مسلم معاشروں کو درپیش اندرونی مسائل ہوں یا بیرونی یلغار، ہر محاذ پہ صوفیاء سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں-اسلامی تاریخ میں چند بڑے معرکوں میں سے ایک صلیبی افواج سے ٹکراؤ تھا- غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی ؒکے فرزند شیخ عبد العزیز بن عبد القادر اور باب قادریہ کے فارغ التحصیل طلباء کی سلطان صلاح الدین ایوبی کے لشکر میں شمولیت تھی جس نے بیت المقدس کی فتح کی راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کیا[1]- سلطان محمود غزنوی کی فتحِ ہند میں خواجہ ابو الحسن خرقانی کا جُبّہ ہو ، تاتاری منگولوں کو حلقہ بگوشِ اسلام کرنے میں شیخ نجم الدین کبریٰ کے سلسلہ ’’کبرویہ‘‘ کے مشائخ کا کردار ہو یا سرنگا پٹم کے بابا مستان کی ٹیپو سلطان شہید پہ توجہ ، یہ اس بات کو مسلّم کرتے ہیں کہ ہر بڑی اسلامی فتح اور مسلمانوں کی استعمار کے خلاف ہر بڑی مزاحمت کے پیچھے صوفیانہ فکر و تربیت ایک ناقابلِ تردید حقیقت رہی ہے -
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒکا اسم گرامی ان صوفی مفکرین میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے جنہوں نے اپنے علم و فلسفہ کے ذریعے نہ صرف روحانیت کے نئے علمی زاویے متعارف کروائے بلکہ مسلم فکری روایت کو وسعت عطا کی- شیخ اکبر ؒکے مکتبِ فکر سے متاثر اور آپ کے منہج پہ قائم صوفیاء کی تحاریک نے مختلف ادوار میں اور مختلف خطوں میں سامراجی قوتوں کے خلاف عملی مزاحمت کی اور آزادی کی جدوجہد کو مذہبی و روحانی ذمہ داری قرار دیا- انیسویں اور بیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی قوتوں نے مسلم دنیا پر قبضہ جمانا شروع کیا تو سب سے پہلے جو آوازیں، بیداری اور حریت کی گونج بن کر ابھریں وہ صوفی خانقاہوں سے آئیں-
تاہم ہماری بدقسمتی ہے کہ جب مسلم دنیا مغربی سامراج کے زیرِ تسلط آئی تو سامراجی سوچ کے اثرات بھی بہت سے حلقوں میں سرایت کر گئے– چونکہ سامراج کو سب سے زیادہ مزاحمت صوفیاء اور ان کی خانقاہوں سے وابستہ تحاریک کی جانب سے دیکھنے کو ملی چنانچہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تصوف کو الگ فرقہ قرار دینے کی فکر مسلم دنیا میں سامراج کی جانب سے تشکیل دی جانے لگی- سٹینفورڈ یونیورسٹی کی سکالر ڈاکٹر فرح الشافی اسی ضمن میں لکھتی ہیں کہ :
’’تصوف کو اسلام کی مرکزیت سے علیحدہ کرنے کا مقصد ایک خاص حکمتِ عملی تھا- سب سے پہلے نوآبادیاتی ریکارڈز میں تصوف پر سخت تنقید کی گئی، اس کے بعد یہ تنقید تصوف کے مخالف مسلمانوں کی تحاریر میں ظاہر ہوئی- تصوف کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر نوآبادیاتی حکام نے صوفیاء کرام کو ’’ایک صوفیانہ فرقہ‘‘ قرار دیا، جو (نوآبادیاتی آقاؤں کے کہنے پہ) اسلام میں ایک بگاڑ سمجھا گیا- اس رویے نے تصوف مخالف گروہوں (مثلاً خوارج اور گستاخ طبقے ) کو تقویت دی اور ان کے بیانیے کو عام کیا- بیسویں صدی کے آغاز سے ایک کمزور اور روحانی طور پر خالی اسلام عام شکل اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں تصوف کی دنیا کو پیچھے ہٹنا پڑا اور وہ غیر فعال گمنامی میں چلی گئی- اس طرح مسلمانوں کی اجتماعی مزاحمت کا ماضی مسخ ہوا اور فراموشی کا شکار ہو گیا‘‘-[2]
گو کہ برطانوی جاسوسوں کے ہاتھوں تیار ہونے والے فرقہ پرست یہی چاہتے ہیں کہ اس زندہ تاریخ کو دفن کر دیا جائے یا متنازع بنا دیا جائے - مگر سچ کاوجود مٹایا نہیں جا سکتا ، یہی وہ فکری اور تاریخی پس منظر ہے جس کے تحت اس مختصر مضمون میں شیخ اکبر ابن عربی ؒ کی فکر سے متاثر صوفیانہ تحاریک اور مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے صوفیاء کے معاشرے میں کردار اور سامراجی تسلط کے خلاف مزاحمت کا مسلم دنیا کے مختلف خطوں سے مختصر مطالعہ پیش کیا جائے گا -
سلطنتِ عثمانیہ اور ابن عربی کی فکر:
عثمانی سلاطین شروع ہی سے ابن عربی ؒ کے فکر و فلسفہ سے وابستہ تھے اور اسے اپنی عسکری قوت، سیاسی نظم اور عالمی حکمتِ عملی کے ساتھ ہم آہنگ کیا- یہ بات اس حقیقت سے واضح ہے کہ سلطان سلیم اوّل نے دمشق میں ابن عربی کے مقبرہ کی تجدید کروائی - [3]یہ قدم محض عقیدت کا اظہار نہیں تھا بلکہ دراصل عثمانی حکمرانوں کی طرف سے ابن عربی کی فکر کو سیاسی ، معاشرتی اور دینی جواز کے طور پر اختیار کرنے کی علامت تھا-
سلطنت عثمانیہ کے اوائل میں شیخ اکبر ابن عربیؒ کی فکر سے متاثر صوفیاء حاجی بکتاش (1248ء-1337ء) اور حاجی بیرام ولی (1352ء–1429ء) نے عثمانی فوج کی مضبوطی اور ریاست کے استحکام کیلئے خاطر خواہ خدمات سرانجام دیں- اول الذکر کو مشہور فوجی دستہ ’’جنی سیری‘‘ گروپ کا بانی بھی کہا جاتا ہے جو عثمانیوں کی فتوحات اور سلطنت کے قیام کی بنیادی قوت بنی-[4] روایت ہے کہ دوسرے عثمانی سلطان اورحان غازی ان سے دعا لینے گئے تو انہوں نے دعا کے ساتھ ’’ذوالفقار‘‘والا پرچم دیا-[5] انہوں نے اناطولیہ میں ترک مسلم قبائل میں اتحاد پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا- جبکہ حاجی بیرام ولی کو عثمانی سلطان مراد کے دربار میں ایک خاص اہمیت حاصل تھی اور آپ کے ہی خلیفہ آق شمس الدینؒ کو سلطان مراد کے فرزند سلطان محمد فاتحؒ کا استاد مقرر کیا گیا-[6] 1453ء میں جب بشارتِ نبوی (ﷺ) کی تکمیل کرتے ہوئے سلطان محمد فاتحؒ نے استنبول فتح کیا تو آق شمس الدینؒ ان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے-روحانیت سے لبریز متحرک زندگی کا درس جو شیخ اکبر کی فکر کا اصل مغز ہے، وہی چھ سے زائد صدیوں پہ محیط شاندار عثمانی دورِ حکومت کی بنیاد بنا-
یہی وجہ تھی کہ عثمانیوں نے نہ صرف وسیع فتوحات حاصل کیں بلکہ ایک ایسا سیاسی و تمدنی نظام قائم کیا جس میں عدل، تنوع اور ہم آہنگی نمایاں نظر آتی تھی، عثمانیوں کی یورپ میں فتوحات اور غیر مسلم رعایا کے ساتھ مثالی حسنِ سلوک ابن عربی کی انسان دوست تعلیمات کا اثر تھا -
صوفیاء: برِّ صغیر کی مسلمان سلطنتوں کے پُشتی بان:
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ غزنویوں کی ہند میں آمد کے ساتھ ہی حضرت داتا صاحب ؒ اور دیگر صوفیائے کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اسلام کا پیغام ہند کے طول و عرض میں پھیلتا گیا - اس میں یہ باب بھی توجہ طلب ہے کہ کس طرح 8 صدیوں پہ پھیلی تاریخ میں سلطنتوں کے مشکل ترین وقت میں ان لوگوں نے سلطنتوں کے استحکام کیلئے جد و جہد کی- سلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو ؒ کے والد گرامی حافظ بازیدؒ محمد اعوان کا کردار اس کی ایک زندہ مثال ہے کہ جب راجہ مروٹ نے بغاوت کی اُس وقت گو کہ عملاً آپ مغل دربار کی منصب داری ترک کر کے راہِ سلوک اختیار کر چکے تھے - مگر پھر بھی آپ نے اس مشکل وقت میں کوئی منصب نہ ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کی سلطنت کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلنا ضروری جانا اور تنِ تنہا جا کر راجہ مروٹ کا سر اُتار لائے -
نو آبادیات کا آغاز اور صوفیاء کی نئی حکمتِ عملی:
کئی اسباب و وجوہات کی بنا پہ جب فتوحات کا سلسلہ تھم گیا تو نوآبادیاتی طاقتوں نے مسلمانوں کی سرزمینوں پہ قبضے شروع کئے - وہی فقیر ، درویش اور صوفیائے کرام جو مسلمانوں کی فتوحات کی راہیں ہموار کرنے میں؛ کبھی تبلیغ و اشاعت کے لئے زندگیاں وقف کر دیتے ، کبھی شہزادوں ، بادشاہوں، سالاروں اور وزراء کی تربیت پہ متوجہ رہتے ، کبھی قبائل کے سرداران کو افواج کے ساتھ متحد کرنے میں مگن رہتے اور کبھی عامۃ المسلمین کے لشکر جمع کر کے اسلامی افواج کی قوت بڑھاتے ، اب وہی فقیر ، درویش اور صوفیائے کرام مغربی طاقتوں کی استبدادی یزیدیّت کے خلاف حسینی حریت کی اقتداء کرتے ہوئے مزاحمت اور آزادی کی سب سے بڑی آواز بن گئے - شرق تا غرب پھیلی ہوئی دنیائے اسلام کے کونے کونے سے یہ صوفیائے کرام آزادی و حریت کا شعور لے کر اٹھے اور نہ صرف اپنی سرزمینوں کی حفاظت کی بلکہ اجتماعی اسلامی تہذیب و تعلیم کو محفوظ کیا - افریقہ سے لے کر قفقاز تک اورمشرقِ بعید سے لے کر برصغیر تک ہمیں مختلف تحریکوں پہ شیخ اکبر ابن عربی ؒ کے منہج پہ قائم تحریکیں استعماری طاقتوں کے خلاف جدو جہد کرتی نظر آتی ہیں جو اس فکر کی عالمگیریت کا اظہار ہے-
اطالوی فوج کے خلاف امام سنوسی کی تحریک :
جب سلطنت عثمانیہ اندرونی کمزوریوں اور بیرونی سازشوں کے باعث دور دراز کے علاقوں میں براہِ راست مزاحمت کرنے کی حالت میں نہیں رہی تو شمالی افریقہ میں صوفیانہ تحاریک نے نہ صرف دینی و روحانی قیادت فراہم کی بلکہ نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف سیاسی و عسکری قیادت کا فریضہ بھی سنبھالا- انہی میں سب سے نمایاں تحریک سنوسی تحریک تھی- سنوسی تحریک کی بنیاد 1837ء میں شیخ محمد بن علی السنوسی نے شمالی افریقہ(لیبیا) میں رکھی- اس کا مقصد دینی احیاء، صوفیانہ اصلاح اور سماجی تربیت تھا- یہ تحریک اطالوی اور برطانوی استعمار کے خلاف عملی جدوجہد کا مضبوط مرکز بنی-اس تحریک کے بانی شیخ محمد بن علی السنوسی تھے جو الجزائر کے قصبہ ’’سنوسہ‘‘ میں 1787ء میں پیدا ہوئے - شیخ السنوسی نے ابتدائی تعلیم الجزائر میں حاصل کی، بعد ازاں آپ نے مراکش، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کیا- آپ مختلف صوفی سلاسل سے بھی وابستہ رہے لیکن آپ پر شیخ اکبر ابن عربی کی فکر کا گہرا اثر تھا- اس لئے سنوسی تحریک کی فکری بنیاد ابن عربی ؒکی تعلیمات اور صوفیانہ منہج پر تھی- وحدت الوجود پہ مبنی روحانی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ سنوسی تحریک نے استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کو روحانی و دینی فریضہ قرار دیا فرانسیسی استعمار نے جب 1830ء میں الجزائر پر قبضہ کیا تو سنوسی تحریک نے ان کے خلاف شدید مزاحمت کی-[7] بعد ازاں ستمبر 1911ء کو اٹلی نے ایک دن دھمکی دینے کے بعد لیبیا پر حملہ کر دیا- سید احمد شریف السنوسی نے براہِ راست اس مزاحمتی مہم کی قیادت کی- سنوسیوں نے 1911ء میں سلطان کو ایک ٹیلی گرام بھیجا، [8] جس میں اپنی ریاست کی بقا کیلئے حمایت کا یقین دلایا اور اعلان کیا کہ وہ بیرونی طاقتوں کے حملے کے وقت لیبیا کے دفاع میں شریک ہوں گے- اطالوی افواج نے ابتدا میں ساحلی شہروں پر قبضہ کیا لیکن اندرون ملک اور صحرائی علاقوں میں انہی سنوسی مجاہدین کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا- سنوسی تحریک نے اطالوی استعمار کو دہائیوں تک لیبیا کے اندرونی علاقوں پر کنٹرول قائم کرنے سے روکے رکھا- اگرچہ جنگِ عظیم اوّل کے بعد اطالوی افواج نے اپنی پوزیشن مضبوط کی، لیکن سنوسی مزاحمت نے لیبیا کی آزادی کی بنیاد رکھ دی- بالآخر 1951ء میں لیبیا آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور بادشاہ محمد ادریس السنوسی ملک کے پہلے حکمران بنے[9]- صوفیاء پہ عدمِ تحرک کا طعن کرنے والے علمی بد دیانتوں کیلئے کس قدر خجالت آمیز ہوگا اس تاریخی حقیقت کو جاننا کہ لیبیا کی آزادی کے ہیرو ’’عمر مختار‘‘ وحدت الوجودی سنوسی تحریک کے رکن اور ایک سنوسی خانقاہ /زاویہ میں خلیفہ ءِ مجاز تھے -
فرانس کےخلاف امیر عبد القادر جزائری کی مزاحمت :
جب فرانس نے الجزائر پر قبضے کی کوشش کی تو پورا خطہ سیاسی انتشار اور قبائلی تقسیم کا شکار تھا- 1830ء میں فرانسیسی افواج نے الجزائر کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا اور مقامی قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی- ایسے حالات میں ایک نوجوان عالم، صوفی اور مجاہد کے طور پر امیر عبد القادر الجزائری نوآبادیاتی تسلط کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر سامنے آئے- آپ نہ صرف سلسلہ قادریہ سے وابستہ تھے بلکہ شیخ الاکبر ابن عربی ؒ کی وحدت الوجودی فکر سے بھی متاثر تھے، اس لیے آپ کے نزدیک استعماری طاقتوں کے خلاف جہاد محض ایک سیاسی یا عسکری جدوجہد نہیں بلکہ ایک روحانی و دینی ذمہ داری تھی-
1832ء میں مختلف قبائل نے امیر عبد القادر الجزائری کو 25 سال کی عمر میں اپنا قائد منتخب کیا اور آپ کو ’’امیر‘‘ کا لقب ملا- [10]اسی دوران آپ نے مغربی الجزائر میں ایک منظم ریاست قائم کی جس کی بنیاد شریعت مطہرہ، عدل و انصاف اور جہاد فی سبیل اللہ پر مبنی تھی-
فرانسیسی افواج کے خلاف آپ کی پہلی بڑی کامیابی 1835ء میں معرکہ المقطع کے مقام پر حاصل ہوئی، جہاں ہزاروں جنگجوؤں کے ساتھ امیر عبد القادر الجزائری نے ذہانت اور شاندار جنگی حکمتِ عملی سے فرانسیسی دستوں کو شکست دی- امیر عبد القادر الجزائری نے فرانسیسیوں کے خلاف جدید عسکری حکمت عملی اپنائی- انہوں نے گوریلا جنگ کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے فرانسیسی افواج کو صحرائی علاقوں میں بار بار شکست دی- ان کی فوج میں جدید اسلحہ سازی کا نظام بھی موجود تھا اور وہ ایک منظم رسدی ڈھانچے کے ذریعے جنگ کو طویل عرصے تک جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے- 1839ء تک الجزائر کے تقریباً دو تہائی حصے پر آپ کا کنٹرول قائم ہو گیا تھا- تاہم وقت کے ساتھ فرانسیسی افواج نے اپنی تعداد اور وسائل میں اضافہ کر لیا- جدید توپ خانے، بھاری فوجی قوت اور اندرونی قبائلی اختلافات نے امیر عبد القادر کی مزاحمت کو مشکل بنا دیا- 1847ء میں حالات ایسے ہو گئے کہ فرانسیسی حکومت نے انہیں پہلے قید میں رکھا لیکن بعد میں انہیں رہا کرکے جلا وطن کر دیا، جس کے بعد وہ شیخ اکبر کے شہرِ مدفن دمشق منتقل ہو گئے اور بقیہ زندگی تدریس، تصنیف، عبادات اور انسانی خدمات میں گزاری- امیر عبد القادر الجزائری کی استعماری طاقتوں کے خلاف مزاحمت اس عظیم صوفیانہ روایت کا تسلسل تھا جو پہلے فتوحات کے لئے عساکرِ اسلامی کی حمایت میں ہوتی تھیں اب قابض یورپی طاقتوں کے غیر قانونی قبضے کے خلاف تھیں - نیز ، امیر عبدالقادر جزائری کی جد و جہد ان فرقہ پرست جاہل متعصبین کے دجل و فریب اور جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے جو شیخ ابن عربی کے منہج پہ قائم عارفانہ سلسلوں کے فاتحانہ یا مزاحمتی کردار کی نفی کرتے ہیں -
قفقاز میں روسی استعمار کے خلاف امام شامل کی تحریک :
انیسویں صدی میں روسی سلطنت نے قفقاز کے مسلم خطے پر قبضہ کرنے کی مہم شروع کی- یہ علاقہ اپنی دینی غیرت، قبائلی آزادی بلکہ صوفیانہ روایت کے لئے بھی مشہور تھا- روسی افواج اپنی عسکری قوت اور جدید ہتھیاروں کے ذریعے داغستان اور چیچنیا کو زیر کرنا چاہتی تھیں، مگر انہیں اس دوران سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا- اس مزاحمت کی قیادت ایک صوفی مجاہد اور صاحب تصوف امام شامل ؒ (1797–1871ء) نے کی، جو نقشبندیہ سلسلہ کے عظیم رہنما تھے اور ان کے بارے مختلف اکیڈیمک سورسز میں موجود ہے کہ وہ امام غزالی اور علامہ ابن عربی ؒ کی روحانی فکر سے متاثر تھے اور دین کی مختلف ظاہری علامتوں کی روحانی تعبیر کرتے تھے - ان کے نزدیک جہاد محض ایک عسکری جنگ نہیں بلکہ ایمان اور روحانیت کا فطری تقاضا تھا-
امام شامل ؒنے 1834ء میں تحریک کی قیادت سنبھالی، جب ان سے پہلے شیخ منصور اور غازی محمد جیسے مجاہدین روسی تسلط کے خلاف قربانیاں دے چکے تھے- قبائل نے انہیں اپنا ’’امام‘‘ تسلیم کیا اور یوں قفقاز میں ایک دینی و عسکری ریاست وجود میں آئی -[11] امام شامل نے مختلف منتشر قبائل کو متحد کیا، ان میں نظم و ضبط پیدا کیا اور ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس میں عدلیہ، تعلیم اور فوج سب دینی اصولوں کے مطابق کام کرتے تھے-
امام شامل ؒ نے تقریباً 25 برس تک روسی افواج کو قفقاز میں الجھائے رکھا- امام شامل نہ صرف ایک عسکری قائد تھے بلکہ ایک صوفی شیخ بھی تھے- وہ اپنے مجاہدین کو ذکر و اذکار اور روحانی تربیت دیتے، پھر انہیں جہاد کے میدان میں بھیجتے- ان کے نزدیک روحانیت اور مزاحمت لازم و ملزوم تھے- انہوں نے اپنی تحریک کو ایک منظم خانقاہی ڈھانچے کے ساتھ جوڑا، جہاں صوفی زاویے (یعنی خانقاہیں) مجاہدین کی پناہ گاہ اور تربیت گاہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے- یہی امتزاج ان کی تحریک کو دیگر مزاحمتوں سے ممتاز کرتا تھا-
اگرچہ 1859ء میں روسی افواج نے مسلسل دباؤ اور وسائل کی برتری کے باعث انہیں گرفتار کر لیا- روس نے بھی ان کے شجاعانہ کردار کو تسلیم کیا اور ان کے ساتھ احترام کا برتاؤ کیا- بعد ازاں وہ حج کے لیے گئے اور اپنی آخری زندگی مدینہ منورہ میں گزاری، جہاں 1871ء میں ان کا انتقال ہوا اور جنت البقیع میں آخری آرام نصیب ہوا - [12]
جنوب مشرقی ایشیاء میں استعماری طاقتوں کے خلاف صوفیاء کی مزاحمت :
جنوب مشرقی ایشیاء میں سب سے پہلے صوفی بزرگ جنہوں نے نو آبادیاتی استعمار کے خلاف عملی جدوجہد کی قیادت کی وہ مشرقی سماترا کے احمد شاہ ابن سکندر تھے انہوں نے 1686ء تا1695ء میں ولندیزی نوآبادیاتی استعمار (Dutch Colonist Force) کے خلاف جدوجہد کی- احمد شاہ ابن سکندر کا تعلق شطاری قادری سلسلے سے ہے جس کے بانی عبدالروؤف السنکیلی (1620-1693) تھے- عبدالروؤف السنکیلی کے بہت سے شاگردوں اور مریدوں نے مخلتف علاقوں سے سماترا میں ہجرت کی اور یہاں آباد ہوئے- [13]
اسی طرح عبدالروؤف السنکیلی کے ہم عصر حضرت حمزہ الفنسوری جن کا تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا اس دور میں بنٹن کے علاقہ میں تبلیغ و تعلیم و تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں -[14] عبدالروؤف السنکیلی شیخ ابن عربیؒ کے نظریہ وحدت الوجود کے ماننے والے تھے اور انہوں نے انہی تعلیمات کو آگے پہنچایا-[15] اس علاقہ سترویں صدی کے شروع میں حاجی عبدالکریم جن کا تعلق قادریہ سلسلے سے تھا کے بنٹن میں آنے سے نوآبادیاتی استعمار کے خلاف جدوجہد میں مزید تیزی آئی-اسی طرح شاطیب/خاطیب احمد سمباس بھی قادریہ سلسلے کے ایک بڑے بزرگ گزرے - [16]اسی طرح شیخ ابن عربیؒ کے نظریات ریاست بنٹن اور ارکیپلیگو (جنوب مشرقی ایشیاء کے جزائر کا گروہ) میں شمس الدین سماترانی کے ذریعے عام ہوئے- [17]
ولندیزی/ڈچ نوآبادیاتی طاقت نے جب انڈونیشیاء پر قبضے کی کوشش کی تو مزاحمت کے دوران شیخ یوسف (1624-1693) کوگرفتار کیا جو کہ خلوتیہ صوفی سلسلہ کے بہت بڑے شیخ تھے-شیخ یوسف ؒ نے پانچ برس کا عرصہ لگا کر درویشوں اور عقیدت مندوں کی ایک فوج تیار کی جس نے نوآبادیاتی افواج کے خلاف عملی جدوجہد کی-[18] جنوبی تھائی لینڈ کے علاقوں پٹنی، یالا اور نراثیواٹ کے علاقوں میں آباد مسلمان جو ’’پٹنی ملائی‘‘ کہلاتے ہیں کی سیامی افواج (جو کہ ایوتھیا اور چکری خاندانوں کی خدمات انجام دے رہی تھیں) کے خلاف عملی جدوجہد کی جن میں سب سے اہم کردار شیخ عبدالرحمان پوہ بوک (ف-1780ء) کا نظر آتا ہے انہوں نے اس علاقے میں نوآبادیاتی استعمار کے خلاف عملی جدوجہد کا علم بلند رکھا-اسی طرح 1825ء-1830ء کے درمیان جاوا کے حکمران یوگیا کرٹان کے شہزادے دیپاناگارہ (1785-1855) کی ڈچ نوآبادیاتی فورسز کے خلاف حضرمی اور عرب صوفیاء اساتذہ اور ان سے وابستہ لوگوں نے مدد کی اور ان سب کا تعلق بھی شطاریہ سلسلے سے تھا- برطانوی مقبوضہ ملایا اور بورنیو میں نوآبادیاتی استعمار کے خلاف جدوجہد کی ابتداء انیسویں صدی کے آخر میں ہوتی ہے جو کہ 1950ء تک جاری رہتی ہے اس جدوجہد میں شرکت کرنے والے نقشبندی صوفیاء میں ٹوک کو پالو النقشبندی، حاجی عبدالرحمان لمبونگ اور اس کے علاوہ باقی مقامی سلاسل کے لوگ شامل تھے-اسی طرح جنوب مشرقی ایشیاء کی سب سے بڑی جدوجہد انڈونیشیائی انقلاب ہے جو اگست 1945ء تا 1949ء تک جاری رہی اس جد و جہد میں جن سلاسل کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور اس کو کامیاب بنایا ان میں شاذلیہ،قادریہ نقشبندیہ سلسلے شامل ہیں جن کی اکثریت شیخ اکبر کے فلسفہ و فکر سے متاثر تھے[19]- جدید انڈونیشیا کے بانی سمجھے جانے والے اور نہضۃ العلماء کے مؤسس امام ہاشم اشعریؒ خود بھی صوفی المشرب تھے ، ان کے کئی رسائل و ملفوظات تصوف کی زبردست تائید میں موجود ہیں – انہوں نے آزادی کی جد و جہد کیلئے جہاد کا فتویٰ جاری کیا ، جس کے تسلسل میں جدید انڈونیشیا ریاست آج قائم ہے - سورابایا میں ان کا مزار ہر وقت مرجعِ خلائق رہتا ہے -
برصغیر میں نوآبادیات کے خلاف صوفیانہ مزاحمتی تحریکیں:
مولانا فضل حق خیرآبادی :
1857ء کی جنگِ آزادی میں آپؒ نے انگریز کے خلاف دہلی کی جامع مسجد میں علماء کرام کے سامنے فتوی صادر فرمایا جس پر 30 سے زائد علماء کرام نے اپنے دستخط کئے-[20]یہ فتویٰ دراصل اس بات کا اعلان تھا کہ انگریز کی غلامی نہ صرف سیاسی بلکہ دینی اعتبار سے بھی ناقابلِ قبول ہے- آپ ؒ دینی حمیت اور غیرت کی چٹان تھے آپؒ نے بھری عدالت میں اس بات کا اقرار کیا کہ انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی میں نے ہی دیا تھا، حالانکہ حالات ایسے بن چکے تھے کہ اگر آپؒ اس فتوی سے انکار کر دیتے تو جان بخشی کی صورت بن سکتی تھی لیکن آپؒ کی دینی و روحانی حمیت نے اس بات کو گوارہ نہ فرمایا - جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مولانا خیرآبادی کو گرفتار کر کے انڈمان کے کالاپانی جلا وطن کر دیا- وہاں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آخرکار وہیں 1861ء میں 64 برس کی عمر میں وفات پائی-
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا فضلِ حق خیر آبادی اس عارفانہ نکتہ نظر کے حامی تھے جسے معروف لفظوں میں ’’وحدت الوجودی‘‘ نکتہ نظر یا شیخ اکبر ابن عربی کا نکتہ نظر کہا جاتا ہے- فضلِ حق خیر آبادی کا جنگِ آزادی کیلئے دیا گیا فتویٰ قیامت تک ان بد دیانت اور خائن لوگوں کے منہ پہ اَنمٹ نیلے نشان چھوڑتا ہوا، زناٹے دار طمانچہ ہے جو تصوف کو رہبانیت سے جوڑتے ہیں اور شیخ ابن عربی کے نظریہ پہ تہمت باندھتے ہیں کہ اس پہ عمل کنندگان حرکت و عمل سے دور ہو جاتے ہیں - اگر یہ الزام درست ہوتا تو وحدت الوجود کے عظیم مدافع مردِ حریت علامہ فضلِ حق خیر آبادی اس قدر عظیم مجاہدانہ کردار کیونکر ادا کرتے ؟
پیر صاحب پگارا کی تحریک :
برصغیر میں شیخِ اکبر کی فکر سے متاثر متعدد صوفیاء کرام ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہوئے اور اپنی روحانی قیادت کو عملی جہاد کے ساتھ جوڑ دیا- ان میں ایک عظیم مثال سندھ دھرتی سے حر تحریک کے بانی پیر صاحب پگارو ہیں، جن کی جدوجہد استعمار کے خلاف صوفیاء کی مزاحمت کا درخشاں باب ہے- انیسویں اور بیسویں صدی کے سنگم پر ایک عظیم روحانی اور انقلابی شخصیت پیر صاحب پگارو (سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی) استعماری طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے لئے سامنے آئے-[21] آپ کے پیروکار ’’حر‘‘ کہلاتے تھے، جن کا نعرہ تھا: ’’حر ہونا غلامی نہیں‘‘- یہ نعرہ محض ایک سیاسی اعلان نہ تھا بلکہ صوفیانہ فکر کی بنیاد پر آزادی اور حریت کا اظہار تھا-
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پیر صبغت اللہ شاہ راشدیؒ کے جد اعلیٰ امام العارفین سید محمد راشد شاہ روزے دھنی ؒ کا تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا اور ان کے رسائل و ملفوظات شریف کے مطالعے سے یہ آفتابِ نیم روز کی طرح واضح ہے کہ ان کی تعلیمات بیشتر قادری صوفیاء کی طرح شیخ اکبر ابن عربی کے منہجِ تصوف پہ قائم ہیں -
تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ شیخ ابن عربی ؒ کے فلسفے نے انہیں اس طرف راغب کیا کہ غلامی انسانی فطرت کے خلاف ہے اور خدا کی دی ہوئی آزادی کو استعمار کے آگے قربان نہیں کیا جا سکتا- حر تحریک نے انگریز حکومت کے خلاف زبردست مزاحمت کی- حر مجاہدین نے گوریلا جنگ کے انداز میں انگریز فوجی قافلوں پر حملے کیے اور انگریز کے لیے سندھ دھرتی کو ایک مشکل خطہ بنا دیا- انگریز انتظامیہ نے انہیں دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے، حتیٰ کہ پیر صاحب پگارو کو 1943ء میں عظیم مزاحمت کی سزا میں پھانسی دے کر شہیدکیا گیا -
قیامِ پاکستان میں صوفیائے کرام کا کردار:
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جب شنکر اچاریہ کی اوطان پرستانہ وجودیت “Pantheism”کے زیر اثر بڑے بڑے دینی رہنما انگریز اور کانگریس کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر ملی قومیت کی بجائے وطنی قومیت کے دامِ فریب میں آ گئے اور اسلامیانِ ہند کے متفقہ رہنما محمد علی جناح اور مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے اُس وقت یہ مختلف سلاسلِ تصوف کے وابستگان ہی تھے جو اپنے الگ ملی تشخص اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ قائد اعظم محمد علی جناح کا ہراول دستہ بنے اور حصولِ پاکستان کی جد و جہد میں ہر طرح کی قربانی دی- تحریک پاکستان کے دوران مسلم لیگ کے ساتھ عملی جدوجہد میں خانوادہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کا انتہائی اہم کردار رہا ہے- جس کا واضح ثبوت تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور کی جانب سے خانوادہ حضرت سلطان باھوؒ کی آٹھویں پشت سے حضرت سلطان محمد عبد العزیزؒ کو انہی خدمات کے اعتراف میں دیا جانے والا گولڈ میڈل ہے- [22]
اختتامیہ:
جب ہم شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی ؒکی فکر و فلسفہ اور منہج پہ قائم مختلف صوفیانہ تحریکوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صوفیاء کرام اور ان کی مصلحانہ تعلیمات پہ جمع ہونے والے افراد نے سیدنا رسول اللہ (ﷺ)، حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے دین کی روحانی اساس یعنی حریت کے ساتھ عملی زندگی گزاری- ان کی استعماری طاقتوں کے خلاف مزاحمت نے دنیا بھر کے مختلف علاقوں اور خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کو آزادی کا شعور دیا اور استعمار کے خلاف عالمی سطح پر ایک فکری و عملی تسلسل قائم کیا، جو آج بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے- اسی سوچ اور فکر و فلسفہ نے سنوسی تحریک کو شمالی افریقہ میں اطالوی اور برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت پر ابھارا، امیر عبد القادر الجزائری کو فرانسیسی سامراج کے خلاف ایک منظم ریاست قائم کرنے پر آمادہ کیا، امام شامل ؒ کو قفقاز میں روسی افواج کے مقابل ڈٹنے کا حوصلہ دیا - مشرقِ بعید اور جنوب مشرقی ایشیا کے کثیر صوفیائے کرام بشمول امام ہاشم اشعری کو تحرک و جد و جہد پہ راغب رکھا اور برصغیر میں پیر صاحب پگارو و مولانا فضل حق خیرآبادی کو انگریز کے خلاف عوامی اور فکری قیادت فراہم کرنے پر آمادہ کیا اور قیامِ پاکستان کیلئے صوفیائے کرام کے وابستگان کو جد و جہد کے راستے پہ گامزن کیا - یوں یہ صوفیائے کرام کی چلائی ہوئی تحریکیں ثابت کرتی ہیں کہ تصوف محض فرد کی اصلاح نہیں بلکہ اجتماعی آزادی اور حریت کا سرچشمہ بھی ہے، جو ظلم اور استعمار کے خلاف ناقابلِ تسخیر جذبہ پیدا کرتا ہے-
٭٭٭
[1]S. H. Qadri, Shah-e-Jilan (Ahwal o Manaqib), Mahnama Miraat al-Arifeen International, January 2016.
[2]Farah El-Sharif, “The Saint and the Sword: How Sufi Scholars of the Nineteenth Century Resisted Colonialism and State Repression,” The Maydan, January 31, 2023.
[3]Mustafa Tahrali, “A General Outline of the Influence of Ibn ‘Arabi on the Ottoman Era,” Muhyiddin Ibn Arabi Society, 1999, https://ibnarabisociety.org/influence-of-ibn-arabi-on-the-ottoman-era-mustafa-tahrali/.
[4]Arslanbenzer, Hakan. “Haji Bektash Veli: Father of the Bektashi Order.” Daily Sabah, August 13, 2021. https://www.dailysabah.com/arts/portrait/haji-bektash-veli-father-of-the-bektashi-order.
[5]Waleed Badran, “Bektashi: The Sufi Order That Wants to Establish a New Islamic State in Albania ‘in the Style of the Vatican,’” BBC Urdu, October 10, 2024. https://www.bbc.com/urdu/articles/cg56nr55j8do.
[6]Tüfekçi, Ali. "Akshamsaddin: Sufi Germ Theorist, Beloved Mentor of Ottoman Sultan Mehmed the Conqueror." Daily Sabah, April 21, 2020. https://www.dailysabah.com/arts/portrait/akshamsaddin-sufi-germ-theorist-beloved-mentor-of-ottoman-sultan-mehmed-the-conqueror
[7]Fait Muedini, “Sufism and Anti-Colonial Violent Resistance Movements: The Qadiriyya and Sanussi Orders in Algeria and Libya,” Open Theology 1, no. 1 (2015): 134–145, published online June 3, 2015.
[8]Saima Raza, “Italian Colonisation & Libyan Resistance to the Al-Sanusi of Cyrenaica (1911–1922),” Journal of Middle Eastern and Islamic Studies (in Asia) 6, no. 1 (2012): 87–120, published online July 17, 2018, DOI: 10.1080/19370679.2012.12023199.
[9]BBC News, “Libya Profile – Timeline,” BBC News, March 15, 2021, https://www.bbc.com/news/world-africa-13755445.
[10]Muddasir Ayúb, Amir Abdul Qadir Algeri: A Role Model for Modern Sufi Movements,
https://www.muslim-perspectives.com/Publication-Detail?publication=56/Amir-Abdul-Qadir-Algeri:-A-Role-Model-for-Modern-Sufi-Movements.
[11]Rebecca Ruth Gould, “Imam Shamil (1797–1871),” in Russia’s People of Empire: Life Stories from Eurasia, 1500 to the Present, ed. Stephen M. Norris and Willard Sunderland (Bloomington, IN: Indiana University Press, 2012), 117–127.
[12]Rustam Yakhi Khanov, “Imam Shamil,” Rustam Yakhi Khanov, https://rustamyakhikhanov.com/shami
[13]Nancy K. Florida, “Shattariya Sufi Scents: The Literary World of the Surakarta Palace in Nineteenth‐Century Java,” inBuddhist and Islamic Orders in Southern Asia: Comparative Perspectives, (Eds.) R. Michael Feener and Anne M. Blackburn(Honolulu: University of Hawai'i Press, 2019), 157.
[14]Sartono Kartodirdjo, The Peasants' Revolt of Banten In 1888: Its Conditions, Course and Sequel, ('S.Gravenhage-Martinus Nuhoff-1966). 145.
[15]https://historyofislam.com/contents/the-modern-age/indonesia-struggle-for-independence/
[16]Sartono Kartodirdjo, The Peasants' Revolt of Banten In 1888: Its Conditions, Course and Sequel, ('S.Gravenhage-Martinus Nuhoff-1966). 163-64.
[17]Van Bruinessen, Martin. “Studies of Sufism and the Sufi Orders in Indonesia.” Die Welt Des Islams 38, no. 2 (1998): 192–219. http://www.jstor.org/stable/1570744.
[18]https://historyofislam.com/contents/the-modern-age/indonesia-struggle-for-independence/
[19]Aljunied, K. (2024). Sufi warriorism in Muslim Southeast Asia. Sociology Lens, 37(4), 502–516.
https://doi.org/10.1111/johs.12474
[20]Hazrat Allama Fazl Haq Khairabadi,” Alahazrat.net. https://alahazrat.net/personalities
[21]Rafique Wassan, “History: A Salute to Soreh Badshah,” DAWN, Sunday Magazine, May 3, 2015,
https://www.dawn.com/news/1179149
[22]Tahreek-e Pakistan mai Sufiya-e Karam ki Shumooliyat ke Muharrikat,”
Mirrat.com, https://www.mirrat.com/article/50/449.