جونا گڑ ھ کا الحاقِ پاکستان سرکاری دستاویزات کی روشنی میں

جونا گڑ ھ کا الحاقِ پاکستان سرکاری دستاویزات کی روشنی میں

جونا گڑ ھ کا الحاقِ پاکستان سرکاری دستاویزات کی روشنی میں

مصنف: محمد محبوب نومبر 2022

تعارفی کلمات:

“Pakistan will not allow Junagadh to be stormed and tyrannized”.[1]

’’پاکستان (بھارت کو) جوناگڑھ پر دھاوا بولنے اور ظلم کرنے کی اجازت نہیں دے گا‘‘-

یہ الفاظ عام شخصیت کے نہیں بلکہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں-آپ کے یہ الفاظ ریاست جوناگڑھ کے پاکستان سے الحاق سے قبل کے ہیں-یہ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی گجرات کاٹھیاواڑ کے مسلمانوں اور ریاست جونا گڑھ کے ساتھ دلی وابستگی کا گہرا تعلق ہے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم ہند دو قومی نظریہ کے بنیاد پر ہوئی تھی لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ برصغیر پر برطانوی اقتدار ختم ہونے کے بعد شاہی ریاستیں آزاد اور خودمختار ہو گئیں تھیں جس کی بنا پر آزادی ہند کے قانون 1947ء کے تحت انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مکمل حق حاصل تھا-[2]

 لیکن شاہی ریاستوں کے حق پرڈاکہ ڈالا گیا-اس وقت کی بھارتی قیادت گاندھی، نہرو، پٹیل اور مینن وغیرہ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر دھونس دھاندلی، جعل سازی، دھوکہ دہی اور ڈرا دھمکا کر جس طرح شاہی ریاستوں پر دباؤ ڈال کر بھارت کے ساتھ الحاق کروایا ہم اس سارے عمل سے غافل تو ہو سکتے ہیں، دنیا ان سے آنکھیں تو چرا سکتی ہے لیکن تاریخی حقائق کو اوراق سے ختم کرنا آسان نہیں-

زیر نظر مضمون میں ریاست جونا گڑھ کے الحاقِ پاکستان کے وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان سرکاری سطح پر ہونے والی خط و کتابت سے استفادہ کیا جائے گا اور اس وقت کے ریاست جونا گڑھ کے نواب کی بانیٔ پاکستان( گورنرجنرل) اور وزرائے اعظم کی سطح پر ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں گے- مزید اُس وقت کے حالات و واقعات کو اس مضمون کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ان کا جونا گڑھ کاالحاقِ پاکستان کے متعلق کیا مؤقف اور نقطۂ نظر تھا-

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب آف جوناگڑھ سرمہابت خانجی کے درمیان گفتگو:

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب آف جوناگڑھ سرمہابت خانجی کے درمیان عزت و احترام اور باہمی اعتماد کا رشتہ تھا- بلکہ یوں کہیں توکوئی دو رائے نہ ہوگی کہ نواب صاحب کا الحاق پاکستان کا فیصلہ اور انڈیا کے دباؤ کے باوجود اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے سامنے عملی کردار قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات ہی تھی- نواب صاحب اور جونا گڑھ کے متعلق بانیٔ پاکستان کے حوصلہ افزاء بیانات ہی بھارتی یلغار کے سامنے آپ کا حوصلہ اور ہمت باندھتے تھے-اس وقت  کےدیوان آف جوناگڑھ سر شاہ نواز بھٹو بانیٔ پاکستان کے نام خط اس بات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“Your further assurance ......gave His Highness immense relief. He was extremely grateful to you and was very happy to receive such sympathetic and encouraging response’’. [3]

’’آپ کی مزید یقین دہانی سے عالیجاہ (نواب آف جوناگڑھ نواب سر مہابت خانجی صاحب) کو بہت راحت ملی- وہ آپ کے بے حد مشکور تھے اور اس طرح کا ہمدردانہ اور حوصلہ افزا جواب پا کر بہت خوش تھے‘‘-

نواب صاحب کے بانی پاکستان کو پاکستان بننے کی خوشی میں مبارکباد دینے کے حوالےسے لکھے گئے خط سےمعلوم ہوتا ہے کہ آپ بانی پاکستان کو دنیا کی عظیم مسلم ریاست پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بننے کی مبارکباد دینے کے ساتھ ہی جونا گڑھ کا الحاق پاکستان کا اعلان کرتے ہیں- آپ لکھتے ہیں:

“I have decided to federate with Pakistan Dominion and make declaration to that effect before 15th August 1947”.[4]

’’میں نے وفاقِ پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور 15 اگست 1947ء سے پہلے اس کا اعلان کر دیا ہے‘‘-

اس اعلان کے ساتھ ہی نواب صاحب اپنے ذاتی سیکرٹری جناب اسماعیل ابراہانی کو جونا گڑھ کے الحاق کی شرائط طے کرنے کے لیے پاکستان بھیجتے ہیں-

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اپنے 12 اگست 1947ء کے خط میں، نواب صاحب کا نئی مملکت پاکستان اور ان کے لئے نیک تمناؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا ہے-[5]

15 اگست 1947 کو لکھے گئے خط بنام بانی پاکستان میں نواب صاحب باقاعدہ الحاق پاکستان کا اعلان کرتے ہیں کہ:

“My Government have decided to accede to Pakistan and, Join Pakistan Constituent Assembly”.[6]

’’میری حکومت نے پاکستان سے الحاق اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے‘‘-

ریاست جونا گڑھ نے 15 اگست1947 کو الحاق پاکستان کا فیصلہ کیا اور یہ اعلامیہ 16 اگست کو دستور العمل سرکار میں شائع ہوا-[7]

بھارت نے دوسری شاہی ریاستوں کی طرح نواب آف جونا گڑھ پر بھی بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر  غیر قانونی دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن نواب صاحب آف جونا گڑھ نواب سر مہابت خانجی اپنے اور سٹیٹ  کونسل آف جونا گڑھ کے الحاقِ پاکستان کے فیصلے پر استقامت سے ڈٹے رہے - آپ بانی پاکستان کے نام 31 اگست 1947ء کو اپنے پیغام میں لکھتے ہیں کہ:

’’اخباری اطلاعات سے آپ کو علم ہو گیا ہوگا کہ جونا گڑھ (الحاق پاکستان کے فیصلے پر) ہر جانب تنقید کی بوچھاڑ ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں-[8]

نواب صاحب کا یہ عزم؛ استقامت اور استقلال کی عکاسی ہے بلکہ پاکستان سے محبت و عقیدت کو ظاہر کرتا ہے-

ریاست جونا گڑھ پر پاکستان اور بھارت کے گورنر جنرل اور وزرائے اعظم کی سطح پر گفتگو:

جونا گڑھ کا الحاقِ پاکستان کے بعد پیش آنے والے مختلف حالات واقعات، ریاست پر بھارتی قبضہ اور اس کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے گورنرز جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن، وزیر اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان (شہید) اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان جونا گڑھ کے مسئلے پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا- دونوں اطراف سے ہونے والی گفتگو سے نہ صرف ریاست جونا گڑھ میں ہونے والے حالات و واقعات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس پر دونوں ممالک کا سرکاری مؤقف بھی سمجھا جاسکتاہے-

ریاست جونا گڑھ نے 9 ستمبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ’’معاہدہ جاریہ‘‘ (Stand Still Agreement) پر دستخط کئے اور اس کے ساتھ ساتھ الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession ) کی شرائط پر بھی بات چیت ہوئی- بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو پاکستان کے وزیر اعظم کے نام 12 ستمبر 1947ء کو لکھے گئے خط میں اس بات کا ذکر کرنے کے بعد یہ دلیل دیتے ہیں کہ جونا گڑھ زمینی طور پر پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے اور اس کی اکثریت ہندوؤں کی ہے اور انہوں نے ریاست جونا گڑھ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ الحاق کریں- اس کے علاوہ وزیر اعظم نہرو، عوام کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے پاکستان اور ریاست جوناگڑھ کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ اگر جونا گڑھ پاکستان سے الحاق کرتا ہے تو بھارت سے توقع نہ رکھی جائے کہ بھارت ایسے فیصلے کو قبول کرے گا-

“The Government of India cannot be expected to acquiesce to such an arrangement”.[9]

’’حکومت ہند سے اس طرح کے معاہدے پر رضامندی کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے‘‘-

جب پاکستان اور ریاست جونا گڑھ کے باقاعدہ الحاق کی دستاویز پر دستخط ہوئے تو بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ اس فیصلے کو بھارتی خودمختاری اور زمین پر دست اندازی یا مداخلت تصور کیا جائے گا جو کہ دو ریاستوں کے مابین دوستانہ تعلقات میں غیر مطابقت رکھتا ہے-

“Such acceptance of accession by Pakistan cannot but be regarded by the Government of India as an encroachment on Indian sovereignty and territory and inconsistent with the friendly relations that should exist between the two Dominions”. [10]

’’پاکستان کی طرف سے الحاق کی اس طرح کی منظوری کو حکومت ہند کی طرف سے ہندوستانی خودمختاری اور سرزمین پر تجاوز اور ان دوستانہ تعلقات سے مطابقت نہیں سمجھا جا سکتا جو دونوں ممالک کے درمیان ہونے چاہئیں‘‘-

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر رہے کہ وزیر اعظم نہرو، لیاقت علی خان سے جونا گڑھ اور بھارت کی زیر نگرانی میں رائے شماری (plebiscite) کا مطالبہ کرتے ہیں- حالانکہ اخلاقی اور قانونی طور جب جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو چکا تھا تو پاکستان نہ صرف فریق بن گیا تھا بلکہ مواصلات اور خارجہ امور پاکستان کے پاس تھے- وزیر اعظم نہرو یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ ریاستیں اپنا فیصلہ لینے میں آزاد ہیں لیکن ہماری رائے میں (In our opinion) جغرافیائی حیثیت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے- یہاں "in our opinion" کے الفاظ انہی بھارتی دوہرے معیارات کو بے نقاب کرتے ہیں جو انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مل کر تقسیم ہند کے وقت اصول و ضوابط کی من  پسندتشریح کر کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تھے اور ریاستوں کے حکمرانوں کو ڈرا دھمکا کر زبردستی ان ریاستوں کا الحاق بھارت کے ساتھ کروایا-

لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھارتی قیادت سے چونکہ سیبوں کی بھری ہوئی ٹوکری ’’Basket full of apples‘‘کے وعدے کی وجہ سے گورنر جنرل آف انڈیا بنے تھے، اس لیے تقسیم ہند کے اصول و ضوابط سے ہٹ کر بھارتی موقف کی ترجمانی کرتے رہے- جس کی ایک جھلک بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 22 ستمبر کے خط میں پاکستان کا الحاق ریاست جوناگڑھ کو قبول کرنے کے فیصلے کے نتائج بھگتنے کی دھمکی دے کرکرتے ہیں کہ اگر پاکستان نے اس فیصلے پر دوبارہ نظر ثانی نہ کی تو اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوگی-

“If matter is not reconsidered, responsibility of consequences must, I am compelled to inform you, rest squarely on shoulders of the Pakistan Government”.[11]

’’میں آپ کو بتانے پر مجبور ہوں کہ اگر معاملے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو نتائج کی ذمہ داری حکومت پاکستان کے کندھوں پر ہے‘‘-

اس تناظر میں بانیٔ پاکستان کا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو 25 ستمبر کا جواب بہت اہم ہے جس میں آپ نے دلائل کے ساتھ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے جونا گڑھ پہ جھوٹ کو بے نقاب کیا- قائد اعظم جواباً لکھتے ہیں کہ :

’’ریاستوں کی حیثیت پر بار ہا اتفاق کیا گیا ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے سقوط کے بعد ہر ریاست آزاد اور خودمختار ہوگی اس لئے اب آپ نئے کلیات وضع کر کے ریاستوں کے آزادانہ حق انتخاب کو محدود کرنا چاہتے ہیں-ریاستوں کا مسئلہ علیحدہ طور پر طے ہوا تھا اور اس کی نوعیت بھی مختلف ہے- اس لئے جونا گڑھ کسی اور ریاست کی طرح پاکستان میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہے جو اس نے استعمال کیا ہے-آپ کے اظہار رائے میں پاکستان کیلیے دھمکی پوشیدہ تھی- ہندوستان کو جونا گڑھ پر علاقائی یا کسی اور طرح کی خودمختاری کا حق حاصل نہیں ہے- یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کس طرح ہندوستان کی خود مختاری میں دخل اندازی اور باہمی تعلقات کی خلاف ورزی ہے-جہاں تک استصواب رائے کا تعلق ہے یہ معاملہ جونا گڑھ کے حکمران جو آئینی طور پر خود مختار ہیں اور وہاں کے عوام کے درمیان طے ہونا چاہیے- ( بانیٔ پاکستان جونا گڑھ کے الحاق پاکستان کی دستاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فرما رہے ہیں جس کے مطابق ریاست جونا گڑھ کے نواب کو دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ خودمختاری حاصل تھی)- تمام حقائق کی روشنی میں حکومت پاکستان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ہندوستان اپنی پالیسی اور عمل سے پاکستان کی خودمختاری میں دخل اندازی کر رہی ہے‘‘-[12]

(قائد اعظم نے اپنے خط میں یہ واضح کر دیا ہے کہ نہرو اور ماؤنٹ بیٹن پاکستان پر الزام لگار ہے تھے اور جو آئین و قانون بنا تھا اس کی سری خلاف ورزی کر رہے تھے- اس لئے قائد اعظم کا یہ مؤقف تھا کہ پاکستان نے کسی کی خود مختاری میں دخل اندازی نہیں کی بلکہ ہندوستان نے پاکستان اور ریاستِ جونا گڑھ  کی خود  مختاری میں دخل اندازی کی ہے -اس لحاظ سے حالات کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں  بلکہ ہندوستان پر عائد ہوتی ہے-)

بھارت کی طرف سے12 ستمبر 1947ء کا خط چونکہ لارڈ اسمےذاتی طور پر کراچی لایا تھااور اس پر کوئی سرکاری سطح پر دستخط نہیں تھے تو بانیٔ پاکستان، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جواباً لکھتے ہیں کہ اس خط کو سرکاری (officially) نہیں سمجھا گیا ہے-

29 ستمبر کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن دوبارہ جونا گڑھ پر بھارتی پوزیشن کا اعادہ کرتے ہوئے لارڈ اسمے کے خط کی دوبارہ تصدیق کرتے ہیں-

بھارتی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی موجودگی میں یکم اکتوبر 1947ء کو دہلی میں وزیراعظم پاکستان اور بھارت کے درمیان ملاقات میں دوسرے مسائل کے علاوہ جونا گڑھ کے مسئلے پر بھی تفصیلاً گفتگو ہوتی ہے- اس دوران منگرول، بابریواد کی قانونی حیثیت اور دوسرے مسائل کا تذکرہ ہونے کے ساتھ ساتھ جونا گڑھ کے ارد گرد بھارتی فوج جمع ہونے پر گفتگو ہوتی ہے- اس کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان، جونا گڑھ کا الحاق پاکستان قبول کرنے کی وجہ تفصیلاً بتاتے ہیں- لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بقول:

“Mr. Liaquat Ali Khan said that they had spent more than a fortnight considering whether to accept Junagadh’s offer to accede, since they realized the various difficulties that this would raise. However, in view of the fact that the Government was a Muslim Government, and that Junagadh was such a short distance from Pakistan, and that the ports of Veraval and Karachi were within easy reach of each other, they felt that they should not turn down the Nawab’s offer”.[13]

’’جناب لیاقت علی خان نے کہا کہ انہوں نے پندرہ دن سے زیادہ اس بات پر غور کیا کہ آیا جوناگڑھ کی طرف سے الحاق کی پیشکش کو قبول کیا جائے، کیونکہ انہیں ان مختلف مشکلات کا احساس ہے جو اس سے پیدا ہوں گی-تاہم، اس حقیقت کے پیش نظر کہ حکومت ایک مسلم حکومت تھی اور جوناگڑھ پاکستان سے قدرے تھوڑے فاصلے پر تھا اور ویراول اور کراچی کی بندرگاہیں (کم سمندری فاصلہ ہونے کی وجہ سے) بآسانی ایک دوسرے کی پہنچ  میں تھیں،(اس لئے) انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں نواب کی پیشکش کو ٹھکرانا نہیں چاہیے‘‘-

آگے کے دنوں میں سرکاری سطح پر دونوں وزرائے اعظم کے درمیان خطوط کے ذریعے منگرول اور بابریواد کے مسئلہ پر گفتگو رہتی ہے- یہاں یہ بات واضح رہے کہ ریاست جونا گڑھ، منگرول اور بابریواد پر اپنا دعویٰ کرتی تھی اور برطانوی اقتدار ختم ہونے کے بعد جونا گڑھ نے یہ دعویٰ کیا کہ منگرول اور بابریواد چونکہ جونا گڑھ کے ماتحت ہیں اس لئے ان ریاستوں کو آزاد فیصلہ کرنے کی کوئی خودمختارانہ حیثیت حاصل نہیں ہے- بلکہ یہ ریاستیں جونا گڑھ کی خودمختاری میں آتی ہیں-قانونی حیثیت کی وجہ سے یہ ریاستیں کسی کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے آزاد نہیں ہیں- اس معاملے پر پاکستان کا بھی واضح موقف رہا ہے جیساکہ:

“The correct legal position is that neither Mangrol nor Babariawad have any independent constitutional status and therefore are not free to accede to any Dominion on their own initiative. In fact both are part and parcel of Junagadh State”.[14]

’’صحیح قانونی نقطہ یہ ہے کہ نہ ہی منگرول اور نہ ہی بابریواد کی آزاد آئینی حیثیت ہے اور اس لئے ان کو کسی بھی حکومت کے ساتھ اپنے طور پر الحاق کرنے کا حق حاصل ہے-حقیقت میں دونوں ریاست جونا گڑھ کے حصے ہیں‘‘-

وزیراعظم نہرو کے 21 اکتوبر کے جواب میں 23 اکتوبر کے اپنے خط میں لیاقت علی خان، جونا گڑھ میں رائے شماری Referendum)) پر پاکستان کا مؤقف واضح کرتے ہیں کہ:

Our position was and still is that we are prepared to discuss conditions and circumstances in which a plebiscite or referendum should be held in any State or States. You must have, no doubt, realized that Junagadh is not the only State regarding which this question arises and that is why we advisedly said “any State or States”.[15]

’’ہمارا مؤقف تھا اور اب بھی ہے کہ ہم ان شرائط اور حالات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں جن میں کسی بھی ’’ریاست یا ریاستوں‘‘ میں رائے شماری یا ریفرنڈم ہونا چاہیے- آپ کو یقیناً یہ احساس ہوا ہوگا کہ جوناگڑھ واحد ریاست نہیں ہے جس کے بارے میں یہ سوال اٹھتا ہے اور اسی لیے ہم نے مشورہ دیا کہ ’’کوئی بھی ریاست یا ریاستیں‘‘-

مزید نوابزادہ لیاقت علی خان اس بات کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ مسئلے کا پر امن حل اس وقت نکل سکتا ہے جب بھارت جونا گڑھ کے الحاق پاکستان پر اپنے جارحانہ ردعمل کو ترک کر دے-

“A peaceful settlement is only possible if you give up your present aggressive attitude and withdraw your forces from the territories in question in order to restore the state of affairs which prevailed when Junagadh acceded to Pakistan”.[16]

’’ایک پرامن تصفیہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ اپنا موجودہ جارحانہ رویہ ترک کر دیں اور اپنی افواج کو زیر بحث علاقوں سے واپس بلا لیں تاکہ جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت جو ریاستی معاملات چل رہے تھے اسے بحال کیا جا سکے‘‘-

26 اکتوبر کو وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اپنے جواب میں لیاقت علی خان کو ریاست یا ریاستیں (State or any state) جہاں پر تنازع ہو اس میں رائے شماری کی یقین دہانی کرواتے ہیں لیکن بھارتی دعووں کے برعکس زمینی حقائق بالکل مختلف تھے- مناوادر پر بھارت قبضہ کر چکا تھا- بھارتی قیادت کی سرپرستی میں بننے والی نام نہاد عارضی حکومت کے اہلکاروں نے ریاست کے اندر ریاست بنا لی تھی- اس عارضی حکومت کے مسلح افراد نے ریاست میں افراتفری کا ماحول بنا دیا تھا-اس کے علاوہ جونا گڑھ کے اردگرد بھارتی فوج جمع کردی گئی، اور کچھ علاقوں میں داخل ہو کر لوٹ مار کرنے کے بعد ان پر قبضہ کر لیا- جونا گڑھ کے الحاق پاکستان کے فیصلے کے بعد بھارتی دفاعی کمیٹی ، جونا گڑھ پر ملٹری ایکشن پلان ترتیب دے چکی تھی کہ جونا گڑھ کے مسئلے پر کسی بھی قسم کی کمزوری نہیں دکھائی جائے گی -

9 نومبر کو بھارت جب ملٹری ایکشن کے ساتھ جونا گڑھ پر قبضہ کر لیتا ہے تو وزیر اعظم بھارت اپنے9 اور 10 کے خط میں، پاکستان کے وزیر اعظم کو خط میں اس کی اطلاع دیتے ہیں کہ ہمارے راجکوٹ کے ریجنل کمشنر نے عارضی بنیاد پر جونا گڑھ کا چارج سنبھال لیا ہے -

“Our Regional Commissioner at Rajkot has taken temporary charge of Junagadh administration”.[17]

’’راجکوٹ میں ہمارے علاقائی کمشنر نے جوناگڑھ انتظامیہ کا عارضی چارج سنبھال لیا ہے‘‘-

اپنے 11 نومبر کے خط میں لیاقت علی خان ، جواہر لعل نہرو کو لکھتے ہیں کہ چونکہ ریاست جوناگڑھ کا پاکستان سے الحاق ہو چکا ہے اس لئے نہ تو نواب اور نہ ہی دیوان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کر سکیں- جونا گڑھ پہ بھارتی قبضہ پاکستان کی زمینی خودمختاری اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے -

‘‘You are aware that Junagadh has duly acceded to Pakistan Dominion. It would therefore have been clear to you that neither the Dewan nor, for that matter, the Ruler himself can negotiate any settlement either temporary or permanent with the India Dominion. Pakistan Government has given no authority to the Dewan to negotiate with you and we emphatically challenge India Dominion’s right to enter Junagadh territory. Your action in taking over the State administration and sending Indian troops to the State without any authorization from Pakistan Government and indeed without our knowledge is a clear violation of Pakistan territory and breach of International Law”.[18]

’’آپ کو معلوم ہے کہ جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ ایک مناسب طریقہ کار کے تحت الحاق کیا ہے- اس لیے یہ بات آپ پر واضح ہو گئی ہو گی کہ نہ تو دیوان اور نہ ہی اس معاملے کے لیے، حکمران خود ہندوستان حکومت کے ساتھ عارضی یا مستقل کسی بھی تصفیے پر بات چیت کر سکتا ہے-حکومت پاکستان نے دیوان کو آپ کے ساتھ بات چیت کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا ہے اور ہم بھارت کے جوناگڑھ کے علاقے میں داخل ہونے کے حق کو سختی سے چیلنج کرتے ہیں-ریاستی انتظامیہ پر قبضہ کرنے اور حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر اور ہمارے علم کے بغیر ہندوستانی فوجیوں کو ریاست میں بھیجنے کا آپ کا اقدام پاکستان کی سرزمین کی صریح خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘-

جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کے بعد بھی دونوں رہنماؤں کےمابین اس معاملے پر سرکاری سطح پر گفتگو جاری رہی- اپنے 16 نومبر کے خط جہاں لیاقت علی خان نے وزیراعظم نہرو کو بھارتی سر زمین سے پروان چڑھنے والی عارضی حکومت کی کاروائیوں کا تذکرہ کیا وہیں آپ نے یہ بات بھی باور کروائی کہ الحاق کے بعد دیوان آف جوناگڑھ کو کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ بھارت کو جونا گڑھ کے انتظامات سنبھالنے کی تجویز پیش کریں اور بھارت کو بھی ایسی کسی نام نہاد تجویز کو قبول کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے- پاکستان کی طرف سے بھارتی اقدامات اور اشتعال انگیزی پر زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی وجہ دونوں ممالک کے مابین فوجی تنازعہ سے بچنا تھا-

وزیر اعظم بھارت کے 17 نومبر کے خط جس میں انہوں نے عارضی حکومت سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی تو لیاقت علی خان نے اپنے 22 نومبر کے جواب میں واضح مؤقف اپنایا کہ بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر جونا گڑھ کے لئے ایسے حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے ریاست میں نظم و نسق کی صورتحال تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی-

“India Government deliberately created conditions which brought administration in Junagadh to the verge of breakdown”.[19]

’’ہندوستانی حکومت نے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے جس نے جوناگڑھ میں انتظامیہ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا‘‘-

اختتامیہ:

اس مختصرا مضمون میں طوالت سے بچنے کے لئے بنیادی ذرائع سے تاریخی طور پراہم اور سرکاری سطح پر ہونے والی گفتگو سے جونا گڑھ کے مسئلے پر دونوں ممالک کی قیادت کا نقط نظر سمجھنے کی سعی کی گئی ہے- اس گفتگو کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف بھارتی ہٹ دھرمی ،سازشیں اور دوسری طرف نوزائیدہ مملکت، جو دیگر کئی مسائل سے نبردآزما ہورہی تھی، ریاست جونا گڑھ کے ساتھ غیر متزلزل طورپر کھڑی رہی اور پاکستان کے جائز قانونی حق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا- بانیان پاکستان نے جونا گڑھ پر کسی بھی لمحہ کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ دلائل اور قانونی اعتبار سے مضبوط اور جاندار موقف اپنایا- یہ بات ہمیں آج بھی باور کرواتی ہے کہ جونا گڑھ سے غافل ہونا بانیان پاکستان کے موقف سے روگردانی اور اصولوں کی بنیاد پر حاصل کیا گیا اپنے جائز قانونی حق سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا-زندہ قومیں اپنے حق کے حصول کیلیے ہمیشہ اپنی آواز بلند کرتی ہیں اور اس کے لئے ہمیشہ تگ و دو کرتی ہیں چاہیے مصیبتوں اور آزمائش کے بڑے بڑے پہاڑ کیوں نہ سامنے آجائیں- قومیں عزم و ہمت ، استقلال اور استقامت سے اپنے حق کے لئے ڈٹی رہتی ہیں اور اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں-

٭٭٭



[1]These words are mentioned by Dewan of Junagadh Shah Nawaz Bhutto in his letter to Jinnah. Zaidi, Z. H.Quaid-i-Azam Papers Project. (1993). Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah papers. Islamabad: Quaid-i-Azam Papers Project, National Archives of Pakistan. Vol 8: Page no 264.

[2]Indian independence act of 1947.

[3]Jinnah Papers: Vol, 8. Page no 257.

[4]Nawab of Junagadh telegram to M.A. Jinnah.11 August, 1947See, JP. Vol. 8.

[5]M.A. Jinnah telegram to Nawab of Junagadh. 12 August, See, 1947.JP. Vol.5.

[6]Nawab of Junagadh telegram to M.A. Jinnah.15 August, 1947.See, JP. Vol. 5.

[7]The Dastural ‘Amal, Sarkar Junagadh, 16 August 1947.

[8]Nawab of Junagadh Telegram to M.A.Jinnah 31 August, 1947. See, JP.Vol, 8.

[9]Bhasin, Avtar.Singh. India–Pakistan Relations

1947–2007 A Documentary Study. Published in Cooperation with Public Diplomacy Division Ministry of External Affairs of India. Vol, 6. Page No. 4663.

[10]Telegram No. 34-GG from the Ministry of External Affairs to the Pakistan Ministry of Foreign Affairs.New Delhi, September 21, 1947. Page 4655.

[11]Louis Mountbatten to M. A.Jinnah

Telegram, No. 34-GG 22 September 1947.JP. Vol.8 page no 279.

[12]ibid. M.A Jinnah replied to Louis Mountbatten. 25 September 1947. Page no. 287.

[13]Note by Louis Mountbatten. JP. Vol.8 page no. 319.

[14]See, JP. Vol 8. Page No

[15]Liaquat Ali Khan to Jawaharlal Nehru. 23 October, 1947.See, JP. Vol 8. Page No. 363.

[16]ibid.

[17]Telegram from Ministry Of External Affairs to Pakistan Ministry of Foreign Affairs.

November 10, 1947.No. primin-324. Page No. 4740.

[18]Liaquat Ali Khan to Jawaharlal Nehru. 10 November 1947. JP. Vol. 8. Page no 380.

[19]Liaquat Ali Khan to Jawaharlal Nehru 22 November 1947. JP. Vol. 8. Page no 388.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر