت روز بہان بقلی شیرازی صاحبِ عرائس البیان خود بھی عارفِ کامل تھے اور ان کا کلام بھی مشاہداتِ عرفان میں ڈوبا ہوا ہے جو روح کو اُس کے وطنِ اصلی کی یاد دلاتا ہے اور انسان کو رغبت اِلی اللہ ، رجوع اِلی اللہ اور ’’ففرو الی اللہ‘‘ کی جانب کھینچتا ہے- ایک بات جو ان مفسرین کرام کی عبارات سے واضح ہوئی ہے وہ یہ کہ ظاہر کےساتھ ساتھ ایک تقاضا باطن بھی ہے جس طرح ظاہر کے ’’ایام اللہ‘‘ کی یاد لازم ہے اُسی طرح روح کے ایام اللہ کی یاد بھی لازم ہے اور  ان تمام مفسرین اور اولیائے کاملین کے نزدیک ’’ایام اللہ‘‘سے وہ ایام مراد ہیں جو بندے کی روح نے اپنے خالق کے وصل میں گزارے ہیں-سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ عالمِ موجود سے قبل اپنی رُوحِ مبارکہ کی زندگی کے بارے بیان کرتے ہوئے فارسی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں :-

من آنگہ کردہ سجدہ پیشِ معبود
نبودہ نفس و شیطان کفر و اسلام
ہمہ نابود
بودند ما چہ بودم
حقیقتِ ابتدا از من چہ پُرسی
نہ بودہ ہیچ کس آں جا خدا بود
خدا بودی بہ من و من با خدائی
نبودی شش جہات و زیر و بالا
باھُوا! مکانِ حق بود در لا مکانی

 

کہ منبر و مسجد و کعبہ نجا بود
نبودہ جسم و جان و روح و اعظام
فنا فی اللہ بوحدت  حق  ربودم
نبودی کن قلم نہ عرش و کرسی
کجا بودی من اینان تو بمقصود
توحید مطلق است مقامِ کبریائی
بقدرت خویش بودی حق تعالیٰ
کہ سِرِّ عاشقاں سِرِّ نہانی

’’مَیں نے اُس وقت اپنے محبوب کو سجدہ کیا جب منبر تھا نہ مسجد،کعبہ تھا نہ کوئی اور مقام‘‘- ’’نفس تھا نہ شیطان ، کفر تھا نہ اسلام، جسم تھا نہ جان، روح تھی نہ ہڈیاں‘‘ - ’’سب کچھ نابود تھا مگر مَیں تھا کہ وحدت ِحق میں فنا فی حق تھا- ‘‘ ، ’’تُو مجھ سے حقیقت ِ ابتدا کیا پوچھتا ہے؟ کہ ابتدا میں کن تھا نہ قلم،عرش تھا نہ کرسی‘‘- ’’صرف ذاتِ خدا تھی، مَیں کہاں تھا؟ لوگ کہاں تھے؟ اور تم کہاں تھے؟‘‘- ’’مَیں توحید ِمطلق میں غرق ہو کر خدا کے ساتھ تھا اور خدا میرے ساتھ تھا، یہی مقامِ کبریا ہے کہ توحید ِمطلق ہی مقامِ کبریا ہے‘‘-’’اُس وقت شش جہات تھیں اور نہ پست و بالا، فقط ذاتِ حق تعالیٰ تھی جو اپنی قدرت سے موجود تھی‘‘-’’اے باھُو ! مکانِ حق تعالیٰ لامکان میں ہے- یہ ایک مخفی راز ہے جو صرف عاشقوں پر کھولا جاتا ہے‘‘-[1]

اِسی طرح حضرت سلطان باھُو   قدس اللہ سرہٗ  اپنے ابیات شریف میں ان ایام کی یادکو تازہ فرماتے ہیں اور رُوح جس ہجر کو برداشت کئے ہوئے ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:

کن فیکون جدوں فرمایا، اساں بھی کولے ہاسے ھُو
ہکے لامکان، مکان اساڈا، ہکے آن بتاں وچ پھاسے ھُو

 

ہکے ذات صفات ربے دی آہی، ہکے آن جگ ڈھنڈیاسے ھُو
نفس پلیت پلیتی کیتی باھُو، کوئی اصل تاں پلیت ناسے ھُو

یعنی جب ابھی کائناتِ مرئی وجود میں نہ آئی تھی ، وہ لامحدود مدتِ زمانی ہم پہ گزر رہی تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ’’سورہ الدھر:1‘‘میں فرمایا ہے-آپ (قدس اللہ سرہٗ) فرماتے ہیں کہ اس مدتِ زمانی کے بعد فرمایا گیا ’’کن‘‘ یعنی ہو جا تو ’’فیکون‘‘ سب کچھ ہو گیا-اشارہ یہ ہے کہ ہمیں وہ ایام یاد آتے ہیں جب ہمیں اس عالمِ مادی کے وجود میں آنے سے قبل اپنے معبود و محبوب ِ حقیقی کا قربِ خاص میسر تھا ، جسے امام نجم الدین کبریٰ (رحمتہ اللہ علیہ) کی تفسیرِ ایام اللہ میں پہلے بیان کیا گیا ہے کہ ’’وَ کَانُوْا فِیْ مَکَنُوْنِ عِلْمِ اللہِ وَ ھُوَ یُحِبُّھُمْ بِلَا ھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ  ‘‘، ’’یعنی وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں پوشیدہ تھے اور وہ (اللہ پاک )ان سے محبت فرماتا تھا حالانکہ وہ وہاں پر نہیں تھے اور وہ اللہ پاک سے محبت کرتے تھے‘‘-دوسرے مصرعہ میں آپؒ فرماتے ہیں خوشا وہ وقت کہ ہمیں ہر وقت اس کی ذات کا قرب میسر تھا اور حیف اس زندگی پہ کہ یہاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے عمریں گزر جاتی ہیں مگر (نفسانی و شہوانی خواہشات اور لغزشوں کی وجہ سے) لوگ اس کو تلاش نہیں کر پاتے-طلب و جستجو میں عمریں بیت جاتی ہیں مگر اے میرے رب! تیرا قرب نہیں ملتا جس کےلئے ہماری روح تڑپتی رہتی ہے-تیسرے مصرعہ میں آپ فرماتے ہیں کہ روح کا یعنی ہمارا اصل مقام تو لا مکان تھا جس کی وسعتوں اور پہنائیوں میں ہم محوِ پرواز رہتے تھے،جو ایک عالمِ لامتناہی تھا ہر قید و حد سے پاک اور مبرا -مگر پھر یہ پنچھیاورطائر جو روح ہے اس نے بارِ امانت کو قبول کیا تو اس کی آزمائش کےلئے اسے لامکان سے اس جہانِ ناسوتی کی جانب ہجرت کرنا پڑی اور یہاں جسم کے پنجرہ میں اسے قیدی بنا دیا گیا -اب وہ پرندہ لطافت کا منبع ہے جبکہ یہ پنجرہ کثافت کا-پنجرہ اپنے پرندے سے ہم آہنگ نہیں ہونا چاہتا کیونکہ اس پنجرے کے سامنے ماضی کا کوئی منظر عیاں نہیں ہے-لیکن پرندہ تو تمام احوال کا واقف،تمام اسرار کا محرم اور تمام تاریخ کا شاہد ہے وہ اس کثیف کو عالمِ لطیف کی (یعنی ایام اللہ کی )  یاد دلا کر اسے لطافت کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے-لیکن کثافتی جبلتیں اس کی عمر کو رائیگاں بنا دیتی ہیں اور پرندہ تڑپتا اور فریاد کرتا ہے کہ او کثافت کے مارے! تو مجھے اور خود کو (یعنی دونوں کو) ہلاکت میں ڈالے گا- ایک اور مقام پہ آپؒ  اِسی بیت کے تناظر میں رُوح کی پکار کو بیان  فرماتے ہیں (پھاہی دے وچ میں پئی تڑپاں بُلبُل باغ مثل دی ھُو)-  یعنی روح کہتی ہے کہ مَیں تو لامکان کی وسعتوں کی طائر و تیراک تھی مگر’’بتاں وچ پھاسے‘‘کے بعد یعنی اس جسد کی قید کے بعد میری وہ کیفیت ہے جو ایک قیدی کی کال کوٹھڑی میں ہوتی ہے یا اس بلبل جیسی جو کہ ایک بہاروں،رنگوں،خوشبوؤں اور ہرے بھرے رنگ برنگے پھولوں کے  چمن سے کسی شور زدہ ، بنجر اور خزاں آلود ویرانے میں ڈال دی گئی ہو تو اسے بہاروں کی یادیں آتی اور ستاتی ہیں-یعنی اس اربع عناصر کے بت میں مقیّد رُوح کا وطنِ اصلی لامکان تھا-آخر ی مصرعہ میں آپؒ فرماتے ہیں کہ اے باھُو ! (قدس اللہ سرہٗ) اپنی فطرتِ ازلی کے اعتبار سے تو روح پلیدیٔ غفلت کی مبتلا نہیں ہے بلکہ نفسِ امّارہ چونکہ جسد کو لطافتِ روح کا باغی بلکہ مزاحمت کار بنا دیتا ہے اِس لئے کثافت لطافت پہ غلبہ پا کر روح کو بے جان کر دیتی ہے وگرنہ اپنی اصل میں تو روح بذاتِ خود ایک تنویر ہے جس سے انسان اپنی دُنیا کو منور کر سکتا ہے- حضرت اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر باطن روشن نہ ہو تو محض مادی ترقی انسان کی زندگی کو منور نہیں کر سکتی-

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

 

زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا![2]

روح کے اُنہی ’’ایام اللہ‘‘ کو یاد کرتے ہوئے اور ان کی یاد دِلاتے ہوئے  سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ ٗابیات شریف میں ایک اور مقام پہ مختلف تشبیہ و استعارہ کو استعمال کرتے ہوئے  فرماتے ہیں :

چڑھ چناں تے کر روشنائی ذکر کریندے تارے ھُو
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں توں بھارے ھُو

 

گلیاں دے وچ پھرن نمانے لعلاندے ونجارے ھُو
تاڑی مار اڈاؤ ناں باھُو اساں آپے اُڈن ہارے ھُو

یہ بھی بُنیادی طور پہ رُوح ہی کی صدا ہے جو اپنے اُن ’’ایام‘‘ کو یاد کرتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ کے جمال کے نظارے ہمیں نصیب تھے مگر جس وجود میں مجھے قید کیا گیا ہے اس کی کثافت کے بُخارات سے حجابات کے بادل بن گئے ہیں جنہوں نے روئے مہتاب چھپا دیا ہے-یا یوں بھی کہ اِس دُنیا میں کثافت کی قید میں اُتاری گئی اَرواح اُس عالَم سے آئی ہیں جو شبِ چہار دہم تھی جب چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے اِن ستاروں (ارواح) پہ منور تھا،اِن  ستاروں کے جھرمٹ میں رہا کرتا تھا-مگر اِس دُنیا کی اَماوَس و تیرگی نے ان ستاروں کو جمالِ مہتاب سے محروم کر دیا ہے اب یہ ستارے اس اماوس کے چھٹنے کی دُعا کرتے ہیں، (چڑھ چناں تے کر روشنائی)  ظُلمتِ کثافت سے نُورِ لطافت کی جانب جانا چاہتے ہیں-روح کا ستارہ جمالِ مہتاب کو پکارتا ہے کہ اے میرے چاند ! مجھ پہ اُسی طرح روشن ہو جا جیسے تو کبھی تھا-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ ستارے (ارواح) اِس عالَمِ فانی و عالَمِ ہجر میں چاند کو ہی یاد کرتے رہتے ہیں اُس کے سوا انہیں کچھ یاد نہیں،نہ انہیں اُس کے سوا کسی چیز سے چین ملتا ہے نہ قرار نہ راحت نہ فرحت- بس!ہر لمحہ اور ہر لحظہ اُسی کو پکارتے رہتے ہیں-یہ ستارے تو قیمتی موتیوں کے تاجر و مالک تھے (لعلاں دے ونجارے) ، اِن کی ملکیّت تو کونین کے خزانے تھے،رفعتیں تھیں، بلندیاں تھیں،عروج تھا اِس لئے کہ اے محبوب ! تو اِن کے قریب تھا ، تو نے انہیں ’’احسن التقویم‘‘ کے اعلیٰ رُتبے کے ساتھ اپنا قربِ خاص عطا کر رکھا تھا -مگر جب سے یہ ہجر کے سفر پہ روانہ ہوتے ہوئے  ’’اسفل السافلین‘‘ میں دھکیل دیئے گئے ہیں،قیمتی لعل و جواہر کے مالک پردیسِ مادیت کی اجنبی گلیوں میں طفلِ یتیم کی طرح آہ و بکا کرتے پھرتے ہیں تیرے ہجر میں کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں-یہ بدن جو تو نے اِن کا شریکِ سفر بنایا ہے اِن کو طعام و آرام کا ساتھی نہیں بناتا بلکہ محض اپنی سی کرتا ہے،صرف اپنی لذّت کا اہتمام کرتا ہے اور صرف اپنے شہوانی ارادوں کی تسکین کے لئے تراشے گئے محبوبوں کے گرد منڈلاتا رہتا ہے،ان ستاروں کی تشنگی و بھوک کا احساس نہیں کرتا-رہی لعل و جواہر کی دولت،تو وہ بھی لُٹ گئی،نفس و شیطان چھین کے لے گئے،جس پہ استغاثہ پیش کرتے ہوئے حضرت پیر سیّد بہادر علی شاہ مشہدی (رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :

جناب عالی! استغاثہ سُن! اِس نفس اخبث اظلم دا
داد، اِمداد عطا فرما، یا قبلہ ستر و کرم دا
اِس مسکین دا ہیں توں ساتھی وقتاں غماں الَم دا

 

غارت کرے خزانہ دِل دا، لعل جواہر دَم دا
تیری اوٹ دا کوٹ تکے، کُل عالَم عرب و عجم دا
دے پناہ یا ملجا ماویٰ، تیں باہجھ ناں میں کئیں کم دا

رُوح کا ستارہ جمالِ مہتاب کو پکارتا ہے کہ اے میرے پُرسانِ حال!اے مجھے اِس جہانِ ہجر میں اتارنے والے،کثافت کے ظالم و جاہل داروغہ نے میری لطافت کو مسل اور کچل ڈالا ہے، مجھے اس کے ظلم و جہل سے نجات دے اور اپنی رحمت کی آغوش میں چھپا لے-دیکھ ! مسافری اور غریب الدّیاری کی بے کسی و بے بسی نے مجھے کس قدر مجبور و رنجور کر دیا ہے کہ مجھ سے معمولی تنکوں کا بوجھ بھی اُٹھایا نہیں جاتا-میرا شریکِ سفر کبھی میری جانب متوجّہ ہی نہیں ہوتا ، مادِیّت کے اُس پنجرے کو یہ اِحساس ہی نہیں کہ اُس میں بیٹھے لاہوت کے طائر کی لطافت اُسے کس قدر تسکین عطا کر سکتی ہے،کس قدر اس کے درد و کرب کو چُن سکتی ہے-مگر اس مادی ڈھانچے نے کبھی اس طائرِ لاہوتی کے دانہ پانی کا اہتمام نہیں کیا نہ ہی سوچا-میرا وجُود میرے اپنے پروں کے تنکوں کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہوا جاتا ہے (ککھ جنہاں تے بھارے ھُو) - میرزا بیدل فرماتے ہیں :

شوخیٔ پروازِ مَن رنگِ بہارِ نازِ کیست

 

چوں پرِ طاؤوس خود را در چمن گم کردہ اَم

’’میری پرواز کی شوخی تو کسی کے ادا و ناز کی بہار کا جوبن تھا ، مگر مور کے حسین پروں کی طرح خود کو چمن کے کانٹوں میں الجھا بیٹھا ہوں ‘‘-

اے شکاری،اے اجل کے داعی،تو مجھے اُڑانے کے لئے تالی بجانے  کی زحمت کیوں کرتا ہے ؟ ہم تو خود ہی اِس دُنیا کی کرب و بلا سے اپنے محبوب کی جانب اُڑنا چاہتے ہیں -اے ملک الموت ! تو ہماری جان نکالنے کا الزام کیوں لیتا ہے ؟ ہجرِ محبوب میں ہم تو خود ہی جان سے گزرنے والے ہیں-یا اِسے اگر ملک الموت کی بجائے اہلِ دُنیا سے خطاب سمجھا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ اے دُنیا پرستو! ہم عاشقانِ بارگاہِ الٰہی کو اپنی دُنیا سے اِس خوف سے کیوں پرے کرتے ہو کہ ہم کبوتر کی طرح تمہارے کھیت کا دانہ چگ جائیں گے،ارے ! ہم تو خود ہی اِس دانہ سے بیزار بیٹھے ہیں تم تالی بجانے کی زحمت کیوں کرتے ہو ہم تو خود ہی اِس فانی و فریبی دانہ کو چھوڑ کر اپنے وطنِ اصلی کی جانب جانا چاہتے ہیں-

اس تفصیلی گفتگو کے خلاصہ کے طور پر عارفوں کے بادشاہ ، سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ کی ایک عبارت پیشِ خدمت ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ ’’ایام اللہ‘‘ کی روحانی تفسیر کی اہمیت کیوں ہے اور اس سے یہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ  انسانی روح کی اصل پیاس کیا ہے؟ انسان درحقیقت کیوں اس دنیا میں بے چین زندگی گزار رہا ہے  اور اس کو اگر قرار ملے گا تو کہاں ملے گا، اسے چین آئے گا تو کہاں آئے گا؟آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنی کتاب ’’مِحک الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’بعض فقیر صاحبِ اشتیاق ہوتے ہیں اور ہر وقت ہجر و فراق میں جلتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو ازل ہی کے دن اپنا دیدار کرایا اور پھر ہجر و فراق میں جلنے کے لئے ان کو دنیا میں بھیج دیا اور ان کے سامنے حجابات کھڑے کر کےوعدہ کیا  کہ اب آخرت میں ان کو دوبارہ دیدار کرایا جائے گا-

جب تک آخرت میں پہنچ کر یہ لوگ دیدارِ الٰہی سے مشرف نہیں ہو جاتے ان کے وجود سے ہجر و فراق کا درد نہیں جاتا، نہ زندگی میں ، نہ مرنے کے بعد-بعض فقراء نے ازل کے دن (الست بربکم) ’کیا میں تمہارا رب نہیں  ہوں؟‘ کی الہامی آواز سنی اور اس کے جواب میں (قالوا بلیٰ) کہا ’ہاں کیوں نہیں‘-

بعض فقیر وہ ہیں کہ جن کے دل دنیا میں بھی خواب یا مراقبہ کے دوران زندہ و بیدار ہو کر دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو جاتے ہیں‘‘-[3]

اس لئے میرے بھائیو اور بزرگو!جہاں ہم اپنےمادی وجود کی آرائش کی بات کرتے ہیں وہاں قرآن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دیتا ہے ’’وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللہِ‘‘کہ اپنی امت کو اللہ کے دن یاد کراؤ-یہ دن مفسرین،اکابرین اور سلف صالحین  کے نقطہ ٔنظر سے،یہ حکم ان تمام شخصیات کوہے جن کے ذمےتلقین و ارشاد کی ڈیوٹی ہے کہ وہ مخلوق کو اللہ کے قرب ووصال، محبت،اطاعت اور اس کے انوار و تجلیات کے مشاہدے کی جانب راغب کریں-جب روح زندہ و بیدار ہوتی ہےاورروح میں تواتر سے انوارِ الٰہیہ نزول فرمانے لگتے ہیں تو اس کو انسانیت کی بیداری کا مرحلہ کہا جاتاہے- جب تک یہ   انسانیت بیدار نہیں ہوتی اس وقت تک خود اس دین کے ماننے والے بھی جبر،تعصب اورظلمت سے اپنے ہاتھ کو بازنہیں رکھ سکتے-تلقین ِروحانی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ بندے کے  وجود میں اعتدال پیدا ہواور انسان کی انسانیت قائم و دائم رہے -جس طرح مفتیٔ بغداد علامہ محمود احمد آلوسی(رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں :

’’وَ جُوِّزَ اَنْ یُّرَادَ بِاَیَّامِ اللہِ تَعَالیٰ اَیَّامُ تَجَلِّیِہِ جَلَّ جَلاَلُہٗ بِصِفَۃِ الْجَلَالِ وَ تَذْکِیْرُ ھُمْ بِذٰلِکَ لِیَخَافُوْا فَیَمْتَثِلُوْا‘‘[4]

’’اوریہ بھی جواز ہے کہ ایام اللہ سے  مراد اس ذاتِ ذو الجلال کی اپنی صفتِ جلال سے تجلی فرمانے کے دن ہوں اور لوگوں کو اس لئے ان کی یاد دلانے کا حکم ہوا تاکہ وہ (ظالم انسان اس کے جلال سے) ڈریں  اور فرمانبرداری کریں‘‘-

صاحبِ روح المعانی کی اِس عبارت کےآخری حصہ میں نظر دوڑائیں تو وہ اس جانب مائل کرتے نظر آتے ہیں کہ ان ایام کی یاد سے آدمی میں فرمانبرداری و اطاعت پیدا ہو تی ہے-اب گفتگو کے آخری حصے کی جانب بڑھتے ہوئے آپ کو چشمانِ ظاہر میں نظر آنے والی دُنیا سے ایک دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تصوف کے اِس نُقطۂ نظر سے انسانیت کی کیا بھلائی کی جا سکتی ہے اور اِس وقت دُنیا میں کس طرح کے انسانیت دشمن نظریات پنپ رہے ہیں جن کی اِصلاح کی ضرورت ہے؟

(۴)انسانیت کو اِس تربیت کی ضرورت کیوں ہے ؟

یہ بات آپ کو بڑی تھیوریٹیکل اور نان پریکٹیکل لگے گی،ناچیز آپ کو اس کی زندہ مثال پیش کرنا چاہتا ہے کہ اس وقت دنیا کا مزاج کیا ہے؟ آج (۳۰ ستمبر ۲۰۱۶) اگر دیکھیں تو بہّتر(۷۲) دن یعنی سوا دو مہینے تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریارستی دہشت گردی جاری ہے-’’لوگ کہتے ہیں کہ’’ہے ! مگر سویا ہوا ہے ‘‘ مَیں کہتا ہوں ’’ہے ہی نہیں‘‘ - وہ چیز جسے ’’عالمی ضمیر‘‘ کہتے ہیں-یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ عالمی ضمیر بھی ہےاوریہ واقعہ ہی یقین دلاتا ہے کہ عالمی ضمیر سویا ہوا نہیں ہے بلکہ عالمی ضمیر موجودہی نہیں ہے-کیونکہ بہتر (۷۲)دن تک عالمی اورانٹرنیشنل میڈیا گروپس  میں اُن کشمیری مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے  مظالم کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی نہ چلی اور نہ اُن کو یہ اہمیت دی گئی کہ اُن کے متعلق کچھ کہا جاسکےجبکہ اس درمیان ایک سو (۱۰۰)سے زائد اموات ہوئیں-لیکن ایک خود ساختہ،جعلی اوربناوٹی (preplan) واقعہ اُڑی(جموں کشمیر کا ایک قصبہ ) کا ہوا اور دنیا مشتعل ہو گئی کہ پاکستان سے گئے ہوئے دہشت گردوں نے ہندوستان میں حملہ کردیااور تباہ کردیا،کشمیرمیں پاکستان کی وجہ سے یہ ہوگیا اور وہ ہو گیا-جبکہ حقائق یہ ہیں کہ خود انڈیانے اپنے کیمپ پر یہ  بناوٹی حملہ کروایا،جس میں سترہ(۱۷)افراداس وقت مرے اور دو تین بعد میں -عقل سے سوچیں تو یہ امکان ہی نہیں ہے کہ دس(۱۰) فٹ کی دو طرفہ لگائی گئی باڑ جس پر الیکڑیکل وائیر(electrical wire) بھی بچھائی گئی ہے، (dog walks)جس پر’’dog walk‘‘ الگ ہوتی ہے، اُن کےانفرادی فوجیوں کی واک (walk)الگ ہوتی ہے،جہاں دس (۱۰)میٹر تک پاکستان میں رات کے وقت بھی پاکستانی سرحد کے اندر بالکل سورج کی طرح روشنی ہوتی ہے،وہاں کوئی آدمی تو کیاکوئی پرندہ بھی نظر سے گزرے بغیر نہیں جاسکتا،وہاں یہ کیسے امکان ہوسکتا ہے کہ  پاکستان سے کوئی دہشت گردگزرا ہو-

ویسے بھی پاکستان کے دہشت گردوں کو پاکستانیوں کو مارنے سے فرصت نہیں وہ کشمیر میں کسی کو مارنے کیوں جائیں گے-کیونکہ پاکستان کے دہشت گرد ہمیں اور آپ کو مارنے پرتُلے ہوئے ہیں،کشمیر اورفلسطین تو ان کو نظر نہیں آتا-اس لئے یہ ایک خود ساختہ واقعہ کیا گیا جس سے  پوری دنیا تلملا اُٹھی- یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانیت کی بنیاد پردنیا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق  رکھتی ہے،تو انسانیت کی بنیاد پراُن بہتر (۷۲)دن کے کرفیو، غذاکی تنگی،نوجوانوں،بوڑوں اورعورتوں کی اموات اور پیلٹ گنوں (pellet guns)کی فائرنگ سے،اُن کے اپاہج اور اندھا(furnace blind)ہوجانے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟حالانکہ اس کا کوئی نوٹس تو عالمی ضمیر کو لینا چاہیے تھا؟لیکن نہیں لیا گیا،کیونکہ اس واقعہ کامعاشی مفاد ہندوستان کے ساتھ وابستہ تھا-مغرب کے میڈیا گروپس  کی نظر میں انسانیت اور انسانی مفاد کوئی چیز نہیں ہیں-اُن کی نظر میں معاشی مفاد اہمیت رکھتاہے، کیونکہ اُن کے لئےانڈیا میں معاشی مفاد(economic interest) ہے نہ کہ کشمیریوں سے انسانی مفادhuman interest)) -اس لئےتو آج دنیا انسانی تعلق کی بجائے معاشی تعلق سے وابستہ ہے-

علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)نےپیامِ مشرق میں ’’ولیم قیصر‘‘ اور ’’لینن‘‘ کا جو مکالمہ کروایا تھا،اُس میں ’’لینن‘‘نے ’’ولیم قیصر‘‘ کو کہا کہ !ہم نے آپ کے جاگیرداروں اور بادشاہتوں کو اُکھاڑ کے پھینک دیا، ہم نے آپ کے زاروس کے واقعات کو مٹا دیااور اب یہاں مزدور کی حکمرانی ہے-تو ’’قیصر ‘‘نے ’’لینن‘‘ کو یہ جواب دیا کہ!ضرورت تو یہ تھی کہ حسنِ شیریں ، یعنی زرپرستی کے خریدار ختم ہو جاتے، انہوں نے کہا:

نماند نازِ شیریں بے خریدار

 

اگر خسروِ نباشد کوہکن ہست[5]

’’شیریں کے ناز و ادا بغیر خریدار کے نہیں رہیں گے، خسرو نہ ہوا، تو کوہکن سہی‘‘-

یعنی اگر آج زر پرستی بادشاہ سے خرید کے مزدور نے لے لی ہے تو سوال یہ کہ زر پرستی تو اپنی جگہ قائم ہے،چاہے مزدور کرےیا حکمران-انسانیت کے تعلقات کی بنیاد تو زر پرستی پرہے،انسانیت کےتعلقات کا نشیب وفراز تو زر پرستی کا مرہونِ منت ہے،تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نام نہاد اقوام جواپنے آپ کو مہذب کہتی ہیں اور عالمی ضمیر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں،حقیقت میں!ان میں نہ ہی تہذیب ہے، نہ ہی انسانیت ہے اورنہ ہی ضمیر ہے-کیونکہ اگران میں انسانیت اورضمیر ہوتا تو یہ کشمیریوں اورفلسطینیوں کی مشکلات کو دیکھتےنہ کہ اسرائیل اور ہندوستان کےمعاشی مفاد کو دیکھتے-اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی اس دنیا میں انسان اپنےظاہری وجود کی آرائش و زیبائش اورتعمیر و ترقی کرتا ہے،صرف اپنے ظاہری وجودکو نکھارنے،سنوارنے، پڑھا لکھا کرنے اور اس کےلئے راحتیں ڈھونڈنے کے لئےکرتا ہے، لیکن انسان اپنے باطنی وجود سے غافل ہےجہاں اس کا حقیقی انسان پوشیدہ ہے- جیسا کہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرماتے ہوئے قرآن میں مجیدارشاد میں فرمایا:

’’وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰامِ اللہ‘‘[6]    ’’اور ان کو (اپنی بارگاہ میں آنے والے ان امتیوں کو)اللہ کے ایام یاد کراؤ‘‘-

یعنی انسان جو آج مجھ سے غافل ہے،مجھ سے دور ہو گیا ہے،جومجھے،میری محبت، میری رحمت،میری قربت کو بھُلا بیٹھا ہے،اے موسیٰ (علیہ السلام)اپنی امت کووہ باتیں یاد کرواؤ جو آج بھول چکی ہیں کہ کبھی یہ انسان میرے حریمِ قدسیہ کے مہمان ہوا کرتے تھے -

اس لئے حضرت علامہ اقبال صاحب(رحمتہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ:

آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایمان پیدا

 

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا[7]

آپ(رحمتہ اللہ علیہ) مزید فرماتے ہیں کہ:

اگر کوئی شعیبؓ آئے میسر

 

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے[8]

یعنی اگر آج بھی کسی مرشد کامل کو تلاش کر لیا جائے،اُس کی تعلیماتِ روحانیہ پر اپنے ظاہر اور باطن کو گامزن کردیا جائےتو انسان کی انسانیت اور روحانیت دونوں ہی بیدار ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے اس معاشرے میں   سےظلم،جبر،تشدد، تعصب، استحصال اوراسبتداد پہ قائم سامراج  کو ختم کرکےاس  معاشرہ کو انسانیت،محبت،امن و اعتدال اور اللہ کی رحمت کا معاشرہ بنایا جاسکتا ہے-لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ بندہ اپنے وجودِظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے وجودِ باطن کی طرف بھی راغب ہو جائے-

مَیں تذکرہ کے طور پر یہ عرض کرتا جاؤں کہ! جیسے مَیں نے کشمیر کی بات کی اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ کہتے ہیں کہ:’’ جب چیونٹی مرنے لگے تو اس کے پر نکل آتے ہیں‘‘-اب ہندوستان جوخود اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلنے جارہا ہے،خود اپنے ہی ہندو انتہاء پسندانہ رویے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے جارہا ہے-اس مسئلہ پر جب مَیں نے چیونٹی کوتلاش کیا تو مجھے ہندوستان کی چیونٹی مودی نظر آیااور جب مَیں نے پَر تلاش کئے تو مجھے معلوم ہو کہ مودی کی ’’د‘‘پر نقطہ لگ گیا ہے-اب وہ مودی سے’’موذی ‘‘ بن چکا ہے جو کہ پیدائشی ہی موذی تھا-آپ کشمیر،خالصتان،آسام،ناگا لینڈ، میزورام ، مانی پور،تاری پورہ ، جوناگڑھ اور نیکسلائٹ تحریکوں کو دیکھیں، شمال مشرقی انڈیا ہو یا جنوبی انڈیا   حتیٰ کہ پورے ہندوستا ن میں پھیلی ہوئی آزادی کی اُن تحریکوں کو دیکھیں،ہندوستان کا ٹوٹنا لازم ہوگیاہے-مزے کی بات یہ کہ یہ کسی بیرونی دہشت گردی سے نہیں بلکہ   ہندو انتہاء پسندانہ دہشت گردی سے ٹوٹ رہا ہے، یعنی بھارت خود اپنے ہی بوجھ تلے دب رہا ہے-لیکن جہاں تک کشمیر کی بات ہے تو ہمیں ہر حال میں  اپنے ذہن میں یہ بات  رکھنی چاہئے کہ ہندوستان آج ٹوٹے یا کل،اس کی دیواروں کو جو کہ کبھی تھی ہی نہیں، اُن دیواروں کو آخری دھکا وادی کشمیر سے ملے گا،اس لئےکشمیر کی آزادی نوشتۂ دیوار ہے-

آپ الیسٹر  لیمب،وکٹوریہ سکوفیلڈ،حتیٰ کہ کشمیر کی تاریخ اور تنازع کے تمام مغربی مصنفین کو دیکھ لیں وہ اپنی بات کی بنیاد ایک واقعہ کو بناتے ہیں اور یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ہندوستان کواس قوم کے جذبے کا جائزہ (analyse) لینا چاہیے-لیکن بد قسمتی سے میری سمارٹ فون جنریشن کو یہ واقعہ یاد نہیں کہ:

’’۱۳جولائی ۱۹۳۱ ءکو سری نگر سنٹرل جیل کے باہر سیکڑوں ،ہزاروں کی تعداد میں کشمیری احتجاج کے لئے موجود تھے-اس وقت نہ ڈوگرہ راج کے خلاف وہ احتجاج کر رہے تھے-ابھی کوئی قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی، نہ قائداعظم لندن سے واپس آئے تھے اور نہ ہی پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تھی - جب فجر کی اذان کا وقت ہوا تو ڈوگرہ فوج نے اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں،ایک کشمیری نے اذان فجر شروع کی اور کہا’’اللہ اکبر!‘‘گولی چلائی گئی اوراس مؤذن کو شہید کردیا گیا -پھراسی مجمعے میں سے دوسرا مؤذن کھڑا ہوا ،اس نے دوسری بار کہا ’’اللہ اکبر!‘‘پھر گولی چلائی گئی اوراسی اذان کا دوسرا مؤذن بھی شہید ہو گیا-پھرتیسرا مؤذن  اُٹھا،اُس نے پھر کہا ’’اللہ اکبر!‘‘پھرگولی چلی اورتیسرا موذن بھی شہید ہو گیا-اسی اذان کے لئے چوتھا مؤذن اُٹھا،اُ س نے چوتھی بار کہا ’’اللہ اکبر!‘‘اسے بھی شہید کردیا گیا،پھرپانچواں اُٹھا اس نے کہا’’اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘! اُسے بھی شہید کر دیا گیا-چھٹا مؤذن اُٹھا  اس نے کہا،’’ اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘  اُسے بھی شہید کر دیا گیا اور فجر کی یہ اذان اکیس(۲۱) کشمیریوں نے مکمل کی اور جام شہادت نوش کیا - یہ دنیا کی تاریخ میں  واحد اذان تھی جسے اکیس (۲۱)  شہدا مؤذنین کشمیریوں  نے مکمل کی ‘‘-

۱۳ جولائی آج بھی کشمیر میں یوم شہداءکو طور پر منایا جاتا ہے- ناچیز یہ عرض کرتا چلے کہ کشمیر کی جو قومی علامت ہے وہ ان کا چنار کا درخت ہے -اسی مؤذنین والے واقعہ کی  نسبت سے متاثر ہوکے اقبال نے چناروں کی سر زمین کےلئے کہا تھا :

جس خاک کے ضمیر میں ہے آتشِ چنار

 

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند[9]

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کشمیری اپنی آزادی کے لئےہتھیارڈالیں گے،اس حوالہ سے ناچیز آپ سے کچھ شیئر کرنا چاہتا ہے  کہ وہ تو ایک دن،ایک اذان کی بات تھی بلکہ مَیں نے کشمیریوں کو یہ کہتے ہوئےسنا ہے کہ!اگر ہمیں آزادی کی دولت لینے کے لئے ہر روز بھی ایسی اذانیں دینی پڑیں،تو ہمارے نوجوان آج بھی آزادی کی قیمت کے لئے یہ اذانیں دینے کو تیار ہیں-اس لئے حضرت علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)فرماتےہیں کہ :

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

 

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی[10]

کشمیریوں نے نہ ہی کبھی اپنی آزادی کے لئےہتھیار ڈالیں ہیں اور نہ  ہی کبھی ڈالیں گے-یہ ہمارا اخلاقی،قومی، ملی اورانسانی فریضہ بنتا ہے کہ ہم اس صدائےتکبیر اورصدائے رسالت کو بلند کرنے کے لئے اُن کی پشت پر کھڑے ہوں اور جہاں تک اپنی آواز کو،ان کی آواز سے ملا سکتے ہیں،ملانا چایئے-وہ طبقہ جو پاکستان میں مایوسی کو،بددلی کو پھیلانے میں پیش پیش تھا،جنہوں نے بلوچستان کو عالمی سازش اور عالمی فنڈنگ کے تحت بین الاقوامی (internationalise) کیا،آج! آپ سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ سارےبلوچی اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات(Federally Administered Areas) پاکستان کے پرچم ہاتھوں میں اٹھائے یہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘-اس لئے چاہے پٹھان،سندھی،بلوچی، مہاجر،پنجابی،کشمیری ،گلگتی یاکوئی بھی ہے،جن کے آباؤاجداد نےنظریۂ پاکستان پریقین رکھتے ہوئے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی،اُن کا جینا،مرنا کل بھی سبز ہلالی پرچم کے سائے میں تھا اور آج بھی سبز ہلالی پرچم کے سائے میں ہے-

مَیں اُس مذہبی حیثیت (religious status)کو اپنی گفتگو میں شامل نہیں کرنا چاہتا جنہوں نے سبز ہلالی پرچم کا انکار کیا -لیکن یہ پاکستان،یہ سبز ہلالی پرچم، نہ ہی کسی مفکر،فلسفی،سیاست دان  اور وکیل کی تخلیق ہے بلکہ پاکستان کی تخلیق کی فائل خود تاجدار انبیاء حضرت محمدالرسول اللہ (ﷺ)نے قائد اعظم محمد علی جناح کو عطا فرمائی تھی-اس لئےجب تک ہماری رگوں میں لہو ،ہمارے جسموں میں جان اورہمارے وجود میں سانسوں کی گرمی ٔحرارت باقی ہے،ہمارا جینا،مرنا اللہ کے دین اور پاکستان کے لئے ہے-کیونکہ پاکستان کو نہ کوئی سر نگوں کر سکا ہے اورنہ ہی کوئی کرسکے گا-میرے بھائیو!پاکستان سے کبھی مایوس نہ ہونا ،پاکستان سے مایوسی کفر ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جسے سب سے پہلے ایمان کی شرائط میں بتایا گیا ہے ’’یومنون بالغیب‘‘جو تمہاری آنکھوں کے سامنے نہیں ہے-لیکن اگرقابل اعتبارِ ذرائع سےآپ کو بتا دیا جائےتو اس پر بھی ایمان لے آؤ  کیونکہ یہ ہمارے ایمان کی شرائط میں سے ہے-

مَیں کئی جگہوں پر اپنے نوجوان ساتھیوں،بھائیوں کو ہمیشہ یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ دیکھیں ہم کس خمیر،کس مٹی سے بنے ہیں،ہم حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہُ)کی قوم کے بیٹے ہیں-اس لئے یہاں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ:

’’ بادشاہ  تُبع اپنے لاولشکر کے ساتھ ایک بستی سے گزرا،جس کےساتھ کثیر تعداد  علماء یہود کی تھی- علماء یہود نے وہاں رات کا پڑاو کیا اور اس بستی کے اطراف و اکناف،مٹی،پتھروں،پودوں،پھلوں،اجناس اورپانی کاجائزہ کیااو ر اپنے شہنشاہ تُبع سے کہا کہ کیا یہ وہی بستی ہے جس کا ذکر زبور شریف ( حضرت داؤدعلیہ السلام  پر ناز ل ہونے والی کتاب) میں تین الفاظ میں ہے’’ طابہ ،طِیبہ اور طَیّبہ‘‘ ؟کیا یہ وہ بستی ہے جہاں خاتم الانبیاء،حضرت محمد الرسول اللہ،احمد مجتبیٰ (ﷺ) جلوہ فرما ہوں گے؟ اس لئے ہم ان کے انتظار میں یہی رکنا چاہتے ہیں،اُن کا ظہور کب ہو گا؟ وہ کب تشریف لائیں گے؟اجتماع کیا گیا،انہوں نےبیٹھ کروقت کا تعین کیا تو وقت کا تعین نہ ہوا کہ کتنا وقت باقی ہے-توانہوں نے نبی آخر الزماں،احمد مجتبیٰ (ﷺ) جن کا ابھی ظہور بھی نہیں ہوا اور زمانۂ قریب میں ظہور کے امکان بھی نہیں ہے، کے نام ایک چِھٹی لکھی کہ یا سیدی!ہم  یہ گواہی دیتے ہیں کہ اگر آپ (ﷺ)کا ظہور ہمارے زمانہ میں ہوا توہم آپ (ﷺ)کے دین پر ایمان لائیں گے اور آپ (ﷺ)کی نبوت و رسالت کی گواہی دیں گے-لیکن اگر آپ( )کاظہور ہمارے زمانہ کے بعد ہوا،تو ہم اپنی نسلوں کووصیت کر کے جائیں گے کہ جب بھی آپ (ﷺ)کااس بستی میں ظہور ہو تو وہ آپ (ﷺ)کے دین پرایمان  بھی لائیں اور آپ (ﷺ)کی نبوت و رسالت کی گواہی بھی دیں-مزیدآپ (ﷺ)سے ہماری التماس ہےکہ ہمارے لئے مغفرت کی دعابھی  فرما دیجئے- اُن علماء کی اولاد آٹھ (۸)،نو (۹)پشتوں، کئی صدیوں تک’’ طابہ ،طِیبہ اور طَیّبہ‘‘میں،جسے بعد میں یثرب کہا جانے لگا،وہاں قیام پذیر رہیں-جب آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام اسی یثرب کی بستی جو کہ  اب مدینہ منورہ ہے،جلوہ فرما ہوئے تو میزبانِ رسول (ﷺ)سیدنا ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہُ) اپنے آباؤاجداد کا وہ  رُقعہ (چِٹھی)لے کر آقا پاک(ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ (ﷺ)!ہمارے آباؤ اجداد اسی وصیت اور نصیحت پر یہاں بیٹھے تھے کہ آپ (ﷺ)یہاں جلوہ فرما ہوں گےتو ہم عرض کریں گے کہ یا سیدی!ہم آپ (ﷺ)پرایمان بھی لاتے  ہیں اورآپ (ﷺ)کی نبوت و رسالت کی گواہی بھی دیتے ہیں-آپ(ﷺ)ہمارے آباؤ اجداد کے لئے مغفرت کی دعابھی فرما دیجئے‘‘-

اگر وہ اس بشارت اورخوش خبری پر یقین نہ رکھتے اوراس بستی کو چھوڑ کر چلے جاتے،شہنشاہ تُبع کے ساتھ اپنی شہانہ زندگی بسر کرتےتوخاک میں خاک ہو جاتے ،اُن کا نام و نشان ہی مٹ جاتا-لیکن ایک قابل اعتبار ذریعے سےبتائی ہوئی اس بشارت اورخوش خبری نے حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہُ) اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہُ)کو آنے والی دنیا تک کے لئے امر کر دیا-ان کو امید اوریقین کا ایک زندہ مینار بنا دیاکہ جو کوئی بھی ان کےدامنِ یقین و اُمّید سے وابستہ ہو جائے گا اللہ تعالیٰ ایسی فتوحات ان کے مقدر میں لکھ دے گا-

ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں معذرت خواہانہ(apologetic)ہونے کی ضرورت نہیں ہے،اگر کوئی کانگریس اور اس کے ہم نواہو،بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP)اور ان کی معلومات(information)پریقین رکھتا ہے،تو اُسے اُس کی بد بختی مبارک ہو-کیونکہ ہم تاجدارِ انبیاء(ﷺ) کے اولیاء کرام کی زبان سے نکلی ہو ئی بشارتوں پر یقین رکھتے ہیں،اس لئےہمیں ہمارا ایمان اور یقین مبارک ہو-

میرے بھائیو!ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا اور دنیا بھر میں وہ ’’ورلڈ آرڈر‘‘اسی اسلامی ملک،پاکستان سے جاری ہوگا-دنیا کی ہاں اور ناں کے فیصلے اسی پاکستان سے ہونگے اورکہا گیا کہ آج میں سکون کی نیند سو رہا ہوں،کہا شیخ !کیوں سکون کی نیند سورہے ہو؟فرمایااس لئے کہ مَیں نے سارے ہندوستان کی بارگاہ ِنبوت سے سبز ہونے کی بشارت لے لی ہے-

جو ان قابلِ اعتبار زبانوں پریقین رکھتےہیں،اُنہیں اللہ کی رضا،آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم مبارک ہو-پوری دنیا دیکھے گی کہ سبز ہلالی پرچم صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا ء کا پرچم ہو گا-اس لئے ہمیں کسی مایوسی اور ناامیدی کی ضرورت نہیں ہے-آج جو ہم اپنے اوپر سختیاں و مشکلات جھیل رہے ہیں یہ ہمارے اعمال کی بدولت ہےکیونکہ جیسے ہمارے اعمال ہو نگے ویسے ہی ہمارے حکمران ہونگے-لیکن آقا علیہ صلوٰۃ والسلام کے کرم،رحمت اور وسیلۂ جلیلہ سے ہم پراللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کا نزول ہوگا اور اللہ کی رحمت ان تمام اہلیانِ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اورپاکستان آخری وقت تک قائم و دائم رہے گا-اس لئے ہمیں پاکستان کی روحانی میراث پر قائم بنیاد پر یقین رکھتےہوئے، خلوص دل سے پاکستان کے لئے قربانی دینے اور جدو جہد کرنے  کی ضرورت ہے-

آج کامسلمان!صرف پہلے حصے پر ہی  خوش ہوتا ہے کہ بشارت دیں اورچپ ہو جائیں،مگراس بشارت کو پورا کرنے کے لئےجو میرا کردار ہے اس کو کتاب میں پوشیدہ رہنے دیں- میرے نوجوان ساتھیواور بھائیو!یاد رکھو! ہم ان بشارتوں کےبلند نعروں کے جواب میں،جو جذبات کاجوش لگاتے ہیں،اُن سے بھی بڑھ کر ہمیں ان نعروں کے جواب میں اپنے عمل ،کردار اوروعدے کا نعرہ بلند کرنا ہے،کہ ہمارےحصّے کا جو کردارہےوہ اس پاک سرزمین مدینۂ ثانی کی بقاء،اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے علَم کی سر بلندی کے لئےہوگا-ہم اس علم اورسبز ہلالی  پرچم کو کبھی سر نگوں نہیں ہونے دیں گے-ہم اپنے ملک کےسماجی، معاشرتی، معاشی اور انصاف کے مسائل کا پہرا بھی دیں گے اوراپنے حقوق مانگنے سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے جو وفاکے تقاضے بنتے ہیں، ہر تقاضے کو پورا کریں گے-ہم جب تک ان جذبات کے نعروں کے ساتھ قوتِ عمل کا نعرہ بلند نہیں کرتے اس وقت تک ہماری کامیابی ممکن نہیں ہے-اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں یا فقط جذباتی نعروں تک رہنا چاہتے ہیں ؟

یہ جماعت،یہ تحریک (اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین) اس عمل کی  دعوت  دیتی ہے کہ آئیں!اپنے قوتِ عمل اور جوشِ کردار سے اپنے وجودکے اندر وہ انقلاب اور گرمی و تپش پیدا کریں  جو آپ کو کبھی بیٹھنے اور سُست ہونے نہ دے -یاد رکھیں!اگرپانی ٹھہر جائے تو تالاب بن جاتا ہے،دریا تب تک رہتا ہےجب تک وہ بہتا اور چلتا رہتا ہے-اس لئےسلطان العارفین (قدس اللہ سرّہ ) کا یہ پیغام بھی پڑھیئے!آپ (قدس اللہ سرّہٗ )فرماتے ہیں کہ عاشق کون ہوتا ہے؟ عاشق کی نشانی کیا ہے؟ عشق کسے کہتے ہیں؟ عاشق پہچانے کیسے جاتے ہیں؟عاشق ہمیشہ اپنے عمل کی جدّت  وحرارت سے پہچانے جاتے ہیں کہ:

عشق دی بھاہ ہڈاں دا بالن عاشق بہہ سکیندے ھو
سرگردان پھرن ہر ویلے خون جگر دا پیندے ھو

 

گھت کے جان جگر وچ آرا ویکھ کباب تلیندے ھو
ہوئے ہزاراں عاشق باھُو پر عشق نصیب کہیندے ھو

جب آپ عام عوام اورقوت ِعمل سے محروم لوگوں کو دیکھتے ہیں تووہ اپنے گھرکےچولہے کا ایندھن درختوں کی لکڑیوں کو کاٹ کر بناتے ہیں لیکن جو عاشقِ الٰہی اور عاشقِ مصطفیٰ (ﷺ) ہوتے ہیں،ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ عشق کی آگ جلاتے ہیں،اس میں درختوں اور پتوں کی ٹہنیوں کو نہیں بلکہ اپنی ہڈیوں کا ایندھن شامل کرکے اپنے عشق کی آگ کو روشن کرتے ہیں-وہ جانوروں کی بوٹیوں کو سیخوں پر چڑھا کر لکڑیوں کی آگ پر نہیں بھونتے بلکہ وہ اپنے جان و جگر کو عشق کی چھریوں سے کاٹ کر عشق کی آگ پر بھونتے ہیں-اس لئے  حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ جب انسان کے جگرکو  بھونا جاتا ہے تو جگر کی خوشبوتمام عالم میں پھیل جاتی ہے:

اندر بوٹی مُشک مچایا جان پھلاں تے آئی ھو

 

جیوے مرشد کامِل باھو جیں ایہ بوٹی لائی ھو

یہ اندر کی خوشبو انسان کے جگر کو عشق کی آگ پر،ہڈیوں کے ایندھن جلانے سے پیدا ہوتی ہے-اس لئےعاشق کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ کسی ایک جگہ پر رُکتا اور محدود نہیں ہوتا بلکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں  کہ تم جب بھی ان کو دیکھو گے ان کے پاؤں گھوڑوں کی رکاب میں ہوں  گے-اِسی لئے تو کہا کہ عاشق کا کوئی وطن اورجہاں نہیں ہوتا ہےبلکہ عاشق جہاں بھی جاتا ہےاپنے وجود کی تاثیر سے زمین کے ہر ذرے کو اپنا وطن 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر