تنزلاتِ ستہ: شیخ الاکبر اور سلطان العارفین کے افکار سے مطالعہ

تنزلاتِ ستہ: شیخ الاکبر اور سلطان العارفین کے افکار سے مطالعہ

تنزلاتِ ستہ: شیخ الاکبر اور سلطان العارفین کے افکار سے مطالعہ

مصنف: لئیق احمد اکتوبر 2025

تاریخِ فکرِ انسانی کے متعلق آپ نے یہ سوالات لازمی سنے یا سوچے ہونگے کہ یہ کائنات کب بنی؟ کیوں بنی؟ کیسے بنی؟اس سے پہلے کیا تھا؟اس کا انجام کیا ہوگا؟وغیرہ وغیرہ-اس پرفلسفیانہ، منطقی و سائنسی جوابات بھی موجود ہیں اوروہ جوابات بھی موجود ہیں جو وحی الہی کے ذریعے ہمیں رب کائنات نے عطا فرمائے ہیں جن کی توضیح و تشریح علمائے عامل اور فقرائے کاملین علم ظاہر و علم باطن کے تناظر میں کرتے آئے ہیں -

عارفین باللہ اپنی باطنی تحقیق اور مشاہدے کی روشنی میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مطلق ذات ہر طرح کے تعین اور اطلاق سے پاک ہے- اس لیے اس کی حقیقت کو نہ عقل و فکر کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی محض الفاظ و گفت و شنید سے بیان کیا جا سکتا ہے- ذاتِ باری ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی - جب رب کائنات نے کسی بھی مخلوق کا اظہار نہیں کیا تھا تو حدیث قدسی میں اس کیفیت کو کنز مخفی کہا ہے اور اس مقام کو صوفیاء کرام کی زبان میں مرتبۂ ھاھویت یا احدیت کہا جاتا ہے- جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ظاہر فرمانا چاہا تو تعینات میں اپنا ظہور فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق تھا- اکثر صوفیاء نے اس بحث کو حقیقت محمدیہ (ﷺ) کے طور پر بیان کیا ہے لیکن شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ نے اسے مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جس طرح وحدت الوجود کا لفظ شیخ اکبر کی تعلیمات میں نہیں ملتا- اسی طرح تنزلات ستہ کا لفظ بھی آپ کی تعلیمات میں نہیں ملتا یہ دونوں نظریات آپ کی تعلیمات سے اخذ کئے گئے ہیں اور اصطلاحات آپ کے نظریات کی طرف شارحین نے منسوب کی ہیں - سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمہ اللہ نے بھی اسی مضمون کو اپنے رسائل میں بیان فرمایا ہے لیکن اپنی اصطلاحات اور روحانی تجربے کے مطابق - آپ کے مطابق تعینِ اوّل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے نور سے نورمحمدی کا ظہور فرمایا، یعنی ’’ھُو‘‘ کو ’’یاھُو‘‘ کہنے والا ظاہر ہوا- اس مرتبے کو یاھوت یا وحدت کہا جاتا ہے اور اسی کو نورِ محمدی یا حقیقتِ محمدیہ (ﷺ) بھی کہا جاتا ہے جس کا ذکر کئی احادیث مبارکہ میں موجود ہے -

بالفاظِ دیگرجب کچھ نہ تھا تو ’’لا موجود اِلّا ھو‘‘ ذات تھی- وہ کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا تھا، پھر اسے نے ارادہ کیا اور اپنے نور کاظہور حقیقتِ محمدیہ (ﷺ) کی صورت میں فرمایا-پھر اٹھارہ ہزار عالم کی ارواح کو تخلیق فرمایا،آسمان وزمین بنائے کائنات اور اس میں موجود ہر ایک شے کو پیدا کیا-ہر شے میں اس کی قدرت کا اظہار ہے-وہ پہلے محض عالمِ احدیت میں تھا پھر اس نے اپنے ارادے کے تحت عالمِ کثرت بنائے اور اس میں جلوہ آرائی فرمائی- ان نزول و ظہور کے مراتب کو صوفیاء کرام ’’تنزلاتِ ستہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ چھ مراتب ہیں-یہاں تَنزّل کا لفظ معنوی اعتبار سے مستعمل ہے جس کا معنی تَجَلّی (حجاب) ہے-اس مقالہ میں ہم شیخِ اکبر علامہ محی الدین ابن عربیؒ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان حق باھوؒ کے فکری مناہج کا مطالعہ کرکےتنزلاتِ ستہ کو سمجھنے کی سعی کریں گے-

شیخ اکبرؒ کے تلامذہ بشمول صدر الدین قونویؒ نےآپ کی جانب منسوب کر کے فرمایا ہے کہ یہ تنزلات،تجلیات یا ظہور کے مراتب کو ’’احدیت، وحدیت، واحدیت، عالم ارواح، عالم مثال اور عالم شہادت‘‘[1]کہا جاتا ہے-جبکہ سلطان باھوؒ ان تنزلات و مقامات کو’’ھاھوت، یاھوت، لاھوت،  ملکوت، جبروت اور ناسوت‘‘ کا نام دیتے ہیں-[2] چہ جائیکہ دونوں صوفیاء کے ہاں اصطلاحات میں انفرادیت ہے لیکن معنی و مفہوم میں دونوں مناہج میں بہت حد تک یگانگت پائی جاتی ہے-

پہلا مرتبہ :

شیخِ اکبر پہلے مرتبے کو مقام ’احدیت‘  فرماتے ہیں جہاں صرف ذات ِ حق تعالیٰ موجود ہے اور وہاں کسی قسم کی صفت، علم یا تعیّن موجود نہیں-قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قُلْ ھُوْاللّٰہُ اَحَدٌ‘‘

’’آپ فرمادیں کہ وہ اللہ احد ہے‘‘-

مقامِ احدیت کو جمع الجمع، حقیقت الحقائق اور عماء بھی کہا جاتا ہے-  حضرت سلطان باھوؒ مقامِ ھاھوت کو اس حدیث قدسی سے یوں بیان فرماتے ہیں:

’’کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ‘‘

’’مَیں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس مَیں نے مخلوق کو پیدا فرمایا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-

آپ اس حدیث پاک کے ساتھ اضافہ فرماتے ہیں:

’’ذاتِ سرچشمہ چشمانِ حقیقتِ ھاھویت-یہ وہ مقام تھا جب ذاتِ احد کے سوا کچھ نہ تھا- اسے ’’لَیسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ‘‘ (وہ کسی شے کی مثل نہیں)اور ’’کَانَ اللّٰہ وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہُ شَیْئٌ‘‘(اللہ پاک تھا اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی)سے سمجھا جاسکتا ہے-یہاں عقل و علم و مثال و فہم کی کوئی گنجائش نہیں‘‘-

حضرت سلطان باھوؒنے فرمایا:

’’اُس ذاتِ پاک کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے انتہائی سوچ بچار کرتے کرتے عقل کے ہزاراں ہزار وبے شمار قافلے سنگسار ہوگئے لیکن سمجھ نہ سکے‘‘- [3]

سلطان باھو ؒنے اپنےعارفانہ کلام میں ہر بیت کا مصرع اسمِ ھُو پر مکمل فرمایا ہے-یہ آپؒ کا خاصہ ہے کہ عین ذاتِ حق تعالیٰ کی معرفت آپؒ نے اس انداز میں دی ہے- کیونکہ عارفین مرتبہ احدیت و ھاھویت میں اس ذات کو ’’ھُو‘‘ کہتے ہیں-   حقیتاً یہ مرتبہ لاتعیُّن ہے - 

دوسرا مرتبہ:

منہجِ شیخ ِ اکبرؒ میں دوسرا مرتبہ ’وحدیت‘ یعنی علمِ اجمالی اور حقیقتِ محمدیہ (ﷺ) کا درجہ ہے- اسے تعیّنِ اوّل کہا جاتا ہےاور یہ پہلا مقامِ تنزل ہے- اس مقام کو آپؒ کے ہاں لاہوت کہا جاتا ہے- جب اللہ پاک نے ارادہ فرمایا کہ میں پہچانا جاؤں تو اپنے نور سے اپنے محبوب کریم (ﷺ) کے نور مبارک کو پیدا فرمایا -جیسا کہ حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے:

’’إِنَّ اللہَ تَعَالٰی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْيَاءِ نُوْرَ نَبِيِّکَ مِنْ نُوْرِهٖ‘‘

’’اے جابر! بے شک اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تمہارے نبی (محمد مصطفی) کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا‘‘- [4]

اس مرتبہ کو تعلیماتِ سلطانی میں’عالمِ یاھوت‘ کا نام دیا گیا ہے - حضرت سلطان باھُوؒ اس متعلق فرماتے ہیں:

’’یاد رکھ کہ جب حق سبحانۂ وتعالیٰ نے خود کو ظاہر کرنا چاہا تو اپنی ذات سے اسم اَللہُ کو ظاہر فرمایا جس سے نورِ محمدی (ﷺ)کا ظہور ہوا اور نورِ محمدی (ﷺ) سے اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات پیدا ہوئیں- حدیثِ قدسی میں فرمانِ الٰہی ہے: ”محبوب! اگر آپ نہ ہوتے تو مَیں اپنی ربوبیت ہی ظاہر نہ کرتا“ -[5]

تیسرامرتبہ:

شیخ اکبرؒ کے نزدیک یہ مرتبہ ’واحدیت ‘کا ہےاور اسے تعیّنِ ثانی کہتے ہیں- یہاں ذاتِ حق تعالیٰ اپنی صفات اور اسماء کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے- اسے ظلِ ممدود، وجودِ فائض اور قابلیتِ ظہور بھی کہا جاتا ہے- اس مرتبہ ثالثہ میں تنزل حقیقتِ محمدیہ سے اعیانِ ثابتہ میں ہوا - اعیانِ ثابتہ یعنی تجلیاتِ علم و دیگرِ اسمائے الٰہی- [6]

آسان الفاظ میں کہا جائے تو اس مرتبے پر صفاتِ الٰہی کےاسماء  کاتعین ہوا جس سےاسمائے الٰہی کے انوار ظاہر ہوئے- اسے حقیقتِ انسانیہ بھی کہا جاتا ہے- یہ تینوں (احدیت، وحدیت اور واحدیت) باطنی اور داخلی مراتب ہیں،جنہیں عالمِ امر بھی کہتے ہیں- تنزلات کا یہ تیسرا مرتبہ ’’جبروت‘‘ کہلاتا ہے- المعنی لغت کے مطابق جبروت کا معنی جوڑنے کے ہیں- [7]

تعلیماتِ سلطانی میں اس مرتبے میں اعیانِ ثابتہ کے بجائے تخلیقِ روح کا ذکر ہے - سلطان باھو رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں کہ حقیقتِ محمدیہ سےاللہ پاک نے ’’ارواحِ فقراء باصفا فنافی اللہ بقا باللہ صورتِ مغز بے پوست تصورِ ذات میں محو اور مشاہدۂ بحرِ جمال میں غرق ہستیوں‘‘ کا ظہور فرمایا-سلطان صاحب کے ہاں تیسرا مرتبہ عالمِ لاہوت ہے-آپ نے لاہوت کو مَخْفِیًاتعبیر فرمایا- سلطان صاحب نے اس مقام کے متعلق فرمایا ہے:

’’لاھُوت عین ذات کا مقام ہے جہاں فقط توحیدِ باری تعالیٰ ہے‘‘- [8]

حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ :

یہاں ذاتِ حق نے اپنی شان کے مطابق   اسم ذات اَللہُ کی صورت میں ظہور فرمایا اور تمام ارواح نے اس کا دیدار کیا – آپؒ فرماتے ہیں:

’’یہ عطا روزِ اول کی اُس کرم بخش آوازِ الست سے نصیب ہوتی چلی آرہی ہے کہ جس کے متعلق فرمانِ حق تعالیٰ ہے:کیا مَیں تمہارا رب نہیں ہوں؟سب نے کہا ہاں یااللہ!  تُو ہی ہمارا رب ہے‘‘- [9]

اسی طرح آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں:

’’لاہوت کے بھی دو درجے ہیں، ایک لا نہایت ہے اور دوسرا لامکان ہے- اہلِ ذات کی اِس حقیقت کو بھلا خطرات سے پُر اہلِ ناسوت پریشان کیا جانے؟ جہاں ذات ہے وہاں خطرات کو قدرت نہیں- ہر چیز کے مغز و پوست میں بس ایک ہی ذات جلوہ گر ہے“ -[10]

چوتھا مرتبہ:

 مرتبہ رابعہ اور تنزلِ سوم ’’عالمِ ارواح‘‘ ہے جہاں واحدیت بصورت روح نزول کرتی ہے- شیخ اکبر نے اسے عالمِ ملکوت بھی کہا ہے- یہ مراتبِ کُونیہ کا پہلا مرتبہ ہے-اس مرتبہ پر ذاتِ حق تعالیٰ نے روحوں کو پیدا فرمایا-یہ مرتبہ مرتبۂ الوہیت کہلاتا ہےجو صفات اور اسمائے الٰہی کے ظہور اور ان کے افعال کا مقام ہے- اس درجے میں کائنات میں ظاہر ہونے والے تمام آثار اور اعمال دراصل الٰہی صفات کے پرتو ہیں- روح کو ایک وجودِ بسیط کہا جاتا ہے، جس کی اپنی کوئی خاص صورت یا شکل نہیں ہوتی لیکن یہ جس صورت میں ظاہر ہونا چاہے، اسی صورت میں جلوہ گر ہو جاتی ہے- گویا ہر شکل اور ہر پیکر میں اس کے معانی اور حقائق ظاہر ہیں- اسی کو روحِ ربانی کہا جاتا ہے-اسی درجے کو حقیقتِ انسانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوا- اسی مرتبے میں نورِ محمدی (ﷺ) روحِ قدسی کی صورت میں جلوہ گر ہوا- اللہ تعالیٰ نے اسی واحد روحِ قدسی سے تمام کائنات کو پیدا فرمایا اور سب سے پہلے انسانی ارواح کو وجود بخشا- [11]

سلطان حق باھُو ؒ نے عالمِ ملکوت کو فَاَرَدْتُ سے تشبیہ دی ہے- یہ عالمِ خلق ہے اور فانی ہے- یہاں ملائکہ کا ظہور ہوا- آپ فرماتے ہیں:

’’عالمِ ملکوت صفاتِ ملائکہ سے متصف ہے‘‘- [12]

البتہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ روح سلطانی کو جب ملکوت میں اتارا گیا تو اسے نورِ ملکوت کا لباس پہنایا اور اس کا نام روحِ روحانی رکھا گیا- [13]

 پانچواں مرتبہ:

یہ چوتھا تنزل عالمِ مثال ، عالمِ برزخ یا روحِ جاری کہلاتا ہے- یہ ایک لطیف پیکر ہے جو خواب اور مشاہدے میں نظر آتا ہے- اسےہاتھ سے چھوا نہیں جا سکتا مگر اس کی صورتیں عالمِ اجسام پر اثر ڈالتی ہیں-شیخ قونوی بعض مقامات پر عالمِ مثالِ مطلق کا ذکر کرتے ہیں اور اسے حضورِ مرکزی یعنی انسانِ کامل کے ساتھ جوڑتے ہیں- ابنِ عربی ؒخیالِ مطلق کو عَماء سے تعبیر کرتے ہیں- ابنِ عربی کے مطابق یہ عماء دراصل حضورِ جامع اور مرتبۂ محیط ہے جس میں تمام مخلوقات کا ظہور ہوا اور جو کائنات کی اصل حقیقت ہے-

اس مقام پر روحِ قدسی کو جبروتی لباس، یعنی روحِ سلطانی عطا کیا گیا اور اسے عالمِ جبروت میں اتارا گیا- روحِ سلطانی دراصل روحِ قدسی کا پہلا لباس ہے- یہ روح ہر طرح کے مادّی عناصر سے پاک اور منفرد ہے اور اجسام کی کمزوریوں، رنگوں اور اقسام سے بالکل منزّہ ہے- روحِ سلطانی کی اپنی کوئی معیّن صورت نہیں، لیکن وہ جس شکل میں چاہے ظاہر ہو سکتی ہے- اسی حقیقت کی بنا پر فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتے ہیں-

 شیخ قونوی نے اسی عماء کو انسانِ کامل کا مرتبہ قرار دیا ہے یعنی وہ مقام جہاں انسان اپنی کمال کی حالت میں موجود ہوتا ہے- یوں قونوی کے نزدیک خیالِ مطلق یا عالمِ مثالِ مطلق دراصل انسانِ کامل کے کئی ناموں میں سے ایک نام ہے- ابنِ عربی نے اپنی اصطلاحات میں انسانِ کامل کے تقریباً چالیس سے زائد نام بیان کیے ہیں-[14] مترجم کتبِ سلطان باھوؒسید امیر خان نیازیؒ لکھتے ہیں کہ اِس درجے پر افعال کی مثالی صورتیں ظاہر ہوئیں- اِسے ملکوت کہتے ہیں- یہاں فرشتے محوِ کار  ہیں- اِس مرتبہ کو عالمِ مثال بھی کہاجاتا ہے-

حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک پانچواں مرتبہ عالمِ جبروت کا ہے- اِس درجے پر افعال کی مثالی صورتیں ظاہر ہوئیں- اس لئے اسے ملکوت کہتے ہیں- یہاں فرشتے محوِ کار ہیں-

چھٹامرتبہ :

مرتبہ سادسہ پانچواں تنزل ہے اسے عالمِ شہادت، دنیا، ظاہر، عالمِ اجسام اور محسوسات کہتے ہیں- اسے آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے اور ہاتھ سے چھوا جا سکتا ہے-اِس درجے پر مثالی صورتوں نےاجسام حاصل کیے اور مختلف جسموں کاظہور ہوا- اجسام کا یہ عالم عرش سے لے کرفرش تک پھیلا- یہ تینوں عالم (عالم ارواح، عالم مثال، عالم اجسام) ذات کے مراتب خارجی کہلاتے ہیں-شیخ اکبرؒ نے اسے ناسوت کہا ہے اور  یہ مراتبِ کُونیہ کا آخری مرتبہ ہے-

حضرت سلطان باھوؒ بھی اسے عالم ناسوت کہتے ہیں- جس کے متعلق آپ اپنی تعلیمات میں فرماتے ہیں کہ واقعہ اَلست کے بعد اللہ پاک نے تمام ارواح سے کہا کہ میں تمہیں ایک نیا جہان عطا کروں گا اور تمہارا امتحان لوں گا- ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ثُمَّ  رَدَدْنٰہُ  اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘

’’پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا‘‘-

ساتواں مرتبہ:

مرتبہ سابعہ دراصل ذات کا انتہا ظہور ہے اس لئے اسے مرتبہ جامعہ کہتے ہیں-یہاں تنزل کی شکل ’انسان‘ ہے- تمام مراتب اور مقامات، خواہ وہ صفات کے ہوں، اسماء کے ہوں یا عوالمِ غیب و شہادت کے،اپنی مکمل اور جامع شکل میں انسان میں جمع ہوئے- کائنات کی تمام حقیقتیں اور جلوے انسان میں سمیٹ دئیے گئے اسی لیے اسے جامع الکائنات اور مظہرِ کامل کہا جاتا ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘

’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘-

اسی متعلق جب تعلیمات سلطانی کا مطالعہ کرتے ہیں تو بارہا یہ حدیث قدسی ملتی ہے- ارشاد ہوا:

’’اَ لْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَاَنَا سِرُّہٗ‘‘

’’اِنسان میرا راز ہے اور مَیں اِنسان کا راز ہوں‘‘-

خلاصہ کلام:

صوفیاء کرام نے قرآن و احادیث کی تشریح فرمائی ہے- علمِ لدنی کی عطا اور مشاہدات سے قدرت کے راز بیان کئے ہیں- ان تمام علوم کا مقصد ایک ہی رہا ہے کہ انسان کو اس کی حقیقت کا علم ہو اور وہ اپنی حقیقت کی طرف قبلہ رو رہے- از روئے قرآن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پیدا فرمایا ہے اور اس نے مرنے کے بعد اسی کی جانب لوٹ جانا ہے- لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعلیمات صوفیاء سے اپنا رشتہ استوار کریں تاکہ مختلف پہلوؤں اور ذرائع سے ہم اپنے مالکِ حقیقی کی قربت و محبت حاصل کرسکیں-

شیخ اکبر ابنِ عربی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ہی صورت پر پیدا کیا، بالکل اسی طرح جیسے پھل بیج کی صورت پر ہوتا ہے- اس لیے آدم یعنی انسانِ کامل، اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا جامع ہےاور کائنات کی ہر شے اسی کے تابع ہے-[15] ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ سَخَّرَ لَکُمْ  مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ‘‘

’’اور (اے میرے محبوب(ﷺ) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سارے کا سارا آپ (ﷺ)  کے لیے مسخر کر دیا‘‘-

شیخِ اکبر کے نزدیک تنزلات ستہ یہ ہیں کہ ذاتِ حق سے پہلا تنزل’حقیقتِ محمدیہ(ﷺ)‘ بصفتِ علم ہوا، دوسرا تنزل ’حقیقت ِمحمدیہ‘ سے ’اَعیانِ ثابتہ‘ میں ہوا ہے، تیسرا ’روح‘ میں،چوتھا تنزل ’مثال‘ میں اور پانچواں ’مثال‘ سے ’جسم‘میں جبکہ چھٹا ’جسم‘ سے ’انسان ‘ میں ہوا ہے-[16]

٭٭٭


[1]اصطلاحاتِ صوفیہ، ص:34، خواجہ شاہ محمد عبد الصمد دلی پرنٹنگ ورک دہلی

[2]رسالہ روحی شریف،ص:9-12

[3]رسالہ روحی شریف،ص:152

[4](مصنف عبد الرزاق، ج:1، ص:63)

[5](عین الفقر،ص:71-73)

[6](الفتوحات المکیۃ، جلد چہارم، دار صادر، بیروت، ص:294)

[7](Naqd al-nuṣūṣ, pp. 31-32)

[8](عین الفقرِص:99)

[9]( نورالہدی،ص:299)

[10](محک الفقر،ص:677)

[11]( Naqd al-nuṣūṣ, pp. 31-32)

[12](عین الفقر، ص:345)

[13](سرالاسرار، ص:23)

[14]William C. Chittick. Five Divine Presences - From Qunawi To Qaysari. Ref 32.

https://share.google/Bkt9jDiiFH8Fjk9aW

[15](فصوص الحکم)

[16](مصباح التعرف، ص:231)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر