شیخ اکبرمحی الدین ابن عربیؒ کے پندونصائح

شیخ اکبرمحی الدین ابن عربیؒ کے پندونصائح

شیخ اکبرمحی الدین ابن عربیؒ کے پندونصائح

مصنف: مفتی میاں عابد علی ماتریدی اکتوبر 2025

شیخ اکبر ؒ کی تعلیمات محض قیل و قال نہیں بلکہ ایک زندہ شعور اور روحانی تجربہ ہے جو انسان کو اس کی حقیقت یعنی ”عبدیت“ اور ”قربِ الٰہی“ کی جانب دعوت اور باطنی سچائی سے ہم آہنگ کرتی ہیں -شیخ اکبر ؒ کے پند و نصائح انسان کو ظاہر و باطن کی تطہیر، عقل و وجدان کے امتزاج اور علم و دانش کے ذریعے ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتے ہیں جہاں عبادت و بندگی معرفت و قربِ حق میں ڈھل جاتی ہے-

عصرِ حاضر کے فکری و روحانی بحران میں شیخ اکبرؒ کی تعلیمات ایک ایسی سمت عطا کرتی ہیں جو نورِ بصیرت اور باطنی سکون و روحانی استحکام فراہم کرتی ہیں-ایسے دور میں جب انسان ٹیکنالوجی کی ہوش ربا ترقی، معلومات کی کثرت اور آزادی افکار کے نام پر روحانی مرکزیت سے کٹ کر خالی پن، تصنع و بناوٹ، اضطراب اور ڈپریشن کا شکار ہے وہاں ابن عربیؒ کے پند و نصائح ایک زندہ و جاوید اخلاقی و فکری روحانی قُویٰ کے طور پہ سامنے آتے ہیں جن سے انسان اپنے باطن سے جڑ کر صحیح معنوں میں مقصدِ حیات اور مقامِ عبدیت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے -

قرآن مجید اور سنتِ رسول () ہدایت و نصیحت کا اصل سرچشمہ ہیں :

سب سے برحق اور نافع نصیحتیں وہی ہیں جو قرآن و سنت کے دامن میں محفوظ ہیں ، باقی تمام پند و مواعظ اسی نورِ ہدایت کا فیضان ہیں- قرآنِ مجید نہ صرف خود ایک کتابِ ہدایت و نصیحت ہے بلکہ اس میں متعدد مقامات پر انسان کو پند و نصائح کے ذریعے راہِ فلاح وکامیابی کی طرف بلایا گیا ہے -ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

”یہ قرآن کریم لوگوں کیلئے واضح بیان ہے اور ہدایت ہے اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے“- [1]

لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ قرآن مجید میں مذکور انبیاء و رسل (علیھم السلام) کی نافرمانی کرنے والی اقوام کے انجام، قیامت کی سختیاں اور جہنم کے دردناک عذاب سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ان سے نصیحت و ہدایت پائے-

زیر نظر تحریر میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کے چند پند و نصائح کوبطور نصیحت ذکر کیا جا رہا ہے-

نصیحت خیر خواہی اور محبوب ترین عبادت ہے:

سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

”بے شک دین نصیحت ہے“- (یعنی خیر خواہی کا نام ہے)-ہم (صحابہ کرام) نے پوچھا: یا رسول اللہ (ﷺ) کس کی (خیر خواہی)؟تورسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا: ”اللہ کی، اُس کی کتاب کی، اُس کے رسول کی اور مسلمانوں کے امیروں کی، اورعام مسلمانوں کی(خیر خواہی) “-[2]

اہلِ ایمان پہ لازم ہے کہ مخلوقِ خدا کو نصیحت کریں:

”عربی میں”نصاح“ دھاگے کو کہتے ہیں اور”منصحہ“ سوئی کو اور سینے والا ”ناصح“ ( یا درزی) کہلاتا ہے، درزی کپڑے کو ایک مخصوص انداز میں جوڑتاہے کہ وہ قمیض بن جاتی ہے، یا کچھ اور، سو اس کے جوڑنے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اس نے اسے سلائی سے جوڑا-اسی طرح اللہ کے دین میں نصیحت کرنے والااللہ کے بندوں کو اُس چیز سے جوڑتا ہےجس میں ان کی سعادت ہے(بلکہ) وہ اللہ اور اس کی مخلوق کو جوڑتا ہے-پس دین دار پر لازم ہے کہ اللہ کے بندوں کو نصیحت کرے“- [3]

خوابِ غفلت سے بیداری کی صدائے حق:

”فصوص الحکم“میں ایک حدیث پاک کو بطور نصیحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ)نے فرمایا:

”الناس نیام فاذا ماتوا انتھوا“ [4]

’’لوگ سو رہے ہیں جب وہ مریں گے تب جاگیں گے‘‘-

دنیاوی خواب و خیالات انسان کو حقیقت سے غافل رکھتے ہیں دنیا ایک خواب ہے، خواہشات اس کے مناظر ہیں اور ہم سب اس میں مصروف سوئے ہوئے ہیں-موت وہ گھڑی ہے جب یہ خواب ٹوٹے گا، پردہ اٹھے گا اور ہم اپنی اصل حالت کو دیکھیں گے-اس سے یہ درس ملتا ہے کہ دنیاوی زندگی اور اس کی رنگینیاں محض نیند میں دیکھے گئے خواب کی مانند ہیں جو خام خیالی کے سوا کچھ نہیں -

نظامِ مملکت کی بہتری کے لئے حکمرانوں کو نصیحت :

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ سردارانِ وقت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”اے مکرم سردار! میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی مملکت میں ایسا کوئی حکم نافذ نہ کرکہ جس کے نتائج سے تو آگاہ نہیں، اگر اس کا نتیجہ اچھا ہو تو اِسے نافذ کر وگرنہ روک لے،، اپنے معاملات میں جلد بازی سے گریز کر؛ کیونکہ آفات بہت سی ہیں، بعض اوقات نفس کسی ایسے معاملے میں طاعت کی بات کرتا ہے جس میں اُس کی مخالفت ہونی چاہیے“- [5]

نصیحت کرنا در اصل علم دینا ہے:

”جو تجھے نصیحت کرتا ہے وہ تجھے علم دیتا ہے اور جو تجھے علم دیتا ہے تو تُو خود پر اُس کی امامت کرتا ہے، جو تجھے یاد دلاتا ہے اور وہ تجھے یہ بتاتا ہے کہ تو عالم ہے“-

نصیحت محض لَفّاظی نہیں بلکہ ایک ایسا چراغ ہے جو انسان میں علم کی روشنی کو بیدار کرتا ہے جو شخص تمہیں نصیحت کرتا ہے وہ دراصل تمہارے علم میں اضافہ کرتا ہے -

نصیحت نفسانیت کا قلع قمع کرتی ہے:

”نصیحت تجھےتوڑتی ہے، اسی لیے فرمایا: (میں تمہیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں) اور یاد دہانی تجھے جوڑتی ہے“-

یہاں علامہ ابن عربیؒ فرمارہے ہیں کہ نصیحت انسان کے نفس کو توڑتی یعنی اُس کی انا، خصائلِ رذیلہ، غرور و تکبر اور غفلت و لاپرواہی کو چکناچور کر کے اسے حقیقت کے روبرو لاکھڑا کرتی ہے-یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: ”میں تمہیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں“ -[6] دوسری طرف یاد دہانی انسان کی روح کو اپنی اصل یعنی خالقِ حقیقی سے جوڑتی اور مقصدِ حیات کی طرف راغب کرتی ہے -

نصیحت نفس کیلئے ناگوار مگر روحانی تسکین کا ذریعہ :

”نصیحت ناخوشی یا کراہت سے قریب ہے“- [7]

علامہ ابن عربیؒ اس نصیحت سےیہ سبق دے رہے ہیں کہ نصیحت بظاہر تلخ اور نفس کے لیے ناگوار ہوتی ہے لیکن اس کا ثمر لذیز ہوتا ہے جو روحانی بیداری، اصلاح اور تزکیہ نفس کا ذریعہ بنتا ہے-اس سے نفس شرمندہ اور دل زندہ ہوتا ہے-

نفسِ غضبیہ کے شر سے بچنا چاہیے:

شیخ ابن عربیؒ نے انسان کو برائی اور رذائل کی طرف مائل کرنے والے نفس کی جن اقسام کا ذکر کیا ہے اُن میں ایک نمایاں قسم نفسِ غضبیہ ہے-آپؒ کے نزدیک:

”نفس غضبیہ بھی انسان اور دیگر حیوانات میں مشترک ہوتا ہے- یہ نفس غضب، جرأت اور غلبہ کی خواہش کا منبع ہوتا ہے - نفس شہوانیہ سے قوی ہوتا ہے اور جب اسے انسان پر غلبہ حاصل ہو جاتا ہے تو نفسِ شہوانیہ کی نسبت اسے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے-آدمی کو مناسب ہے کہ نفسِ غضبیہ کو مطیع کرے اور اسے ان کاموں میں لگائے جن میں اسے لگانا ضروری ہے- جہاں اس نفس میں ہزاروں خوبیاں بھی ہیں مثلاً بُری باتوں سے نفرت، شرافت کی محبت، اخلاق فاضلہ اور مراتب عالیہ کی خواہش وغیرہ وغیرہ- یہ سب باتیں نفسِ غضبیہ میں موجود ہوتی ہیں اس لئے اگر وہ اسے مہذب بنا کر اچھے کاموں میں لگائے اور اگر اسے بُرے کاموں سے باز رکھے تو وہ ایک اچھا اور قابلِ ستائش انسان بن جائے گا“-[8]

ہر علم کو معیارِ شریعت پہ پرکھو:

”ہر وہ علم جو کشف، الہام، ملاقات یا کنایہ کے ذریعے حاصل ہو اوروہ کسی متواتر (قطعی) شریعت کے خلاف ہو، اس پر اعتماد کرنا درست نہیں“- [9]

اگر کوئی علم شریعت سے ٹکرا جائے تو وہ باطل شمار ہوگا خواہ اس کا دعویٰ کرنے والا کتنا ہی جید عالم و فاضل کیوں نہ ہو-اس اصول میں عقل، علم، ادب اور روحانیت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے جو ظاہر و باطن کو شریعت کی لڑی میں پرو کر دین کی سالمیت و بقاء کو محفوظ رکھتا ہے-

روحانی سفر میں تسلسل لازمی ہے:

”کسی ایک روحانی کیفیت پر دو سانس یا اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرےرہنا، اہلِ معرفت کے نزدیک قابلِ اعتماد نہیں ہے“-

راہِ سلوک میں ہر کیفیت و حال کو محض ایک مرحلہ سمجھیں نہ کہ منزل کیونکہ اگر سالک کسی روحانی ذوق یا کیف پر ٹھہر جائے تو اس کا سفرِ باطن رک جاتا ہے-اہلِ معرفت کسی کیفیت کو مسکن نہیں بناتے بلکہ اسے ایک پل کی مانند سمجھتے ہیں جس پر چل کر اگلے مقام کی طرف جانا ہوتا ہے-

خلوت و جلوت میں دل یاد الٰہی کی طرف مائل ہو:

”اگر انسان خلوت میں اللہ تعالیٰ سے انس محسوس کرے اور جلوت (لوگوں کے درمیان) میں وحشت محسوس کرے، تو اس پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا“-

عمل میں اخلاص شرط ہے:

”ہر وہ عمل جو اخلاص سے خالی ہو، اربابِ بصیرت کے نزدیک ناقابلِ اعتماد ہے“-

عمل اگرچہ بظاہر عظیم ہولیکن اگر وہ خلوص سے عاری ہو تو عنداللہ ناقابلِ قبول ہے کیونکہ عمل کی روح نیت اور نیت کی روح اخلاص ہے-

 مکمل توبہ ضروری ہے:

”صرف بعض گناہوں سے کی گئی توبہ، اہلِ حق کے نزدیک معتبر نہیں سمجھی جاتی “-

اہل اللہ کے نزدیک وہ توبہ قابلِ قبول نہیں ہوتی جو صرف چند گناہوں سے کی جائے اور باقی گناہوں کو چھوڑنے کا ارادہ نہ ہو بلکہ سچی توبہ وہ ہے جو ہر گناہ سے مکمل طور پہ کی جائے-اس لیے اولیاء اللہ ظاہری توبہ کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں سے توبہ کی تلقین کرتے ہیں -

ہر حال میں اللہ پہ بھروسہ (توکل)  کرنا چاہیے:

”وہ توکّل جو صرف بعض معاملات تک محدود ہو،تو وہ اہلِ یقین کے نزدیک ناقابلِ اعتماد ہے“ -[10]

شکر کا معیار کیا ہونا چاہیے؟

”ہر وہ شکر جس کے ساتھ نعمت میں اضافہ نہ ہو، قابلِ اعتبار نہیں“ -[11]

اگر شکر کے باوجود زندگی میں برکت نہیں، تو شکر کے انداز پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے-

حقیقی استقامت و ثابت قدمی اپنی خامیوں کو جاننا ہے:

”ہر وہ استقامت جس میں انسان اپنی کمزوری یا کجی کو نہ پہچان سکے، قابلِ اعتبار نہیں“ -[12]

اگر کوئی شخص نیکی پر قائم رہے لیکن اپنی غلطیوں، کمزوریوں یا برائیوں کو نہ سمجھے تو اس کی یہ استقامت ادھوری ہے ،حقیقی استقامت وہی ہے جس میں بندہ اپنی خطاؤں سے غافل نہ ہو -

اختتامیہ:

شیخ ابنِ عربیؒ کے مندرجہ بالا پند و نصائح سے یہ بات اظہرمن الشمس ہےکہ دین و روحانیت کا اصل معیار شریعتِ مطہرہ ہے، ہرعلم اورعمل کو شریعتِ مطہرہ کے پیمانے پر پرکھا جائے، کیونکہ شریعت ہی ظاہر و باطن دونوں کی ضامن ہے-روحانی سفر میں کسی ایک کیفیت پر ٹھہر جانا رکاوٹ ہے، اس لیے سالک کو ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا چاہیے- خلوت و جلوت میں یادِ الٰہی میں محو رہے، ہر عمل خلوصِ نیت کے ساتھ انجام دے، اور ہر بڑے چھوٹے گناہ سے مکمل توبہ ہو- حقیقی توکل یہ ہے کہ ہر معاملے میں اللہ پر بھروسہ ہو، سچا شکر وہ ہے جو نعمت میں اضافہ اور قربِ الٰہی کا باعث بنے اور معتبر استقامت وہی ہے جس میں بندہ اپنی خامیوں کو پہچان کر مسلسل محاسبہ کرتا رہے-

٭٭٭


[1](آل عمران:138)

[2](صحيح مسلم، کتاب الایمان)

[3](الفتوحات مکیہ، دارالکتب علمیہ، بیروت، لبنان، ج:8، ص:268)

[4](فصوص الحکم، ص:344)

[5](التدبيرات الالهية في اصلاح الملكة الانسانية، دارالثقافہ، مؤسسة للنشر و التوازيع، ص:121)

[6](سبا:46)

[7](رسائل ابن عربی، کتاب التراجم، دارالکتب علمیہ، بیروت، لبنان، ص:202)

[8](سوانح ابن عربی، (حیات و نظریات، ص:159)

[9](رسائل ابن عربی، رسالۃ لایعوّل علیہ، ص: 192)

[10](ایضاً، ص: 194)

[11](ایضاً،ص:196)

[12](ایضاً، ص:197)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر