5فروری یوم یکجہتی کشمیر

5فروری یوم یکجہتی کشمیر

5فروری یوم یکجہتی کشمیر

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اپریل 2018

مسلم انسٹیٹیوٹ نے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بلیو ایریا اسلام آبادمیں  5 فروری 2018ء کو واک کا انعقاد کیا-مختلف شعبہ ہائے زندگی سول سوسائٹی، سیاست، طالب علم، وکلاء اور صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے ریلی میں شرکت کی- سربراہ شعبہ پالیسی اسٹڈیز کامسیٹس، سابقہ سفیر محترمہ فوزیہ نسرین صاحبہ، قائدین آل پارٹیز حریت کانفرنس محترم عبد الحمید لون صاحب اور جناب الطاف وانی صاحب، سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر محترمہ فرزانہ یعقوب صاحبہ اور مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ذِمہ داران نے ریلی کی قیادت کی- ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت، کشمیریوں کے حق خودارادیت، ان کی قربانیوں کو خراج تحسین، کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی  اور بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول کرانے کے لیے خطاطی کی گئی تھی -

یوم یکجہتی کشمیر اس بات کا گواہ ہے کہ کشمیر ی عوام بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف تحریک میں اکیلے نہیں ہیں اور پوری پاکستانی قوم دل وجان سے ان کے ساتھ ہے- 1990ء سے اس دن کو عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے منایا جا رہا ہے- بنیادی طور پر اس دن کامقصد پاکستانی قوم کا تحریکِ آزادی کشمیر سے اپنے عزم کا اظہار ہے اور کشمیری بھی عالمی سطح پر پاکستانی حمایت کے معترف ہیں-اِس خاص دن پر پاکستان اور تمام قوم کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد، ان کو بین الاقوامی قانون کے تحت ملے بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد اور بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریکِ آزادی پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں-ہر قوم کو مجموعی طور پر اپنی سیاسی آزادی کے اظہار کا حق ہے-

1949ء میں اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا-لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور غیر منصفانہ رویئے کی وجہ سے اس فیصلے پر عمل نہ ہو سکا اور انڈیا نے بھاری فوجی قوت کا استعمال کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کر لیا-اس لیے متعدد قرار دادیں منظور کرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے- او-آئی-سی کی چھتری تلے اسلامی ممالک کا کردار بھی تسلی بخش کار کردگی کا حامل نہیں ہے-کشمیری قوم گزشتہ سات دہائیوں سے شدید مظالم کا شکار ہے اور قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے جبکہ عالمی برادری کی طرف سے سرد مہری دکھائی دیتی ہے-لیکن ایک دن آئے گا جب دنیا کو بھارتی مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے اس گھمبیر مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا- اگر اس مسئلہ کو انصاف کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا-

بھارت پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کشمیر نظریاتی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے-برہان وانی جیسے کشمیری نوجوان کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہونے تک اپنی جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے اور آزادی کا مطالبہ کرتے رہیں گے- پاکستان اور کشمیر ایک ہی محور کے دو سیارے ہیں اور کشمیر پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ ہے- اسی لیے کشمیری شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے-

جس طرح کشمیری عوام بھارتی مظالم کے سامنے سینہ سپر ہے، پاکستان کی سول سوسائٹی، اداروں، افواج، حکومت، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی تنظیموں کا یہ فرض بنتا ہے کہ تمام عالمی فورمز پر کشمیریوں کے حقوق کی بات کریں اور مؤثر سفارت کاری کے ذریعے انڈیا کا بدنما چہرہ بےنقاب کریں- کشمیر میں بے پناہ مجرمانہ مظالم کے ارتکاب کے باوجود، بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا میں مصروف ہے جس کا جواب دینے کے لیے اور کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کا پردہ چاک کرنے کے لیے بھرپور میڈیا کمپین کی ضرورت ہے-

بھارت کشمیریوں پر جتنے بھی مظالم ڈھا لے، وہ کبھی اپنے مطالبہ آزادی سے دست بردار نہ ہوں گے- اگرچہ سابقہ بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا لیکن اس وعدے کی پاسداری کی بجائے انڈیا نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ جما رکھا ہے- عالمی دنیا نے مشرقی تیمور اور بوسنیا کے مسائل حل کیے اور 1957ء کے بعد متعدد ریاستیں قائم ہوئی لیکن کشمیریوں کو کبھی ان کے منصفانہ حقوق نہیں دیئے گئے جو کہ عالمی برادری کے دوہرے میعار کا عکاس ہے- اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کا اس مسئلے کے حل کے لیے کردار ناکافی ہے-

مسئلہ کشمیر کی بنیادی سمجھ کی کمی اِس مسئلہ کے حل میں ایک رکاوٹ ہے-بد قسمتی سے میڈیا اور دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اپنے معاشی و سفارتی مفاد کے باعث اجاگر نہیں کرتیں-ہمیں کشمیر کی سفارتی بنیادوں پرمدد کرنی چاہیے اور ہماری مدد اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ان کو اقوام ِ متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حقِ خود ارادریت نہیں مل جاتا جو کہ اِس مسئلہ کو ایک تنازعہ سمجھتے ہوئے عوامی رائے سے حل کرنے کی بات کرتی ہیں- مقررین نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے پر مسلم انسٹیٹیوٹ کی خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ تحریکِ آزادئ کشمیر کی کامیابی کے لیے اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کریں-

 

٭٭٭ 

مسلم انسٹیٹیوٹ نے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بلیو ایریا اسلام آبادمیں  5 فروری 2018ء کو واک کا انعقاد کیا-مختلف شعبہ ہائے زندگی سول سوسائٹی، سیاست، طالب علم، وکلاء اور صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے ریلی میں شرکت کی- سربراہ شعبہ پالیسی اسٹڈیز کامسیٹس، سابقہ سفیر محترمہ فوزیہ نسرین صاحبہ، قائدین آل پارٹیز حریت کانفرنس محترم عبد الحمید لون صاحب اور جناب الطاف وانی صاحب، سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر محترمہ فرزانہ یعقوب صاحبہ اور مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ذِمہ داران نے ریلی کی قیادت کی- ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت، کشمیریوں کے حق خودارادیت، ان کی قربانیوں کو خراج تحسین، کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی  اور بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول کرانے کے لیے خطاطی کی گئی تھی -

یوم یکجہتی کشمیر اس بات کا گواہ ہے کہ کشمیر ی عوام بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف تحریک میں اکیلے نہیں ہیں اور پوری پاکستانی قوم دل وجان سے ان کے ساتھ ہے- 1990ء سے اس دن کو عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے منایا جا رہا ہے- بنیادی طور پر اس دن کامقصد پاکستانی قوم کا تحریکِ آزادی کشمیر سے اپنے عزم کا اظہار ہے اور کشمیری بھی عالمی سطح پر پاکستانی حمایت کے معترف ہیں-اِس خاص دن پر پاکستان اور تمام قوم کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد، ان کو بین الاقوامی قانون کے تحت ملے بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد اور بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریکِ آزادی پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں-ہر قوم کو مجموعی طور پر اپنی سیاسی آزادی کے اظہار کا حق ہے-

1949ء میں اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا-لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور غیر منصفانہ رویئے کی وجہ سے اس فیصلے پر عمل نہ ہو سکا اور انڈیا نے بھاری فوجی قوت کا استعمال کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کر لیا-اس لیے متعدد قرار دادیں منظور کرنے کے باوجود اقوامِ متحدہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے- او-آئی-سی کی چھتری تلے اسلامی ممالک کا کردار بھی تسلی بخش کار کردگی کا حامل نہیں ہے-کشمیری قوم گزشتہ سات دہائیوں سے شدید مظالم کا شکار ہے اور قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے جبکہ عالمی برادری کی طرف سے سرد مہری دکھائی دیتی ہے-لیکن ایک دن آئے گا جب دنیا کو بھارتی مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے اس گھمبیر مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا- اگر اس مسئلہ کو انصاف کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطے میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا-

بھارت پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کشمیر نظریاتی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے-برہان وانی جیسے کشمیری نوجوان کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہونے تک اپنی جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے اور آزادی کا مطالبہ کرتے رہیں گے- پاکستان اور کشمیر ایک ہی محور کے دو سیارے ہیں اور کشمیر پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ ہے- اسی لیے کشمیری شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا جاتا ہے-

جس طرح کشمیری عوام بھارتی مظالم کے سامنے سینہ سپر ہے، پاکستان کی سول سوسائٹی، اداروں، افواج، حکومت، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی تنظیموں کا یہ فرض بنتا ہے کہ تمام عالمی فورمز پر کشمیریوں کے حقوق کی بات کریں اور مؤثر سفارت کاری کے ذریعے انڈیا کا بدنما چہرہ بےنقاب کریں- کشمیر میں بے پناہ مجرمانہ مظالم کے ارتکاب کے باوجود، بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا میں مصروف ہے جس کا جواب دینے کے لیے اور کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کا پردہ چاک کرنے کے لیے بھرپور میڈیا کمپین کی ضرورت ہے-

بھارت کشمیریوں پر جتنے بھی مظالم ڈھا لے، وہ کبھی اپنے مطالبہ آزادی سے دست بردار نہ ہوں گے- اگرچہ سابقہ بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا لیکن اس وعدے کی پاسداری کی بجائے انڈیا نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ جما رکھا ہے- عالمی دنیا نے مشرقی تیمور اور بوسنیا کے مسائل حل کیے اور 1957ء کے بعد متعدد ریاستیں قائم ہوئی لیکن کشمیریوں کو کبھی ان کے منصفانہ حقوق نہیں دیئے گئے جو کہ عالمی برادری کے دوہرے میعار کا عکاس ہے- اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کا اس مسئلے کے حل کے لیے کردار ناکافی ہے-

مسئلہ کشمیر کی بنیادی سمجھ کی کمی اِس مسئلہ کے حل میں ایک رکاوٹ ہے-بد قسمتی سے میڈیا اور دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اپنے معاشی و سفارتی مفاد کے باعث اجاگر نہیں کرتیں-ہمیں کشمیر کی سفارتی بنیادوں پرمدد کرنی چاہیے اور ہماری مدد اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ان کو اقوام ِ متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حقِ خود ارادریت نہیں مل جاتا جو کہ اِس مسئلہ کو ایک تنازعہ سمجھتے ہوئے عوامی رائے سے حل کرنے کی بات کرتی ہیں- مقررین نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے پر مسلم انسٹیٹیوٹ کی خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ تحریکِ آزادئ کشمیر کی کامیابی کے لیے اپنا اپنا بھر پور کردار ادا کریں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر