دنیائے ِ اسلام کے روحانی اور فکری اُفق پر جن چند ہستیوں نے گہرے اثرات مرتب کیے، ان میں شیخ محی الدین ابن عربیؒ کا نام مینارہ ِ نور کی مانند چمکتا رہے گا - وہ فقط ایک عظیم صوفی، مفکر اور فلسفی نہیں، بلکہ ایک ایسے روحانی معمار بھی ہیں، جن کے خیالات آج بھی فہم و ادراک کے چراغ جلانے والوں کے لیے ایک قندیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمیشہ سے خاصان عرفان و معرفت ان کے فکر و تدبر سے خوشہ چینی کر آرہے ہیں-
شیخ اکبر ؒ کی روحانی بصیرت اور مقام تو اعلیٰ ہے ہی لیکن ان کا علمی و فکری کارنامہ دین اسلام کی ظاہری اور باطنی جہات کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر کے بیان کرنا ہے - ان کایہ بیان قرآن و حدیث سے ایک اٹوٹ رشتے پر استوار ہے جس میں وہ اپنے روحانی تجربات اور کشف کی بنیاد پر ایک نیا زاویہ نگاہ بھی پیش کرتے ہیں- ان کے ہاں وحدت الوجود (Unity of Being) کا نظریہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جسے وہ صرف ایک فلسفیانہ تصور نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت قرار دیتے ہیں- یہی روحانی حقیقت، جب علماء و فلاسفہ پر وا نہیں ہوتی تو شیخ اکبر ؒ پر اعتراضات باندھتے نظر آتے ہیں- دوسری طرف شیخ اکبر ؒ پابند صوم و صلاۃ اور متابعت شریعت محمدی (ﷺ) صوفی باصفا ہیں، جن کے حق میں عالم اسلام کے مایہ ناز علماء ، فقہاء اور اولیائے کاملین نے قلم اٹھایا اور رویوں میں موجود کجی کو، سوچ میں موجود ٹیڑھے پن کو دور کرنے کی سعی جلیلہ کی ان میں امام جلال الدین سیوطی ،صدرالدین قونویؒ، فخرالدین عراقیؒ صاحب تصنیف، لمعات، عبدالکریم جیلیؒ، محمود شبستریؒ صاحب گلشن راز، جلال الدین رومیؒ مثنوی معنوی، عبد الوہاب شعرانی ؒ ’’تصنیف الیواقیت والجواهر فی بیان عقائد الأکابر‘‘، عبدالغنی نابلسیؒ صاحب تصنیف ’تعطیر الأنام فی تعبیر المنام، مولانا عبدالرحمن جامی ؒ، پیر مہر علی شاہ ؒ صاحبِ کتاب ’’تحقیق الحق فی کلمتہ الحق‘‘ اور بے شمار ایسے صوفیاء اور علماء گزرے ہیں جنہوں نے شیخ اکبرؒ کے بیان کردہ نظریات کا دفاع کیا اور انہیں قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیا اور اس کے لئےسند اور براہین کلام الٰہی اور احادیث رسول (ﷺ) سے لئے- حتیٰ کہ امام ابن حجر عسقلانی جیسے نابغہءِ روزگار محدثین نے بھی شیخ اکبر کی حمایت کی ہے -
لیکن اس تمام بحث نے جو ابن عربی ؒ کے عقائد و نظریات پر ہوتی رہی اور ہو رہی ہے ، عامتہ الناس اور کسی حد تک خواص کو اس سے دور کر دیا اور کہیں تو بجا طور پر اس سے دور رہنے اور دور رکھنے کی تلقین بھی کئی گئی - اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی شارح کاکام ، کسی بھی کلام کی شرح اسی انداز میں کرنا ہے کہ لکھنے والے کی فکری بلندی تک قاری کو لے کر جائے نہ کہ اس کلام کو قاری کی عام سطح پر لے آئے ، لیکن فہم کی آسانی کے واسطے ، عام قاری کی ذہنی اور فکری سطح کوسامنے رکھتے ہوئے آسانی پیدا کرنا تو شارحین کا کام ہے- یہ شارحین پر تنقید نہیں بلکہ اپیل ہے کہ ہم عامی افراد کو سامنے رکھتے ہوئے بھی اکابرین کی تشریح اس طرح کی جائے کہ ہماری تشنگی کا بھی بندوبست ہو سکے-
ابن عربی ؒ کے عقائدمیں توحیدہی بنیاد ہے - دل اور عقل انسان کے اندر وہ مراکز ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی موجودگی یعنی اللہ تعالی کے ہونے کا تیقن اوراس کی معرفت کا کامل شعور حاصل ہوتا ہے- دل و عقل پر شیخ کے ہاں ایک طویل بحث ملتی ہے جس میں بہرحال عقل محدود ہی ہے -ابن عربی کے نزدیک، مخلوق کا وجود صرف ظاہر ہے، باطن (essential) یعنی حقیقت صرف اللہ ہے- اپنے ان عقائد کا ذکر اور ان پر گواہ کرتے ہوئے شیخ اکبر ؒ ’’فتوحات مکیہ،‘‘میں فرماتے ہیں:
’’اے میرے برادران و احباب اللہ تعالیٰ تم سے راضی رہے- تم کو گواہ بناتا ہے عبد ضعیف مسکین جو ہر آن ہر لحظہ فقیر و محتاج الی اللہ ہے وہ اس کتاب کا مصنف و منشی
ہے- وہ تم کو اپنے نفس پر گواہ کرتا ہے- بعد اس کے کہ وہ گواہ کرتا ہے اللہ کو اس کے فرشتوں کو اور تمام حاضر مومنین کو اور جو سنیں ان کو بھی اپنے قول و عقیدے پر شاہد بتاتا ہے کہ اللہ ایک ہے- الوہیت میں اس کا ثانی نہیں- وہ بیوی بچوں سے پاک ہے، منزہ ہے وہ سب کا مالک ہے- اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہ ہے- اس کا کوئی وزیر نہیں- صانع ہے اس کو کوئی تدبیر سکھانے والا نہیں- وہ بذاتہ موجود ہے- وہ کسی موجد کا محتاج نہیں اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں اپنے وجود میں سب اس کی محتاج ہیں- تمام عالم اس سے موجود ہے- وجود بالذات و بنفسہ سے صرف وہ موصوف ہے- وہ عرض نہیں ہے کہ اس کی بقاء مستحیل ہو- وہ جسم نہیں ہے کہ اس کیلئے جہت اور مکان ہو- وہ جہات و اقطار سے مقدس و پاک ہے- اس کا دیدار دل سے بھی ہو سکتا ہے اور آنکھوں سے بھی (یعنی وہ دیکھی جانے والی ذات ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ دل سے دیدار دنیا میں ہوتا ہے اور آنکھوں سے دیدار آخرت میں ہو گا)- جب چاہے اپنے عرش پر مستوی جلوہ گر ہوتا ہے- اس استوا سے اللہ کی جو مراد ہو اور جیسا اس کی شان کے لائق ہو، اس پر ایمان رکھتا ہوں- عرش و ماسوائے عرش حق جل و علائق سے قائم ہے دنیا بھی اس کی ہے آخرت بھی اس کی، اول آخر سب اسی کا ہے- اس کا مثل معقول نہیں- اس کی بے نظیری مجہول نہیں- زمانہ اس کو محدود نہیں کر سکتا- مکان اس کوقید نہیں کر سکا وہ اس دم بھی تھا جب مکان نہ تھا- وہ جیسا تھا ویسا ہی رہا اور رہے گا- مکان اور متمکن دونوں کو اس نے پیدا فرمایا، زمانے کو بھی اس نے پیدا فرمایا یعنی وہ زماں و مکان کی حدود سے پاک ہے -اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں اپنے وجود میں سب اس ہی کی محتاج ہیں‘‘-
شیخ اکبر فرماتے ہیں:
’’ممکن میں بندے میں خواہ وہ کتنا ہی عظیم الشان ہو- عالی مرتبہ ہو صاحب کمالات ہو، مظہر اسماء صفات ہو اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں نہیں پائی جاتیں- ایک وجوب ذاتی موجود بالذات ہونا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے- دوم استغنائے ذاتی کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے- بندہ اللہ تعالیٰ سے موجود ہوتا ہے-یعنی اس کا وجود بالعرض ہے، اللہ تعالیٰ کا وجود بالذات ہے- بالعرض ہمیشہ بالذات کا محتاج رہے گا- ممکن حالت وجود میں بھی موجود بالعرض ہی رہے گا- اس کی بندگی، کبھی اس سے دور نہ ہو گی‘‘-
اسی طرح فصِ لقمان ؑ میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بندے کی سماعت اور بصارت ہو جاتا ہوں‘‘- اس حدیثِ قدسی کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن عربی فرماتے ہیں کہ بندہ کیا ہے ؟ یہ اعضاء قوی تو ہیں - اس کے سوا اور ہے کیا ؟ مگر ہوشیار ! عبد رب نہیں ہے - یہاں بھی ابن عربی نے صریحاً اور کھلم کھلا کہا کہ ذات احد صرف وہی ہے اس مقام کا حامل انسان بھی رب نہیں ہو سکتا ، تو ابن عربی پر شرک و الحاد کے دعوی دار ان کی توحیدی فکر کو سمجھ نہیں سکے –
ابن عربی پر تنقید کرنے والے متعصبین کہتے ہیں ان کے نظریے میں مخلوق اور خالق کی تمیز کمزور ہو جاتی ہے اور یہ شرک کے نزدیک جا سکتا ہے-ابن عربی کے فلسفے میں فرق واضح ہے: مخلوق خودمختار نہیں بلکہ اللہ کی تجلیات کا آئینہ ہے (آئینے کی تشبیہ ہی اس بات کو سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ آئینہ خود مختار نہیں ہوتا، جب آئینہ خود مختار نہیں تو اصل کی مثل کیسے ہو سکتا ہے(’’لیس کمثلہٖ شیئ‘‘)- فلسفیانہ زاویے سے یہ نظریہ ’’وجود کی حقیقت میں صرف اللہ‘‘ کو واجب الوجود مانتا ہے، اور کسی بھی طور شرک کا تعلق اس سے پیدا نہیں ہوتا-ابن عربیؒ کے ہاں توحید صرف لفظی اعتقاد نہیں، بلکہ معرفت حق تعالیٰ کا طریق ہے-
ابن عربیؒ کی تعلیمات میں آقا پاک خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے (ﷺ) تمام اسماء و صفاتِ الٰہی کے اعلیٰ ترین آئینہ ہیں-سالک ان کے طریقہ اور قلبی تربیت کے ذریعے معرفت اور قرب الٰہی حاصل کرتا ہے-ابن عربی پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ابن عربی پیغمبروں کی روحانی عظمت کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کرتے ہیں- در حقیقت یہ مبالغہ نہیں، بلکہ حقیقی اصول ہے کہ تمام انبیاء (علیھم السلام) اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اور خاص بندے ہیں، ان کو اعلیٰ اور معصوم ماننا ، درحقیقت اللہ تعالیٰ کی بزرگی و برتری کو قبول کرنا ہے اور پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) انسانی یعنی جسمانی اور روحانی دونوں جہتوں میں اللہ تعالیٰ کا سب سے ارفع و اعلیٰ آئینہ ہیں- یعنی اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کے مشاہدہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہی صورت مصطفےٰ (ﷺ) ہے اور آپ(ﷺ) کی اطاعت و محبت سے دل کی تربیت اور معرفت کی راہ کھلتی ہے- شیخ اکبر ؒ نے فصوص الحکم کو انبیاء کرام (علیھم السلام)کی تعلیمات اور ان کی صفات و مقامات کے تناظر میں ہی لکھا ہے اور انبیاء ؑ کی ذات مقدسہ کو ایک الگ رنگ میں پیش کیا ہے -
شیخ اکبر کا یہ جداگانہ رنگ و اسلوب اور آپؒ کی علمی گہرائی اور باطنی مشاہدہ، ان صاحبان عقل و فہم جو فقط عقل و فلسفہ سے ابن عربی کو سمجھنا چاہتے ہیں، کے لئے رکاوٹ کا باعث بنا اور انہوں نے اپنی کمانوں کا رخ ابن عربی کی طرف کیا اور فتاوی و خیالات کے تیر ابن عربی ؒ پر چلائے - دوسری طرف ابن عربی ؒ علم و عرفان کا ایک ایسا سمندر ہیں کہ ان کے فلسفہ میں غوطہ زن ہونے کے لئے بھی ایک جری دل و طاقتور سوچ کی ضرورت ہے - یقینا ًآپؒ نے جو بیان کیا ہے وہ اتنا سہل نہیں کہ ہر کوئی اس کو سمجھ سکے اس کو پانے کے لئے پہلے تو خود ایک عالم دین ہونا، زبان و بیان پر عبور اور ’’طائر لاہوتی‘‘ ہونا ضروری ہے- جو ایسے نہ تھے انہوں نے ابن عربی ؒ پر بے جا تنقید کی حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی شیخ اکبر پہ اعتراضات وارد کئے جو خود تجسیمی عقیدہ رکھتے تھے جو بالاجماع شرک کا عقیدہ ہے -
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے |
جس کے باعث چند لوگ ان کے فلسفہ سے گریز کی طرف مائل ہوئے لیکن دوسری طرف ابن عربی ؒ کے بیان کردہ عقائد و فلسفہ کو بہتر انداز میں سمجھنے اور اس کا دفاع کرنے والے بھی کم نہ تھے- ابن عربی ؒ کے بعد تقریباً ہر زمانے میں اس وقت کے بڑے علماء و صوفیاء نے ابن عربیؒ کا دفاع کیا اور ان کے عقائد کی شرح کی -آپؒ کی کتب کے ترجمے متعدد زبانوں میں ہوئے اور شرق و غرب نے اس سے استفادہ کیا- لیکن اس فکری کج روی کا کوئی علاج فی ا لحال موجود نہیں جو شیخ اکبرؒ کی تعلیمات پر آج بھی انگشت نمائی کر رہے ہیں -
شیخ اکبر ؒ کی تعلیمات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ اپنا علمی ذوق، ذہنی قابلیت اور قلبی صلاحیت کو بڑھایا جائے - فقط عقل، منطق اور فلسفہ سے کام نہیں چل سکتا - ایک عام اصول ہے کہ کسی بھی علم کے عالم ہوئے بغیر اس پر تبصرہ کرنا اپنے حلقہ ارادت میں تو معروف کر سکتا ہے لیکن حقائق کی دنیا میں اسے پذیرائی نہیں مل سکتی-
اب وقت ہے کہ شیخ اکبرؒ کی تعلیمات کو ان کے پورے سیاق و سباق کی روشنی اوراصطلاحات کو شک کی نگاہ سے نہیں بلکہ آفاقی و کائناتی تناظر میں پڑھا جائے کیونکہ موجودہ دور میں جب دنیا مادیت پرستی، سطحیت اور مذہبی فرقہ واریت کا شکار ہے، اس دور فتن میں ابن عربیؒ کی تعلیمات انسان کو اس کی اصل پہچان یعنی اللہ کی طرف بلاتی ہیں- ان کی فکر ہمیں یہ اذان دے رہی ہے کہ انسان اللہ کے نور کا مظہر ہے،حقیقی عبادت و بندگی صرف ظاہر کی نہیں، دل کی پاکیزگی کا بھی تقاضہ کرتی ہےاور اختلاف میں بھی حقیقت چھپی ہو سکتی ہے- جیسے دن اور رات ایک دوسرے کے ہونے کی گواہی ہیں- المختصر! ابن عربیؒ کو سمجھنے کے لیے صرف عقل نہیں، دل کی روشن آنکھ بھی چاہیے-
جو لوگ ظاہر پرستی تک محدود ہیں وہ دین کو ایک خاص حُلیے میں قید دیکھتے ہیں ان کے نزدیک بے ایمانی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اسی لئے اکثر ظاہر پرست مذہبی تحریکیں افغان جہاد کے بعد پاکستان میں سب سے بڑا قبضہ مافیا اور مختلف طاقتوں کا ’’اسٹریٹیجک ٹول‘‘ یعنی آلہء کار بن گئیں یہ ایک ’’اوپن سیکرٹ‘‘ ہے - چونکہ ان کے نزدیک ظاہر پرستی کافی ہے تو ظاہر پرستی کا انجام یہی منافقت اور دھوکہ دہی ہے جو دنیائے اسلام میں سرِ عام ہو رہا ہے - دوسرا وہ طبقہ بن گیا جن کے نزدیک باطن ہی سب کچھ ہے اور ظاہر کی چنداں ضرورت نہیں اس سے اس بنیادی نظم سے بغاوت پیدا ہوئی جو اللہ کے آخری نبی (ﷺ) نے آخری کتاب اور اپنی سنت سے قائم کیا تھا اور جس کی پاسداری ہی اصلِ ایمان ہے - لہٰذا ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے جو طریق اختیار کیا وہ عین اعتدال یعنی میانہ روی کی راہ ہے کہ نہ ظاہر چھوڑو نہ باطن کو ترک کرو ان دونوں پہ حق کی تائید کے ساتھ قائم ہو جاؤ-
٭٭٭