شیخ الاکبر محی الدین ابن عربیؒ کا تصور علم اور اس کے حصولی ذرائع

شیخ الاکبر محی الدین ابن عربیؒ کا تصور علم اور اس کے حصولی ذرائع

شیخ الاکبر محی الدین ابن عربیؒ کا تصور علم اور اس کے حصولی ذرائع

مصنف: مفتی محمد منظور حسین اکتوبر 2025

علم ایک ایسا بحر بے کنار ہے جس سے فقط غوطہ زنی کرنے والا ہی گوہر ِ نایاب کو سمیٹ سکتا ہے- انسان جس قدر عالم الشہادت و الغیب سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر بناتا جاتا ہے اسی قدر اسرار ِمخفی اور غیب کے دروازوں کو کھلتا ہوا پاتا ہے- یہ یقینی بات ہے کہ ہر پوشیدہ بات کا علم پردوں میں چھپی تمام اشیاء کا جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے- واضح رہے انسان علم باطن کی معراج تک اللہ تعالیٰ سے اپنے رشتے ناطے کو مضبوط کرنے سے ہی پاتا ہے یہی وجہ ہے کہ علم کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے والوں نے علمی حصول کے ذرائع میں اپنی تحقیق کے مطابق انواع اور اقسام کو بیان کیا ہے- کلامی مباحث ہوں یا فنی ابحاث، منطقی استدلال ہو یا فلسفیانہ نقطہ نظر تفسیرِ قرآنی ہو یا تشریحات احادیث ِادب ہو یا فلسفہ یہ سب کچھ اس علیم خبیر ذات کے مرہون ِمنت ہے- گو یاکہ علم کے حصول کے ذرائع میں نظری و کسبی عقلی و استدلالی حواس ِ خمسہ و اخبار ِصادقہ معاملہ مکاشفہ وہبی و کسبی ظاہری و باطنی یہ سب منجانب اللہ ہیں -حقائق ناقابل انکار ہوتے ہیں اپنا لوہا منوا کر ہی رہتے ہیں ان حقائق کے متلاشی بعض نفوس امر ہو جاتے ہیں-جن کا وجود کائنات میں نشانِ منزل بن جاتا ہے اور وہ مینارہ نور کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں -یہاں تک کہ چشمان سے چشمہ حکمت کا روپ دھار لیتے ہیں تشنگانِ علم و حکمت اسرار و رموز اور حقائق کے حصول کے لیے ان کے چشمہ فیض سے چلو بھرے بغیر سیراب نہیں ہوتےجن میں سے ایک ہستی امام الموحدین وارث الانبیاء والمرسلین کاشفِ اسرار ِ الٰہیہ شیخِ اکبر محی الدین محمد ابن عربی الطائی الاندلسی ہیں- شیخ اکبر کا تصور ِ علم ایک جامع اور ہمہ گیر ہے جو ظاہر و باطن عقل و کشف فرد و کائنات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے -آپ کے نزدیک حقیقی علم وہ ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرے-

شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی نے ابتداء  میں علم کی تقسیم کرتے ہوئے اپنی شہرہ آفاق تصنیف لطیف فتوحاتِ مکیہ میں فرماتے ہیں کہ علم کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ انسان اس کے ابتدائی احوال سے واقف ہو یہی وجہ ہے کہ آپ نے حصولِ علم کے تین ذرائع بیان فرمائے ہیں -

علم عقلی :

’’وھو کل علم یحصل لک ضرورۃ او عقیب نظر فی دلیل‘‘

 ’’اور (علم) وہ ہے جو تمہیں حاصل ہو، یا تو بدیہی طور پر (یعنی بغیر کسی استدلال کے)، یا کسی دلیل میں غور و فکر کے بعد‘‘ -

یہ ایسا علم ہےجو ضرورت،تجربہ اور دلائل میں غور و فکر کرنے سے حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اس دلیل سے متعلق مکمل طور پر شناسائی رکھتا ہو-

علم احوال:

’’علم الاحوال ولا سبیل الیھا الا بالذوق‘‘

’’یہ علم بغیر ذوق کے حاصل نہیں ہوتاحتی کہ کوئی عقلمند بھی اس کی تعریف کرنے اور اس کی معرفت پر دلیل قائم کرنے کی قدرت نہیں رکھتا‘‘-

علم اسرار:

’’وھو العلم الذی فوق طور العقل‘‘

’’علم اسرارعقل کی دسترس سے ماوراہے‘‘-

اس علم کو فرشتے کے ذریعے دل میں القاء کیا جاتا ہے  یہ علم انبیاءکرام (علیھم السلام)اور اولیاء اللہ کے ساتھ خاص ہے- لیکن اس میں فرق یہ ہے کہ   انبیاء کرام (علیھم السلام) کا علم وحی کے ساتھ خاص  ہوتاہے اور اولیاء کا علم بذریعہ الہام ہوتا ہے اور یہ علم نبوت کے تابع  ہوتاہے-

جس کی وضاحت میں قیصری نے کہا :

’’ ہر وارث اپنی وراثت میں سے اتنا ہی مال لیتا ہے جو اس کیلئے مقرر ہے اور انبیاء کرام (علیھم السلام) کا مال علوم الٰہیہ، احوال ربانیہ مقامات، مکاشفات اور تجلیات ہیں-  جیسا کہ ارشاد نبوی(ﷺ)ہے:

’’الانبیاء ما ورثوا دینارا ولا درھما وانما ورثو ا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر‘‘

’’انبیاء کرام (علیھم السلام) نے نہ دینار (سونا) چھوڑا اور نہ درہم (چاندی)، بلکہ انہوں نے علم کو وراثت میں چھوڑا-پس جس نے اسے حاصل کیا، اس نے بڑا حصہ پا لیا‘‘-

انبیاء کرام کے علوم ،احوال اور مقامات اسمائی اور ذاتی تجلیات سے بغیر کسی محنت اور مشقت کے وہبی طریقے پر حاصل ہوتے ہیں، جو بندہ ان نفوس قدسیہ سے علوم لیتا ہےاس کی کیفیت بھی اسی طرح ہوتی ہے-

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’بَلْ هُوَ آَيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ‘‘[1]

’’بلکہ یہ ان لوگوں کے سینوں میں واضح آیتیں ہیں جن کو علم دیا گیا ہے‘‘-

اسی طرح اولیاء کرام کےعلوم بھی غیرکسبی ہوتے ہیں اورکسی سے نقل شدہ نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں[2]- واضح رہے کہ اولیاء کاملین کے علوم فیضِ نبوت کے علم سے مقتبس ہوتے ہیں اور یہ در حقیقت فیضِ نبوت کے عکاس ہوتے ہیں کیونکہ اولیاء کا علم نبی کی متابعت کی برکت سے ان کے سینےمیں القاء کیا جاتا ہے-

یقینًاآپ کے نزدیک علم الاسرار اولیاء کرام کے لیے بھی ثابت ہے جو بذریعہ کشف اور مشاہدہ حاصل ہوتاہے-

 شیخ ابن عربی کے نزدیک کشف کے ذریعے حاصل ہونےوالے علم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے -جیسا کہ ملا علی قاری شیخ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’شیخ الاکبرمحی الدین ابن عربی نے کہا مجھے حضور نبی کریم (ﷺ) سے یہ روایت پہنچی کہ جس شخص نے 70 ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ کہا اس کی مغفرت کر دی جائے گی اور جس کو اس کا ثواب بخش دیا گیا اس کی بھی مغفرت کر دی جائے گی میں نے ستر ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا اور میں نے بالخصوص کسی شخص کے لیے اس کو بخشنے کی نیت نہیں کی پھر اتفاق سے میں بعض اصحاب کی ایک دعوت میں شر یک ہوا -ان میں ایک نوجوان تھا جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس کو کشف ہوتا ہے-اچانک وہ کھانے کے درمیان رونے لگا میں نے اس کے رونے کا سبب پوچھا اس نے کہا میں نے اپنی ماں کو عذاب میں مبتلا دیکھا ہے میں نے دل ہی دل میں اس 70 ہزار بار پڑھے ہوئے لا الہ الا اللہ کا ثواب اس کی ماں کو بخش دیا پھر وہ نوجوان ہنسنے لگا اور کہا اب میں اپنی ماں کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں شیخ ابن عربی نے کہا :

’’فعرفت صحۃ الحدیث بصحۃ کشفہ و صحۃ کشفہ بصحۃ الحدیث‘‘[3]

’’میں نے اس حدیث کی صحت کو اس جوان کے کشف سے جان لیا اور اس جوان کے کشف کی صحت کو اس حدیث کی صحت سے جان لیا‘‘-

فتوحاتِ مکیہ کے ابواب الاحوال میں رقمطراز ہیں:

’’مکاشفہ کی تین قسمیں ہیں:

1-مکاشفہ بالعلم 2-مکاشفہ بالحال 3-مکاشفہ بالوجد

مکاشفہ بالعلم (وارد ہونے والی تجلی) یہ ہے کہ فہم وفراست کے ذریعےامانت تک پہنچنا اس حال میں کہ مشہود کی طرف سے تیرے لیے جو تجلی وارد ہوئی اس کی معرفت حاصل کر لے -تجلی کے وَرُود کا مقصد یہ ہے کہ تجھ پر کشف کے ذریعے علم کا وہ باب کھل جائے جس سے تو ناواقف تھا-

مزید فرماتے ہیں کہ مشاہدہ اورکشف حصول علم کا وہ راستہ ہے جس سے انسان علم کےکمال تک پہنچ سکتا ہے -

پس مشاہدہ علم کے حصول کا ایک طریق ہے اورکشف اس طریق کو پانے کا انتہائی مقام ہےاور اسے انسان اپنے باطن کےذریعے حاصل کرتا ہے‘‘-[4]

ابن عربی علیہ الرحمہ کے نزدیک جس طرح عقل اور حواس حصول علم کے ذرائع ہیں بعینہ اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کرمشاہدہ اور کشف بھی حصولِ علم کے ذرائع ہیں -جن کے ذریعے انسان اپنے پروردگار کی طرف سے الہام  کو پاتا  ہے بلکہ ہر قدم پر اسی کی جانب سے ہدایت کو پاتے ہوئے راہِ مستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہتا ہے -

ابن عربی پر جو علم بھی القاءکیا گیا - آپ نے اس کو ویسے کا ویسے اپنی کتب میں لکھ دیا- یہ علم ذوق اور تجلی الہٰی سے ہی ہے اور ایسے الہام کا نتیجہ ہے جو املاء کروایا جاتا ہے- جو لوگ ان علوم کا انکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ارباب علم کے پاس یہ علوم اجنبی اور غیر متعارف طریقوں سے آئے ہیں اور وہ کشف کے طریقے ہیں - جبکہ لوگوں نے صرف کسبی راستوں سے آنے والے علوم کا ہی اقرار کیا ہے-

حضور (ﷺ) کی مشہور حدیث پاک ہے :

’’كل باطن يخالف الظاهر فهو باطل “

’’ہر وہ باطن جو ظاہر کا مخالف ہے وہ باطل ہے‘‘-

 ابن عربی بھی اسی اصول کو لے کر چلتے ہیں-

”میزانِ شریعت کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے سے بچ بلکہ شرع کے ہر حکم پر جلدی کر- مزید فرماتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک کشف کو نص پر مقدم کرنا نہیں ہے کیونکہ اہل کشف کو بھی اشتباہ ہو جاتا ہے جبکہ صحیح کشف ہمیشہ ظاہر شریعت کے موافق ہی ہوتا ہے جس نے کشف کو نص پر مقدم کیا وہ اہل اللہ سے خارج ہو گیا اور نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا علوم کشف ہوں یا علوم دونوں ہی شرع کے تابع ہیں اور متبوع کبھی تابع سے آگے نہیں نکل سکتا- اسی طرح میزان، شریعت ہے نہ کہ اہل عقل کی عقل اور نہ اہل کشف کا کشف، جو اس بات کو سمجھ گیا وہ اہل اللہ میں شامل ہو گیا  -

عقلمند وہ ہے جو صرف وہ علوم حاصل کرے جس میں اس کی ذات کی تکمیل ہو -

’’ولیس ذلک الا العلم باللہ تعالیٰ من حیث الوھب والمشاھدۃ‘‘

’’یہ صرف اللہ کا علم ہی ہے جو کہ عطا اور مشاہدے سے حاصل ہوتا ہے‘‘-

عقلمند صرف جاننے کیلئے علوم حاصل نہیں کرتا ( جن کا بعد میں فائدہ نہ ہو ) جیسا کہ طب علم نبوی ہے-مثلاً آپ کا ( حصول ) علم طب، اس علم کی ضرورت تو صرف ایسے جہان میں ہے جو عالم امراض ہو، جب آپ اس عالم میں جائیں گے جہاں نہ تو کوئی مرض ہو اور نہ کوئی بیماری تو اس علم سے کس کا علاج کریں گے؟تو  اس طرح کے علم کی طرف التفات نہیں کرتا جو  ہر جگہ بندے کے ساتھ نہ رہے ،  بلکہ اللہ کا علم حاصل کرتا ہے جو   ہر جگہ بندے کے ساتھ رہتا ہے -

عقلمند کو چاہیے کہ ان علوم کو صرف ضرورت کے مطابق ہی حاصل کرے اور ان علوم کے حصول میں کوشاں رہے جو اس کے ساتھ جائیں گے-

’’لیس ذلک الا علمان خاصۃ العلم باللہ تعالیٰ والعلم بمواطن الآخرۃ‘‘-

’’اور وہ دو علم ہیں: اللہ تعالیٰ کا علم اور مقامات آخرت کا علم‘‘-[5]

اولیاء کاملین اور صوفیا ء کرام بالخصوص شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی کے نزدیک علم نافع وہ ہے جو انسان کے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو طہارت بخشے اور انسان شرح صدر کے ذریعے اپنا قلبی تعلق رب ذوالجلال سے ایسے انداز میں قائم کرے کہ وہ اپنے قلب سے نور ِ خداوندی اور جواب باصواب کو حاصل کر پائے- جیسا کہ آقا کریم (ﷺ)کے فرمان ِ مبارک ’’اپنے دل سے فتوی پوچھ ‘‘ کے مطابق لوح ضمیر پر ہر سوال کا جواب کشف و الہام کے ذریعے حاصل کرے- یہی وجہ ہے کہ اہل اللہ کے نزدیک علم دراصل نور کا نام ہے جس کو صاحب ِ راز کے سینے میں القاء کیا جاتا ہے-

حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں :

’’علم محض کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم ایک نور ہے جسے اللہ تعالیٰ دل میں القاء فرماتا ہے اشارہ علم باطن کی طرف ہے ‘‘-[6]

٭٭٭


[1](العنکبوت:49)

[2](مطلع خصوص الکلم فی معانی فصوص الحکم، ص:124)

[3](مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلوٰۃ)

[4](فتوحاتِ مکیہ، ج:4، ص:188)

[5](رسائل ابن عربی، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ص:187)

[6]( فیض القدیر )

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر