سانحہ کرائسٹ چرچ کےشہداءسےاظہاریکجہتی : علامتی انسانی مسجدکاانوکھاانداز

سانحہ کرائسٹ چرچ کےشہداءسےاظہاریکجہتی : علامتی انسانی مسجدکاانوکھاانداز

سانحہ کرائسٹ چرچ کےشہداءسےاظہاریکجہتی : علامتی انسانی مسجدکاانوکھاانداز

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جون 2019

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور کے شہداء سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک بولتی انسانی مسجد وجود میں آئی - 12 اپریل 2019ء بروز جمعۃ المبارک کوتحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام جھنگ میں معروف صوفی بزرگ حضرت سخی سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) کے آستانہ عالیہ پر  20 ہزار سے زائد لوگوں نے اکٹھا ہو کر خود کو کرائسٹ چرچ کی مسجد النور کی شکل میں ڈھال دیا جسے گزشتہ ماہ کے دہشتگردی کے واقعہ میں نشانہ بنایا گیا تھا-اس تقریب میں پاکستان بھر سے لوگوں نے شرکت کی- سفید لباس اور سر پر سفید اور سنہری رنگ کی پگڑیاں اور ٹوپیاں پہن کر جس نظم و ضبط سے پاکستانی عوام کی اتنی بڑی تعداد نے تاریخ کی پہلی بولتی مسجد کا ماڈل پیش کیا وہ قابل دید تھا- بانی مسلم انسٹی ٹیوٹ حضرت سلطان محمد علی صاحب، چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب اور دیگر معروف شخصیات نےاس میں شرکت کی-یہ تقریب دربار حضرت سلطان باھُو پر واقع ایک وسیع میدان میں منعقد ہوئی-لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کی شرکت اور جس منظم انداز میں مسجد کا ماڈل بنایا گیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی-

گزشتہ ماہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دہشتگردی کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا جس میں 50 کے لگ بھگ مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے- اس واقعہ کو نہ صرف دنیائے اسلام نے بلکہ خود نیوزی لینڈ کی حکومت نے دہشتگردی کی بدترین مثال قرار دیا ہے -پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی شدید مزمت کی گئی- عالم اسلام کے سربراہان نے بھی شہداء کے قرابت داروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بیانات قلمبند کروائے- نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈن نے اس واقعہ کی بھر پور مزاحمت کی اور اس پر فوری ایکشن لئے- انہوں نے نہ صرف سر پر دوپٹہ اوڑھے شہداء کے اہلِ خانہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف سفید نسل پرستانہ نظریات کی بھر پور حوصلہ شکنی کی- اسی واقعہ کے نتیجہ میں خود کار اسلحہ پر بھی پابندی عائد کرنے کا قانون نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ نے منظور کیا- نیوزی لینڈ کی عوام نے بھی اس واقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بھر پور اظہارِ یکجہتی کیا- اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات میں نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے قابلِ ستائش اقدامات کئے ہیں-

تاریخ گواہ ہےکہ دنیا میں پاکستانی عوام نے ہر تخریب کاری کے خلاف آواز بلند کی اور امن کا ساتھ دیا ہے- کرائسٹ چرچ سانحہ کا جواب بھی پاکستانی عوام نے بھر پور انداز میں دیا- اس موقع پر شرکاء نے پہلے صف بندی کرتے ہوئے مسجد کا ماڈل بنایا جس کے فوراً بعد فضا اللہ اکبر اور ’’اسلام اِز پِیس‘‘(اسلام امن ہے) کے نعروں سے گونج اٹھی- یعنی یہ وہ پہلی علامتی مسجد تھی جو خود با آوازِ بلند صدا لگارہی تھی کہ اسلام امن ہے اور اسی ضمن میں شرکاء نے مسجد کے ساتھ ان الفاظ کا بھی انسانی ماڈل بنا رکھا تھا ’’Islam is peace‘‘- مسجد کے ماڈل کے ساتھ بڑے بڑے پوسٹر آویزاں تھے جن پر کرائسٹ چرچ کے شہداء کی تصاویر آویزاں تھیں جن کے ساتھ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے جھنڈے بھی نمایاں تھے جو کرائسٹ چرچ کے شہداء اور ان سے ہمدردی کرنے والی نیوزی لینڈ کی عوام سے پاکستان کی جانب سے اظہارِ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے- شرکاء نے شہداء کی تصاویر پر پھول بھی رکھے-

اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین انسٹیٹیوٹ نے واضح کیا کہ اس ماڈل سے دنیا کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مسلمان امن پسند قوم ہیں اسلام امن کا داعی ہے اور اہل امن کو پسند کرتا ہے- ہمارے محبوب نبی کریم حضرت محمدمصطفےٰ (ﷺ) نے بھی ہمیں امن کا درس دیا ہے-صاحبزادہ سلطان احمد علی نے النور مسجد کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا-ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف انمول قربانیاں دی ہیں- جس کی بدولت آج پاکستان میں امن ہے-مساجد امن کا سب سے بڑا مرکز ہیں-اس ماڈل سے پاکستانی عوام نے بھی یہ ہی پیغام دیا کہ عبادت گاہیں فساد کی جگہ نہیں اور جس طرح نیوزی لینڈ کی عوام اور حکومت نے اسلامو فوبک عناصر کی حوصلہ شکنی کی ہے وہ قابلِ ستائش ہے-

یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی مہذب قوم کسی بھی کمیونٹی کی عبادت گاہوں کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتی-اسی لیے دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا-اس واقعہ پر نیوزی لینڈ کی حکومت نے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے پوری دنیا کے لیے اس میں سبق ہے- پاکستانی عوام کے منفرد اندازِ یکجہتی کے عظیم کارنامے پر ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے مسلم انسٹیٹیوٹ کے اقدامات کو سراہا-اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی عوام نے اس کارِ خیر پر مسلم انسٹیٹیوٹ کی حوصلہ افزائی کی-اس اظہارِ یکجہتی سے دنیا بھر کو یہ سبق بھی ملا ہے کہ تہذیبی تصادم کے نظریات نے جہاں دنیا کو نقصان پہنچایا ہے وہاں اب تہذیبوں کے مابین تعاون کی ضرورت ہے اور پاکستانی عوام اس ضمن میں پیش پیش ہیں- یہ پاکستان کا اصل چہرہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی لہر اور ایک مخصوص عالمی منظر نامے کے سبب منظر عام پر نہیں آ سکا- اب دنیا بھر نے دیکھا کہ پاکستانی عوام نے تاریخ رقم کی-یہ پوری دنیا کے لیے پیغام ہے کہ امن، محبت، رواداری اور برداشت ہی سے اس کائنات کی تعمیر ممکن ہے-جبکہ اسلام اور اہل اسلام روزِ اول سے اس کے قائل ہیں- تقریب کے اختتام پر بانی مسلم انسٹیٹیوٹ حضرت سلطان محمد علی صاحب نے شہداء کے ایصالِ ثواب اور پاکستان و امتِ مسلمہ کی سر بلندی کےلیے اجتماعی دعا بھی کی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر