محی الدین ابنِ عربیؒ کا نام سنتے ہی ذہن میں صوفیانہ واردات، فلسفیانہ بصیرت اور کائناتی وحدت کا ایک طلسماتی دریچہ کھلتا ہے- اندلس کی سرزمین پر جنم لینے والایہ مفکر محض ایک صوفی نہ تھا، بلکہ اس نے روحانی تجربے کو عقلی اور فلسفیانہ زبان دی اور انسانی وجود کو کائنات کے اسرار کے ساتھ جوڑنے کی نئی راہیں دکھائیں- ان کی فکر میں ’’انسانِ کامل‘‘ محض ایک نظری تصور نہیں، بلکہ انسانی شعور کو اخلاقی اور ماحولیاتی ذمہ داری کا شعور دینے والا استعارہ ہے-
آج کی دنیا، جو سائنسی ترقی اور تکنیکی انقلاب کے باوجود روحانی خلا کا شکار ہے، ابنِ عربیؒ کے نظریات کو نئے معنی میں دریافت کر رہی ہے- ماحولیاتی بحران کے تناظر میں ان کا تصورِ ’’تجلی‘‘ کائنات کو محض مادی حقیقت کے طور پر نہیں بلکہ قدرت کی نشانیوں کے آئینے کے طور پر دیکھنے کی دعوت دیتا ہے-ابنِ عربیؒ کے تصورِ تجلی(Tajallī) کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے دراصل ذاتِ الٰہی کی صفات و اسماء کا مظہر ہے- اس نظریہ کے مطابق، تمام موجودات از خود اپنی کوئی مستقل ہستی نہیں رکھتیں بلکہ وہ ذاتِ حق کی تجلیات کی مظہر ہیں-
ابن عربیؒ نہ صرف وجود کے مابعد الطبیعاتی اسرار کو آشکار کرتے ہیں، بلکہ الٰہی اسماء و صفات کے مظاہر کی سطح پر وجود، عدم، ظہور، بطون اور فنا جیسے بنیادی تصورات کو مربوط کر کے انسان اور کائنات کے تعلق کو ایک روحانی و فلسفیانہ جہت عطا کرتے ہیں-یہی تصور تجلی کا ہے جسے وہ بارہا دہراتے ہیں کہ تجلی کبھی ختم نہیں ہوتی، کیونکہ ذاتِ حق لا محدود ہے اور ہر نیا ادراک ایک نئی تجلی کا نتیجہ ہوتا ہے-لیکن یہ نظریہ صرف ایک مابعد الطبیعاتی یا مجرد صوفیانہ تصور نہیں ہے، بلکہ انسانی کردار، اخلاق اور کائناتی ذمہ داری کے تعین میں بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے- جب انسان خود اور کائنات کو تجلیاتِ الٰہی کی جلوہ گاہ کے طور پر دیکھتا ہے تو اس پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر مخلوق کے ساتھ رحم، عدل اور توازن کے ساتھ پیش آنا نہ صرف اخلاقی بلکہ روحانی ذمہ داری بھی ہے-اس تناظر میں انسان محض زمین کا ایک باشندہ نہیں رہتا بلکہ وہ ایک روحانی و اخلاقی نمائندہ بن جاتا ہے، جو جمال سے تعلق رکھنے والی صفاتِ الٰہی کا مظہر ہے اور جس کے ذمہ کائناتی نظام کے توازن کی نگہداشت سونپی گئی ہے-اسی روحانی بصیرت کی روشنی میں معروف مستشرق اسکالر ولیَم چٹک ابنِ عربیؒ کی فکر کو محض ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک ’’زندہ علمی و روحانی میراث‘‘ قرار دیتے ہیں:
“Ibn al-ʿArabī’s thought is not a relic of the past, but a living legacy that opens the doorway to an intellectual and spiritual tradition still capable of addressing the existential and ethical questions of modern humanity.”[1]
’’اس زاویے سے دیکھا جائے تو ابن عربیؒ کی فکر صرف معرفتِ الٰہی کی جستجو تک محدود نہیں، بلکہ یہ فکر بین الانسانی تعلقات، مذہبی ہم آہنگی اور کائناتی ذمے داری جیسے عصرِ حاضر کے اہم مسائل میں بھی بصیرت افروز کردار ادا کرتی ہے‘‘-
اسی طرح مذہبی رواداری اور بین المذاہب مکالمے کے باب میں ان کی تعلیمات آج کے عالمی تناظر میں ایک اخلاقی اور فکری افق فراہم کرتی ہیں-یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ابنِ عربیؒ کی فکر اندلس کی گلیوں سے نکل کر آج کی مسلم دنیا کی احیائی تحریکات، جدید فلسفیانہ مباحث اور عالمی فکری مکالموں تک پھیل چکی ہے یہی ان کی تعلیمات کی وہ معنوی وسعت ہے جو انہیں ماضی کے صوفی سے زیادہ مستقبل کے مفکر کے طور پر نمایاں کرتی ہے-[2]
عہدحاضر کی پیچیدہ دنیا میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے امکانات کو وسعت بخشی ہے، ابنِ عربیؒ کی فکر یہ رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ جدید انسان اپنی ’’intellectual autonomy‘‘ اور سائنسی ’’curiosity‘‘ کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک ’’transcendental horizon‘‘ سے جڑا رہے- یہی امتزاج علم اور روحانیت کو ایک ایسے ethical framework میں پرونے کا سبب بنتا ہے جو انسان اور کائنات کے تعلق کو بامعنی اور متوازن بناتا ہےیوں ابنِ عربیؒ کی تعلیمات جدید اسلامی فکر کے لیے صرف ایک ماضی کی یادگار کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ایک زندہ فکری روایت ہے، جو جدید اسلامی فکر رکھنے والے مفکرین کے توسط سے آج بھی تازہ معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے- یہ روایت نئی نسل کو ایسی فکر کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اسلام کو صرف رسوم و عبادات تک محدود نہ سمجھے بلکہ اسے ایک dynamic اور universal worldview کے طور پر اپنائے جو ہر دور کے چیلنجز کا سامنا کر سکے-
ابنِ عربیؒ کی عالمی شہرت کا بنیادی سبب ان کی غیر معمولی علمی بصیرت اور علمی و روحانی میدان میں منفرد مقام ہے، جو انہیں لقب ’’شیخ اکبر‘‘عطا کرتا ہے- ان کی تعلیمات صرف صوفیانہ علوم تک ہی محدود نہیں بلکہ فلسفہ، کائنات کی تفہیم اور روحانیت میں بھی عمیق فکری جہات رکھتی ہیں- الفتوحات المکیہ اور دیگر تصانیف میں وہ انسانی وجود، کائنات اور الٰہی تجلیات کے درمیان تعلقات کی وضاحت کرتے ہیں، جس سے نہ صرف روحانی رہنمائی حاصل ہوتی ہے بلکہ جدید علمی اور اخلاقی بحثوں میں بھی ان کے نظریات قابلِ اعتنا ہیں- اگر ہم ابن عربیؒ کے تصورِ وحدت الوجود کا مطالعہ علمیات کے تناظر میں کریں تو یہ انسانی علم اور شعور کو الٰہی حقائق کے قریب لے جانے والا ایک فکری راستہ ہے-آیات مبارکہ ہیں:
’’ہُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الْبَاطِنُ ج وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ‘‘[3]
وہی اوّل، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے‘‘-
یہ آیت اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر اور مطلق حقیقت بیان کرتی ہے کہ وہ ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی- گویا تمام جہات میں صرف اسی کی ذات محیط ہے-
’’وَ لِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ‘‘[4]
’’اور مشرق اور مغرب اللہ ہی کیلیے ہیں، تم جہاں کہیں بھی منہ کرو گے وہی اللہ کی طرف منہ کرو گے‘‘-
یہ آیت کریمہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ کائنات کی ہر سمت میں خدا کی ’’حضوریت‘‘ اپنی شان کے ساتھ موجود ہے- جہاں بھی انسان رخ کرے، وہاں خدا کا جلوہ اور اس کی تجلی پائی جاتی ہے-گویا ابن عربی ؒ کی تعلیمات میں انسان اور کائنات کے تعلقات میں ہم آہنگی کے اصول بنیادی اہمیت رکھتے ہیں جس کے تحت انسانی وجود نہ صرف اخلاقی بلکہ ماحولیاتی ذمہ داریوں کے لیے بھی وقف ہے، جس کا محور تجلی اور روحانی بیداری ہے-اس متصوفانہ فریم ورک میں انسان کو ’’ecological agent‘‘ کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جو کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اور اخلاقی توازن قائم کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے-جدید اسلامی فکر میں یہ تصور انسان کو ایک فعال ماحولیاتی اور روحانی عامل کے طور پر دیکھتا ہے، جو نہ صرف اپنی ذاتی اور اخلاقی نشوونما کے لیے ذمہ دار ہے بلکہ زمین، ماحول اور معاشرتی نظام کی حفاظت اور بقاء کے لیے بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے-(اگرچہ بعض فلسفیانہ پیچیدگیوں کی وجہ سے عام قاری کے لیے ان کی تعلیمات مبہم ہو سکتی ہیں)
شیخ عبدالباقی مفتاح[5] کےفکر وخیالات کے مطابق ابنِ عربیؒ کی بصیرت کائنات کے روحانی و اخلاقی حقائق کو سمجھنے کی کلید ہے اور ان کی تعلیمات آج بھی جدید انسان اور ماحولیاتی ذمہ داری کے تناظر میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں-[6] یعنی کائنات میں تمام مظاہر الٰہی وجود کی تجلی ہیں- ولیم سی چِٹک جوکہ ایک معروف اورینٹلسٹ اور اسلامی تصوف کے ماہر ہیں، امریکہ میں مقیم اور اسٹونی بروک یونیورسٹی میں مدرس کی حیثیت سے ہیں- آپ کی اسلامی تصوف، ابن عربی اور جلال الدین رومی کے کاموں پر گہری تحقیق ہے-چٹک اورایزوتسو کی تحقیق نے اسلامی تصوف اور مشرقی فلسفے کے مابین موازنہ کرنے کی نئی راہیں کھولی ہیں- چِٹک وضاحت کرتے ہیں کہ مخلوقات کا کوئی مستقل وجود نہیں، کیونکہ حقیقی وجود صرف خدا کی ذات کے لیے مخصوص ہے- کائنات کی ہر چیز دراصل خدا کی تجلی (self-disclosure)(مظہر )ہے- اسی وجہ سے یہ تصور ہمہ اوست (pantheism) نہیں کہلاتا بلکہ ایک (manifestational ontology) ہے، جس میں تمام موجودات خدا کی تجلیات کے (کے مظاہر)طور پر سمجھے جاتے ہیں، جبکہ خدا اپنی ذات میں ان سب سے ماورا ہے-[7]
علمیات (Epistemology) اور وحدت الوجود (Unity of Being) کے امتزاج سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دینی معرفت صرف کتابی یا رسمی علم تک محدود نہیں رہتی بلکہ انسانی وجود اور کائنات کی ہر جہت میں موجود مخفی حقیقت کو سمجھنے کا نام بھی ہے- ابن عربیؒ کے صوفی، فلسفیانہ نظریات، خصوصاً عقلی ایمان (rational faith) اور وحدت الوجود کے تناظر میں، دینی علم کو وجودی اور کائناتی تجربے سے جوڑتے ہیں-
جدید مسلم مفکرین کا نقطۂ نظر:
جدید اسلامی فکر وہ علمی اور فلسفیانہ رجحانات ہیں جو انیسویں اور بیسویں صدی سے لے کر آج تک ابھرتے رہے ہیں-اس میں اسلام، جدیدیت، جمہوریت، انسانی حقوق، سائنس اور فلسفہ کے مختلف پہلوؤں کو مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے- جدید مفکرین قرآن و حدیث کو محض عبادت یا قانونی ضابطے کے طور پر نہیں بلکہ معاشرتی، اخلاقی اور فلسفیانہ اصول کے طور پر دیکھتے ہیں-
جدید اسلامی فکر کی تشکیل میں اسلامی احیائی تحریکات کا گہرا اثر ہے- معاصر مسلم اسکالرز نےابنِ عربی کے تصورات کو موجودہ دور کے مسائل کے تناظر میں ہم آہنگ کیا اور اسلامی فکر میں روحانی و فکری تجدید کی بنیاد رکھی- قرآن کریم کی تعلیمات کو انسانی خودی، آزادی اور فکری ارتقاء کے حوالے سے سمجھا گیا-
اس فکر میں سماجی انصاف، خواتین کے حقوق، تعلیم اور غربت کے خاتمے جیسے اہم موضوعات کو دین کے نظریات کے ساتھ جوڑا گیا- ابنِ عربی کے تصورات، بالخصوص وحدت الوجود اور انسان کی باطنی صلاحیت، جدید اسکالرز کے لیے انسانی سماجی اور اخلاقی ذمہ داری کی بنیاد فراہم کرتے ہیں- صوفیانہ تصورات کو صرف ذاتی عبادت تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ انہیں نفسیات، فلسفہ اور ماحولیاتی شعور کے تناظر میں بھی دیکھا گیا-
مفکرین نے خودی، سماجی عدل اور معرفتِ الٰہی کے اصولوں کو موجودہ دور کے علمی، سائنسی اور سماجی چیلنجز کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی- انہوں نے ابنِ عربی کے فلسفۂ وحدت الوجود اور علمیاتی تصورات کو جدید اسلامی فکر اور معاشرتی مسائل کے تجزیے میں استعمال کیا اور ان کی علمی و روحانی اہمیت کو اجاگر کیا -[8]
مستشرقین کی نظر میں ابنِ عربیؒ کی تعلیمات کا تجزیہ:
مستشرقین بھی ابنِ عربیؒ کی تعلیمات اور فلسفیانہ بصیرت پر متنوع اور عمیق نقطۂ نظر رکھتے ہیں – ولیم چِٹک، ہنری کوربن،[9] توشیہیکو ایزوتسو نے ابنِ عربیؒ کی فلسفیانہ بصیرت کو مغربی تحقیق میں نمایاں کیا- جبکہ خاص طور پر ولیم چٹک نے ابنِ عربیؒ کے علم اور تجلی کے فلسفے کو نہ صرف عقلی بنیادوں پر بلکہ روحانی معنویت کے حوالے سے بھی معتبر اور گہرائی سے سمجھا ہے-چٹک کی تشریح ابنِ عربیؒ کی تعلیمات کی ایک جدید اور علمی تعبیر ہے، جو صوفیانہ فلسفہ اور اسلامی تصوف کی روایتی بصیرت کو عقلی اور روحانی دونوں جہتوں سے جوڑتی ہے- اس اعتبار سے چٹک کا نقطہ نظر ابنِ عربیؒ کے فلسفے کا ایک معاصر چہرہ پیش کرتا ہے، جو جدید فکر کی زبان میں روحانی معنویت کو سمجھنے کا ایک جدید اور معتبر ذریعہ ہے-ابن عربی کی تعلیمات میں کوربن نےتخلیقی تخیل (Creative Imagination)کے تصور پر خصوصی توجہ دی اور اسے صوفیانہ معرفت کی بنیاد اور روحانی بصیرت کی کلید قرار دیا کہ یہ ایک مابعد الطبیعی ذریعہ ہے جو انسانی عقل و حواس کی حدود سے ماورا ہے-یہ انسان کو عالمِ مثال یعنی ایک درمیانی وجودی دنیا سے مربوط کرتا ہے جہاں روحانی حقائق ظہور پاتے ہیں- جس سے کائنات اور انسان کے باطنی تعلقات کے فہم میں نئے معانی دریافت ہوتے ہیں- توشیہیکو ایزوتسو نے ابنِ عربیؒ کے فلسفیانہ اور صوفیانہ تصورات کا تقابلی مطالعہ خاص طور پر ’’Sufism and Taoism‘‘ میں پیش کیا[10]اور اس میں مشرقی اور اسلامی فلسفیانہ روایات کے درمیان ہم آہنگی و تفریق کے نکات اجاگر کیے ہیں- یہ تحقیقی مطالعہ ابنِ عربیؒ کے علمی و روحانی ورثے کو عالمی تناظر میں سمجھنے اور معاصر فلسفیانہ مکالمات میں اس کی افادیت کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے-
روحانی ہم آہنگی، سائنسی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی: ابنِ عربیؒ کے تصورات کا جدید تجزیہ:
تکنیکی ترقی اور بین المذاہب مکالمہ:
مسلم مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تکنیکی اور علمی ترقی زندگی کی سہولتیں بڑھاتی ہیں، مگر اس کے ساتھ اخلاقی بیداری، بین المذاہب مکالمہ اور ماحولیاتی شعور بھی ضروری ہیں یہ نقطہ نظر ابنِ عربیؒ کے فلسفیانہ اصولوں جیسے خودی،عدل اور اعتدال سے ہم آہنگ ہے اور انسان کو نہ صرف ذمہ دار شہری بلکہ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ روحانی وجود بنانے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے-[11]
ماحولیاتی شعور اور روحانی بیداری:
ماحولیاتی اخلاقیات انسانی ذمہ داری اور کائناتی تعلقات کے روحانی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں- ابنِ عربیؒ کی تعلیمات، انسان کو زمین اور دیگر مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگی اور اخلاقی توازن قائم کرنے کی ترغیب دیتی ہیں، فلسفیانہ زاویے سے یہ انسانی کے وجودی مقام (ontological status) اور کائنات کے ساتھ تعلق کو واضح کرتا ہے- جبکہ اسلامی علمی مکالمہ اس کی اخلاقی اور روحانی اہمیت پر زور دیتا ہے-
انسانِ کامل: داخلی اور بیرونی توازن
ابنِ عربیؒ کے انسانِ کامل اور عالمِ مثال کے فلسفیانہ تصورات انسانی شخصیت کی داخلی کائنات اور بیرونی ماحولیاتی و سماجی تعلقات کے درمیان توازن قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں-[12] فلسفیانہ زاویے سے انسان نہ صرف اخلاقی عامل (ethical agent) بلکہ ماحولیاتی عامل (ecological agent) بھی سمجھا جا سکتا ہے، جو روحانی بیداری کے ذریعے کائنات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتا ہے- یہ نظریہ اسلامی تصوف اور فلسفہ دونوں کو ایک تصوراتی اور عملی فریم ورک میں یکجا کرتا ہے-
ابنِ عربیؒ کی فکر کا عصری تناظر میں اطلاق:
اس مطالعے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ابنِ عربیؒ کی تعلیمات محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی اخلاقیات اور کائناتی ذمہ داری کا اظہار ہے- ان کی تعلیمات، خصوصاً وحدت الوجود، انسانِ کامل اور باطنی تصوف، نہ صرف روحانی بلندی کا ذریعہ ہیں بلکہ آج کے سماجی، اخلاقی اور علمی چیلنجز کے حل کیلیے بھی ایک متوازن فکری فریم ورک مہیا کرتی ہیں- محبت و عرفان کے ذریعے انسانی اخلاق و ذمہ داری کو فروغ دیا جاتا ہے، جو عدل، مساوات اور اجتماعی ہم آہنگی کے قیام میں مددگار ثابت ہوتے ہیں-
ابنِ عربیؒ کی فکر جدید سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تحفظ اور بین المذاہب مکالمے جیسے مسائل کے لیے راہنمائی فراہم کرتی ہے- اسلامی جدید فکر میں ان کی تعلیمات کو نہ جامد روایت پرستی کہا جا سکتا ہے اور نہ اندھی مغربی تقلید، بلکہ اجتہاد، عقلی فکر اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایک فعال اور ہم عصر فکری سرمایہ سمجھا جاتا ہے- نتیجتاً، ابنِ عربیؒ کی بصیرت آج کے انسان کے لیے روحانی، اخلاقی اور علمی ترقی کا راستہ ہموار کرتی ہے-
٭٭٭
[1](Chittick, W. C. (2015). Ibn al-ʿArabī: The Doorway to an Intellectual Tradition. Ibn ʿArabi Society)
https://ibnarabisociety.org/doorway-to-an-intellectual-tradition-william-chittick/?utm_source=chatgpt.com
[2]Chittick, W. C. (2007). Ibn 'Arabi: Heir to the Prophets (pp. 45–48). OneWorld Publications.
https://archive.org/details/learnislampdfenglishbookibnarabiheirtotheprophets
Saeed, A. (2020). Conversion in the Qurʾān (pp. 22–28). In N. Hurvitz (Ed.), Conversion to Islam in the Premodern Age: A Sourcebook. University of California Press. https://doi.org/10.1525/9780520969100-006
[3](الحدید:3)
[4](البقرۃ:115)
[5](شیخ عبد الباقی مفتاح (الجزائر)، ایک صوفی اسکالر اور مفسر ہیں جنہوں نے ابنعربیؒ کے عرفانی علوم کو نئے اندازِ فکر اور معنوی وضاحت کے ساتھ زندہ کیا- ان کی کم وبیش 47تصانیف نے اسلامی حکمت کو قرآنی انداز میں عام فہم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور صوفیانہ فکر کو جدید تراجم اور بین الاقوامی محافل میں نمایاں کیا ہے-)
[6]Miftah, A. (Accessed 2025). An Interview with Abdel Baki Meftah, Algerian Master of Akbarian Teachings. Traditional Hikma.
[7]Chittick, William C. (1998). The Self-Disclosure of God: Principles of Ibn al-ʿArabi’s Cosmology. Albany, NY: State University of New York Press.
[8](شیخ نصر حامد ابو زید مصر کے ایک ممتاز مفکر، محقق اور لبرل تھیولوجین تھے، جنہوں نے قرآن کی انسانی تعبیر (humanistic hermeneutics) اور ثقافتی سیاق و سباق میں اس کی تشریح کو فروغ دیا- آپ نے Cairo University میں اسلامی مطالعات پڑھائیں، Netherlands میں Leiden اور Utrecht یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سرانجام دیں-ان کے نظریات نے اسلامی فکری تحریک میں بنیادی تبدیلی کی بنیاد رکھی-)https://www.britannica.com/biography/Nasr-Hamid-Abu-Zayd
[9](ہنری کوربن (Henry Corbin) ایک ممتاز فرانسیسی فلسفی، تھیولوجین اور ایران شناس تھے- انہوں نے اسلامی فلسفہ، صوفیانہ فکر اور ایرانی روحانیت خاص طور پر ابن عربی اور دیگرپر روشنی ڈالی- کوربن نے ’’prophetic philosophy‘‘ اور ’’imaginal world‘‘ جیسے بنیادی تصورات کو متعارف کروایا-پیرس میں اسلامی مطالعات کے پروفیسر بھی رہے-)
[10]Izutsu, T. (2003). Sufism and Taoism: A comparative study of key philosophical concepts
[11](پروفیسرعبداللہ سعید موجودہ وقت میں University of Melbourne کے Asia Institute میں Oman Chair of Arab & Islamic Studies کے طور پر متحرک ہیں- ان کی تحقیق Qur’anic hermeneutics، Islamic law، human rights، interfaith dialogue، اور Sufism پر مرکوز ہے- وہ اسلام کے روحانی، اخلاقی اور فکری پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں-)
http://findanexpert.unimelb.edu.au/profile/13483-abdullah-saeed?n_text=mysticisum&s_text=science
[12]Putra, D., & Widodo, A. he Contribution of Ibn Arabi’s Sufism-Philosophical Thought to The Concept of Perfect Human Being who Rationally Believes
https://e-journal.usd.ac.id/index.php/JAOT/article/view/7594