سی پیک پر عالمی تشویش کیوں؟

سی پیک پر عالمی تشویش کیوں؟

سی پیک پر عالمی تشویش کیوں؟

مصنف: طارق اسمٰعیل ساگر مئی 2017

سی پیک (CPEC)  کیا ہے؟اور اس کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی آخر بھارت اور امریکہ کیوں ہاتھ دھو کر پاکستان کے پیچھے پڑے ہیں؟کاشغر کو گوادرکی بندرگاہ سے ملانے والی پاک چائنہ اقتصادی راہداری پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے گزرے گی کہ جن کا نزدیکی شہروں سے بھی رابطہ مشکل و دشوار ہے لیکن سی پیک کی تکمیل کی بدولت یہی شہر پوری دنیا سے رابطہ میں آجائیں گے-چینی مصنوعات کے تجارتی قافلے ہزاروں کلو میٹر کی اضافی مسافت سے بچ کر قریباً چار ہزار (۴۰۰۰)کلو میٹر فاصلہ طے کر کے گوادر کی بندرگاہ پہ پہنچیں گے اور وہاں سے انتہائی سہولت سے یورپی اور افریقی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے-اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک کی مصنوعات بالخصوص پٹرولیم مصنوعات گوادر پہنچنے کے بعد کاشغر کے لیے روانہ ہو جائیں گی- پاکستان ان تجارتی قافلوں سے اگر محض راہداری فیس ہی وصول کرے تو پاکستان کی قومی آمدنی میں قابل قدر اضافہ ہو جائے گا اور جن علاقوں سے یہ راہداری گزرے گی وہاں ہمہ قسم کی صنعت و حرفت (انڈسٹری) اور اقتصادی زون وجود میں آئیں گے جن کی وجہ سے ان علاقوں میں روزگار کے وافر مواقع پیدا ہوں گے اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہو گا-سی پیک کی وجہ سے گوادر کے ساتھ ساتھ کراچی بندرگاہ پہ بھی کام میں اضافہ ہو گا- دوسری جانب سی پیک اور گوادر کی وجہ سے چین کا عالمی اقتصادی طاقت بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا اور چین کی معیشت بھی بیرونی خطرات سے محفوظ ہو جائے گی کیونکہ اگر دنیا کی دو بڑی بحری طاقتیں امریکہ اور بھارت کسی وجہ سے ساؤتھ چائنہ سمندر اور بحرہند کی ناکہ بندی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں یا ان سمندری راستوں پہ اپنی اجارہ داری قائم کر بھی لیں تو سی پیک کی وجہ سے چین کی معیشت بیرونی تجارت کے فوائد اور اثمار سے مستفید ہوتی رہے گی-یہ حقیقت ہے کہ روزگار کی دستیابی اور معیار زندگی میں مثبت تبدیلی آنے کی وجہ سے اس خطے کے لوگوں میں شدت پسندی کم ہو جائے گی اور عدم تحفظ دور ہوجائے گا اور مذکورہ وجوہات کی بناء پر امریکہ و بھارت اور اسرائیل کے جنگی عزائم کو ایشیائی عوام مسترد کر دیں گے جس کی وجہ سے ان جارح مزاج ممالک کی بالادستی اور علاقائی تھانیداری و اثر و رسوخ میں زبردست کمی آجائے گی نیز، دوستی کی وجہ سے بھی اور اپنے تجارتی وفود اور سامان کی حفاظت کے لیے بھی ’’پاک –چائنا‘‘ دفاعی تعاون مزید بڑھے گا اور خطے میں ’’امریکہ-انڈیا ‘‘تعاون کی وجہ سے عدم توازن کی بننے والی فضا میں کمی بھی واقع ہو گی-اس لیے سی پیک منصوبہ امریکہ و بھارت اور ان کے ہمنوا ممالک کے سینے میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے-

جوں جوں یہ منصوبہ تکمیل کی طرف جا رہا ہے پرانے کھلاڑی نئی گروہ بندیاں بنا رہے ہیں،نئی نئی وفاداریاں قائم ہو رہی ہیں،سابقہ رنجشیں اور دشمنیاں قربتوں میں بدل رہی ہیں اور پرانی محبتیں رقابتوں میں تبدیل ہو رہی ہیں- عالمی بساط پہ شہمات سے بچنے کے لیے ان ممالک کو ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ کسی طرح سی پیک منصوبہ کو سبوتاژ کر دیا جائے-اقوام عالم میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ممالک نئی دوستیاں بناتے رہتے ہیں اور آپسی معاہدات سے ان کو مضبوط کرنا بھی معمول کی بات ہے لیکن اگر دو ممالک صرف اس لیے اکٹھے ہوں کہ کسی تیسرے ملک کے فلاحی و تعمیری،اقتصادی و معاشی منصوبوں کو تباہ برباد کیا جائے تو یہ تعلقات معمول کی بات نہیں ہوتے بلکہ اگر انہیں ناجائز تعلقات بھی کہا جائے تو قرین انصاف ہے کیونکہ اس قسم کے تعلقات اخلاقی تقاضوں کو پامال کر کے ہی قائم کیے جاتے ہیں اور اسے سازشی گٹھ جوڑ کہا جاتا ہے-امریکہ اور بھارت کے مابین یہ گٹھ جوڑ آج کل اپنے عروج پہ جا رہا ہے اور پاکستان کے کچھ دوست اور ہمسایہ مسلم ممالک ان کی مکروہ چالبازیوں اور فریب کاریوں کا شکار ہو کر ان سازشوں میں معاون بن رہے ہیں، مذکورہ مقدمہ کے حق میں کچھ دلائل ماضی قریب کے واقعات سے اخذ کیے جا سکتے ہیں اور کڑی سے کڑی ملائیں تو حقیقی صورت نمایاں ہوتی جائے گی:

سی پیک منصوبہ کی تکمیل کے خوف سے ہی امریکی صدر نے کانگرس میں خطاب کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ پاکستان آئندہ دو یا تین عشروں تک امن و امان کی مخدوش صورت حال کا شکار رہے گا- حالانکہ ضرب عضب کے حقائق کی وجہ سے دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال تیزی سے معمول کی جانب آرہی ہے-

باہمی معاہدات کے باوجود محض بھارتی لابنگ کی وجہ سے F-16 طیاروں کی فراہمی سے امریکی انکار: جبکہ یہ پاکستان میں دہشت گردی کےخلاف جاری آپریشنز کے لیے نہایت کارآمد ہیں-

پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو ’’سی پیک‘‘ منصوبہ کے خلاف اکسانا: شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنے مطلوبہ ہدف کو رسائی کے باوجود ایران میں دبوچنے کی بجائے بلوچستان میں ڈرونز سے نشانہ بنایا تاکہ عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کیا جا سکے-لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور حقائق کا ادراک کر کے چین کی وزارت خارجہ نے مذکورہ ڈرون حملہ کے خلاف غیر معمولی بیان دے کر اس اندیشہ کو ختم کر وایا کہ شاید پاکستان عالمی سطح پہ تنہائی کا شکار ہے-

بھارتی ’’را‘‘ کے گرفتار حاضر سروس آفسر کا سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے بارے میں اعترافی بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت سی پیک کے خلاف حکومتی سطح پر چانکیائی پھرتیاں دکھا رہا ہے-

ہزاروں بے گناہوں کے سفاک قاتل بھارتی وزیراعظم مودی کا امریکہ میں پرتپاک، ریڈکارپٹ استقبال اور کانگرس میں خطاب کے اعزاز دینے سے مہذب دنیا کو یہ شبہ ہے کہ کسی وجہ سے امریکی عوام اور حکومت دونوں کا حافظہ کمزور ہو چکا ہے وگرنہ انہیں یہ ضرور یاد ہوتا کہ یہ وہی صاحب ہیں جس کو امریکہ دہشت گرد قرار دے کر اپنا ویزا دینے سے انکار کر چکا ہے-

حد تو یہ ہے کہ جس وقت امریکہ این سی جی میں بھارتی شمولیت کی حمایت کے لیے آسمان سے ستارے توڑنے جا رہا تھا تو عین اس وقت بھارت کی خصوصی عدالت گجرات میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے مقدمہ میں انتہائی متنازع فیصلہ سنا رہی تھی اور اسی فیصلے نے انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں بلکہ بھارت کے چہرے سے سیکولر ریاست کا نقاب بھی نوچ پھینکا-امریکیوں کو یہ کیوں نہیں نظر آیا کہ ہم ایک ایسے ملک کی حمایت کے لیے دیوانے ہوئے جا رہے ہیں جہاں کا عدالتی نظام اقلیتوں کو قتل کرنے کا لائسنس جاری کر رہا ہے اور بھارتی عدالتیں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہندو انتہا پسند ججوں سے بھری پڑی ہیں ، یاد رہے کہ بھارت کی خصوصی عدالت نے گجرات میں اُنہتر(۶۹)مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے کے مقدمہ میں چھتیس(۳۶)ملزموں کو بری کر دیا جب کہ چوبیس(۲۴) مجرموں کو محض قید سنائی اور کسی ایک کو بھی موت کی سزا نہیں سنائی گئی- بھارت کو چھ (۶)ایٹمی ری ایکٹر دینے کا معاہدہ کرنے والوں کو یہ کیوں نہیں دکھائی دیتا کہ ایک مسلمان کو گاؤکشی کے شبہ میں گھر سے نکال کر بیہمانہ تشدد سے قتل کیا جاتا ہے-اُنہتر(۶۹)مسلمانوں کو زندہ جلانے والوں اور بے گناہ معصوم خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کو صرف سات (۷)سال قید جب یہ آواز خود بھارت میں باضمیر اور باشعور ہندو اٹھا رہے ہوں تو حیف ہے عالمی برادری پر کہ وہ کیوں انجان بن رہی ہے کہ مذکورہ عدالتی فیصلہ ہندو انتہاء پسندی اور مذہبی غنڈہ گردی بڑھانے کا سبب بنے گا اور بھارت میں مسلمانوں کا جینا مزید دوبھر ہو جائے گا-

ان سب حقائق کے باوصف اگر بھارت کوامریکی آشیر باد حاصل رہتی ہے اور وہ ایسے ملک کی حوصلہ افزائی جاری رکھتا ہے جو امریکی عوام کے ضمیر و شعور سے ذرہ برابر بھی مطابقت نہیں رکھتا اگر پھر بھی امریکی عوام یہ برداشت کرتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ ایسے ملک میں لگایا جائے کہ جہاں اقلیتیں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں تو پھر یہ کہنا قرین انصاف ہے کہ امریکی عوام اپنے پالیسی سازوں کی ذہنیت سے واقف ہی نہیں-دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ بھارت عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ایشیا کی ترقی کے عظیم منصوبے ’’سی پیک‘‘ کو سبوتاژ کرنے کی قابل مذمت کوششیں کر رہا ہے اور جب تک مذکورہ منصوبہ کی تکمیل کی امید برقرار رہے گی بعض ممالک بھارتی جرائم سے چشم پوشی کرتے رہیں گے-لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے سی پیک منصوبہ کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی ہے اور پاکستانی عوام کو اس ضمانت پہ مکمل یقین ہے کہ یہ منصوبہ پاک افواج کی محافظت میں ضرور مکمل ہو کر رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ-

پاکستان میں دہشت گردی کا جائزہ لیں تو اس کے تانے بانے افغانستان میں سویت یونین روس کی مداخلت امریکہ کی جانب سے اس کی مزاحمت اور پاکستان کی اس مزاحمتی جنگ میں شمولیت سے جا ملتے ہیں، روس کے نکلنے اور مجاہدین کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان کے اندر تخریب کاری میں کچھ کمی آئی سویت یونین کے خاتمے کے بعد وسط ایشیاء میں کئی نئے ملک وجود میں آگئے ان کی اکثریت مسلم ملکوں کی تھی جہاں اسلام کا احیاء ہوا،سویت یونین سے آزادی کے بعد ان ملکوں کو بندرگاہ کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور کراچی پورٹ سے قریب بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہوا اور چین کے تعاون سے اس کی تعمیر کا آغاز ہو گیا، بھارت سمیت بعض علاقائی ممالک کو یہ منصوبہ پسند نہیں آیا، یا انہیں اس پروجیکٹ کے ذریعہ پاکستان کی ممکنہ ترقی و خوشحالی پسند نہیں آئی،گوادر بندرگاہ منصوبے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری کی نئی لہر کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں علیحدگی کی نام نہاد تحریک شروع ہو گئی بلکہ شروع کرا دی گئی، کسی ملک پر الزام لگانے کے بجائے، دہشت گردی کی اس نئی لہر کا تجزیہ کریں اور ملکی و علاقائی حالات و واقعات اور پڑوسی ملکوں کے ہمارے دیرینہ دشمن ہندوستان کے ساتھ بڑھتے تعلقات خصوصاً گوادر بندرگاہ کے مقابل پڑوس میں نئی بندرگاہ کی تعمیر، توسیع و ترقی کے لیے تین ملکی کوششوں و معاہدے کا جائزہ لیں تو حقائق خود بخود سامنے آجاتے ہیں، بھارتی اخبار ہندو لکھتا ہے:

’’چہا بہار بندرگاہ سے بھارت کو وسط ایشیائی ممالک تک آسان رسائی مل جائے گی‘‘ -

افغانستان، پاکستان کو بائی پاس کر کے بھارت سے براہِ راست تجارت کر سکے گا،چہابہار کے ذریعہ ایران ،افغانستان اور انڈیا کو وسط ایشیاء کی نئی مارکیٹوں تک رسائی مل جائے گی ’’دی ڈپلومیٹ‘‘ لکھتا ہے:

’’چہابہار پورٹ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کی براہ راست اسٹرٹیجک مقابل اور مسابقت ہے‘‘ –

بھارتی میڈیا کے مطابق چہا بہار بندرگاہ پر ایران اور بھارت کے درمیان مذاکرات و معاملات ۲۰۰۸ءسے جاری ہیں، تاہم ایران پر مغربی پابندیاں ختم ہونے کے بعد اس میں تیزی آئی، گزشتہ ماہ نئی دہلی میں ایران، افغانستان اور انڈیا کے نمائندوں نے چہابہار بندرگاہ کے معاہدے کو حتمی شکل دی اور معاہدے کی دستاویز تیار کیں،اس معاہدے پر تینوں ملکوں کے سربراہان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، ایرانی صدر حسن روحانی اور افغان صدر اشرف غنی نے دستخط کیے،چہابہار بندرگاہ معاہدے میں ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کوریڈور بھی شامل ہے، چہابہار بندرگاہ پاکستانی گوادر پورٹ اور تینوں ملکوں کے ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کوریڈور پاک چین اکنامک کوریڈور کے مقابل ہے، بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق سہ فریقی معاہدہ چہابہار بندرگاہ کے استعمال کو نمایاں طور پر بڑھائے گا، افغانستان میں اقتصادی ترقی کا سبب بنے گا، علاقائی ملکوں کے درمیان بہتر رابطے پیدا کرے گا اور انڈیا و افغانستان کو وسط ایشیائی ملکوں تک آسان رسائی فراہم کرے گا،چہابہار بندرگاہ اور ٹرانزٹ کوریڈور سے تینوں ملکوں اور علاقائی ممالک کے درمیان سامان کی نقل و حمل اور لوگوں کی آمدورفت بڑھے گی، بھارت، چہابہار، زاہدان، مشہد ریلوے لائن بھی بچھائے گا جس کے ذریعہ یہ دونوں شہر اور مشرقی سرحد کے علاقے چہابہار بندرگاہ سے مل جائیں گے مکمل ریلوے لائن تیرہ سو تیس(۱۳۳۰) کلو میٹر طویل ہو گی، بھارت چہابہار بندرگاہ پر جیٹیاں اور برتھ بنانے کے لیےایک سو پچاس (۱۵۰)ملین ڈالر فراہم کر چکا ہے اورچار سو(۴۰۰) ملین ڈالر کی اسٹیل ریل کی فراہمی سمیت دیگر اقدامات بھی کیے ہیں،انڈیا نے بیس (۲۰)ارب ڈالر ایرانی بندرگاہ کی ڈویلپمنٹ کے لیے مختص کیے ہیں-

یاد رہے کہ گزشتہ برس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جب ایران گئے وہاں چہابہار بندرگاہ منصوبے اور شمال جنوب اقتصادی راہداری منصوبے پر ایران و افغان صدور کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے- مودی کی تہران آمد سے قبل بھارت نے تیل کی ادائیگی میں روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ کے تنازع کے باعث چھ (۶)ارب ڈالر کے بقایا جات کو سود سمیت ادا کرنے کا اعلان کیا تھا-ایرانی صدر روحانی نے ہندوستان کو اپنا انتہائی قابل اعتماد شراکت دار اور دوست قرار دیا تھا اورکہا تھا کہ ’’چہابہار بندرگاہ شراکت داری کا نیا عہد ہے- جو خطے کو ملا دے گا-‘‘مودی کی ایران روانگی سے قبل بھارتی وزارت خارجہ کے افسر گوپال بگلے نے بتایا کہ مودی نے چہابہار پر دو ٹرمینل اور کارگو برتھوں کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے، افسر کے مطابق ابتدائی طور پر بھارت اس بندرگاہ پر بیس (۲۰)کروڑ ڈالر سے زائد خرچ کرے گا-جس کے لیے ایگزم بینک انڈیا کو پندرہ کروڑ ڈالر فراہم کرے گا-گوپال کا کہنا تھا کہ دورے کے دوران ایک تجارتی و ٹرانسپورٹ راہداری منصوبے پر بھی دستخط ہوں گے جس میں چہابہار مرکز کے طور پر کام کرے گی اس کو سڑک و ریل کے ذریعہ افغانستان سے ملایا جائے گا تاکہ افغانستان کو کراچی کی بجائے ایرانی بندرگاہ متبادل کے طور پر مل جائے، بھارتی افسر کا کہنا تھا کہ چہابہار معاہدہ علاقائی رابط کاری میں کھیل بدلنے والے (گیم چینجر) ثابت ہو گا-اس سے افغانستان کو سمندر کے راستے انڈیا تک قابل بھروسہ راستہ حاصل ہو سکے گا -

’’بی بی سی‘‘ کا کہنا ہے کہ چہابہار بندرگاہ منصوبہ انڈیا کی زیر نگرانی ہو گا چہابہار فری ٹریڈ زون میں متعدد انڈین کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں بی بی سی نے بتایا کہ ایران انڈیا تعلقات ہمیشہ قریبی رہے ایران میں ایک سروے کے مطابق ایرانیوں میں انڈیا کی مقبولیت ستر(۷۰) فیصد تھی، جو دنیا کے تمام ملکوں سے بہت زیادہ ہے، ایرانی طلباء کی بڑی تعداد ہندوستانی یونیورسٹیوں کی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں زیر تعلیم ہے، بی بی سی کا کہنا ہے کہ بھارت، ایران و افغانستان کے ساتھ مل کر وسط ایشیاء تک رسائی کے متبادل راستے حاصل کرنا چاہتا ہے، افغانستان کو شامل کر کے پاکستان کو خطے میں تنہا اور الگ تھلگ کرنا بھی ایران سے انڈیا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی حکمت عملی کا حصہ ہے ایران اور بھارت جنوبی ایرانی چہابہار بندرگاہ کی تعمیر اور آپریٹ کرنے کے معاہدے پر بھی دستخط کر چکے ہیں جس کا مقصد افغانستان اور وسط ایشیا سے رسائی کو بڑھانا ہے،تہران میں انڈین سفیر نے بتایا کہ دونوں ملک چہابہار فری ٹریڈ زون کی تعمیر میں تعاون کر رہے ہیں اور بندر عباس سے جنوب، شمال راہداری منصوبہ شروع کرنے کے لیے ایران افغانستان، انڈیا کے سربراہان دستخط کریں گے، انڈیا چہابہار بندرگاہ کو آپریشنل کرنے کی دس (۱۰)سالہ ذمہ داری قبول کرے گا،انڈیا خلیج فارس میں فرزاد بی گیس فیلڈ کے پہلے مرحلے کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کرے گا، یہاں گیس بھارتی کمپنی اور این جی سی ویدیش نے دریافت کی تھی-اس مرحلے پر اگر ہم صرف انڈیا اور ایران پر الزام تراشی ہی کرتے رہیں تو مناسب نہیں ہو گا-اپنی ماضی کی کوتاہیوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ ہم نے امریکی غلامی میں امریکہ سے زیادہ وفاداری نبھانے کے لیے اور فرقہ وارانہ دباؤ کے پیشِ نظر ایران گیس پائپ لائن معاہدہ ہی توڑ دیا جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے- پاکستان کو اب بھی ایران سے تعلقات کا جائزہ لے کر اسے بھارتی تسلط سے نکالنا ہو گا - (لیکن یہ کام کرے گا کون؟)

اِس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ڈگمگاتی عرب معیشتوں پہ بھی براستہ امریکہ،اسرائیل کا دباؤ ہے کہ وہ بھارت کے قریب ہوں اور خطے میں پاکستان کی بجائے بھارتی مفادات کو عزیز سمجھیں  - عرب دُنیا میں بھارتی خوشنودی کے حصول کےلئے مندروں کا کھولا جانا بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس سے ہمیں بھارت کے غیر معمولی منصوبوں کو سمجھنا چاہئے کہ ایک طرف ایران گوادر کی مقابلہ بازی میں بھارت کی گود میں بیٹھا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک بھی چانکیائی لوریاں لے رہے ہیں- بھارت پاکستان کا ازلی و ابدی اور دائمی دُشمن ہے وہ جو موقعہ بھی پائے گا پاکستان پہ وار ضرور کرے گا ، اس لئے جب ہم سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں اور ایک روشن مستقبل کی جانب گامزنِ عمل ہیں تو ہمیں اپنے پہ لازم کرنا ہوگا کہ خطے کے حالات پہ نظر کو گہرا رکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے رہیں کہ بھارت سی پیک منصوبہ کو سبو تاژ کرنے کےلئے پاکستان میں دہشت گردی سپانسر کرنے کےساتھ ساتھ اور کیا کر رہا ہے ؟

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر