شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی اندلسی ؒ کا شمار عالم اسلام کی عظیم صوفی بزرگ شخصیات میں ہوتا ہے آپ سلسلہ قادریہ میں منارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں-اللہ تعالیٰ نے انہیں علوم ظاہریہ اور باطنیہ کا وافر حصہ عطا فرما رکھا تھا،ان کے افکار و نظریات، علمی حقائق، آفرینئ خیال اور احوالیٔ کشف و مراتب سے ایک پورا عالم مستفید ہوا-انہوں نے دنیا کے سامنے متصوفانہ، فلسفیانہ، دینیات اور کلام کا ایک ایسا تخلیقی ،امتزاجی ،مربوط اور مستحکم نظامِ فکر پیش کیا جس کی بنا پر انہیں بلا مبالغہ اسلام کی علمی اور عرفانی تاریخ کا ایک بڑا مفکر کہا جا سکتا ہے، بلکہ انہیں صوفیانہ نظری اور وارداتی لٹریچر کا موجب بھی کہا جا سکتا ہے-آپ نے اپنی تصانیف میں تصوف اور اس کے متعلقات کو ایک انتہائی تاویلاتی اور رموز و اسرار کے انداز میں پیش کیا اور صوفیانہ طرز فکر کو ایک نئی جہت اور وسعت عطا کی- آپ کی سوچ وفکر کی گہرائی اور آگاہی کا حصول باآسانی اس خط سے بھی ہو سکتا ہے جو امام رازی کو لکھا گیا -اس خط میں شیخ ابن عربی نے امام رازی کے درجہ علم میں کم تر ہونا بیان کیا ہے، حالانکہ امام فخر الدین رازی کا شمار اُن علماء میں ہوتا ہے جن پر علوم اسلامیہ کی ریاست ختم ہوتی ہے-خط طویل ہے لیکن اس کے ایک دو مختصر اقتباس نقل کر دیتا ہوں تاکہ سند رہے -عالم اجل امام عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی:973ھ) طبقات الکبری میں لکھتے ہیں کہ: شیخ نے خط میں لکھا :
’’اے میرے بھائی خداہم کوتوفیق عطافرمائے سنو! کوئی شخص ہمارے نزدیک علم کے مقام میں اُس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس کاعلم بغیرواسطۂ نقل یااستاد کے خدائے عزوجل کی طرف سے نہ ہو کیونکہ جس کاعلم نقل یا استاد سے حاصل ہوتاہے (یقیناً) اہل اللہ کے نزدیک خالی از علت نہیں ہوتا-
اے میرے بھائی! اگرآپ اہل اللہ میں سے کسی شیخ کے ہاتھ پربیعت کرکے سلوک اختیارکرتے تووہ تم کوحق تعالیٰ کے حضور مرتبۂ شہود تک پہنچا دیتا-وہاں سے تم اشیاء کاصحیح علم الہام کے طریقے سے حاصل کرتے جیسا کہ خضر (علیہ السلام) نے حاصل کیا- پس علم توہے ہی وہی جو کشف و شہود سے حاصل ہونہ کہ وہ جونظر و فکر اور گمان و قیاس سے-
اے میرے بھائی! آپ کے لئے مناسب یہی ہے کہ علوم میں سے اُسی علم کی جستجومیں رہوجس سے تمہاری ذات کامل ہو، اور جہاں تم جاؤ تمہارے ساتھ رہے اور ایسا علم صرف علم باللہ ہی ہے جو وہب اور مشاہدہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے- پس اگر آپ کا علم طب ہے مثال کے طور پر تو اس کی ضرورت اُسی عالم میں ہے جہاں دکھ اور بیماریاں ہیں اور جب تم اس عالم میں منتقل ہوجاؤگے جہاں دکھ اور مرض نہیں ہے تو وہاں اِس علم کے ذریعے کس کا علاج کرو گے؟
اے میرے بھائی ! یقیناً آپ کو علم ہوگا کہ صاحب عقل کیلئے مناسب یہی ہے کہ علوم میں سے صرف وہی علم حاصل کرے جو اس کے ساتھ عالمِ برزخ تک جائے نہ کہ وہ جو عالمِ آخرت کی طرف منتقل ہوتے وقت ساتھ چھوڑ دے اور آدمی کے ساتھ جانے والے صرف دو ہی علم ہیں- ایک علم باللہ اور دوسرا مواطن آخرت (یعنی معاملات آخرت ) کا علم-
اے میرے بھائی! آپ کیلئے یہ مناسب ہے کہ اِسی عالم میں یہ دونوں علم آپ پر کھل جائیں تاکہ ان کا پھل اس عالم میں تم کو ملے، اور اس عالم کے انہی علوم کو لو جن کی ضرورت اہل اللہ کی اصطلاح کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے راستہ میں پیش آئے-[1]
آپ اندازہ لگائیں کہ شیخ الاکبر ؒ نے کس انداز میں امام رازی کی فکری آبیاری کی ،افکار وتفہیم رازی کو دہلیزِ الٰہی سے ہمیشہ پیوستہ رکھنے کیلئے کس طرح نفسیاتی انداز میں منطقی استدلال و تجزیہ پیش کیا- یقیناً عقل و شعور اور تفکر وتدبر کو تعلق باللہ کی ایک نئی جہت وہی عطا کر سکتا ہے جو خود اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کر چکا ہو- شیح ابن عربی توقرب ِ الٰہی کی وہ منازل طے کر چکے تھے اور قربِ الٰہی کا انہیں ایسا فیضان نصیب ہو چکا تھا کہ وہ تو پہچانے بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی کے طور پر جاتے تھے ، جیسا کہ شیخ امام تقی الدین السبکی ؒ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’شیخ محی الدین ابن عربی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت تھے اور آپ کے دَور میں فضیلت نے اپنی کنجیاں آپ کی طرف ڈال دیں ‘‘-[2]
اِس قرب ِ الٰہی کے فیضان کا کمال دیکھیں کہ آپ کی گفتگو ، کلام ، تحریر اور کتب و رسائل میں ایسی تاثیر شامل ِ حال رہتی کہ آپ کا کلام لوگوں کیلئے قُربِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا- جس پر شیخ مجدالدین فیروز آبادی کی گواہی موجود ہے- آپ فرماتے ہیں :
’’پس شیخ کی کتابوں کا مطالعہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے اور جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ جاہل اور راہ حق سے بھٹکا ہوا ہے‘‘-[3]
آپ کی تعریف کرنے والوں میں شیخ صلاح الدین الصفدی ہیں جنہوں نے ’’تاریخ علماء مصر‘‘ میں فرمایا کہ جو علم لدُنّی والوں کا کلام دیکھنا چاہے وہ شیخ محی الدین ابن عربی ؒ کی کتابوں کی زیارت کرے-[4]
امام ابن حجر عسقلانی (المتوفى:852ھ) ’’لسان المیزان‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’شیخ کمال بن زملکانی نے شیخ ابن عربی کے بارے میں فرمایا وہ معارفِ الٰہیہ کا ایک موجزن سمندر ہے ‘‘- [5]
امام عبد الوہاب الشعرانی ’’الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر‘‘ میں شیخ ابن عربی کی کتب کی اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’حقیقتاً میں نے اہل کشف کی کلام پر مبنی رسائل کا اتنا مطالعہ کیا ہے کہ گنتی نہیں ہو سکتی اور میں نے ان کی عبارات میں وہ وسعت نہیں دیکھی جو کہ شیخ کامل، مربی العارفین الشیخ محی الدین بن عربی ؒ کی عبارت میں ہے- اسی لئے میں نے اس کتاب (الیواقیت) کو آپ کی کلام فتوحات مکیہ وغیرہا سے مضبوط کیا نہ کہ دوسرے صوفیا کی کلام سے‘‘-[6]
شیخ مجدالدین فیروز آبادی شیخ کی کتب کے حوالے سے فرماتے ہیں :
’’شیخ کی کتابیں تو وہ متلاطم سمندر ہیں-کتابیں لکھنے والوں نے ایسی کتابیں نہیں لکھیں اور ان کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جو بھی ان کے مطالعہ کی پابندی کرتا ہے ، وہ دین کی مشکلات اور الجھے ہوئے مسائل حل کرنے لگتاہے اور یہ شان آپ کے سوا دوسروں کی کتابوں میں نہیں پائی گئی‘‘-[7]
یہی وجہ تھی کہ شیخ الاکبر کے صوفیانہ اور فلسفیانہ افکار سے دنیا سب سے زیادہ متاثر ہوئی - بعض لوگ کہتے ہیں کہ شیخ ابن عربی کی کتب کی سمجھ نہیں آتی ، وہ لوگ غلط نہیں کیونکہ کشف پہ بنیاد رکھنے والی تعلیمات کیلئے یا تو قاری خود صاحب کشف ہو ، اگر یہ نہیں تو کم از کم اہلِ کشف کی صحبت میں بیٹھنے والا تو ہو -آج کل تو زیادہ تر معترضین وہ ہیں جو ان دونوں باتوں سے خالی ہیں اور اعتراض ابن عربی پہ کہ سمجھ نہیں آتا - امام عبدالوہاب الشعرانی لکھتے ہیں :
’’اور آپ (ابن عربی ) کا جو کلام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکا ، وہ آپ کے مراتب کی بلندی کی وجہ سے ہے‘‘ -[8]
شیخ ابن عربی ؒ کی شخصیت پر اکابرینِ اُمت کی گواہیاں :
امام ابن حجر عسقلانی (المتوفى:852ھ) ’’لسان المیزان‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’شیخ صفی الدین بن ابی المنصور نے شیخ ابن عربی کے بارے میں فرمایا وہ اہلِ طریقت کے بڑے علماء میں سے تھے - انہوں نے تمام اکتسابی اور وہبی علوم کو جمع کر رکھا تھا - ان پر توحید غالب تھی علماً بھی، اخلاقاً بھی اور حالاً بھی‘‘-[9]
شیخ مجد الدین فیروز آبادی ؒ(المتوفی : 817ھ ) ’’القاموس المحیط‘‘میں لکھتے ہیں :
’’قسم بخدا شیخ اپنے زمانے میں ہمارے عقیدہ اور دین کے مطابق ولایت عظمی اور صدیقیت کبرٰی کے مرتبہ پر فائز تھے‘‘-[10]
مزید لکھتے ہیں کہ :
’’جو کچھ میں کہتا ہوں اور جو میری تحقیق ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طاعت کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ ایسا سمندر ہے جسے ڈول مکدر نہیں کرتے اور ایسا بادل ہے جس سے ستارے دور نہیں ہوتے- اس کی دعائیں ساتوں طبق چیر دیتی ہیں اور اس کی برکات آفاق کو معمور کر دیتی ہیں اور یقیناً شیخ (ابن عربی) اس سے فائق ہیں جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اور میرا غالب گمان ہے کہ میں اس بیان میں آپ کے ساتھ انصاف نہیں کر سکا‘‘-[11]
شیخ کمال الدین الز ملکانی ؒکی گواہی :
شیخ کمال الدین زملکانی ؒ جو کہ شام کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں- جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے شیخ محی الدین کو کیسا پایا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے انہیں علم، زہد اور معارف میں بحر بے کراں پایا- [12]
شیخ قطب الدین الشیرازی ؒکی گواہی
شیخ قطب الدین شیرازی شیخ کے بارے فرماتے ہیں کہ بیشک شیخ محی الدین علوم شرعیہ اور حقیقیہ میں کامل تھے- آپ پر صرف وہی تنقید کرتا ہے جسے آپ کے کلام کی سمجھ نہیں آئی -[13]
شیخ سراج الدین بلقینی:
شیخ سراج الدین البلقینی فرماتے ہیں کہ میں عقائد وغیرہ میں آپ کے کلام کا تجسس کرتا رہا اور آپ کے اسرار کلام پر گہری نظر کرتا رہا یہاں تک کہ میرے لئے آپ کے عقائد کی حقانیت ثابت ہوگی-میں نے خلق خدا میں سے اس جم غفیر کے ساتھ موافقت اختیار کی جو کہ آپ کے معتقد ہیں اور میں اللہ عز وجل کی حمد کرتا ہوں کہ میں شیخ کے مقام سے غافلوں اور آپ کی کرامات و احوال کے منکروں کے دفتر میں نہیں لکھا گیا -
شیخ الاسلام المخزومی نے فرمایا کہ شیخ محی الدین سرزمین شام میں تھے اور وہاں کے تمام علماء کی آپ کے پاس آمد و رفت رہتی تھی- آپ کی جلالت مرتبہ کا اعتراف کرتے تھے اور کسی انکار کے بغیر آپ کو استاذ المحققین مانتے تھے- جبکہ آپ ان کے درمیان لگ بھگ 30 برس رہے- وہ حضرات شیخ کی تالیفات لکھتے اور اپنے درمیان ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے- [14]
شیخ موید الدین الجندی فرماتے ہیں کہ ہم نے اہل طریقت میں سے کسی کے بارے میں نہیں سنا کہ اسے ان حقائق پر اطلاع ہوئی ہو جن پر شیخ محی الدین مطلع ہوئے - [15]
شیخ شہاب الدین السہر وردی اور شیخ کمال الدین الکاشی نے اسی طرح فرمایا ہےاور کمال الدین الکاشی نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ وہ کامل محقق، صاحب الکمالات والکرامات ہیں- باوجودیکہ یہ مشائخ ظاہر شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر نہایت شدیدا انکار کرنے والوں میں سے تھے-[16]
آپ کی تعریف کرنے والوں میں سے شیخ فخر الدین الرازی بھی ہیں- اور آپ نے فرمایا کہ شیخ محی الدین عظیم ولی تھے-
امام بدرالدین ابن جماعہ سے شیخ محی الدین ابن عربی کے بارے پوچھا گیا تو فرمانے لگے کہ تمہیں اس شخصیت کے متعلق کیا پڑی جن کی بزرگی پر لوگوں کا اجماع ہے-[17]
حافظ ا بن کثیر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جوشیخ محی الدین کوخطا کار کہتا ہےتو کہا کہ انہیں خطا کار کہنے والے کے متعلق مجھے خوف ہے کہ وہ خود خطا کار ہے کیونکہ ایک قوم نے شیخ پر انکار کیا تو ہلاکتوں میں گرگئے -[18]
عالم ربانی امام عبدالوہاب الشعرانی الیواقیت والجواہر میں لکھتے ہیں ، کہ عارف باللہ شیخ ابو طاہر المزنی الشاذلی نے فرمایا کہ :
’’شیخ الاکبر اجماع محققین کے مطابق مرد کامل ہیں اور کامل کے حق میں درست نہیں کہ وہ ظاہر کتاب و سنت کے خلاف بات کرے کیونکہ شارع علیہ السلام نے اسے اپنی شریعت پر امین بنایا ہے‘‘-[19]
امام ابن اسعدیافعی نے فرمایا کہ:
’’اہل طریقت پر (اعتراض کرنے والے ) ان جاہلوں کے انکار کا حکم اس مچھر کا سا ہے جو کہ پہاڑ پر پھونک مارتا ہے تاکہ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ جائے‘‘-[20]
امام عبدالوہاب الشعرانی (المتوفی:973ھ) ’’الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر ‘‘ میں لکھتے ہیں :
شیخ مجد الدین فیروز آبادی فرماتے ہیں کہ اہل فکر ونظر میں سے کسی کو اہل عطایا پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے- جبکہ شیخ محی الدین اہل عطایا کے اکابرین میں سے ہیں، جن کے لئے حق نے اپنے جمال باقی سے پردے ہٹا دیئے- پس قیامت تک اس کے انوار و تجلیات چمکتے رہیں گے- امام غزالی نے فرمایا کہ جسے قوم صوفیاء کے علم سے کوئی حصہ نہیں ملا اس پر بُرے خاتمے کا خوف ہے اور اس سے ادنی حصہ یہ ہے کہ اس علم والوں کی تصدیق اوران کے فیصلوں کو تسلیم کرے‘‘-[21]
امام النووی نے فرمایا کہ ہر عقل مند پر حرام ہے کہ اولیاء اللہ میں سے کسی کے بارے میں بدگمانی کرے اور قاری پر واجب ہے کہ ان کے اقوال وافعال کی اس وقت تک تاویل کرے جب تک کہ ان کے درجہ تک نہ پہنچے اور اس سے قلیل التوفیق ہی عاجز رہتا ہے-
امام نووی نے اپنی کتاب ’’شرح المہذب‘‘ میں فرمایا ہے کہ :
’’ پھر جب تاویل کرے تو ان کی کلام کی 70 وجوہ تک تاویلیں کرے‘‘-[22]
خلاصہ کلام
اختلاف کیا جا سکتا ہے یہ رحمت ہے لیکن ہم درجہ ہوں تو ایک دوسرے سے اختلاف کی سمجھ آتی ہے یا کوئی اونچے درجے والا اپنے سے جونیئر کی گرفت کرے تو سمجھ آتی ہے، لیکن جو آدمی تصوف کی اصطلاحات کی الف، ب کو بھی نہیں جانتا ، اسے کیسے حق حاصل ہے کہ صوفیاء کے برحق مکاشفات اور حق کی طرف سے عطا کئے گئے علوم پہ زبان کھولنے کی جسارت کرے اوریقیناًایسی جسارت آدمی کے لئے ہلاکت کا دروازہ کھول دیتی ہے - اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے -
٭٭٭
[1](طبقات الکبری، ص: 54،55 ، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان )
[2](الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر ، جز : 1، ص:13 دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان )
[3](ایضاً، ص:10)
[4](ایضاً، ص:11)
[5](لسان الميزان، جز:5، ص:315، الناشر: مؤسسة الأعلمي، بيروت، لبنان)
[6](الیواقیت والجواہر، جز:1، ص:3)
[7](ایضاً، ص:10)
[8](ایضاً، ص:9)
[9]( لسان الميزان، جز:5، ص:315)
[10](الیواقیت والجواہر، جز:1، ص:11)
[11](ایضاً، ص:10)
[12](ایضاً، ص:11)
[13](ایضاً، ص:12)
[14](ایضاً، ص:11)
[15](ایضاً، ص:12)
[16](ایضاً)
[17](ایضاً، ص:14)
[18](ایضاً)
[19](ایضاً، ص:4)
[20](ایضاً، ص:12)
[21](ایضاً، ص:16)
[22](ایضاً، ص:12)